Showing posts with label اردو زبان کا ارتقاء، فیروز اللغات،. Show all posts
Showing posts with label اردو زبان کا ارتقاء، فیروز اللغات،. Show all posts

Friday, December 11, 2009

باپو یا بابو

کچھ چیزیں دیکھنے اور سننے میں بہت معمولی اور غیر اہم لگتی ہیں لیکن یہ کسی انسان  یا معاشرے کی سوچ کے پیچھے چلنے والے عوامل کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایسا ہی مجھے اس وقت محسوس ہوا جب ہمارے ایک ساتھی نے ایک صحافی کے مضمون کو اپنے بلاگ پہ جگہ دی اور اسکے ساتھ ایک ثانوی بحث نکل آئ کہ لفظ بابو کیا ہے۔
 ابتدا تو میرا مقصد ان صحافی موصوف کی جوش تحریر میں کی جانیوالی غلطی کی طرف توجہ دلانا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ انگریز ہندوستانی مسلمانوں کی تحقیر کرنے کے لئے لفظ بابو استعمال کرتے تھے جو کہ انگریزی لفظ ببون سے لیا گیا ہے اور جسکے معنی بےوقوف نقال بندر کے ہوتے ہیں۔
یہ میرے لئیے ایک بالکل نئ خبر تھی، جہاں میرے ماحول میں لوگ اپنے والد صاحب کو بابو کہتے ہوں، میرے والد صاحب اپنے بچوں کو پیار سے بابو کہہ کر بلاتے ہوں، بھارت کے صوبے بہار میں اکثر  مسلمان گھرانوں میں لوگوں کے ناموں کو بغیر بابو لگائے نہ بلایا جاتا ہو وہاں لفظ بابو کو تحقیر اور نفرت کا لفظ سمجھنا خاصہ مشکل تھا۔
یہی نہیں اردو ادب میں، پرانی انڈین اور پاکستانی فلموں مین،  اور اب بھی ہندوستانی گاءووں دیہاتوں میں پڑھے لکھے لوگوں کو بابو کے لفظ سے بلایا جاتا ہے جیسے  ڈاک بابو، ڈاکٹر بابو، کلکٹر بابو وغیرہ۔
بات آگے چلی تو ہمارے سینئیر بزرگ بلاگر اور اس بلاگ کے ساتھی دونوں ہم زبان ہو گئے کہ نہیں یہ تو استعمال ہی حقارت کے لئیے ہوتا ہے اور مزید پیچیدگی اس میں یہ پیش کی گئ کہ یہ اگر اس مطلب میں استعمال ہوتا بھی ہے تو اسکا ماخذ لفظ بابا تو ہو سکتا ہے مگر باپو نہیں، جو کہ ہندی کا لفظ ہے۔
 اسکے ساتھ ہی مجھے اس بات کا طعنہ دیا گیا کہ دراصل میں چیزوں کے صحیح حوالے دیکھنے سے گریز کرتی ہوں اور اپنی علامیت جتاتی ہوں۔ تو صاحبو، اب ہم یہ بھی
مشکل کہہ پائے کہ ہمیں انٹر نیٹ پہ تو اس لفظ کا یہ مطلب نہیں ملا۔ چونکہ ملک سے باہر ہیں اس لئیے اپنی لغات اور ڈکشنریز بھی استعمال نہیں کر سکتے۔
پاکستان پہنچنے کے بعد اگلی صبح جب میں سو کر اٹھی تو میں نے سب سے پہلے ڈکشنریز کو چیک کیا۔ میں سنی سنائ باتوں سے زیادہ کسی مستند کتاب میں لکھی ہوئ بات کو ترجیح دیتی ہوں۔
اب دیکھئیے میں نے صرف تین لغات کو دیکھا اور اسکے معنی مدرجہ ذیل نکلے۔
فیرزاللغات ؛ ماخذ ہندی، معنی شہزادہ، بالک بچہ، انگریزی پڑھا لکھا جنٹلمین، فیشن پرست نوجوان، کلرک منشی
لانگ مین ڈکشنری آف کنٹیمپریری انگلش؛ انڈین انگلش میں احترام کا ایک لفظ،برٹش انگلش میں کم درجے کا کوئ بھی سرکاری ملازم یا کلرک۔ یہاں انہوں نے انڈین یا مسلم لفظ استعمال نہیں کیا۔
ویبسٹرزانسائکلوپیڈک ان ابرجڈ ڈکشنری آف انگلش لینگوایج؛  باس، ایک ہندو ٹائٹل جو کہ سر یا مسٹر کے برابر ہے، ایک ہندو جنٹلمین، کوئ بھی مقامی انڈین باشندہ جو کہ تھوڑی بہت انگلش پڑھ لکھ سکتا ہو، ہندی میں باپ کے لئیے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اردو کو ابتدا میں ہندی کے نام سے بھی بلایا جاتا تھا۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں کہیں بھی وہ معنی نہیں اور نہ ہی وہ پس منظر جو صاحب تحریر نے دینے کی کوشش کی۔ اسی باب میں جب میں نے لفظ ببون کو دیکھا تو صرف ویبسٹر والی ڈکشنری میں مجھے اسکے ایک معنی یہ بھی ملے کہ  خام اور کم ذہانت کا انگریز یا کوئ بہت سادہ شخص۔ یہاں پر بھی ہندوستانی ہونے کی تخصیص نہیں کجا کہ بے عزت کرنے کی۔
