Showing posts with label جنرل ضیا الحق. Show all posts
Showing posts with label جنرل ضیا الحق. Show all posts

Friday, June 19, 2009

فتراک کے نخمچیر

میرے بھائ کو مدرسے سے نکال دیا گیا۔ اور یہ صرف اسی کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ مزید پندرہ طلباء اس سلوک کے حقدار ٹہرے۔ جی، وہ مدرسے میں شیطانیاں کرتے ہوئے یا باتیں کرتے ہوئے نہیں پکڑے گئے تھے بلکہ مدرسے کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یا تو قرآن کی تعلیم حاصل کریں یا پھر اسکول کی۔ یہ جو آپ چالاکی دکھاتے ہوئے دونوں کام کرنا چاہ رہے ہیں تو ایسا ہم نہیں کرنے دیں گے۔ یہ واقعہ بھی ابھی کا نہیں جب کچھ معصوم سوچتے ہیں کہ ایسا اس لئے ہوا کہ مشرف نے آ کر ماڈرن اسلام کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی اور اسلام پسندوں نے اسلام بچانے کی، اس وجہ انتہا پسندوں نے جنم لیا۔ بلکہ یہ واقعہ اسی کی دھائ کا ہے جب جنرل ضیاءالحق پاکستان کو مشرف بہ اسلام کر چکے تھے۔ لیکن ابھی ہمارے محبوب صدر کا طیارہ فضا میں نہیں پھٹا تھا۔

میری اماں حیران رہ گئیں۔ ارے اسکول نہیں جائیں گے تو کیسے اپنی زندگی گذاریں گے۔ وہ اتنی معصومیت اور حیرانی سے ہر ایک سے یہ بات پوچھتیں۔ اگرچہ کہ انہوں نے یہ فیصلہ مدرسے کے منتظم کے پاس کھڑے کھڑے کر لیا تھاکہ وہ اپنے بچوں کو وہاں نہیں پڑھوائیں گی۔ پاگل ہو گئے ہیں یہ مدرسے والے۔ انہوں نے تو اس وقت اس قصے پہ بڑی سادگی سے یہ کہہ کر مٹی ڈالدی۔ مگر شاید پوری قوم کو پاگل بنانے کی تیاری اس وقت شروع کر دی گئ تھی۔

اس بات کو عرصہ گذر گیا، میں اپنی پی ایچ ڈی کے کاموں میں منہمک تھی۔ اس دوران میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئ۔ ہمارے گرائیں یعنی کراچی سے تعلق رکھتے تھے آئ سی ایم اے میں فائنل ائیر کے طالب علم تھے۔ مجھ سے کہنے لگے۔یہ ریسرچ وغیرہ تو میں سمجھتا ہوں کہ بیکار چیزیں ہیں۔ اگر انسان قرآن کو صحیح سے پڑھے تو ان جدید علوم کی کوئ ضرورت نہ پڑے۔ یعنی آپ بیمار نہیں پڑیں گے اگر قرآن کو پڑھیں گے تو۔ جی بالکل، اور اگر پڑ بھی گئے تو اس کا علاج قرآن میں موجود ہے۔ آپ کو بسوں اور جہازوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کہنے لگے آپ نے ان صوفیوں اور بزرگوں کے بارے میں نہیں سنا جو ہوا میں اڑتے تھے اور پلک جھپکتے میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں موجود ہوتے تھے۔میں حیرت سے انہیں دیکھنے لگی تو پھر آپ کیوں پڑھ رہے ہیں۔ پیسہ کمانے کے لئے۔ میں نےتو ایسے بزرگوں کے بارے میں بھی سنا ہے جن کی جائے نماز کے نیچے خزانہ موجود رہتا تھا وہ اس کا کونہ اٹھاتے اور ضروریات پہ خرچ کرتے تھے۔ کہنے لگے لڑکیوں کو میٹرک سے زیادہ نہیں پڑھنا چاہئیے۔ بہت شیطانی باتیں سوچنے لگتی ہیں۔ افسوس، میں ان کے گھر کی لڑکی نہ تھی۔ پھرمزید گویا ہوئے۔ ضرورت کا علم حاصل کرنے میں کوئ قباحت نہیں۔ لیکن اگر ہم قرآن شناسی بڑھا لیں تو پھر اس کی بھی چنداں ضرورت نہ رہے۔

ضرورت کا علم، کتنا منافقانہ لفظ لگتا ہے۔ آخر مذہب کے خود ساختہ متولیوں کے پاس ایسے منافقانہ الفاظ کا ذخیرہ کیسے جمع ہو جاتا ہے۔ ایسے بے روح، شکستہ، نیم مردہ الفاظ ، یہ الفاظ جو پھر اپنی کوکھ سے موت کو اورخود کش حملہ آوروں کو جنم دیتے ہیں۔میں نے ان سے کہا تھوڑا خاموش ہو جائیں۔ میں اس وقت جس مشین پہ کام کر رہی ہوں یہ آواز کے ارتعاش سے حتی کہ جسم کی حرارت سے بھی متائثر ہوتی ہے۔ اپنا کام پورا کرنے کے بعد میں ان کی طرف مڑی اور انہیں بتایا کہ اس مشین کے ذریعے میں نمک کے ایک ریزے کااور آپکی آنکھ کی ایک پلک کا بھی وزن بالکل صحیح معلوم کر سکتی ہوں۔ اور یہ جرمنی سے تیار ہو کر یہاں آئ ہے۔ حقیقت میں ، میں نے انہیں مزید بتایا اس وقت اس لیبارٹری کے اندر یہ جو اتنی بڑی بڑی مشینیں آپ دیکھ رہے ہیں ان میں سے کوئ ایک بھی کسی مسلمان ملک میں نہیں بنی۔ انکی در آمد پہ کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ دراصل یہ پورا ریسرچ سینٹر جس کی مالیت شاید اس وقت اربوں میں ہو گی۔ اس میں ایک معمول سی مشین بھی کسی مسلمان ملک کی نہیں۔ ایسا نہیں کہ اس ادارے کو مسلمان ممالک سے کوئ بیر ہے بس ایسا ہے کہ مسلم ممالک میں اتنا دم نہیں کہ انہیں بنا سکیں یا اس پائے کا بنا سکیں۔

کیا ہوتا ہے ضرورت کا علم، آپ ایف سکسٹین ان سے لیکر اڑانا سیکھ لیں۔ البتہ بناتے وہ اسے رہیں اور اپنی ضرورت کے حساب سے اس میں نئ تبدیلیاں وہ لاتے رہیں۔ پھر ان نئ تبدیلیوں کو آپ ان سے پیسہ دیکر سیکھیں۔ کیا ہوتا ہے ضرورت کا علم، آپ اپنی فوجوں کی صحت کے لئے، جان بچانے والی اشیاءاور دوائیں ان سے خریدیں اور ان کا طریقہ ء استعمال بھی۔ البتہ وہ اس چیز پہ تحقیق کرتے رہیں کہ اسے مزید بہتر اور سستا کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ کتاب ہم سے مخاطب ہوتی ہے کہ کوئ ہے جو ان نشانیوں پہ غور کرے جو رب ذوالجلال نے اپنی پہچان کے لئے اس کائنات میں قدم بہ قدم بکھیر دیں ہیں۔ لیکن یہ وہ ہیں جوستاروں پہ کمندیں ڈالتے ہیں اور کائنات کی بیکراں وسعتوں کی خبر لاتے ہیں۔ چونکہ فی الحال آپ کی ضرورت یہ ہے کہ موسم کا حال پتہ چل جائے یا آپ ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ لیں، اس لئے آپ ان سے یہ سہولت ایک مقررہ مدت کے لئے خرید لیتے ہیں۔

وہ اندھوں کی طرح اپنے تخیل کی انگلیوں سےٹٹول ٹٹول کر اس تخلیق گاہ کو دریافت کر رہے۔ ہیں اور آپ کتاب بغل میں دبا کر خوش ہیں کہ ہم ہیں خدا کی بہترین امت اور اس نے ہمیں یہ کتاب دی جس میں ان تمام رازوں کے اخفاء کے طریقے موجود ہیں، البتہ ان رازوں سے پردہ اٹھانے کی سعادت آپ نے انہیں دیدی ہے۔ کیوں ان مسلمانوں کو کسی اندیکھے ذریعے سے یہ بات پتہ ہے کہ ان کے لئے صرف ضرورت کا علم رکھا گیاہے حالانکہ اب وحی کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا ہے۔ کسی ایسی صورت کے لئے اقبال نے کہا کہ

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے صاحب کتاب نہیں

حکیم الامت نے یہیں پر بس نہیں کی بلکہ وہ آگے کہتے ہیں کہ

اسی قرآن میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایامہ و پرویں کا امیر
تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہا ں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
تھاجو 'ناخوب' بتدریج وہی 'خوب' ہوا
کے غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

چلیں اتنی بڑی باتوں پہ جی کیا جلانا ۔ یہ مجھے کسی نے باہر سے سلائ کی مشین تحفے میں لا کر دی ہے۔ اسکی خوبی یہ ہے کہ یہ بہت ہلکی اور چھوٹی سی ہے۔ میں اسے اپنے ساتھ لیکر کہیں بھی پھر سکتی ہوں۔ اس کا وزن کسی گنتی میں نہیں۔ لیکن لانے والا اس کا مینوئل وہیں بھول آیا ۔ باہر سے کوئ سوراخ نظر نہیں آتا اندر سے یہ بالکل بند لگتی ہے۔ اب میں نیٹ پر بیٹھی سرچ کر رہی ہوں کہ اس میں تیل ڈالنےکا کیا طریقہ ہوگا۔ یہ مشین یہاں کسی نے استعمال نہیں کی اور کوئ مجھے کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے۔ کیونکہ ہم سب نے صرف ضرورت کا علم حاصل کیا ہے۔