Showing posts with label مسلمان تہوار، جانور. Show all posts
Showing posts with label مسلمان تہوار، جانور. Show all posts

Wednesday, November 17, 2010

عید قرباں کراچی میں

ہر طرف گائے بکریوں کا شور ہے۔ رات کے آٹھ بجتے ہی لڑکے اپنے اپنے جانوروں کی رسیاں تھامے روڈ پہ نکل آتے ہیں اور پھر انکی ریس شروع ہوتی ہے۔ گھنگھرءووں کی چھم چھم، جانوروں کی میں میں ، باں باں اور بھیں بھِیں اور لڑکوں کی فرط جوش میں نکلتی چیخیں اور نعرے دیکھ کر اسپین کی بل فائیٹنگ کے میدان یاد آجاتے ہیں۔  مگر واپس آجائیے، یہ اسپین نہیں پاکستان کا شہر کراچی ہے۔ اور خیال اغلب ہے کہ یہ ساری مشق یہ معلوم کرنے کے لئے ہوتی ہے کہ یہ جانور پل صراط پہ صحیح کارکردگی کا مظاہرہ کر پائے گا یا نہیں۔ میں اس سب  کو برا  کہنے کی جراءت نہیں کرسکتی مگر میرے جیسے کمزور دل ڈرائیورز پہ یہ وقت پل صراط پہ چلنے سے کم نہیں ہوتا۔
میں نے کہا بقر عید تو دراصل مردوں کا تہوار ہے۔ بکرا منڈی جانا ، پھر اسکا ایک تفصیلی معائنہ کرنا،  جانوروں کی تفصیلات حاصل کرنا، کیا عمر ہے کہ ہمارے یہاں قربانی کا جانور اور محبوب دونوں بالی عمر کے ہی پسند کئیے جاتے ہیں، کوئ شرعی عیب تو نہیں چاہے خود شریعت پہ عیب ہوں مگر قربانی کے جانور میں کوئ عیب میں ہونا چاہئیے ورنہ دنیا تُھو تُھو کرے گی، منہ کھلوا کر دانت گننا یہ خاصہ خطرے کا کام ہوتا ہے کہ جانور آپکی انگلیاں نہ گننے لگ جائے۔ اس لئے قربانی ان جانوروں کی ہوتی ہے جو کبھی مکتب نہ گئے ہوں۔ شاید افضل بھی انہی کی ہو۔ پھر چلا کر دیکھنا کہ الہڑ مٹیار کی طرح چلتا ہے کہ نہیں۔ لیکن اس چال میں چلن کا بانکپن ہونا چاہئیے۔ ورنہ کہیں ضعف چلن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوجائیں، خاص طور پہ گئیوں کا ضعف چلن ہمارے یہاں غیرت کا مسئلہ بن سکتا ہے جس میں قانون بھیگی بلی بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔   پھر قیمت کا تعین اور اس پہ بحث۔ اسکے بعد اپنی حد سے باہر جاتا دیکھکر اسے چھوڑنا، اپنی حد میں آتا دیکھ کر سوچنا کہ مبادا اس سے اچھا کوئ اور جانور مل جائے اور دوسرے کی حد میں جاتا دیکھ کر تائسف میں پڑنا کہ سال بھر اس نے ہم سے بہتر مال بنایا۔ اس طرح پوری بکرا منڈی کا ایک سیر حاصل تجزیہ جسکے بعد آپ محض میں میں اور بھیں بھیں  سن کر بتا سکتے ہیں کہ یہ کسی سرائیکی دوکاندار کا جانور ہے یا سندھ کے میدانوں سے آیا ہے۔ آیا خالص پاکستانی جینز رکھتا ہے یا کسی فرنگی ملک کے شاندار جینز میں بھی حصے دار ہے۔ یہاں بہت سارے سوالات کھڑے ہوتے ہیں مگر انہیں بٹھا دیتے ہیں کہ  عید پہ  قربانی بے زبان ، معصوم، 'سیدھی' سادی گئیوں اور بکریوں کی جائز  ہے ہماری نہیں۔
ایک دفعہ آپ جانور کے مالک ہو جائیں تو اسے اپنے محلے یعنی گھر تک پہنچانا بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے۔ جانورلے جانے والی گاڑیوں کے مالکان سے حساب طے ہونے کے بعد جب اس کھلی گاڑی میں دوستوں کے ہجوم اور جانور کے ساتھ پیچھے جالی میں ٹنگ کر سہراب گوٹھ سے روانہ ہوتے ہیں اور  شہر کے درمیان سے گذرتے ہیں تو ایک خمار چڑھتا ہے جسے گائے کے پیشاب کی دھاراور گوبر کی بدبو بھی نہیں اتار سکتی۔