یہی نہیں اب بھی پاکستان میں وہ لوگ جنہیں اردو اسپیکنگ کہا جاتا ہے انکے یہاں اس قسم کے محاورے ملیں گے جس میں کسی کو کہتے ہیں کہ وہ بڑا بابو بنا پھرتا ہے۔ اس جملے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت بھنے ٹھنے رہتے ہیں۔
جہاں ان دونوں صاحبان کو یہ امر ماننے میں عار رہا کہ یہ بے عزتی کا لفظ نہیں اور نہ ہی ببون سے نکلا ہے۔وہاں انکا یہ اصرار رہا کہ یہ باپو سے نہیں بن سکتا بابا سے بنا ہوگا۔ اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ ان میں سے ایک صاحب کا  ثقافتی تعلق پنجاب سے اور دوسرے کا ثقافتی  تعلق سندھ سے ہے اور ان دونوں زبانوں میں باپ کے لئیے لفظ بابا بھی استعمال ہوتا ہے اسکی دوسری وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ بیشتر لوگوں کا یہ سمجھنا کہ لفظ بابا عربی سے آیا ہے۔  اسکی تیسری وجہ دییگر اقوام کے رہن سہن اور زبان سے نا واقفیت ہے۔
ان سب وجوہات سے ہٹ کر اس بات پہ اصرار کہ یہ لفظ باپو سے نہیں بابو سے بنا ہے اس طبقہ ء فکر کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو ہمہ وقت اس چیز سے انکار کی حالت میں رہتے ہیں کہ ایک ہزار سال سے زائد عرصے برصغیر کی دیگر اقوام کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مسلمانوں کی طرز رہائش، بود و باش اور زبان پہ انکا اثر ہے۔  یہ یاد رہے کہ برصغیر میں آنیوالے یہ مسلمان کسی ایک علاقے سے نہیں آئے تھے بلکہ ان میں ترک، عرب اور وسط ایشیا کے مسلمان بھی شامل ہیں اور ان میں سے ہر ایک جدا طرز زندگی رکھتا تھا۔
خیر جناب، فیروز اللغات کے مطابق یہ لفظ  بابا بھی اردو میں فارسی اور ہندی سے آیا ہے۔
اب جب کہ انگریزی اور اردو کی مستند لغات میں سے یہ الفاظ کے معنی ، میں نے دیکھ لئیے ہیں اور آپ میں سے کوئ بھی انہیں جا کر دیکھ سکتا ہے تو میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ میرا مقصد انگریزوں کی حمایت نہیں بلکہ محض ہر وقت دوسروں کو اپنی حالت زار کا باعث سمجھنا اور اس نکتے کو ثابت کرنے کے لئیے غلط ترین بات بھی کرنے سے نہ چوکنا اسکی طرف آپکی توجہ دلانا ہے۔
تاریخ دنیا میں دوسرے لوگوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی جو کوششیں رہیں ہیں یا انکے جو بھی اثرات رہے ہیں انہیں انکے مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اس دنیا کی جو بھی حالت آج ہے یا علم اور جہالت کے جس بھی مرحلے پہ ہم ہیں۔ اس میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقوام کا بھی حصہ ہے۔ ہم بہ حیثیت مسلمان آج جس طرح دنیا اور اپنی زندگی برتتے ہیں اس میں دوسروں کی طرز فکر کا اثر بھی ہے اور اسے تسلیم کئے بغیر نہ ہم اپنی غلطیوں کو جانچ سکتے ہیں اور نہ آگے کی سمت درست قدم رکھ سکتے ہیں۔
میرے ان ساتھی کی اس پوسٹ کے کچھ اور اہم نکات ہیں جن پہ آنیوالی تحریروں میں بات کرنا چاہونگی ان میں سر فہرست
کیا خلافت مسلمانی طرز حکومت ہے اور اسی میں ہماری بقا ہے
کیا سائنس اسلام سے متصادم اور قدرت کی راہ میں مزاحم ہے۔
کیا  دنیا بھر کی قوتیں صرف اسلام کو ختم کرنے کے درپے ہیں یا اس میں مسلمانوں کا  کئ صدیوں پہ مشتمل ایک طویل علمی اور تحقیقی جمود ہے۔

 حوالہ؛