اگرچہ کہ میں کھانا دن میں ضرورتاً ہی کھاتی ہوں مگر تیسری دنیا کے ایک پسماندہ اور اپنے ہوش و حواس کی دنیا بحال ہونے کے بعد سے اسے حالت جنگ میں دیکھ دیکھ کر میں سارا سارا دن بھی لکھتی رہوں تو اس میں اچنبھے یا حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہئیے۔ تیسری دنیا کا ایک غریب ملک، حالت جنگ، نامساعد سیاسی حالات، جہالت، دقیانوسیت, جذباتیت، اور ترقی کے لئے کام کرنے کے بجائے کام کرنے والوں سے حسد، یہ سب مل کر ایک ایسا جادوئ جوہر بناتے ہیں کہ جو شخص معمولی سی بھی حساسیت رکھتا ہو یہ اسے تخلیق کی سطح پہ خاصہ سرگرم کر دیتی ہے۔ ایسے حالات سے گذرنے کے بعد اگر کسی لکھنے والے کو لکھنے کے موضوعات کی قلت کا سامنا ہے تو یہ یقیناً وہ ہونگے جو صاحبان تسلیم و رضا سے ہیں۔
اس ہفتے دو دلچسپ خبریں سامنے آئیں۔ پہلی خبر کا تعلق سندھ سے ہے۔ جہاں ایک پینتالیس سالہ خاتون شہزادی چانڈیو نے ایک سترہ سالہ لڑکے کو شادی کرنے کی غرض سے اغواء کر لیا۔ پولیس اسٹیشن میں لڑکے نے بیان دیا کہ وہ تو اسے جانتا تک بھی نہیں۔ یہ زیادتی ہے کوئ آپکو جانتا بھی نہ ہو اور اسے اغواء کر لیا جائے۔ مگر پھر بھی صد شکر کے اجتماعی زیادتی نہیں ہے۔
دوسری خبر انڈیا کے شہر لکھنوء سے ہے ایک مسلم خاتون نشاط فاطمہ نے شہر میں واقع ایک شریعت کورٹ میں فتوی دینے مولوی صاحب کی پٹائ لگادی۔ یقیناً پڑھی لکھی نہیں ہونگیں ورنہ صرف لفّاظی کرتی رہ جاتیں۔ اور اسی فلسفے پہ غور کرتی رہتیں کہ جب اس خبیث شوہر نے ہی خباثت دکھا ڈالی تو کسی مولوی کا اس میں کیا قصور۔ اس تمام تر ہاءو ہو کے بعد پھر انہوں نے جو کچھ کہا اسکا مطلب یوں نکلتا ہے کہ ٹھنڈ پے گئ۔
دل کو کتنا سکون ملا ہے ان لوگوں کو پیٹ کر بتا نہیں سکتی۔
خاتون شیعہ فقہے سے تعلق رکھتی ہیں اور پڑوسیوں کی زبانی یہ جان کر کہ انکے شوہر نے انہیں طلاق دے دی ہے وہ سخت صدمے میں تھیں۔ شیعہ قوانین کے مطابق بیوی کو صفائ کا موقع دئِے بغیر طلاق نہیں ہو سکتی۔ خاتون کے شوہر صاحب عرصہ ء دو سال سے ایک اور خاتون کے ساتھ عارضہ ء قلب میں مبتلا تھے۔ اسکا علاج انہوں نے یہ نکالا کہ ان سے شادی کر لی جائے۔ لیکن اس سلسلے میں ماضی کی غلطی کو ان ڈو کرنے کے لئے انہیں مولوی صاحب سے خدمت لینی پڑی۔ تاکہ زمانہ ء حال میں یہ غلطی دوبارہ کر سکیں۔ لکھنوء کے سلطان المدارس کے مولوی صاحب نے مبلغ ڈھائ ہزار روپے انہیں پہلی بیوی سے علیحدگی کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ نشاط آپا نے یہ سنتے ہی آءو دیکھا نہ تاءو کہ اب اسکا وقت نہیں رہا تھا اس شریعت عدالت میں گھس کر مولوی صاحب کی پٹائ لگا دی۔ نہ رہے بانس اور نہ ہی بانسری۔ ہماری خاتون نے اسی پہ بس نہیں کی بلکہ مزید خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ جو ان مولویوں کے قوانین سے تنگ آئی ہوئ ہیں وہ بھی باہر نکلیں اور انہیں سبق سکھائیں۔
باقی مسلمان خواتین چاہے انکے مشورے پہ عمل کریں یا نہ کریں ایک خیال یہ آتا ہے کہ بچپن میں اماں جان و ابا جان سے پٹنے کے بعد عین بڑکپن میں دوسرے کی بیگم سے پٹنے کے انوکھے تجربے کے بعد مولوی صاحب کی ذہانت میں بیش بہا اضافہ ہوا ہوگا اور اب وہ مولوی صاحبان یقیناً اس کار خیر کی فیس بڑھا دیں گے کہ اس میں بعد از پٹائ علاج معالجہ کا خرچہ بھی شامل ہوگا۔
میری ہمدردیاں مولوی صاحب کے ساتھ ہیں اس لئے برائے مہربانی اس پوسٹ کے سلسلے میں مجھ پہ دین کے خلاف جانے کا الزام نہ لگایا جائے۔ حالات کہہ رہے ہیں کہ مبینہ شوہر صاحب نے بھی اسی طرح باری باری اماں، ابا اور بیگم سے پِٹ پِٹ کر ذہانت استعمال کرنا سیکھی ہوگی۔ بہر حال دیر آید درست آید۔
باقی مسلمان خواتین چاہے انکے مشورے پہ عمل کریں یا نہ کریں ایک خیال یہ آتا ہے کہ بچپن میں اماں جان و ابا جان سے پٹنے کے بعد عین بڑکپن میں دوسرے کی بیگم سے پٹنے کے انوکھے تجربے کے بعد مولوی صاحب کی ذہانت میں بیش بہا اضافہ ہوا ہوگا اور اب وہ مولوی صاحبان یقیناً اس کار خیر کی فیس بڑھا دیں گے کہ اس میں بعد از پٹائ علاج معالجہ کا خرچہ بھی شامل ہوگا۔
میری ہمدردیاں مولوی صاحب کے ساتھ ہیں اس لئے برائے مہربانی اس پوسٹ کے سلسلے میں مجھ پہ دین کے خلاف جانے کا الزام نہ لگایا جائے۔ حالات کہہ رہے ہیں کہ مبینہ شوہر صاحب نے بھی اسی طرح باری باری اماں، ابا اور بیگم سے پِٹ پِٹ کر ذہانت استعمال کرنا سیکھی ہوگی۔ بہر حال دیر آید درست آید۔