پھر گھر پہنچ کر ایک خلقت ، میرا پیا گھر آیا کے نعرے لگاتی، آپکے جانور کے دیدار کوبھاگی چلی آتی ہے۔ جانور کو گاڑی سے اتارتے وقت انتہائ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ معلوم کیوں، اس بات کا احساس جانور کو بھی ہوتا ہے کہ یہ بھاگ نکلنے کے سنہری مواقع میں سے ایک ہے۔  جانوروں میں پلاننگ کرنے کے خامرے نہیں ہوتے اس لئے بہت محدود تعداد ہی ایسا کر پاتی ہے اور جب بھی کرتی ہے بغیر پلاننگ کے ہوتا ہے۔ اس لئے جہاں چاہے منہ اٹھائے دوڑ پڑتی ہے۔ ایسے موقع پہ آُپکے پاس بھی اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ یہ سوچیں کہ میں اگر گائے یا بکرا  ہوتا تو دوڑ کر کہاں جاتا۔ نتیجتاً ایسے کسی واقعہ کے پیش آنے کی صورت میں آپ اسی طرف ہو لیتے ہیں جہاں جانور جاتا ہے۔ باقی زمانہ بھی چلو تم ادھر کو گائے ہو جدھر کو کی تصویر بن جاتا ہے۔ ایسا وقت پھر مجھ جیسے ڈرائیور کے لئے روز قیامت بن جاتا ہے۔ کیونکہ میری بھی اس سلسلے میں کوئ پلاننگ نہیں ہوتی۔ اگر کوئ جانور میرے سامنے بھاگا چلا آرہا ہوتو میں بالکل صم بکم ہو جاءونگی۔ یہاں تک آپکو پتہ چل گیا ہوگا کہ پلاننگ کسے کہتے ہیں اور یہ بقاء اور قضا کے لئے کتنی ضروری ہے۔
اب فرض کیا کہ جانور کے سیدھے میرا مطلب سدھائے ہوئے ذہن میں ایسی کوئ بات نہیں آتی تو یہ مرحلہ بخیر و خوبی طے پا جاتا ہے۔ اور آپ اسے اسکی مرضی کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے یا اندرکسی کھونٹے سے باندھ دیتے ہیں۔  اب کچھ لوگ جنہیں سیدھے سادے، شریف جانور پسند ہیں تو وہ نہایت حیا سے آنکھیں پٹپٹاتی گائے کی اس ادا پہ دل ہی دل میں نثار ہوتے رہتے ہیں۔
اگر جانور بھاگ جائے اور ستارےآپکے حق میں ہوں تو آپ اسے اپنی اور محلے والوں کی تگ و دو کے بعد دوبارہ پکڑ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسانی معالات کے بر عکس ایسی بھاگی ہوئ گائے پہ فخر و غرور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔  پھڑکنیاں کھاتا ہوا  دل اپنے جانور کی اس ادا پہ قتل ہوتا رہتا ہے کہ کیا جاندار چیز ہے، ظالم لگتا ہے کمان سے نکلا تیر ہے۔
 اسکے بعد کیا ہوتا ہے اسے پڑھنے کے لئے پہلے پیرا پہ واپس جائیں۔
جانور کا کھانے پینے انتظام کرنا بھی  دیہاتوں سے وابستہ ہمارے رومانی تصورات کو نکھار دیتا ہے۔  ہمارے شہر میں اکثر گھر کنالوں اور مرلوں پہ نہیں بنے ہوئے اس لئے شہر کی گلیاں اس زمانے میں آدھی رہ جاتی ہیں کہ آدھی گلی میں ان جانوروں کی باپردہ رہائیش کے لئے کیمپس بنا دئیے جاتے ہیں۔ جہاں محلے کے مخنچو، چھٹنکو، دادا، ہیرو اور بدمعاش سب حسب ذوق و شوق حاضری دیتے ہیں۔  اور ادائے جانوراں سے شغل فرماتے ہیں۔
لیکن اسکے ساتھ ایک نہایت دلچسپ مرحلہ اپنے جانوروں کی سجاوٹ ہے۔ پورے شہر میں جا بجا جانوروں کی آرائیشی اشیاء کی دوکانیں ان دنوں سج جاتی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ  اپنے جانوروں کو سجانے سنوارنے میں ہمارے مرد کتنی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بعض اوقات گھر کے پرانے جانوروں کو ان قربانی کے جانوروں سے جیلسی محسوس ہوتی ہے۔ شہری خواتین اس چیز کو زیادہ دل سے نہیں لگاتیں۔ انکا خیال ہوتا ہے کہ اس بہانے ان پہ رہنے والی کڑی نظر بٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میٹھی عید پہ جس قدر پردے اور خواتین سے متعلق دیگر امور کا تذکرہ رہتا ہے بقر عید پہ یہ رجحان تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے فلمی اداکارائیں بھی اس مہینے اپنا کوئ اسکینڈل بنوانے میں دلچسپی نہیں لیتیں۔
