ہو سکتا ہے اس سے کچھ لوگوں کو شدید صدمہ ہو اور کچھ فخر سے کہیں کہ ہمیں تو معلوم تھا کہ یہ ایسے ہی ہیں۔ جب میں یہ کہوں کہ مجھے پرویز مشرف پسند ہے۔ لیکن اس ساری پسندیدگی کے باوجود مجھے اس دن بڑا آصدمہ پہنچا تھا جب انہوں نے نیو یارک میں بیٹھ کر کہا کہ خواتین ملک سے باہر جانے کے لئَے ریپ کرواتی ہیں۔ باتوں کو اس طرح عمومی طور سے لینے سےکچھ کو صدمہ ہوتا ہے۔ حالانکہ ان تمام خواتین میں سے میں نہیں ہوں لیکن لگتا ایسا ہے جیسے یہ بات میرے متعلق کہی گئی ہے۔کیونکہ یہ میری کمیونٹی کے ایک شخص کے متعلق کہی گئی تھی۔اگر بالفرض محال کسی نے واقعتاً اپنے مقصد کے حصول کے لئےایسا بھی کیا ۔ پھر بھی ذمہ داری کا تقاضہ یہ ہے کہ ان باتوں کو عمومی شکل دینے سے گریز کیا جائے۔خاص طور پہ وہ لوگ جنکے رتبے ہیں سوا۔
ایسا ہی اکثر ہم جیسے ناچیزوں کی تحریروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
ہمارے کچھ ساتھیوں کے خیال میں پاکستانی معاشرہ ایک ترسا ہوا معاشرہ ہے۔ شاید کچھ خواتین بھی ایسا سوچتی ہوں۔ لیکن یہ نکتہ ء نظر فی الحال میرے سامنے کچھ مرد حضرات کے توسط سے آیا۔ یہ بات اس ضمن میں بالخصوص کہی جاتی ہے جب پاکستانی مردوں کی اخلاقی گراوٹ کی بات ہوتی ہے۔میں اس چیز سے اختلاف رکھتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنے بنیادی رویئے میں ہندو معاشرہ سے زیادہ متاثر ہے۔ ہندءووں کے یہاں عورتوں کا وجود مردوں کی دل پشوری کے لئے پیدا کیا گیا ہے اسکا الگ سے کوَئ وجود نہیں ہے۔ قدرت نے اسے جن خوبیوں سے نوازا ہے وہ سب مرد کو خوش رکھنے کے لئیے ہیں۔ انکے عبادت کے مراکز میں داسیوں کا تصور، عورت کا پتی ورتا ہونا، عورت کا ستی ہوناحتی کہ شوہر کی لمبی حیات کے لئے یہ عورت ہی ہوتی ہے جو سارا دن ایک طرح کا روزہ رکھتی ہے۔ مرد کو اپنی بیوی کی لمبی حیات سے کوئ سروکار نہیں۔ بھگوان کے چاک پر ایسی ہزاروں چیزیں روزانہ بنتی ہیں۔ یہ سب خیالات اور رسومات معاشرے میں مردوں کی برتری قائم رکھنے کے لئے بنائیں گئ ہیں۔ سینکڑوں سال انکے ساتھ گذارنے کے بعد ہمارے اندر بھی کچھ اسی قسم کی روایات نے جنم لے لیا ہے۔ اور یہ کوئ ابھی کی بات نہیں ہے بلکہ ان سب چیزوں کو جنم لئے ہوئے بھی صدیاں گذر گئیں۔
یہاں پر بھی مرد کو ہر اچھائ اور برائ کا اختیار حاصل ہے وہ اگر کسی برائ کا شکار ہے تو یا تو اس میں کہیں نہ کہیں سے عورت کا قصور ہوتا ہے یا پھر یہ اسکی جبلت کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ یا پھر معاشرے کی گھٹن۔ جس سے کچھ نامعلوم وجوہات کی بناء پر خواتین کو امیونٹی حاصل ہے۔
میں اپنی ماسی سے پوچھتی ہوں تمہارے کتنے بچے ہیں جواب ملتا ہے چار بیٹے ہیں جی۔ مگر کچھ دنوں پہلے تو تم کہہ رہی تھیں کہ تمہاری بیٹیاں بھی ہیں دو۔ وہ جواب دیتی ہے۔ہیں جی پر بیٹیاں تو پرائ ہوتی ہیں۔ کیوں تم نے انہیں پیدا نہیں کیا تھا ۔ مجھے غصہ آگیا۔ میرے تیور دیکھ کر وہ تھوڑا پریشان ہو گئ۔ سوچ رہی ہوگی اس میں ناراض ہونے والی کون سی بات ہے۔ یہ باجیاں بھی بس غصہ ہونے کا بہانہ تلاش کرتی ہیں۔
نذیراں ، میری ماسی یہ پورا معاشرہ نہیں ہے۔ لیکن وہ اس معاشرے کی اکثریت کو ظاہر کرتی ہے۔ سماج کا نظام انہی سوچوں پہ چلتا ہے جو اکثریت روا رکھنا چاہتی ہے ۔ جدید زبان میں اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ میری دوست جس کی عمر تیرہ سال تھی اور وہ ہمارے گھر کے نزدیک کچی آبادی میں رہا کرتی تھی۔ اسے ہماری کالونی کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کے سترہ اٹھارہ سالہ لڑکے نے پریشان کرنا شروع کر دیا۔ لڑکی کی والدہ جب اس لڑکے کے والد کے پاس پہنچیں اور دبے لفظوں میں انہیں اس زیادتی کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے جواب دیا۔ لڑکا ہے ابھی اسکی عمر ہی کیا ہے۔ کر لیتے ہیں مرد ایسے بھی۔ تم اپنی بیٹی سے کہو ذرا خود احتیاط برتا کرے۔ کس کس کے گھر جا کر شکائیتیں لگاءوگی۔ اب یہاں اس لڑکے سے میری مراد ہمارے بلاگر ساتھیوں میں سے کوئ نہیں ہے۔ لیکن وہ لڑکا اسکے گھر والے، ہمارے معاشرے کی ایک عمومی سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ سن کر اگر میں یہ کہوں کہ مرے بھائ اور میرے شوہر یا مجھ سے منسلک مرد تو ایسا نہیں کرتے ، اور کسی نے اسے گھڑا ہے۔تو یہ اتنا ہی غلط ہوگا جتنا کہ یہ بات کہ اب اس معاشرے کا ہر مرد اورا سکے گھر والے اتنے ہی غیر ذمہ دار ہیں۔ ایسا نہیں ہے یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جن سے مل کر زندگی سے محبت ہو جاتی ہے اور میں دوسروں کو یہاں انعام لینے کا موقع کیوں دوں۔ دراصل میں وہ انسان ہوں جس سے مل کر آپ کو زندگی سے محبت ہو جائے۔ چاہے میری عداوت میں ہی کیوں نہ ہو۔
یہا ں لڑکے دھڑلے سے اپنی ساتھی یا رشتےدار خواتین کے ساتھ اپنے تصوراتی افئیرز کے بارے میں گفتگو اور مذاق کریں کوئ اس بات کا برا نہیں مانتا۔ لیکن اگر کوئ خاتون اپنے کسی تصوراتی عشق کے بارے میں اس طرح کوئ بات مذاقاً کہے تو سب کی پیشانی پر بل پڑ جاتاہے۔ مرد حضرات چاہے تنقید کے لئیے ہی سہی خواتین کے جسمانی تذکرے اتنی تفصیل سے کریں گے کہ تفصیلات میں ہی نفسانی مزہ آنے لگے تو کسی کو کچھ احساس نہیں ہوتا لیکن اگر میں یہ کہوں کہ مرد حضرات سڑکوں کے کنارے جب قدرتی ضروریات سے فارغ ہو رہے ہوتے ہیں تو کتنی بےحیائ لگتی ہے تو لوگ الٹا مجھے ہی بے حیا بنا دیں گے کیوں کہ میں خاتون ہوں۔ ایسی باتیں کرتی ہوں۔
ہمارے ہی ملک میں وہ گھرانے جہاں اس قسم کا رویہ نہیں رکھا جاتا وہاں مرد ایسی سوچ نہیں رکھتے۔ آخر یہ جو عورتوں کی ایک بڑی تعداد یہاں نکل رہی ، علم حاصل کر رہی ہے، اپنی صلاحیتیں استعمال کر رہی ہے تو انکے پیچھے ایسے ہی مردوں کی حوصلہ افزائ بھی شامل ہے۔ ورنہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین اپنے گھر کے مردوں کی پسند کے کپڑے پہنتی ہوں، انکی پسند کا کھانا کھاتی ہوں، انکے دئیے ہوئے پیسوں سے اپنا گھر چلاتی ہوں۔ وہاں اتنی بڑی تبدیلی کچھ مردوں کے ساتھ دینے پر ہی آسکتی ہے۔ ان گھرانوں کے مرد بھی خدا جانے کیوں ایسی گھٹن کا شکار نہیں ہوتے۔ اور اس گھٹن سے لیس وہ گھرانے ہی کیوں نظر آتے ہیں جہاں خواتین کی اخلاقیات پر بڑی نظر رکھی جاتی ہے۔
ہاں تو میں نے یہ کہا کہ ہم یعنی عورتیں اور مرد مل کر اپنے مردبچوں کی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ ان میں موجود خامیوں کو بھی انکی مردانہ خوبیاں بنا کر پیش کریں۔ چاہے ہمارے اس طرز عمل سے ہمیں سماجی بنیادوں پر کتنا ہی نْقصان اٹھانا پڑے۔لوگ اپنی بیٹیوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہیں گے بیٹیاں بڑی شریف ہوتی ہیں درپردہ یہ کہنا ہوتا ہے کہ بیٹیوں کو شریف ہو نا چاہئیے۔ پھر ایک زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ، تمتماتے ہوئے گالوں کے ساتھ ایک ایک بڑی گالی اور پھر اس قسم کا جملہ لڑکے تو ہوتے ہی بڑے خبیث ہیں۔ یعنی اب وہ جو کچھ بھی کریں انہیں اجازت ہے یہ تو دراصل ہوتے ہی ایسے ہیں۔ کیا کریں جناب انکو کون سیدھا کر سکتا ہے۔
مجھے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ میرا کوئ بیٹا نہ ہو لیکن اب میں سوچتی ہوں کہ ایک تو ہونا چاہئیے چاہے اڈاپٹ کر لوں تاکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بتایا جا سکے کہ کس طرح ہوتی ہے مرد بچوں کی تربیت۔ لیکن اسکا صحیح حل مرد بچوں کو اڈاپٹ کرکے انہیں بہترین انسان بنانا نہیں ہے۔ بلکہ خدا نے جنہیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے انہیں یہ کرنا ہوگا کہ اپنے بچوں کو انکی جنس سے الگ بنیادی انسانی خوبیوں سے بہرہ مند کریں۔ ہمیں ایک خااتون سے لڑائ جھگڑا یا گالی گلوچ نہیں کرنا چاہئیے اسکے بجائے بیان یہ ہونا چاہئیے کہ ہمیں کسی سے بھی گالی گلوچ نہیں کرنا چاہئیے اور زبان کو بہتر طور پہ استعمال کرنا چاہئیے۔ ہماری بچیوں کو حیا سے رہنا چاہئیے، اسکے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ حیا انسانی خواص میں سے بہترین خاصیت ہے اور ہمارے ایمان کا جز ہے اسے ہر انسان کو اختیار کرنا چاہئیے۔ مرد کو بے غیرت نہیں ہونا چاہئیے، اسکے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ ہر انسان کے اندر غیرت، عزت نفس اور خود داری ہونا چاہئیے۔ لڑکی کی عزت آبگینے سے زیادہ نازک ہوتی ہے اور اس طرح محض ایک لڑکی کو سراسمیہ حالت میں رکھنے کے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ جسمانی تعلقات میں ہر انسان کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ کیونکہ یہ نسل انسانی کو آگے چلانے کا ایک ذریعہ ہے۔اسے خواتین سے منسلک کر کے بھونڈے مذاق کرنےکے بجائےبچوں کو اس بات کی آگاہی دیں کہ ہر آنیوالا بچہ اپنے حقوق رکھتا ہے زندہ رہنے کے اور بہتر طور پہ زندگی گذارنے کے، اپنے تعلقات میں لا پرواہی کرکے اس بچے کی حق تلفی نہ کریں۔
ان سب باتوں سے بھی بڑی بات اپنے بچوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اپنے کسی بھی قسم کے مسئلہ کو اپنے والدین سے شیئر کرنے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔ انکے ساتھ شریک ہوں ایک نئے سرے سے زندگی دریافت کرنے کے لئے اس سے پہلے کہ وہ اپنے ماحول سے ایک ضروری معلومات غلط طریقے سے لیں۔ یہ آپ ہوں جو انہیں وہی بات ایسے طریقے سے سمجھائیں کہ ان میں کسی قسم کا ہیجان پیدا نہ ہو۔ اگر ہم اپنے طور پر چیزیں صحیح کرنا شروع کریں تو ایک نسل کے فاصلے کے بعد بہت سی چیزیں آج سے بہت مختلف اور بہتر ہو سکتی ہیں۔
اب آخیر میں یہ کہ یہ سب اپنے ایک بلاگر ساتھی کی وضاحت کے لئے لکھنا پڑا۔ وہ جان گئے ہونگے کیوں نام لیا جائے۔
ایسا ہی اکثر ہم جیسے ناچیزوں کی تحریروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
ہمارے کچھ ساتھیوں کے خیال میں پاکستانی معاشرہ ایک ترسا ہوا معاشرہ ہے۔ شاید کچھ خواتین بھی ایسا سوچتی ہوں۔ لیکن یہ نکتہ ء نظر فی الحال میرے سامنے کچھ مرد حضرات کے توسط سے آیا۔ یہ بات اس ضمن میں بالخصوص کہی جاتی ہے جب پاکستانی مردوں کی اخلاقی گراوٹ کی بات ہوتی ہے۔میں اس چیز سے اختلاف رکھتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنے بنیادی رویئے میں ہندو معاشرہ سے زیادہ متاثر ہے۔ ہندءووں کے یہاں عورتوں کا وجود مردوں کی دل پشوری کے لئے پیدا کیا گیا ہے اسکا الگ سے کوَئ وجود نہیں ہے۔ قدرت نے اسے جن خوبیوں سے نوازا ہے وہ سب مرد کو خوش رکھنے کے لئیے ہیں۔ انکے عبادت کے مراکز میں داسیوں کا تصور، عورت کا پتی ورتا ہونا، عورت کا ستی ہوناحتی کہ شوہر کی لمبی حیات کے لئے یہ عورت ہی ہوتی ہے جو سارا دن ایک طرح کا روزہ رکھتی ہے۔ مرد کو اپنی بیوی کی لمبی حیات سے کوئ سروکار نہیں۔ بھگوان کے چاک پر ایسی ہزاروں چیزیں روزانہ بنتی ہیں۔ یہ سب خیالات اور رسومات معاشرے میں مردوں کی برتری قائم رکھنے کے لئے بنائیں گئ ہیں۔ سینکڑوں سال انکے ساتھ گذارنے کے بعد ہمارے اندر بھی کچھ اسی قسم کی روایات نے جنم لے لیا ہے۔ اور یہ کوئ ابھی کی بات نہیں ہے بلکہ ان سب چیزوں کو جنم لئے ہوئے بھی صدیاں گذر گئیں۔
یہاں پر بھی مرد کو ہر اچھائ اور برائ کا اختیار حاصل ہے وہ اگر کسی برائ کا شکار ہے تو یا تو اس میں کہیں نہ کہیں سے عورت کا قصور ہوتا ہے یا پھر یہ اسکی جبلت کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ یا پھر معاشرے کی گھٹن۔ جس سے کچھ نامعلوم وجوہات کی بناء پر خواتین کو امیونٹی حاصل ہے۔
میں اپنی ماسی سے پوچھتی ہوں تمہارے کتنے بچے ہیں جواب ملتا ہے چار بیٹے ہیں جی۔ مگر کچھ دنوں پہلے تو تم کہہ رہی تھیں کہ تمہاری بیٹیاں بھی ہیں دو۔ وہ جواب دیتی ہے۔ہیں جی پر بیٹیاں تو پرائ ہوتی ہیں۔ کیوں تم نے انہیں پیدا نہیں کیا تھا ۔ مجھے غصہ آگیا۔ میرے تیور دیکھ کر وہ تھوڑا پریشان ہو گئ۔ سوچ رہی ہوگی اس میں ناراض ہونے والی کون سی بات ہے۔ یہ باجیاں بھی بس غصہ ہونے کا بہانہ تلاش کرتی ہیں۔
نذیراں ، میری ماسی یہ پورا معاشرہ نہیں ہے۔ لیکن وہ اس معاشرے کی اکثریت کو ظاہر کرتی ہے۔ سماج کا نظام انہی سوچوں پہ چلتا ہے جو اکثریت روا رکھنا چاہتی ہے ۔ جدید زبان میں اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ میری دوست جس کی عمر تیرہ سال تھی اور وہ ہمارے گھر کے نزدیک کچی آبادی میں رہا کرتی تھی۔ اسے ہماری کالونی کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کے سترہ اٹھارہ سالہ لڑکے نے پریشان کرنا شروع کر دیا۔ لڑکی کی والدہ جب اس لڑکے کے والد کے پاس پہنچیں اور دبے لفظوں میں انہیں اس زیادتی کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے جواب دیا۔ لڑکا ہے ابھی اسکی عمر ہی کیا ہے۔ کر لیتے ہیں مرد ایسے بھی۔ تم اپنی بیٹی سے کہو ذرا خود احتیاط برتا کرے۔ کس کس کے گھر جا کر شکائیتیں لگاءوگی۔ اب یہاں اس لڑکے سے میری مراد ہمارے بلاگر ساتھیوں میں سے کوئ نہیں ہے۔ لیکن وہ لڑکا اسکے گھر والے، ہمارے معاشرے کی ایک عمومی سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ سن کر اگر میں یہ کہوں کہ مرے بھائ اور میرے شوہر یا مجھ سے منسلک مرد تو ایسا نہیں کرتے ، اور کسی نے اسے گھڑا ہے۔تو یہ اتنا ہی غلط ہوگا جتنا کہ یہ بات کہ اب اس معاشرے کا ہر مرد اورا سکے گھر والے اتنے ہی غیر ذمہ دار ہیں۔ ایسا نہیں ہے یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جن سے مل کر زندگی سے محبت ہو جاتی ہے اور میں دوسروں کو یہاں انعام لینے کا موقع کیوں دوں۔ دراصل میں وہ انسان ہوں جس سے مل کر آپ کو زندگی سے محبت ہو جائے۔ چاہے میری عداوت میں ہی کیوں نہ ہو۔
