ابھی کچھ دنوں پہلے مجھے ٹیلیفون پر ایک ادبی اجلاس میں اپنی کہانی پڑھنے کے لئےبلایا گیا۔ میں نے اپنے قریبی حلقہء احباب میں اس خبر کو پھیلانے کی کوشش کی۔ کس نے بلایا ہے؟ ترقی پسندوں نے۔ اچھا ابھی تک موجود ہیں۔ کسی نے حیرانی کا اظہار کیا۔ ایک اور مبصر کہنے لگے۔' جائیں اپنا شوق پورا کرلیں۔ مگر زیادہ جذباتی ہو کر مت جائیے گا۔ وہاں سب ریٹائرڈ لوگوں کا مجمع ہو گا۔ اب اس عمر میں انکے پاس اور کچھ کرنے کو نہیں تو یہ ان کی ایک سرگرمی ہے'۔' تو اچھی بات ہے ناں کہ انسان اپنے آپ کو ہر عمر میں مصروف رکھے۔ سنا نہیں خالی ذہن شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔' 'اور بھراذہن شیطان کا شو روم ہوتا ہے'۔ اب ایسے لوگوں سے کوئ کیا کہے۔ مجھے اس سے کیا۔ ویسے بھی کسی کی دعوت ٹھکرانا سخت غیر اسلامی فعل ہے۔ اور لوگ تو چاہتے نہیں کہ ہمیں بھی عزت اور احترام ملے اور ہم بھی لائق توقیر ٹھریں اس لئے ایسی باتوں کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں تاکہ ہم نہ جائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو تو موبائل فونز والوں نے مصروف رکھا ہوا ہے تو اب ایسی سرگرمیوں میں کون آئے گا۔ لازماً وہی ریٹائرڈ لوگ۔ وہ اپنی روایات کے ساتھ ہیں۔ بزم ادب میں رونق انہی کے دم سے ہے۔
لیجئیے مزید لوگوں کو کچھ بتانے سے کان پکڑے ۔ اور اگلے لمحے کان چھوڑ کر اپنی شائع شدہ
کہانیوں میں سے چھاننے لگی کہ کیا پڑھنا چاہئیے ۔ دعوتی پیغام میں تو یہ کہا گیا تھاکہ بالکل نئ تخلیق ہونی چاہئیے ۔ لیکن میں نے معذرت کر لی۔ ایک ہفتے کے نوٹس پہ یا تو اخبار میں آرٹیکل لکھا جا سکتا ہے ۔ یا کسی اور کے محبوب کے نام خط۔ ۔ ایک معیاری کہانی اگر لکھ بھی لی جائے تو اسے پال میں لگے رہنےکے لئے وقت چاہئیے ہوتا ہے ۔ اور یہ کچھ دنوں کا کام نہیں ہوتا۔ کم از کم میرے لئے ۔
حسب پیشنگوئ وہاں تقریباً بیس افراد ایسے تھے جن کی عمریں ساٹھ سال سے زیادہ تھیں۔چار پانچ احباب درمیانی عمروں کے اور دو تین لوگ ان میں سے کہے جاسکتے ہیں جن کے لئے اقبال نے کہا کہ
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے انکو اپنی منزل آسمانوں میں
محفل کے پہلے نثری حصے میں ہم اپنے حصے کا کام کر کے فارغ ہوئے۔ اب راقم کے لئے جو کچھ کہا گیا اسکے نتیجے میں تو مجھے اس پوسٹ کا بقیہ حصہ نہیں لکھنا چاہئیے۔ تعریف اور توصیف کا گوند اتنا ہی موئثر ہوتا ہے۔ لیکن پھر یہ مقام آتا ہے کہ کہنا پڑتا ہے کہ
کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سیں
کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی
اب اس شعر میں پنجابی زبان کی جو غلطیاں ہوں انہیں درست کر کے براہ شکریہ مجھے بھی بتا دیجئیے گا۔ محفل کا دوسرا اور متنازعہ حصہ شروع ہوا۔ اس حصے میں ایک شاعرہ کو تنقید کے لئے اپنی غزل پیش کرنی تھی۔ غزل کی ایک کاپی سب کو عنایت کی گئ۔
میں کوئ شاعر نہیں، اور نہ ان کیفیات میں مبتلا ہوں جس میں احباب کہتے ہیں۔ جب سے دیکھا میں نے تجھ کو شاعری آگئ۔ لیکن شاعری بقول شخصے روح کا نغمہ ہے تو جس بات کی فریکوئنسی روح کے ساتھ تال میل کھا جائے وہی شاعری لگنے لگتی ہے۔