  ان دوکانوں پہ گلوں کے ہار، سینگوں میں ٹانگنے کی اشیاء، پیٹھ پہ بچھانے کی مختلف طرح کی چادر نما چیزیں، گلوں کی گھنٹیاں اور پیروں کے گھنگھرو شامل ہوتے ہیں۔ کچھ شوقین اس سب سے پہلے مہندی کی رسم بھی کرتے ہیں۔  گھنگھرو پہن کر جب جانور ٹھمک ٹھمک کر روڈ پہ چلتا ہے تو اس سے لا محالہ دل سے صدا نکلتی ہے کہ پائیل میں گیت ہیں چھم چھم کے تو لاکھ چلے رہ گوری تھم تھم کے اسکے علاوہ ڈرائیورز کو بھی یہ خبر ہو ہی جاتی ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔  چونکہ خواتین کے لئے بجنے والا زیور پہن کر چلنا درست نہیں تو یہ آرزو بھی یہ گئیاں اور بکرے بکریاں پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ اس بات کے ہم اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ کوئ خاتون کوئ چھنا چھن کرنے والا زیور پہن بھی لیں تو ہماری آنکھیں کسی گائے کا تصور کرتی رہتی ہیں۔
بقر عید پہ عشّاق کیا کرتے ہیں؟ میٹھی عید کی طرح گلی کے نکڑ یا چھت سے تاکا جھانکی یا فیس بک پہ ایک تحریری عید مبارک کے بجائے اس عید پہ موقع ہوتا ہے کہ آپ گائے کا حصہ لیکر انکے گھر پہنچ جائیں۔ بکرے کی ران یا گائے کا دس کلو کا پورا ایک بغیر ہڈی کا ٹکڑا انکے گھر والوں کو آپکے قدموں پہ ڈھیر کر دےگا۔ یہ کوئ مغرب نہیں کہ ڈائریکٹ محبوب پہ ہلہ مارا جائے۔  یہ مشرق ہے مشرق۔  ایک دفعہ گھر والوں کا دل مٹھی میں آجائے تو سمجھیں کہ اب محبوب چاہے بھی توآپ کے کھونٹے سے جان چھڑانی مشکل ہے۔ اسکے گھر والے اسے آپکے یہاں باندھ کر رہیں گے۔  البتہ اپنے گھر والوں کو اس ران یا گوشت کے ٹکڑے کی منزل آپ کہاں بتائیں گے یہ آپکی ذہانت اور محبت کی گہرائ پہ منحصر ہے۔
 عید میں سے اس تمام تر تفریح نکل جانے کے بعد خواتین کے لئے اس عید میں جو بچ جاتا ہے۔ وہ کچن میں نظر بند ہونا ہے۔ اس کے لئے وہ یا تو سال بھر کی جمع کی ہوئ ترکیبیں آزماتی ہیں یا پھر انکی اس بوریت کو دور کرنے کے لئے مختلف برانڈز کے تیار مصالحوں سے پرچون کی دوکانیں بھر جاتی ہیں۔ اس سے پھوہڑ عورتیں ہی نہیں سگھڑ مرد بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی سلیقہ مندی کی داد پاتے ہیں۔ اسکے علاوہ خاندان میں چلی آنے والی سینہ بہ سینہ تراکیب بھی ہوتی ہیں۔  ہم بھی کھانا پکانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے پاس جتنی تراکیب ہیں سب خاندانی ہیں  اس لئے انہیں افشا نہیں کیا جا سکتا۔ یوں ہماری مجبوری صرف مملکت یا کائینات کےراز افشا کرنا رہ جاتی ہے۔
لیکن ایک آسان سی ترکیب تو میں آپکو بتا سکتی ہوں۔ حسب مرتبہ گوشت لیجئیے اس میں حسب ذائقہ تمام مصالحہ جات ملا لیں۔ حسب وزن گوشت کچا پپیتا ملا دیں۔ حسب میسر وقت اسے پڑا رنے دیں اور پھر سیخوں پہ لگا کر بار بی کیو کر لیں۔  آپ کہیں گے یہ تو ہم بھی بتا سکتے ہیں۔ تو جو تراکیب  سینہ بسینہ نہ چلیں وہ بس ایسی ہی ہوتی ہیں۔ اب آپکو پتہ چل گیا ہوگا کہ خاندان کس طرح بنتے اور سنبھالے جاتے ہیں۔
میرے پیارے قارئین، یہ کراچی میں بقرعید کا ایک دھندلا سا خاکہ تھا۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ ہمارے یہاں بقر عید ایک انڈسٹری ہی نہیں سارے کمرشل مصالحوں سے بھرپور ایک تہوار ہے اس لئے اتنا ہِٹ جاتا ہے۔