Showing posts with label پیٹرل سسکنڈ. Show all posts
Showing posts with label پیٹرل سسکنڈ. Show all posts

Friday, September 16, 2011

دھتکارا ہوا شاعر

وارننگ؛ یہ تحریر خاصی حد تک ناشائستہ مواد پہ مشتمل ہے۔ صرف شائستہ تحاریر پڑھنے والے اگر اسے پڑھتے ہیں تو مزاج میں پیدا ہونے والی کراہت کے ذمہ دار وہ خود ہونگے۔  حساس طبیعت رکھنے والے اس سے گریز کریں۔

اس وارننگ کے بعد میں خود کو اخلاقی طور پہ آزاد سمجھتی ہوں اور موضوع کی طرف آتی ہوں ۔ یہ ایک ایسے شاعر کے متعلق ہے جس نے اپنی شاعری کے لئے ایک نہایت دھتکارا ہوا موضوع چنا، جس پہ شاعر تو کجا عام افراد بھی اشاروں کنایوں میں ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے معیاری ادب میں اسکے لئے کوئ جگہ نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اردو کے اس شاعر کو شاعرانہ خوبیاں رکھنے کے باوجود آج شاید ہی کوئ جانتا ہو۔ انکے اشعار زیادہ تر سینہ بہ سینہ چلے آنے والے اشعار ہیں۔
  جب ، میں نے جاننا چاہا کہ انکا کوئ  دیوان موجود ہے تو معلوم ہوا کہ امریکہ کی واشنگٹن ڈی سی کی لائبریری میں اسکا ایک نسخہ موجود ہے۔ یہ جان کر کہ امریکہ کی ایک لائبریری میں انکے دیوان کا ایک  نسخہ موجود ہے آتش شوق بھڑک اٹھی۔ میں نے کوشش کی کہ کوئ اس نسخے کی نقل کروا کر وہاں سے لے آئے۔ لیکن ہوا یوں کہ مجھے کراچی میں ہی انکے دو مختلف دیوان مل گئے۔ جو کہ بھارت میں شائع ہوئے۔
برازیات کا یہ شاعر شیخ باقر علی یا جعفر علی قصبہ رودلی کا رہنے والا چرکین تخلص کرتا تھا اور اسی نام سے مشہور ہوا۔ چرکین کا کیا مطلب ہے اسکے لئے اردو کی کوئ بہتر لغت دیکھئیے۔
 اس سے آپکی وسعت الفاظ بہتر ہوگی۔
:)
مرزا قادر بخش صابر انکے بارے میں لکھتے ہیں کہ 
چرکین تخلص ایک شخص ظریف، شوخ مزاج، ساکن لکھنوء کا۔ وہ ہمیشہ سخن پاکیزہ کا دامن نجاست معنوی سے آلودہ رکھتا ۔ یعنی مضامین بول و بزار  اس طرح شعر میں باندھتا کہ زمین سخن کو گُوہ گڑھیا بنا دیتا۔ اسکی قوت شامہ یک قلم باطل ہو گئ تھی کہ اس غلاظت سے بے دماغ نہ ہوتا تھا۔ انصاف تو یہ ہے کہ ابیات میں ہر چند گوہ اچھالتا اور کاغذ کے ہر گوشے میں پیشاب کی نالی بہاتا تھا لیکن کوئ لطیف مزاج اس سے دماغ بند نہ کرتا تھا اور کوئ پاکیزہ طبع اس سے گھن نہ کھاتا تھا۔ گویا بحر شعر نے اس نجاست کو بہا دیا تھا۔
شرط سلیقہ ہے ہراک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے

انکے بارے میں خاصی کہانیاں مشہورہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میاں چرکین بہت بلند پایہ شاعر تھے۔ کلام بہت عمدہ اور پاکیزہ ہوتا تھا۔ مگر لوگ آپکا کلام چرا کر اپنے نام سے پڑھا کرتے تھے۔ جسکی وجہ سے میاں چرکین نے عاجز آ کر اپنی شاعری کا رنگ بدل دیا اور ایسے اشعار کہنے لگے جس میں گندگی کا ذکر ضرور ہوتا۔ لیکن اس کلام میں بھی تمام شاعرانہ صفات بدرجہ ء اتم موجود ہوتی تھیں۔ یہ بہرحال ایک کہانی ہی ہے مکمل صداقت نہیں۔ شاعرانہ خوبیوں کے لئے کچھ نمونہ ء کلام حاضر ہے۔