ہمارے ایک کرمفرما کے مطابق کراچی میں اتنے شاعر ہیں کہ ایک پتھر اٹھاءو تو ہزار نکلتے ہیں۔ میرا خیال ہے جو پتھر جہاں پڑا ہے اسے وہیں پڑا رہنے دیجئیے کوئ خود ہی زور لگا کر نکل آئے تو ٹھیک ہےورنہ ان میں سے جو فوسلز میں تبدیل ہو جائیں انہیں بعد میں شاعر تسلیم کر لیا جائے ۔کم از کم اس غزل پر ایک نظر ڈالنے کے بعد یہ خیال راسخ ہو گیا۔
دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی۔ جب اس شعر پر تنقید کی گئ،
میری نظریں بھی نئے رنگ طلب کرتی ہیں
گھر کا سائیں، سر وسامان بدل کر دیکھیں
ہمارے پہلے تنقید نگار نے سوال آمیز تنقید میں پوچھا کہ شعر کا مفہوم تو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ اپنا گھر والا بھی گھر کے سروسامان کے ساتھ تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ شاعرہ موصوفہ میرے پڑوس میں تھیں اور میں انکی آواز بخوبی سن سکتی تھی۔ وہ بالکل جھینپ گئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے کومہ تو ڈالا ہے یہ مخاطب کرنے کے لئے ہے۔ سچ پوچھیں تو میں بھی اس کا وہی مطلب سمجھی تھی جو ان تنقید نگار نے کیا۔ ان شاعرہ کی وضاحت باقی لوگوں کے کانوں تک اس صفائ سے نہ پہنچ سکی اور ترقی پسندوں کی اس محفل میں اس بات پہ داد دی گئ کہ اردو شاعری میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک عورت نے بھی مرد کی طرح اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کی تبدیلی چاہتی ہے۔ یاد رہے وہ اس کی تردید کر چکی تھیں لیکن اس خیال کو اس شعر کی خوبی سمجھا گیا۔ اسی طرح ایک اور شعر میں ایک مصرعہ کچھ اس طرح تھا کہ من کے اندر کا ہی بھگوان بدل کر دیکھیں۔ ایک اور سینیئر تنقید نگار نے اس بات پہ داد دی کہ شاعرہ نے بڑی جراءت دکھائ کہ ہندی کے الفاظ اپنی شاعری میں استعمال کئے۔ حالانکہ انکے علم میں خدا جانے کیوں ان لاتعداد شاعروں کے نام نہ تھے جنہوں نے اپنی شاعری میں پوربی اردو استعمال کی ہے جس میں بےشمار ہندی کے الفاظ ہوتے ہیں۔ اس وقت فوری طور پر جس قریبی شاعر کا نام میرے ذہن میں آرہا ہے وہ پرتو روہیلہ اور مجید امجد ہیں۔ محض روایت سے ہٹنے کا نام ترقی پسندی نہیں ہو سکتا۔ اگر کوے کی تین ٹانگیں ہو جائیں کسی بھی جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں تو اسے ترقی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایک عیب ہے۔
سب سے مایوس کن صورتحال اس وقت لگی جب ہمارے ایک نوجوان شاعر نے حاضرین محفل کو غزل میں موجود فنی خرابیوں سے آگاہ کیا اور شاعری کی باریکیوں سے آگاہ کرتے ہوئے اسے ایک نچلے درجے کی غزل قرار دیا۔ یوں لگا کہ سب حاضرین کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ انکی اس ماہرانہ تنقید کے بعد باقی سینئر حضرات نے اس کا اثر مٹانے کی بھر پور کوشش کی اور آخر میں اسے ایک ترقی پسند اچھی غزل قرار دیا گیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ چونکہ مجھے ان شاعرہ کی ہم جلیسی میسر تھی۔ تو محفل کے اختتام پہ میں نے سنا کہ وہ اور انکے ساتھی اس بات پہ ناراض ہوئے کہ چھوٹے بڑے کی کوئ تمیز نہیں انہوں نے اس طرح کی تنقید آخر کیوں کی۔
