بات شروع ہوئ تھی گھنگھور گھٹاءوں سے بیچ میں برئ پراٹھے اور آم آئَے۔ ابھی بھی عذاب نہیں آئے۔ ہم اپنی قسمت پہ اترائے۔ سوچا کہ خدا ہم ناہنجاروں سے کچھ زیادہ ناراض نہیں۔ رحمت بھی ہے اور نعمت بھی۔ اپنے آپ کو بنی اسرائیل سے افضل جانا۔
پھر نیرہ نور نے بڑا ساتھ دیا اور ہم کافی دیر انکی آواز میں بولتے امیرخسرو کو سنا کئے،
جھولا کنے ڈالا رے ہمریاں
دو سکھی جھولیں، دو ہی جھلائیں
دو سکھی جھولیں ، دوہی جھلائیں
چاروں مل گئیاں، بھول بھلیاں
جھولا کنے ڈالا رے ہمریاں
پھر برآمدے میں بیٹھے مشتاق یوسفی کے مضمون کراچی کی بارش کے جملوں کو یاد کرتے رہے۔ پھر اسکےبعد------------------چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
غرور کا سر نیچا، اندھیرا جب حد سے آگے بڑھا تو تسلی دی کہ یہ تو لوڈشڈنگ ہے ابھی کچھ دیر میں باری آنے پر ہماری قسمت کا ستارہ چمکے گا۔ اور یہ رو سیاہی جس میں اپنی قسمت اور دوسروں کی تدبیر کا بھی دخل ہے، دور ہوگی لیکن ہمارے گھر میں موجود بجلی بابا نے کہا رات بغیر بجلی کے گذارنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ کیونکہ جنریٹر کام نہیں کر رہا ہے۔ آپ کے منہ میں خاک۔ ابھی تو ساون کے کے اتنے گیت باقی ہیں۔ لیکن مرفی کا قانون ہمارے اوپر مسکرا رہا تھا۔ساری رات میں جہاں آئنسٹائن کے نظریہ ء اضافت کے پر پیچ گوشے کھلے وہاں یہ اندازہ ہوا کہ بجلی کے نہ ہونے سے کتنا وقت نکل آتا ہے۔
کہاں وقت ہے کہ دوڑا جاتا ہےاور ہماری اور اسکی رفتار میں دوستانہ تعلقات پیداہونے سے قبل ہی لمحہ ء فراق آجاتا ہے اور کہاں رات ایک پہاڑ کی طرح سامنے کھڑی ہے۔ایک ایک جھینگر، اور مینڈک کے ٹرانے کا فرق پتہ چل گیا۔ سات جھینگر اور دو مینڈکوں کے سروں کے درمیان اڑوس پڑوس کی آوازیں کہ یہ کس گھر سے آرہی ہیں۔ درمیان میں اپنے گھر کی آوازیں نفی کرتی جاتی ہوں۔ مگر رات اسی طرح پل پل گذر رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں اتنی مہارت حاصل ہو جاتی ہے کہ باہر برسنے والی بارش کا اندازہ کر سکوں کہ اتنی دیر میں کتنے ملی میٹر برس چکی ہے اور ابھی کتنی باقی ہے۔ اتنا علم حاصل ہو جانے کے بعد بھی محکمہ ء بجلی کی تسلی نہ ہوئ۔ وہ ہمیں علم کے ثریا کے بام عروج پہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں گالیاں دینے کے بجائے ہم اسی طرح صبر و تحمل سے علم کے حصول میں لگے رہیں تو کچھ دنوں میں مسلمان دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لیں گے۔
اب اندازہ ہوا کہ یہ کم بخت ویلیئم گلبرٹ نے ۱۵۵۰ میں بجلی دریافت کر کے مسلمانوں کے خلاف سازش کی بنیاد رکھی۔ اگر وہ یہ نہ دریافت کرتا تو آج ہم کتنے آگے ہوتے۔ ان ناہنجار سوچوں کا بھی کوئ فائدہ نہیں۔ ایڈیسن کے ایجاد کئے ہوئے بلب اسی طرح بجھے ہوئے ہیں۔ ڈرائیو وے میں بلی کے بچے کو کھانا چاہئیے یہ پتہ نہیں کہاں سے تین دن پہلے آگیا ہے۔ اسکی میاءوں پر غور کرتی ہوں۔ مگر پہلو سے آواز آتی ہے اماں پنکھا کیوں نہیں چل رہا۔ میں اس آواز کو ویلئم گلبرٹ کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں، لیکن رک جاتی ہوں۔ جھینگر، مینڈک، بلی، پڑوسی، بارش کی چھم چھم ۔، اور دور تک چھائے اندھیرے میں ایک نا معقول شخص کا نام کیوں لیا جائے جس نے ہمیں ترقی کی راہ سے بھٹکا دیا اور فحاشی، بے غیرتی اور بے حیائ کے رستے پہ روانہ کردیا۔ میں اسے تسلی دیتی ہوں۔ پنکھا سو رہا ہے تھک گیا ہے۔
صبح ہو گئ، دوپہر، سہ پہر اور اب رات ہونے کو ہے۔ سوچتی ہون یہ اتنی بیکلی کیوں ہے، وہ مجھے بھول گیا ہو جیسے۔کیا ایک اور رات فطرت کے قریب رہنے کا موقع ملے گا۔ وہی جھینگر، مینڈک اور بلی، پڑوسی---------
ادھر ادھر فون کرتی ہوں۔ کچھ لوگوں کی لائٹ آگئ ہے۔ سسٹم آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے۔ نئ توقع باندھتی ہوں۔۔
اماں پنکھا اٹھ گیا، لائٹ آگئ۔ ایک باریک آواز نے اطلاع دی۔ ویسے بھی مجھے اندازہ ہوگیا تھا۔ وہ ساری آوازیں گم جو ہو گئ تھیں۔ جھینگر ، مینڈک، بلی، پڑوسی اور ہاں بارش کی چھم چھم بھی۔ کیا مصیبت ہوتی ہے یہ بارش بھی۔ میں پھر نیرہ نور کو سنتی ہوں۔
ہاں یاد مجھے تم کرلینا، آواز مجھے تم دے لینا
اس راہ محبت میں کوئ در پیش جو مشکل آجائے
اے جذبہ ء دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آجائے
نوٹ؛ چونکہ یہ واقعہ کراچی میں پیش آیا ہے اس لئے اس شہر کا نام لیا گیا ہے۔ دوسرے شہروں کے رہنے والے کسی بھی قسم کے احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔ میں نے کسی بھی قسم کا تعصب برتنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
ریفرنس؛
ویلیئم گلبرٹ
واہ جہ واہ بڑی ادبی تحریر لکھی ہے
ReplyDeleteپورے پاکستان کا یہی حال ہے
پنڈوں میں جا کر دیکھیں تو اس سے بھی برا حال
لیکن آخری پیراگراف سے یہ تو پھر بھی ظاہر ہو گیا
کہ آپ غصہ بہت کرتی ہیں
اور بات دل میں رکھتی ہیں
:D :D :D :D :D :D
کیا کروں فیض کی طرح خوش قسمت نہیں کہ کہوں،
ReplyDeleteآکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا ہے
اس دل میں تو یہی کچھ ہے، غصہ، اور غصہ، مزید غصہ۔ لیکن لکھ لکھ کر لگتا ہے کہیں اس دولت سے بھی محروم نہ ہوجاءوں۔
آپ کی تحریر کا تو مداح ہوں ہی لیکن
ReplyDeleteخوگر حمد سے تھوڑا سے گلہ بھی سن لے
آپ کے تحاریر سے جو تاثر میں نے لیا ہے، شاید غلط ہو، لیکن بیان کرتاہوں
آپ کا تعلق اپر مڈل کلاس یا اس سے بھی تھوڑا اوپر والی کلاس سے لگتا ہے
جو ہمارے ملک کے سب سے خوش نصیب لوگ ہیں
تو اتنے گلے شکوے نہ کیا کریں
اللہ کا شکر کیا کریں اور باقی سولہ کروڑ پچاس لاکھ لوگوں کے لئے دعا۔۔۔
یہ تو مجھے یقین ہے کہ آپ میرے لکھے کا برا نہیں مانتیں۔۔۔
:lol:
واقعی کیا موسلادھار بارش تھی اور ہم لوگ جو اپنی ایک عزیزہ کی مزاج پرسی کے لیئے نکلے تھے آپ اپنی مزاج پرسی کروا بیٹھے،گاڑی بند،اور ابر رحمت آج اتنا برس اتنا برس کے وہ جانہ سکیں کی تفسیر بنا ہوا،اللہ بھلا کرے کراچی کے ہمدرد لوگوں کا ڈاکوؤں نے جینا حرام کیا ہوا ہے پھر بھی جی دار کراچی والے مصیبت زدہ کی مدد سے باز نہیں آتے شریف لوگوں نے گھر میں بلایا کھانے کی آفر کی منع کرنے پر چائے پلائی فون بھی کروایا کیونکہ موبائل کے سگنل مل نہیں رہے تھے،آخر ایک کزن اپنی بائک پر آئےکیونکہ گھٹنوں سے اوپر پانی میں اکثر گاڑیاں بند ہورہی تھیں والدہ کو بٹھا کر بائک دھکیلتے ایک اور کزن جنکا گھر قریب تھا کے گھر پہنچے ، حیرت یہ تھی کے وہ 17 ارب کے پائپ جنکا دعوہ تھا سٹی ناظم کو آخر کام کیوں نہیں کررہے،لیکن صبح جب پانی سے صاف سڑکیں دیکھیں تو اپنے سٹی ناظم پر اتنا پیار آیا کہ نہ پوچھیں دل سے اس کی صحت اور درازیئ عمر کی دعائیں نکلیں،خیر رات کزن کے گھر بغیر بجلی کے گزار کر صبح گھر پہنچے تو سہپہر تک بجلی بیگم بھی اپنا نخرا پورا کرکے واپس آچکی تھیں،
ReplyDeleteکچھ بھی ہو مگر کراچی کراچی ہے :)
اے میرے مداح، تو میرا حاجی بگویم میں تیرا ملا بگو۔ یہ کیا کلاس کا ذکر چھیڑ دیا آپ نے۔ وہ تیر تونے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔ اگر بالفرض محال آپکی پیشن گوئیاں صحیح ثابت ہوجائیں۔ انہیں اندازہ کہنے میں مجھے قباحت ہے۔ تو کیا دوسروں کی جگہ خود کو رکھ کر نہیں سوچ سکتی۔ اگر نہیں کر سکتی تو تین حرف مجھ پر۔ جی ہاں ضرور پچھلے آٹھ سال میں تین دفعہ بیوٹی پارلر جانے والی خاتون، کپڑے، جوتے اور دیگر اشیائے استعمال میں برانڈ ڈ چیزوں کے بجائے مقامی چیزیں استعمال کرنے والی، سبزی والے سے جھک جھک کرنے والی ایسی اپر کلاس خواتین آپ نے دیکھی ہوں میں نے نہیں دیکھیں۔ لیکن ایک بات سوچتی ہوں اپنا نام بدل کر شکریہ خانم رکھ لوں یا پھر اپنے بلاگ کا نام جو کچھ تکنیکی اصلاحات سے نا واقفیت کے باعث انجانے میں شوخی ء تحریر پڑ گیا ہے اسے تبدیل کر کے شکر تیرا رب العالمین رکھ لوں۔ ایک تو پڑھنے والے قارئین کا اضافہ ہو جائے گا اور ثواب الگ۔ آپ کی وجہ سے اتنے نادر خیالات آتے ہیں کہ آپ کا شکریہ بار بار کرنا پڑتا ہے۔ سوچتی ہوں کہیں لوگ یہ نہ سمجھنے لگیں کہ آپ کا نام جعفر شکریہ ہے۔
ReplyDeleteعبداللہ صاحب، بڑے دنوں بعد آپ لکھائ دئیے۔ شکر ہے آپ مزید کسی پریشانی سے بچ گئے۔ صحیح بات ہے یہ عیاشیاں کہاں نصیب ہونگیں۔ شکر ہے تیرا رب العالمین۔
ماشاء اللہ۔ خوب لکھا ہے۔
ReplyDeleteتحریر بہت اعلیٰ ہے مزا آ گیا۔
ReplyDeleteویسے آپ مرفی کے قانون کے مقابلے میں اپنا نیا قانون بنا لیں کہ بری سے بری صورتحال میں بھی کچھ نہ کچھ اچھا ہوتا ہے اور اس کا نام "عنیقہ کا قانون" رکھ دیں۔
کیسا؟
یہ قانون تو مرفی سے بھی زیادہ پرانا ہے اور اسے مسلمانوں کا قانون کہتے ہیں۔ بلکہ مسلمان ہونے کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہی ہے۔ ایسا؟
ReplyDeleteھاھاھا۔۔۔۔ بہت خوب عنیقہ صاحبہ! ویسے اس کے کئی پہلو نکل رہے ہیں، جملہ کافی وضاحت طلب ہے لیکن ہم حسن ظن رکھتے ہوئے اسے ظاہری معنوں ہی میں لیتے ہیں۔ خوب کہی۔
ReplyDelete