یہا ں لڑکے دھڑلے سے اپنی ساتھی یا رشتےدار خواتین کے ساتھ اپنے تصوراتی افئیرز کے بارے میں گفتگو اور مذاق کریں کوئ اس بات کا برا نہیں مانتا۔ لیکن اگر کوئ خاتون اپنے کسی تصوراتی عشق کے بارے میں اس طرح کوئ بات مذاقاً کہے تو سب کی پیشانی پر بل پڑ جاتاہے۔ مرد حضرات چاہے تنقید کے لئیے ہی سہی خواتین کے جسمانی تذکرے اتنی تفصیل سے کریں گے کہ تفصیلات میں ہی نفسانی مزہ آنے لگے تو کسی کو کچھ احساس نہیں ہوتا لیکن اگر میں یہ کہوں کہ مرد حضرات سڑکوں کے کنارے جب قدرتی ضروریات سے فارغ ہو رہے ہوتے ہیں تو کتنی بےحیائ لگتی ہے تو لوگ الٹا مجھے ہی بے حیا بنا دیں گے کیوں کہ میں خاتون ہوں۔ ایسی باتیں کرتی ہوں۔
ہمارے ہی ملک میں وہ گھرانے جہاں اس قسم کا رویہ نہیں رکھا جاتا وہاں مرد ایسی سوچ نہیں رکھتے۔ آخر یہ جو عورتوں کی ایک بڑی تعداد یہاں نکل رہی ، علم حاصل کر رہی ہے، اپنی صلاحیتیں استعمال کر رہی ہے تو انکے پیچھے ایسے ہی مردوں کی حوصلہ افزائ بھی شامل ہے۔ ورنہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین اپنے گھر کے مردوں کی پسند کے کپڑے پہنتی ہوں، انکی پسند کا کھانا کھاتی ہوں، انکے دئیے ہوئے پیسوں سے اپنا گھر چلاتی ہوں۔ وہاں اتنی بڑی تبدیلی کچھ مردوں کے ساتھ دینے پر ہی آسکتی ہے۔ ان گھرانوں کے مرد بھی خدا جانے کیوں ایسی گھٹن کا شکار نہیں ہوتے۔ اور اس گھٹن سے لیس وہ گھرانے ہی کیوں نظر آتے ہیں جہاں خواتین کی اخلاقیات پر بڑی نظر رکھی جاتی ہے۔
ہاں تو میں نے یہ کہا کہ ہم یعنی عورتیں اور مرد مل کر اپنے مردبچوں کی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ ان میں موجود خامیوں کو بھی انکی مردانہ خوبیاں بنا کر پیش کریں۔ چاہے ہمارے اس طرز عمل سے ہمیں سماجی بنیادوں پر کتنا ہی نْقصان اٹھانا پڑے۔لوگ اپنی بیٹیوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہیں گے بیٹیاں بڑی شریف ہوتی ہیں درپردہ یہ کہنا ہوتا ہے کہ بیٹیوں کو شریف ہو نا چاہئیے۔ پھر ایک زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ، تمتماتے ہوئے گالوں کے ساتھ ایک ایک بڑی گالی اور پھر اس قسم کا جملہ لڑکے تو ہوتے ہی بڑے خبیث ہیں۔ یعنی اب وہ جو کچھ بھی کریں انہیں اجازت ہے یہ تو دراصل ہوتے ہی ایسے ہیں۔ کیا کریں جناب انکو کون سیدھا کر سکتا ہے۔
مجھے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ میرا کوئ بیٹا نہ ہو لیکن اب میں سوچتی ہوں کہ ایک تو ہونا چاہئیے چاہے اڈاپٹ کر لوں تاکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بتایا جا سکے کہ کس طرح ہوتی ہے مرد بچوں کی تربیت۔ لیکن اسکا صحیح حل مرد بچوں کو اڈاپٹ کرکے انہیں بہترین انسان بنانا نہیں ہے۔ بلکہ خدا نے جنہیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے انہیں یہ کرنا ہوگا کہ اپنے بچوں کو انکی جنس سے الگ بنیادی انسانی خوبیوں سے بہرہ مند کریں۔ ہمیں ایک خااتون سے لڑائ جھگڑا یا گالی گلوچ نہیں کرنا چاہئیے اسکے بجائے بیان یہ ہونا چاہئیے کہ ہمیں کسی سے بھی گالی گلوچ نہیں کرنا چاہئیے اور زبان کو بہتر طور پہ استعمال کرنا چاہئیے۔ ہماری بچیوں کو حیا سے رہنا چاہئیے، اسکے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ حیا انسانی خواص میں سے بہترین خاصیت ہے اور ہمارے ایمان کا جز ہے اسے ہر انسان کو اختیار کرنا چاہئیے۔ مرد کو بے غیرت نہیں ہونا چاہئیے، اسکے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ ہر انسان کے اندر غیرت، عزت نفس اور خود داری ہونا چاہئیے۔ لڑکی کی عزت آبگینے سے زیادہ نازک ہوتی ہے اور اس طرح محض ایک لڑکی کو سراسمیہ حالت میں رکھنے کے بجائے یہ ہونا چاہئیے کہ جسمانی تعلقات میں ہر انسان کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ کیونکہ یہ نسل انسانی کو آگے چلانے کا ایک ذریعہ ہے۔اسے خواتین سے منسلک کر کے بھونڈے مذاق کرنےکے بجائےبچوں کو اس بات کی آگاہی دیں کہ ہر آنیوالا بچہ اپنے حقوق رکھتا ہے زندہ رہنے کے اور بہتر طور پہ زندگی گذارنے کے، اپنے تعلقات میں لا پرواہی کرکے اس بچے کی حق تلفی نہ کریں۔
ان سب باتوں سے بھی بڑی بات اپنے بچوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اپنے کسی بھی قسم کے مسئلہ کو اپنے والدین سے شیئر کرنے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔ انکے ساتھ شریک ہوں ایک نئے سرے سے زندگی دریافت کرنے کے لئے اس سے پہلے کہ وہ اپنے ماحول سے ایک ضروری معلومات غلط طریقے سے لیں۔ یہ آپ ہوں جو انہیں وہی بات ایسے طریقے سے سمجھائیں کہ ان میں کسی قسم کا ہیجان پیدا نہ ہو۔ اگر ہم اپنے طور پر چیزیں صحیح کرنا شروع کریں تو ایک نسل کے فاصلے کے بعد بہت سی چیزیں آج سے بہت مختلف اور بہتر ہو سکتی ہیں۔
اب آخیر میں یہ کہ یہ سب اپنے ایک بلاگر ساتھی کی وضاحت کے لئے لکھنا پڑا۔ وہ جان گئے ہونگے کیوں نام لیا جائے۔
صبحان اللہ اب آپکو بیسٹ بلاگ رائیٹر آف دی ائیر کا ایوارڈ مل جانا چاہئے ۔۔ شعبہ ________ میں ۔
ReplyDeleteہمارے معاشرے کو ہندوسناتی کلچر و رسم سے تشبیح دیتے ہوے ۔۔ ترسا ہوا لکھتے ہوے آپ کو شرم نا آئی پر پڑھتے ہوے مجھے شرم ضرور آئی ۔۔ پر پھر وہئ بات کے سب کا اپنا اپنا فیل ہوتا ہے ۔
آپ کی زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
ReplyDeleteوہ تیرگی جو مرے نامہء سیاہ میں ہے
کافی عورت نواز تحریر ہے، اچھا تو ماں باپ بیٹیوں کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کے کہیں کہ وہ اچھی ہیں تو اسکا مطلب بھی آپ غلط لیتی ہیں، ماں باپ جو بات آپ کے لیے کہیں اسکا ایک مطلب، جو بات بیٹے کے لیے کہیں اسکا دوسرا مطلب، واہ واہ
ReplyDeleteآپ تو دلوں کا حال بھی جانتی ہیں
کافی اور باتیں بھی ہیں جن پر بحث کی جا سکتی ہے مگر ایک بات کہوں گا
عورت مرد کے لیے ہی ہوتی ہے، اسے مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا صرف اس بات کے لیے کہ وہ مرد کی راحت بنے
حضرت آدم علیہ السلام کو جب زمیں پر بیجا جانے لگا تھا، وہ واقعہ ضرور پڑھیں قصص الانبیا سے
معاشرے کے اچھے پہلووں پر بھی ضرور لکھیے گا کبھی
محترم ریحان، مجھے نہیں معلوم کہ آپکا ذاتی مسئلہ اس بارے میں کیا ہے۔ یا پھر شاید آپ مطالعہ صحیح سے نہیں کر پاتے ہیں۔ پھر سے پڑھیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہی کہ یہ معاشرہ ترسا ہوا ہے یہ کوئ اور کہہ رہا ہے۔میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں۔ اس سے زیادہ آسان اردو مجھے نہین آتی۔ اور چونکہ آپ ساہیوال سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے مزید وضاحت کے لئے بتا دوں کہ میں پنجابی صرف سمجھ سکتی ہوں اور اس میں اپنا مدعا سمجھانے سے قاصر ہوں۔
ReplyDeleteجب ہم اپنے آپ کو بہترین قوم اور امت سمجھتے ہیں تو یہی مسائل ہوتے ہیں جو آپکے ساتھ ہیں۔ یعنی خود شرمندہ ہونے کے بجائے دوسروں کو شرمندگی دلاتے ہیں۔ شاید آپکے علم میں ہو کہ ہماری یعنی جنوبی ایژیائ مسلمانوں کی بیستر شادی کی رسومات ہندءووں سے مستعار کی گئ ہیں۔ اسلامی شادی نکاح کو کہتے ہیں اور اس میں مہندی، ،ایوں ابٹن، اور رخصتی جیسی رسومات شامل نہیں ہیں۔ حتی کہ منگنی جیسی رسم کی اسلام میں کوئ حیثیت نہیں۔ اسے ہندءووں کے یہاں سگائ کہا جاتا ہے۔ ہمارے شب برات کے پٹاخے اور پھلجھڑیاں ہندءووں کی دیوالی سے متاثر ہو کر جلائ جاتی ہیں انکا شب برات سے کوئ تعلق نہیں ہے۔ جہیز جیسی لعنت آپ نے ہندءووں سے لی ہے۔ رسول اللہ نےجتنی شادیاں کیں ، صحابہ ءاکرام کے قصون میں کہیں ہمیں اس چیز کا تذکرہ نہیں ملتا۔ سوائے حضرت فامہ کو دئیے جانےوالے مختصر تحائف کے بارے میں۔ ہم جسے اپنی ثقافت کہتے ہیں اس میں ہزار چیزیں وہاں سے آء ہیں ۔ جنہیں آپ شاید جانور سمجھتے ہیں ۔ شاید آپکے علم میں ہو کہ اسلام یہاں عربوں یا سینٹرل ایشیا کے مسلمانوں کے ذریعے آیا ہے۔ ہم طرز معاشرت میں ان سے کہاں تک ملتے ہیں یہ آپ ان کے ساتھ کچھ وقت گذار کر دیکھ لیں۔ہم تو ان سے اتنے متاثر ہیں کہ جب انہوں نے اپنی عورتوں کو چولہے سے مارنا شروع کیا تو ہم نے بھی کردیا۔ جب انہوں نے اپنی بیٹیوں کو دنیا میں آنے سے پہلے الٹرا ساءونڈ کرواکے ختم کرنا شروع کیا تو ہم مین سے کچھ لوگوں نے اسے بھی اختیار کرلیا۔ ہمارے یہاں یہ وبا اتنے کھلے عام اس لئے نہیں پھیلی کہ اب بھی لوگ مسلمان ہونے کی وجہ سے مکافات عمل سے ڈرتے ہیں۔ اسکے باوجود ایدھی والوں کی تین چارسالہ پرانی رپورٹ کے مطابق بیس ہزار کوڑے کے ڈھیر اور نالوں کے کنارون پہ پھینکے جانےوالےنوزائیدہ بچوں میں سے سولہ ہزار لڑکیاں اور چار ہزار لڑکے تھے۔۔ لوگ اپنے کنوءوں میں سے نکلنا نہیں چاہتے۔ ان ساری چیزوںپر آپ کو شرم آئ یا ابھی بھی مجھے شرم کرنی چاہئیے۔ہم دنیا کی بہترین قوم ہین۔ اور مسلمان اللہ کی افضل ترین امت۔ اس لئے ہم بہت اعلی ہیں۔ معاف کیجئیے گا یہی خیالات یہودیوں کے بھی۔ اب آپ غم منائیے کہ اتنے بڑے امتی کو یہودیوں سے ملادیا گیا ہے۔
ہندءووں کے ساتھ، عیسائیوں کے ساتھ بدھسٹ کے ساتھ اور دیگر اقوام کے ساتھ رہنے سے مسلمانوں میں جو تبدیلیاں آئ ہیں ان پر مجھ سے پہلے بڑے بڑے عالم جو کچھ لکھ چکے ہیں انہیں جاکر اس لکھے ہوئے پہ شرمندہ کریں۔ بعد میں میری باری لائیے گا اگر آپ انکو اس لکھے ہوئے پر جھٹلا سکیں۔
مجھے افسوس ہے کہ میرا کسی بھی ایوارڈکو جیتنے سے کوئ دلچسپی نہِں۔ میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ یہاں انبیاء کو بھی آرے سے چیر کر ختم کیا گیا ہے۔ ہر وہ شخص لعن طعن کا نشانہ بنتا ہے جو کنوئیں سے آسمان نہیں دیکھتا۔ آپ سب اس قسم کے ایوارڈ اپنی شخصیتوں کو جھوٹ بہلاوا دینے کے لئیے جب تک دل چاہے استعمال کریں۔ براہ مہربانی میں آپ سے اس سلسلے میں مزید کسی گفگتو میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
یاسر عمران صاحب آپ سے یہ ضرور کہونگی کہ ادھر اسھر کے حوالے دینے کے بجائے قرآن پاک میں سے جا کر ان واقعات کی تفصیل اسی کی زبان میں نکالئیے گا۔ قرآن پاک میں اس بات کا کوئ حوالہ نہیں ملتا کہ حوا نے آدم کو بہکایا۔ جو جملہ موجود ہے اس میں دونوں کو نافرمان قرار دیا گیا ہے۔ اور بھی بہت ساری باتیں ہیں جو تفسیر کرنے والے مختلف ذرائع سے ڈال دیتے ہیں اسلئے بہتر یہ ہے کہ پہلے قرآن کو اسکے اصل ترجمے کے ساتھ پڑھا جائے۔
جی خاتون ہونے کے ناطے مجھے، کھانا پکانے کی ترکیبیں، کپڑے سلائ اور اس سے ملتے جلتے کامون کے بارے میں لکھنا چاہئیے۔ لیکن افسوس مجھے کترینہ، اسٹار پلس کے ڈراموں، اور خواتین ڈائجسٹ سے کوئ خاص شغف نہیں۔ معاشرے کے اچھے پہلووں کے بارے میں آپ سب اتنی تفصیل سے لکھ رہے ہیں کہ میں اپنی ناکام کوششوں کو اس میں شامل نہیں کرنا چاہتی۔ یہاں یہ اچھائیاں اتنی ہی مل سکتی ہیں جتنی نظر آتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ آپ دنیا میں عقبی حاصل کر چکے ہیں اور میں اس سے محروم ہوں۔
بہت تلخ اور کٹیلا انداز ہے آپ کا۔ آپ کی کسی بھی بات سے اختلاف نہیں واقعی ایسا ہی ہوتا ہے۔
ReplyDeleteپس موضوع: لکھنے کے بعد تحریر کو ایک بار پروف ریڈ کرلیا جائے تو املاء کی بہت سی غلطیوں سے بچا سکتا ہے۔ اردو اپنی زبان ہے اور اس کو محفوظ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
وسلام
بہت تلخ اور کٹیلا انداز ہے آپ کا۔ آپ کی کسی بھی بات سے اختلاف نہیں واقعی ایسا ہی ہوتا ہے۔
ReplyDeleteپس موضوع: لکھنے کے بعد تحریر کو ایک بار پروف ریڈ کرلیا جائے تو املاء کی بہت سی غلطیوں سے بچا سکتا ہے۔ اردو اپنی زبان ہے اور اس کو محفوظ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
وسلام
شکریہ گمنام دوست، میری پوسٹ میں تو آپکو ایسی غلطیان کم ملیں گی۔ لیکن تبصروں میں اس لئے زیادہ نظر آتی ہیں کہ عام طور پر جب میں یہ ٹئپ کر رہی ہوتی ہوں تو میری ڈھائ سالہ بے چین بیٹی میری گود میں ہوتی ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ٹائپنگ کے دوران نیٹ کنیکشن ختم ہو جاتا ہے اور مجھے چیزیں دوبارہ تحریر کرنی پڑتی ہیں۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ میرے جیسے ایک عام سے شخص کو اسی جذبے سے اسی چیز کو دوبارہ لکھنا کتنا کھلتا ہے۔ اور بیشتر اوقا مین اس پر ایک سرسری نظر ڈالے بغیر پوسٹ کر دیتی ہوں۔ یہ میری کاہلی ہے ۔ بس کوشش کر سکتی ہوں کہ پھر سے پڑھ لیا کروں۔
ReplyDeleteیہ تو شاکر عزیز دوست ہیں نا :) اردو محفل والے۔ یونیکس کا کلیدی تختہ۔۔۔
Delete@Rehan , dude in which world are you living ? Are you really that blind to not to observe that our so called culture is a not-so-good copy of Indian culture? Seriously fgo for an eye sight checkup.
ReplyDeleteAs for Mr. Yasir Imran, dude , are you telling me that your mother came into the world only to entertain your father? Doesn't she had any other thing in life to do like spending her efforts and her youth on raising some idiots? Or helping the people around her or the society?
And then seriously go and study some books and checkout the reality of that rib comment :S I have my deepest sympathies for your wife, if you think that she is here to please you.
ترسا ہوا اس کو نہیں کہتے جیسے آپ نے "اینٹی مرد" قسم کی تحریر لکھ دی
ReplyDeleteاب کیا مجھے یہ بھی لکھنا پڑے گا کہ ہمارا معاشرہ ترسا ہوا ہی نہیں
بلکہ امیچور اور خودترسی کا شکار بھی ہے؟
یا پھر ایسے لکھوں کہ
ہمارے معاشرے کے مرد ترسے ہوئے ہیں
اور خواتیں خود ترسی کا شکار ہیں؟
جیسے آپ مناسب سمجھیں
یاسر عمران صاحب نے تبصرہ کیا ہے جس میں لکھتے ہیں کہ
ReplyDelete"عورت مرد کے لیے ہی ہوتی ہے، اسے مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا صرف اس بات کے لیے کہ وہ مرد کی راحت بنے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو جب زمین پر بھیجا جانے لگا تھا، وہ واقعہ ضرور پڑھیں قصس الانبیاء سے"
یاس صاحب کیا خدا کے آخری کلام میں آپ کو کوئی ایسا اشارہ ملتا ہے کہ جہاں عورت کی زندگی کا مقصد مرد کو راحت پہنچانا بتایا گیا ہو؟ عورت کی زندگی کا مقصد تو اتنا بلند ہے کہ بعض معاملات میں وہ مرد پر فوقیت رکھتی ہے۔ کیا آپ کی والدہ کا محض یہی مقصد تھا کہ وہ آپ کے والد کو انٹرٹین کریں؟ عورت کے بغیر نسل انسانی کی نمود ممکن نہیں۔ خدا نے عورت کو بہت فضیلت دی ہے جس کا ذکر قرآن و حدیث میں بے شمار ہے، قرآن میں ملکہ صبا کا ذکر بڑے اکرام کے ساتھ کیا گیا ہے۔ خدا نے دنیا کا کاروبار چلانے کے لیے مرد و عورت کو الگ الگ میدان فراہم کیے ہیں اور اسی حوالے سے ان کو ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ چونکہ بعض بھاری اور معاشی ذمہ داریاں مردوں کے حصے میں آئی ہیں اس لیے مردوں کی اکثریت کو یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ وہ عورت سے بلند مقام رکھتے ہیں۔ حالانکہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی وحی کے موقع پر سخت مضطرب اور بے چین تھے تو انہوں نے حضرت خدیجہ رض سے رہنمائی چاہی اور انہی کی صلاح پر عمل کیا۔
عورت اور مرد دونوں کو ہی سوچنے سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحتیں یکساں دی گئی ہیں۔ عقل و جذبات بھی دونوں کو عطا کیے گئے ہیں تو جس خدا کو آپ عادل مانتے ہیں کیا اس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ایک ہی مخلوق کی دو جنسوں میں وہ محض اس لیے امتیاز کرے گا کہ ایک عورت تھی اور دوسرا مرد؟
-------------------------
عنیقہ صاحبہ! عورت اور مرد کے حوالے سے جس غیر منصفانہ رویے کی نشاندہی آپ نے کی ہے میں اس کا شاہد ہوں۔ مردوں کی بڑی بڑی غلطیاں بھی ان کی مردانگی کے زعم میں نظر انداز کردی جاتی ہیں جبکہ اس سے کم تر درجے کی غلطی بھی اگر عورت سے سرزد ہوجائے تو اس کی زندگی اجیرن بنادی جاتی ہے۔ البتہ اس کی اصلاح یوں نہیں ہوسکتی کہ عورتیں بھی مردوں کی اس غلط روش پر چلنے کی خواہش کریں۔ یہ تجربہ مغرب میں ہوچکا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جنسی آوارگی عام، پر خلوص رشتے مفقود، تنہائی میں اضافہ اور بے سکونی نے دلوں میں گھر کرلیا ہے۔ میرے خیال میں مرد و عورت ایک دوسرے کے حقوق کھلے دل سے تسلیم کریں تو عورتوں کو صحیح مقام مل سکتا ہے اور مردوں کی بے جا خوش فہمیوں کو لگام بھی مل سکتی ہے۔ اسلام نے اعتدال کی ہی تعلیم دی ہے جسے ہم بھول چکے ہیں۔ ظاہر ہے چودہ سو برس پرانی تعلیمات کا موجودہ چمکتے دمکتے دور سے کیا واسطہ۔
بینش خان صاحبہ کا تبصرہ میں نے بعد میں پڑھا۔ ورنہ وہی بات دوبارہ نہ دہراتا۔ معذرت
ReplyDeleteڈفر صاحب، اس پوسٹ کا عنوان پڑھیں۔ میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ معاشرہ ترسا ہوا نہیں بلکہ خود ترسیت کا شکار ہے۔ جس معاشرے میں پھینکے جانیوالے بچوں کے درمیان اتنا جنسی امتیاز ہو اسے آپ کیا ایک منصف معاشرہ کہیں گے۔ یہ ابھی ایک مہینہ پرانی بات ہے کہ تمام اہم اخبارنے یہ خبر دی کہ ایک عورت ہسپتال میں اپنی نوزائیدہ بچی کو ایک عورت کے پاس چھوڑ کر اسکا نوزائیدہ بیٹا اٹھا کر لے گئ۔ تفصیلات پر پتہ چلا کہ شوہر نے کہا تھاکہ بیٹی ہو تو گھر مت آنا۔ یہ خبر آپ ڈان اور جنگ سمیت تمام اخبارات میں دیکھ سکتے ہیں۔ میں اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے بارے میں کیا سوچتی ہوں اسکی بتانے کی تو مجھے چنداں ضرورت نہیں۔ لیکن جب اپنے اردگرد کی دنیا میں اتنی انسانیت سوز چیزیں ہوتی دیکھتی ہوں تو زیادہ دیر اترا نہیں پاتی۔ اور میرا حال جنگل میں ناچنے والے اس مور کی طرح ہوجاتا ہے جس کی نظر جب رقص کے عالم خود فراموشی میں اپنے بد نما پیروں پر پڑتی ہے تو وہ رقص کرنا بھول جاتا ہے۔
ReplyDeleteبینش اور بلال شکریہ اپنے خیالات میں شامل کرنے کا۔ یاسر آپ کا بھی شکریہ۔
بہترین ،سپرب ،مارولس،آپ کی تحریروں کی تعریف کے لیئے الفاظ تھوڑے پڑ جاتے ہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ،
ReplyDeleteہمارے ہی ملک میں وہ گھرانے جہاں اس قسم کا رویہ نہیں رکھا جاتا وہاں مرد ایسی سوچ نہیں رکھتے۔ آخر یہ جو عورتوں کی ایک بڑی تعداد یہاں نکل رہی ، علم حاصل کر رہی ہے، اپنی صلاحیتیں استعمال کر رہی ہے تو انکے پیچھے ایسے ہی مردوں کی حوصلہ افزائ بھی شامل ہے۔ ورنہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین اپنے گھر کے مردوں کی پسند کے کپڑے پہنتی ہوں، انکی پسند کا کھانا کھاتی ہوں، انکے دئیے ہوئے پیسوں سے اپنا گھر چلاتی ہوں۔ وہاں اتنی بڑی تبدیلی کچھ مردوں کے ساتھ دینے پر ہی آسکتی ہے۔ ان گھرانوں کے مرد بھی خدا جانے کیوں ایسی گھٹن کا شکار نہیں ہوتے۔ اور اس گھٹن سے لیس وہ گھرانے ہی کیوں نظر آتے ہیں جہاں خواتین کی اخلاقیات پر بڑی نظر رکھی جاتی ہے۔
یہ ہے وہ اصل بات جس پر دھیان زرا مشکل سے ہی جاتا ہے ہم مردوں کا،عورتوں پر قدغنیں لگانے اور انگلیاں اٹھانے سے فرصت ملے تو اس طرف بھی دھیان دیں، :roll:
یہودیوں سے مستعار لیئے قصوں کو قصص الانبیاء میں شامل کر کے پتہ نہیں دین کی کون سی خدمت کی گئی ہے ،یاسر صاحب پڑھنا ہی ہے تو ابن کثیر کی قصص الانبیاء پڑھیے امید ہے کہ آپکو خاصا افاقہ ہو گا :)
میں ریحان اور یاسر عمران کے قبیل میں ڈفر کو شامل کرنا نہیں چاہتا لیکن جیسا کہ میں پہلے کہیں اس خدشہ کا اظہار کر چکا ہوں کہ ان کی پسند کی ہوئی عرفیت کبھی کبھی اپنا اثر دکھانے لگتی ہے انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے :lol:
باقی بینش کے ایک جملہ پر قہقہ
Doesn't she had any other thing in life to do like spending her efforts and her youth on raising some idiots?
Aneeqa,
ReplyDeleteI have no idea how you manage to show such patience when replying to the likes of Rehan and Yasir!
Your blog is amazing! Keep it up :-)
یاسر اور ریحان کی مٹی تو خوب پلید ہوئی ہے لیکن شائد جعفر کی بات ہی کسی کی سمجھ میں نہیں آئی
ReplyDelete(-:
فیصل جعفر کی بات سمجھ میں آگئی تھی مگر کیونکہ خلاف توقع کافی تہزیب سے کہی گئی تھی اس لیئے بری نہیں لگی :smile:
ReplyDeleteباقی دونون کی بات سے زیادہ کہنے کا انداز خاصا بھونڈا تھا جس پر انکی کھنچائی ہوئی :smile:
فیصل، بات یہ ہے کہ یہ تو عام طور پر ہوتا ہی ہے۔جیسے ہی خواتین سے کی گئ زیادتیوں کا تذکرہ چھڑتا ہے۔ ہر ایک کو اپنی بیگم یا ہونے والی بیگم کی زیادتیاں یاد آجاتی ہیں۔ اب کیا کہوں، ارے او مخولیوں صرف تم اس جہاں میں موجود نہیں۔ کچھ اور حیاتیں بھی ہیں۔دنیا صرف آپ جیسے با شعور، تہذیب یافتہ، انفرادی و اجتماعی شعور رکھنے والے، حسن اخلاق سے مزین،حدود سے متعین، اسلامی بھائ چارے پہ یقین رکھنے والے، ایمان مفصل و مجمل کو یاد رکھنے والے، لوگوں کے درمیان انصاف قائم رکھنے والے اور اسی طرح کی بیش بہا خوبیوں کو جو مجھے اسوقت یاد نہیں آرہیں، اپنی ذات واحد میں سمو لینے والے پر امید، پر جوش،مثبت طرز فکر کے حامل اور خدا جانے کیا کیا سے نہیں بھری ہوئ۔ بلکہ یہاں کچھ ناہنجار، نابکار، خود غرض، نحوست کے مارے، انسانیت کے اوپر بدنما داغ لوگ ہیں جو آدم کو جنت سے نکالے جانے کے دوران، دوزخ کی اتھاہ گہرائیون سے نکل کر چپکے سے انکے جبے میں چھپ کر دنیا تک پہنچ گئے۔ اب اس دنیا کی رنگینوں، خوبصورتیون، ہماہمی،کے رنگ میں بھنگ انہوں نے ڈالا ہوا ہے۔
ReplyDeleteخدا یہ لائنیں جعفر اینڈ کمپنی کو بھی پڑھنے کی توفیق دے۔آپ نے اچھا کیا مجھے یاد دلا دیا۔ اب دیکھیں لکھتے لکھتے جذبہ ہے کہ بڑھا جا رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے جعفر میرے پڑوس میں نہیں رہتے۔
میرا خیال ہے کہ پرویز مشرف سے پوچھے گئے سوال اور اس انٹرویو کے سیاق و سباق کے بغیر اس کی بات کو کوٹ کرنا غلط ہے۔ تاہم اگر انہوں نے جنرلائزڈ کر کے سب خواتین پر یہ بات لاگو کی تھی تو ان کی بات غلط ہے
ReplyDelete