میں گھر واپس آگئ۔ اگر ہم تنقید کے لئے کوئ چیز سب کے سامنے پیش کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہئیے کہ اس پر ہمارے سینیئر رائے دیں گے یا ہمارے جونیئر۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ جو شخص اس چیز کی مہارت رکھتا ہے وہ کیا کہہ رہا ہے۔۔اس بات کو بھی مسئلہ نہیں بنانا چاہئیے کہ وہ رائے مثبت ہو گی یا منفی۔ اور جو شخص کوئ منفی رائے دے گا وہ ہماری بے عزتی کریگا یا یہ روایت کے خلاف ہوگا اور ہر ایک کو سب اچھا ہے کی گردان الاپنی چاہئیے۔ تخلیق کی دنیا میں سب برابر ہیں فرق صرف اس بات کا ہے کہ کوئ اپنی خدا داد صلاحیت کو کسطرح استعمال کرتا ہے۔ غالب تو مومن کو اس شعر کے بدلے اپنا دیوان دینے کو تیار تھے کہ۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئ دوسرا نہیں ہوتا
اگرچہ اس محفل کے آغاز میں یہ کہا گیا کہ اس قسم کی سرگرمیوں کا مقصد نوجوانوں میں تخلیقی جذبہ پیدا کرنا اور ساتھ میں ان کی اصلاح اور سیکھنے سکھانے کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ لیکن جس طرح سیکھنا صبر اور استقامت کا کام ہوتا ہے سکھانا اس سے زیادہ صبر اور استقامت اور غیر جانبدار رہنے کا مرحلہ ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن نے ایک دفعہ کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر اداروں کی تباہی کا ایک بنیادی سبب سینیاریٹی سنڈروم ہے۔ میری بات سنی جائے، میری رائے کو صائب سمجھا جائے، صرف میرے بتائے ہوئے مشوروں پہ عمل کیا جائے کیونکہ میں سینیئر ہوں۔ یہ سوچ ہمارے بہت سارے اداروں کی نہ صرف تباہی کا باعث بنی بلکہ ہمارے ملک کے نوجوان ذہین دماغوں کے ملک چھوڑنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔حالانکہ میں سمجھتی ہوں کہ اس نوجوان تنقید نگار نے تنقید کا حق ادا کر دیا تھا۔ اور بجائے اس کی تنقیدی صلاحیت کو سراہنے کے اس غزل میں ایسی ایسی خوبیاں کھوج کھوج کر بیان کی گئیں جو صاحب تحریر کے علم میں بھی نہ تھیں۔
ہمارے عمومی روئیے کچھ اسی طرح کے ہیں۔ آخر ہم کسطرح کسی بھی میدان میں بلندی حاصل کر سکتے ہیں جب ہم اپنی خامیاں سننا برداشت نہیں کرتے۔ اور کوئ بھی چیز اپنے اعلی معیار پہ کیسے پہنچ سکتی ہے جب ہم اسکی جانچ کے لئے سخت معیار متعین نہیں کریں گے اور محض دوستی اور جان پہچان نبھانے کے لئے حقدار کو اسکے حق سے محروم رکھیں گے۔ گروپ بندی کر کے ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے ضمیر کو سپورٹ دے لیں کیونکہ اس طرح آپ وہی سنتے ہیں جو سننا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے آپ کے کسی ہنر کی تعمیر نہیں ہو پا تی۔
ریفرنس؛
پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن