یہ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی رات تھی۔ جب میں نے لاہور ائیر پورٹ پر قدم رکھا۔ ہمارے میزبان وہاں پر ایک ایسا جوڑا تھا جو حال ہی میں امریکہ سے پاکستان سیٹل ہونے کے ارادے سے واپس آگئے تھے ۔ صاحب کا تعلق سندھ سے تھا۔ ہمارے پاس چار دن تھے اور لاہور میں درجہء حرارت تین ڈگری سینٹی گریڈ۔ کوئ لاہوری جس نے کچھ سردیاں کراچی کی بھی دیکھی ہوں اندازہ کرسکتا ہے کہ میری کیسی قلفی جمی ہوگی۔حالت یہ تھی یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری۔ کیونکہ منہ کھلنے میں اندیشہ تھا کہ سرد ی منہ سے اندر چلی جائے گی۔
ایک شام جب ہم داتا گنج بخش کے مزار کے قریب سے گذرے تو میں نے اور انکی نومسلم انڈین بیگم نے نہایت شدت سے مزار کے اندر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہمیں مزار کے داخلی دروازے پہ اتار دیا گیا۔ جب ہم اپنی سینڈلیں جمع کرا رہے تھے اسوقت وہاں شور مچ گیا تھا کہ کراچی والے آئے ہیں بھئ۔ یہ مجھے نہیں معلوم کہ کراچی والوں کی پہچان کیا ہے۔ یہ میرا کسی پاکستانی مزار میں جانے کا پہلا اتفاق تھا۔ ان سب کو نظر انداز کر کے ہم دونوں اندر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے حجلہء خاص میں پہنچ گئے احاطے میں بہت سارے لوگ ادھر ادھر لیٹے بیٹھے ہوئے تھے۔ حجلہءخاص میں اندھیرا سا تھا کچھ لوگ کھڑے تھے اور کچھ دو زانو بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا جب یہاں تک آئے ہیں تو فاتحہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ابھی فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھا کر ابتدائ کلمات پڑھے تھے کہ ایک چھڑی کی نوک کندھے میں چبھی۔ اور آوز آئ۔ عورتیں یہاں سے چلی جائیں۔ ہم دونوں نے ایکدوسرے کو دیکھا اور خاموشی سے باہر آگئے۔ کچھ مذاق اڑا۔معلوم نہیں تھا آپکو کہ انہوں نے تمام عمر شادی نہیں کی تھی۔ اور انہی کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کھڑی ہوگئیں۔
میں سردی اور صدمے سے خاموش رہی۔
اس بات کو کچھ عرصہ بیت گیا۔ کسی نے کہا۔ شاہ عبدالطیف کے مزار ہر ہر روز بڑے اچھے راگ گائے جاتے ہیں۔ یہ راگ شاہ صاحب کے ترتیب دئیے ہوئے ہیں اور انکی وفات سے اب تک بلا ناغہ انکے مزار میں ہوتے ہیں۔ جمعرات کے دن خاص سر گائے جاتے ہیں۔ہم نے بھی پلان بنا لیا ایک رات وہاں خرچ کرنے کا۔ کراچی سے تقریباً ڈھائ تین گھنٹےکی مسافت طے کرکے بھٹ شاہ پہنچے۔ مزار کے احاطے میں واقع ایک کمرہ رات بھر کے لئے کرائے پہ لیا۔ یہیں احاطے میں سندھ کے مشہور شاعرشیخ ایاز کا مقبرہ بھی ہے۔ ایک فٹپاتھی ہوٹل سے کھانا کھایا اور مزار پہ پہنچ گئے۔ وہاں شیعوں کی ایک مجلس جاری تھی۔ پتہ چلا کہ راگ رات کو بارہ بجے شروع ہوتے ہیں۔ کچھ وجوہات کی بنای پر اب شیعہ فقہے کے لوگ بھی مزار کے احاطے میں اپنی سرگرمیاں انجام دینے لگے ہیں۔ یہ ختم ہو جائے گی تو روزانہ کی چیزیں شروع ہونگیں۔ پونے بارہ بجے کے قریب راگ گانے والے اپنے ساز وسامان کے ساتھ آئے۔ ایک نیم دائرہ بنا کر حجلہء خاص کے سامنے بیٹھ گئے کچھ رسومات انجام دی گئیں۔ چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں دودھ بھر کر تمام حاضرین محفل کو پیش کیا گیا۔ ہمارے علاوہ وہاں چند اور لوگ تھے۔ مزار کے احاطے میں کچھ لوگ سو رہے تھے بچے کھیل رہے تھے۔ اور پھر انہوں نے اپنا راگ چھیڑا۔ ایک کے بعد ایک کئ راگ پیش کئے گئے۔اور ان راگوں نے ایسا سماں باندھا ک سب اسکے کیف سے فجر کے وقت باہر نکلے راگ کے اختتام پر حجلے کے سامنے فاتحہ پڑھی گئ اور ہم ہوٹل واپس آگئے تاکہ تین گھنٹے آرام کر کے واپسی کا سفر شروع کریں۔
یہ ایک اور مزار ہے اسکے لئے ہمیں پاکستان سے باہر نکلنا پڑا اور استنبول پہنچ کر ٹور ارینج کرانے والون سے بڑی بحث کرنی پڑی۔ جن جگہوں پہ ہم جانا نہیں چاہتے تھے ان ٹور پروگرامز میں یہ جگہ شامل تھی۔ اور جہاں ہم جانا چاہتے تھے ان میں نہیں تھی۔ بہر حال ایک ٹور پروگرام کو توڑ مروڑ کرہم قونیہ پہنچنے کے قابل ہو گئے۔ جہاں مولانا جلال الدین رومی کا مزار ہے۔ ہمیں یہاں ٹہرنے کے لئے ایکدن ملا تھا پورے شہر میں اور کوئ قابل ذکر جگہ نہ تھی۔ اور اتنی بڑی شخصیت کے بعد کسی اور کے رکنے کی جگہ بھی کہاں ہو سکتی تھی۔مزار کے چاروں اطراف میں پارک ہے۔ ایک مسجد ہے وضو خانہ ہے۔ داخلی دروازے پہ بڑے بڑے ٹوکرے رکھے ہیں۔ ان میں اسکارف موجود ہیں۔ کچھ پیسے لیکر ایک شاپر مل جائے گا جس میں جوتے ڈال کر بند کرلیں اب آپ اندر بھی اس تھیلے کو لیکر پھر سکتے ہیں۔اندر داخل ہونے سے پیشتر ان میں سے اسکارف اٹھالیں۔ مجھے دوپٹے کی وجہ سے ضرورت نہیں پڑی اندر سر ڈھنکنے کی کوئ پابندی نہیں۔ اندر ایکطرف ایک بڑی سی قبر ہے جو انکی ہے۔اس کے ساتھ اور قبریں بھی ہیں۔ جو انکے ساتھیوں کی ہیں۔ دیواروں پہ فارسی اشعارجابجا تحریر ہیں یا طغروں میں لگے ہیں۔ ایک خاتون کھڑی مثنوی مولانا روم پڑھ رہی تھیں اور کئ صاحبان قرآن پاک۔ ایک خاتون مکمل طور پر مغربی لباس میں، آنکھیں کاجل، مسکارا اور آئ شیڈو سے سجی ہوئیں لیکن اشکبار۔ اندر بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ کھڑے رہیں یا چلتے رہیں یہاں میں نے دیوار پہ لکھی ہوئ عبارتیں اپنی نوٹ بک میں اتاریں۔ میرے قریب کھڑے تیرہ چودہ سالہ بچے نے انتہائ حیرت سے اپنی ماں کو بتایا۔ شی نوز دی اسکرپٹ۔ یعنی میں وہ تحریر جانتی ہوں۔ ترکی اب انگریزی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اس کمرے سے باہر نکلیں توایک اور ہال ہے جہاں انکی یادگاریں شوکیسوں میں لگی ہوئ ہیں۔
یہاں سے باہر آکر اسکارف واپس ٹوکروں میں ڈالدیں۔مزار کے باہر ایک نمائش لگی ہوئ ہے خطاطی کےمختلف نمونوں کی اور سوینیئرز کے طور پہ لیجانے والی چیزوں کی۔ جہاں سے میں نے چینی کے کپ لئے جن پر انکا ایک مشہور بند لکھا ہوا ہے۔
آءو آءو، تم جو کوئ بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا
چاہے تم ایک کافر ہو، بت پرست یا آتش پرست
آءو، یہ جگہ مایوسی کی نہیں آءو، حتی کہ
اگر تم اپنی توبہ سو بار بھی توڑ چکے ہو، پھر آءو
ہم ہوٹل چھوڑ چکے تھے بقیہ سارا دن اسی احاطے میں گذارا۔ کتابیں پڑھتے ہوئے۔ شام کے وقت پارک لوگوں سے بھرگیا۔ زیادہ تر خواتین اسکارف باندھے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوم رہی تھیں۔ بچے دوڑ رہے تھے۔ قریب ہی وہ جگہ ہے جہاں ہفتے کے مخصوص دنوں میں رقص درویش ہوتا ہے جو ہم نہ پا سکے ویسے بھی اسکا ٹکٹ اتنا مہنگا تھا کہ ہم جیسے سیاحوں کی جیب اسکا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی۔
میں تمام نمازوں کے لئے وضو خانے میں جاکر وضو کرتی ہوں اور آرام سے مسجد میں مخصوص خواتین کے حصے میں نماز پڑھ آتی ہوں۔وضو خانہ اگر چہ کچھ فاصلے پر تھا مگر یہاں مجھے گھورنے والا اور آوزیں کسنے والا کوئ نہ تھا۔ میں بلا کھٹکے اکیلے مزار کا پورا احاطہ دیکھ ڈالتی ہوں۔کیونکہ میرے ساتھی پر سستی سوار تھی۔
یہ سیکولر ترکی ہے جسے ہم سب حقارت سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے کم مسلمان ہیں۔
خیال جلوہء گل سے خراب ہیں میکش
شرابخانے کے دیوار و در میں خاک نہیں
نوٹ؛ رومی کے بند کا ترجمہ اس کپ پر لکھے ہوئے انگریزی ترجمے سے کیا گیا ہے۔ اگر کسی کے پاس اس سے زیادہ اچھاترجمہ موجود ہے تو براہ مہربانی ہمیں بھی شریک کریں۔
ایک شام جب ہم داتا گنج بخش کے مزار کے قریب سے گذرے تو میں نے اور انکی نومسلم انڈین بیگم نے نہایت شدت سے مزار کے اندر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہمیں مزار کے داخلی دروازے پہ اتار دیا گیا۔ جب ہم اپنی سینڈلیں جمع کرا رہے تھے اسوقت وہاں شور مچ گیا تھا کہ کراچی والے آئے ہیں بھئ۔ یہ مجھے نہیں معلوم کہ کراچی والوں کی پہچان کیا ہے۔ یہ میرا کسی پاکستانی مزار میں جانے کا پہلا اتفاق تھا۔ ان سب کو نظر انداز کر کے ہم دونوں اندر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے حجلہء خاص میں پہنچ گئے احاطے میں بہت سارے لوگ ادھر ادھر لیٹے بیٹھے ہوئے تھے۔ حجلہءخاص میں اندھیرا سا تھا کچھ لوگ کھڑے تھے اور کچھ دو زانو بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا جب یہاں تک آئے ہیں تو فاتحہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ابھی فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھا کر ابتدائ کلمات پڑھے تھے کہ ایک چھڑی کی نوک کندھے میں چبھی۔ اور آوز آئ۔ عورتیں یہاں سے چلی جائیں۔ ہم دونوں نے ایکدوسرے کو دیکھا اور خاموشی سے باہر آگئے۔ کچھ مذاق اڑا۔معلوم نہیں تھا آپکو کہ انہوں نے تمام عمر شادی نہیں کی تھی۔ اور انہی کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کھڑی ہوگئیں۔
میں سردی اور صدمے سے خاموش رہی۔
اس بات کو کچھ عرصہ بیت گیا۔ کسی نے کہا۔ شاہ عبدالطیف کے مزار ہر ہر روز بڑے اچھے راگ گائے جاتے ہیں۔ یہ راگ شاہ صاحب کے ترتیب دئیے ہوئے ہیں اور انکی وفات سے اب تک بلا ناغہ انکے مزار میں ہوتے ہیں۔ جمعرات کے دن خاص سر گائے جاتے ہیں۔ہم نے بھی پلان بنا لیا ایک رات وہاں خرچ کرنے کا۔ کراچی سے تقریباً ڈھائ تین گھنٹےکی مسافت طے کرکے بھٹ شاہ پہنچے۔ مزار کے احاطے میں واقع ایک کمرہ رات بھر کے لئے کرائے پہ لیا۔ یہیں احاطے میں سندھ کے مشہور شاعرشیخ ایاز کا مقبرہ بھی ہے۔ ایک فٹپاتھی ہوٹل سے کھانا کھایا اور مزار پہ پہنچ گئے۔ وہاں شیعوں کی ایک مجلس جاری تھی۔ پتہ چلا کہ راگ رات کو بارہ بجے شروع ہوتے ہیں۔ کچھ وجوہات کی بنای پر اب شیعہ فقہے کے لوگ بھی مزار کے احاطے میں اپنی سرگرمیاں انجام دینے لگے ہیں۔ یہ ختم ہو جائے گی تو روزانہ کی چیزیں شروع ہونگیں۔ پونے بارہ بجے کے قریب راگ گانے والے اپنے ساز وسامان کے ساتھ آئے۔ ایک نیم دائرہ بنا کر حجلہء خاص کے سامنے بیٹھ گئے کچھ رسومات انجام دی گئیں۔ چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں دودھ بھر کر تمام حاضرین محفل کو پیش کیا گیا۔ ہمارے علاوہ وہاں چند اور لوگ تھے۔ مزار کے احاطے میں کچھ لوگ سو رہے تھے بچے کھیل رہے تھے۔ اور پھر انہوں نے اپنا راگ چھیڑا۔ ایک کے بعد ایک کئ راگ پیش کئے گئے۔اور ان راگوں نے ایسا سماں باندھا ک سب اسکے کیف سے فجر کے وقت باہر نکلے راگ کے اختتام پر حجلے کے سامنے فاتحہ پڑھی گئ اور ہم ہوٹل واپس آگئے تاکہ تین گھنٹے آرام کر کے واپسی کا سفر شروع کریں۔
یہ ایک اور مزار ہے اسکے لئے ہمیں پاکستان سے باہر نکلنا پڑا اور استنبول پہنچ کر ٹور ارینج کرانے والون سے بڑی بحث کرنی پڑی۔ جن جگہوں پہ ہم جانا نہیں چاہتے تھے ان ٹور پروگرامز میں یہ جگہ شامل تھی۔ اور جہاں ہم جانا چاہتے تھے ان میں نہیں تھی۔ بہر حال ایک ٹور پروگرام کو توڑ مروڑ کرہم قونیہ پہنچنے کے قابل ہو گئے۔ جہاں مولانا جلال الدین رومی کا مزار ہے۔ ہمیں یہاں ٹہرنے کے لئے ایکدن ملا تھا پورے شہر میں اور کوئ قابل ذکر جگہ نہ تھی۔ اور اتنی بڑی شخصیت کے بعد کسی اور کے رکنے کی جگہ بھی کہاں ہو سکتی تھی۔مزار کے چاروں اطراف میں پارک ہے۔ ایک مسجد ہے وضو خانہ ہے۔ داخلی دروازے پہ بڑے بڑے ٹوکرے رکھے ہیں۔ ان میں اسکارف موجود ہیں۔ کچھ پیسے لیکر ایک شاپر مل جائے گا جس میں جوتے ڈال کر بند کرلیں اب آپ اندر بھی اس تھیلے کو لیکر پھر سکتے ہیں۔اندر داخل ہونے سے پیشتر ان میں سے اسکارف اٹھالیں۔ مجھے دوپٹے کی وجہ سے ضرورت نہیں پڑی اندر سر ڈھنکنے کی کوئ پابندی نہیں۔ اندر ایکطرف ایک بڑی سی قبر ہے جو انکی ہے۔اس کے ساتھ اور قبریں بھی ہیں۔ جو انکے ساتھیوں کی ہیں۔ دیواروں پہ فارسی اشعارجابجا تحریر ہیں یا طغروں میں لگے ہیں۔ ایک خاتون کھڑی مثنوی مولانا روم پڑھ رہی تھیں اور کئ صاحبان قرآن پاک۔ ایک خاتون مکمل طور پر مغربی لباس میں، آنکھیں کاجل، مسکارا اور آئ شیڈو سے سجی ہوئیں لیکن اشکبار۔ اندر بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ کھڑے رہیں یا چلتے رہیں یہاں میں نے دیوار پہ لکھی ہوئ عبارتیں اپنی نوٹ بک میں اتاریں۔ میرے قریب کھڑے تیرہ چودہ سالہ بچے نے انتہائ حیرت سے اپنی ماں کو بتایا۔ شی نوز دی اسکرپٹ۔ یعنی میں وہ تحریر جانتی ہوں۔ ترکی اب انگریزی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اس کمرے سے باہر نکلیں توایک اور ہال ہے جہاں انکی یادگاریں شوکیسوں میں لگی ہوئ ہیں۔
یہاں سے باہر آکر اسکارف واپس ٹوکروں میں ڈالدیں۔مزار کے باہر ایک نمائش لگی ہوئ ہے خطاطی کےمختلف نمونوں کی اور سوینیئرز کے طور پہ لیجانے والی چیزوں کی۔ جہاں سے میں نے چینی کے کپ لئے جن پر انکا ایک مشہور بند لکھا ہوا ہے۔
آءو آءو، تم جو کوئ بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا
چاہے تم ایک کافر ہو، بت پرست یا آتش پرست
آءو، یہ جگہ مایوسی کی نہیں آءو، حتی کہ
اگر تم اپنی توبہ سو بار بھی توڑ چکے ہو، پھر آءو
ہم ہوٹل چھوڑ چکے تھے بقیہ سارا دن اسی احاطے میں گذارا۔ کتابیں پڑھتے ہوئے۔ شام کے وقت پارک لوگوں سے بھرگیا۔ زیادہ تر خواتین اسکارف باندھے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوم رہی تھیں۔ بچے دوڑ رہے تھے۔ قریب ہی وہ جگہ ہے جہاں ہفتے کے مخصوص دنوں میں رقص درویش ہوتا ہے جو ہم نہ پا سکے ویسے بھی اسکا ٹکٹ اتنا مہنگا تھا کہ ہم جیسے سیاحوں کی جیب اسکا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی۔
میں تمام نمازوں کے لئے وضو خانے میں جاکر وضو کرتی ہوں اور آرام سے مسجد میں مخصوص خواتین کے حصے میں نماز پڑھ آتی ہوں۔وضو خانہ اگر چہ کچھ فاصلے پر تھا مگر یہاں مجھے گھورنے والا اور آوزیں کسنے والا کوئ نہ تھا۔ میں بلا کھٹکے اکیلے مزار کا پورا احاطہ دیکھ ڈالتی ہوں۔کیونکہ میرے ساتھی پر سستی سوار تھی۔
یہ سیکولر ترکی ہے جسے ہم سب حقارت سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے کم مسلمان ہیں۔
خیال جلوہء گل سے خراب ہیں میکش
شرابخانے کے دیوار و در میں خاک نہیں
نوٹ؛ رومی کے بند کا ترجمہ اس کپ پر لکھے ہوئے انگریزی ترجمے سے کیا گیا ہے۔ اگر کسی کے پاس اس سے زیادہ اچھاترجمہ موجود ہے تو براہ مہربانی ہمیں بھی شریک کریں۔