سلسل البول کی مانند رہے ڈاک رواں
اتنے خط لکھوں زمانے سے ہو کاغذ عنقا

رو زو شب ہگنے سے تم اسکے خفا رہتے تھے
مہترو خوش رہو، چرکیں نے وطن چھوڑا ہے

روک کر گھوڑے کو اس نے مری تربت پہ کہا
لید کرنی ہو تو کرلے تُو یہی تھوڑی سی

قبر پہ آکے بھی اس بت نے نہ مُوتا افسوس
کام کچھ اپنے  نہ مرگ شب ہجراں آئ

اپنے ہی سڑے ٹکڑوں پہ کی ہم نے قناعت
چکھا نہ متنجن کسی نواب کے خواں کا

مقصود عالم مقصود جو کہ ایک طرح سے غالب کے شاگرد تھے انہیں چرکین کی نادر ترکیبوں ، الفاظ، فقرے اور محاوروں نے کھینچا ہوگا جو اب نہیں بولی جاتی اور انہوں نے چرکین کے مرنے کے پچیس سال بعد انکا کلام ایک جگہ اکٹھا کر کے اسے دیوان کی شکل دی۔ یوں یہ محفوظ ہوا مگر لوگوں کی لائبریریوں میں نمایاں جگہ نہ پا سکا۔
انکی بولی دیوان خانے یا شائستہ آنگن کی نہیں نالی، کوڑا گھر، سنڈاس، بول و بزار وغیرہ کی ہے۔ بول و بزار کے علاقے کے الفاظ جنکے سلسلے میں لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ انکو چرکین نے اپنے کلام میں محفوظ کیا اور بیت الخلاء کے آداب کی ایک اہم دستاویز چھوڑی۔
چرکین نے بول و بزار کے مضامین کے لئے سوقیانہ یا کوئ خراب زبان نہیں لکھی۔انکا کلام معیاری اردو میں ہے۔ یہ وہی زبان ہے جو اس زمانے میں آتش، ناسخ اور مصحفی وغیرہ کی تھی۔ایک ایک مصرعہ تراشا ہوا، شعر میں چستی اور زائد یا بھرتی کے الفاظ سے پاک مضامین آلودہ لیکن کلام میں غضب کی روانی ہے۔ چرکین کے کلام کو بلا تعصب، صبر اور برداشت سے پڑھے بغیر انکے فن کی قدر نہیں جانی سکتی۔ 
بقول اردو کے مایہ ناز ادیب شمس الرحمن فاروقی، اگر کلام کے ذریعے جنسی لذت پیدا کرنے یا حاصل کرنے کی شرط کو اہم قرار دیں تو چرکین کا کوئ شعر مشکل سے فحش کہلائے گا۔خلاف تہذیب ہونا اور بات لیکن کوئ شعر ایسا نہیں کہ اسے بچوں یا بہو بیٹیوں کے سامنے پڑھایا نہ جا سکے یا انکے سامنے پڑھا نہ جا سکے۔
لیکن ہمیں پھر بھی کلام کی اس نوعیت پہ حیرت یا تعجب ہوتا ہے۔ کچھ اور لوگوں کو کچھ اور باتوں پہ ہوتا ہے مثلاً بائرن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نوالہ منہ میں ڈالنے، چبانے اور حلق سے اتارنے کو اس قدر غیر نفیس فعل سمجھتا تھا کہ کسی عورت کو کچھ کھاتے پیتے نہ دیکھ سکتا تھا۔ جبکہ جرمن ناول نگار پیٹرک سسکنڈ لکھتے ہیں کہ 
میں اپنے بچپن میں یہ سوچ سوچ کر حیران رہ جاتا تھا کہ ناولوں کے کرداروں کو کبھی بیت الخلاء جاتے کیوں نہیں دکھایا جاتا۔ اسی طرح پریوں کے قصے ہوں یا اوپرا، ڈراما ہو یا فلمیں یا پھر بصری آرٹ کی مختلف شکلیں ان میں کسی کو بھی رفع حاجت کی ضرورت کیوں نہیں پیش آتی۔ انسان کی زندگی میں پیشاب یا پاخانے کا عمل جو زندگی کا سب اہم اور انتہائ ضروری معمول ہے وہ آخر آرٹ کی دنیا میں اپنی جگہ کیوں نہیں بنا سکا۔
قادر بخش صابر مزید لکھتے ہیں کہ
اوائل حال میں تو اس نے یہ وضع ہزل سمجھ کر اختیار کی یعنی مذاق میں۔ لیکن رفتہ رفتہ اس قال کو حال بنا لیامدام لباس چرک پہنتا اور ایسی میلی کچیلی وضع رکھتا کہ اجنبی اس کو سچ مچ کا حلال خور سمجھتے۔حق یہ ہے کہ جو ابتداء میں کہتا تھا وہ آخر میں کر دکھایا۔ آخر الامر لال بیگ کی صحبت اور گوگا پیر کی ہم نشینی کے شوق میں شہر کے پاکیزہ مقامات سے بھاگ کر صد ہا آرزو کا ٹوکرا سر پر رکھے ہوئے بہ طریق پا تراب کے جنگل کے کسی کوڑے پر اول منزل کی۔

مزید شعر حاضر ہیں
خیال زلف بتاں میں جو پیچ کھاتے ہیں
مروڑے ہو ہو کے پیچش کے دست آتے ہیں

کسی کے پاد سے اڑتے نہ کنکری دیکھی
اڑائے دیتا ہے چرکیں پہاڑ پھسکی سے

وہ جنتی ہے مرے جو مرض سے دستوں کے
ہے یہ ثواب تو باز آئے اس صواب سے ہم

عبث بدنامیوں کا ٹوکرہ سر پر اٹھانا ہے 
لگانا دل کا بس جھک مارنا اور گُو کا کھانا ہے

چرکین سے کسی نے ایک دفعہ کہا کہ دنیا کے ہر موضوع کوبول و بزار کی زبان میں بیان کر سکتے ہو تو ذرا حضرت علی کی بہادری کو بیان کر دکھاءو۔ شعر ملا۔
رن میں جس دم تیغ کھینچی حیدر کرّار نے 
ہگ دیا دہشت کے مارے لشکر کفار نے
یہ مصرعہ اس طرح بھی ملتا ہے،  ہڑبڑا کر ہگ دیا ، لشکر کفار نے۔

نوٹ اس تحریر کا ماخذ ابرار الحق شاطر گورکھپوری کا مرتب کردہ دیوان چرکین ہے جس میں انہوں نےچرکین کا ادبی پس منظر اور تاریخ بھی دی ہے اور جس کا مقدمہ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ۔