Showing posts with label سیکولر. Show all posts
Showing posts with label سیکولر. Show all posts

Wednesday, April 25, 2012

پاکستان سے ترکی

زیر زمین حوض کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے گائڈ نے بتایا کہ اگر اس پانی میں پتھر پھینکیں تو دوبارہ استنبول ضرور آتے ہیں۔ مارکیٹنگ اسٹریٹجی، میں نے سوچا اور گائڈ کا دل رکھنے کو ایک سکہ پانی میں اچھال دیا۔ وہ ان سکوں میں جا کر مل گیا جو صاف پانی کی تہہ میں چمک رہے تھے۔  یہ سب سکے جمع ہو کر منافع میں جاتے ہونگے۔ میں نے دل میں پکے بنئیے کی طرح حساب لگایا۔
کون ایسا ہوگا جو دوبارہ استنبول نہ آنا چاہے۔ اگر کسی کو یہاں ہر گلی میں سینکروں سال پرانی تاریخی عمارت سے دلچسپی نہ ہو تو یہاں کے کھانے اسے کھینچ لائیں گے۔ اور کچھ نہیں توباسفورس کا وہ پل کھینچ لائے گا جو ایشیا کو یوروپ سے ملاتا ہے۔ یہاں آکر پتہ چلے گا کہ جب یوروپ کا حسن ایشیاء کے حسن سے ملتا ہے تو کیا دلکش نقش ابھرتے ہیں۔ استنبول میں شاید دنیا کے خوبصورت ترین لوگ بستے ہیں۔ اتنے خوبصورت چہرے میں نے مغرب میں نہیں دیکھے۔
  اسکے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں گئے اور یہ دیکھا کہ پانی کو سکے دینے کا رواج ہر جگہ ہی ہے۔ کسی زمانے میں جب پانی دیوتا تھا تو اسے راضی رکھنے کے لئے ایک نوجوان لڑکی دینا بھی ایک رواج ہوا کرتا تھا۔ ہر دیوتا کو عورتیں بڑی پسند ہوتی ہیں قربانی کے لئے۔  تمدن میں ترقی کے ساتھ  ساتھ ہر دو کی حیثیئت میں فرق آیا ۔ جدید انسان صرف سکے عطا کرتا ہے وہ بھی اپنی خوشی کے واسطے۔
ٹورنٹو جیسے جدید شہر کے جدید شاپنگ مال میں نصب فوارے کے اردگرد جمع ہو جانے والے پانی میں بھی سکے جھلملا رہے تھے۔  شاید خیال یہ ہوتا ہے کہ پانی میں پیسے ڈالیں اور اپنی کوئ دلی خواہش بھی اسکے ہمراہ ڈال دیں۔ پانی اپنے بہاءو میں اسے قبولیت کے دروازے تک لے جائے گا۔

ایک لمبا عرصہ گذرنے کے بعد اس سکے نے اپنی قیمت ادا کی اور میں ایک دفعہ پھر استنبول میں موجود ہوں۔  رات بھر سفر کی مصروفیت میں رہنے کے بعد اگلا دن بس یونہی سا گذرا۔ موسم کے ساتھ تعلق نبھانے کی کوششیں۔ سارا دن بارش ہوتی رہی۔ درجہ ء حرارت ویسے ہی کم تھا۔ پندرہ ڈگری سینٹی گریڈ۔ کراچی والوں کے لئے سردی ہی ہے لیکن بارش کے بعد استنبول والے بھی گرم کپڑے پہنے نظر آئے۔ یہاں ابھی سردی رخصت نہیں ہوئ۔ 
اس سے اگلے دن لمبی قطارمیں لگ کر نیلی مسجد کے اندر قدم رکھا۔ یہ قطار جوتے اتار کر تھیلی میں رکھنے کے لئے تھی۔ حیرانی ہوئ کہ پچھلی دفعہ تو ایسی کوئ قطار نہ تھی۔ لوگوں کا رش بہت زیادہ تھا۔ وجوہات یہ معلوم ہوئیں کہ ایک تو اتوار تھا اور دوسرے ترکی کے قومی دن کی چھٹی کی وجہ سے مقامی لوگ اور سیاح سبھی موجود تھے۔ مسجد کے اندر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔
 داخلی دروازے پہ پلاسٹک کی تھیلیاں مل رہی تھیں جن میں جوتے ڈال  کر مسجد کے اندر داخل ہو سکتے ہیں بس پہن کر نہیں پھر سکتے۔ یہ اتا ترک کا سیکولر ترکی ہے یہاں ایسی ہی دلچسپ باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مسجد کے احاطے میں اس موقع پہ مختلف پروڈکٹس کے اشتہارات لگے ہوئے تھے لیکن ان میں سے ایک بھی خواتین کے پردے یا جہاد پہ نہیں تھا جو کہ ہمارے ملک کے پسندیدہ موضوعات ہوتے ہیں۔



غیر ملکی خواتین کھلی ٹانگوں اور بیشتر خواتین ننگے سر کے ساتھ مسجد کے اندر موجود تھیں مگر طیب اردگان صاحب نے ابھی تک اس اہم مسئلے کی طرف نظر نہیں کی کہ کیسے مسجد کی حرمت خواتین کی اس حرکت کی وجہ سے خراب ہوتی ہے۔


استنبول تقریباً ویسا ہی ہے جیسا میں نے اسے پہلی دفعہ دیکھا۔ بس اس قہوے والے کی دوکان اپنی جگہ پہ نہیں تھی جہاں ترکش چائے پیتے ہوئے ایک پرندے نے میرے کپڑوں پہ بیٹ کر دی تھی اور میرے ترکش دوست نے اسے خوش نصیبی جانا تھا۔
نوجوان جوڑے اسی طرح ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے پھر رہے ہیں۔ ایکدوسرے کے ہاتھ سہلا رہے ہیں اور کانوں میں سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ انکی ساتھی خواتین میں حجاب اور بغیر حجاب ہر طرح کی خواتین موجود ہیں۔ جدید محبت نے یہ سب رسومات توڑ دی ہیں کم از کم ترکی کو دیکھ کر یہی لگتا ہے۔ ہر طرح کی خواتین کانوں میں ہونے والی سرگوشیوں سے شرماتی ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ شرماتے ہوئے وہ اور زیادہ حسین لگتی ہیں۔
وہی مسجد کے پاس قبلہ ء حاجات  یعنی جام و سبو بھی موجود ہیں۔ اسکی ایک سادی سی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ شہر کے اس حصے میں سب سے زیادہ تاریخی عمارات موجود ہیں مثلاً نیلی مسجد، آیہ صفیاء، ٹوپ کاپی محل، گرانڈ بازار، اسپائس بازار اور پرانے شہر کی فصیلیں سب ایکدوسرے سے قریب ہیں۔ اگر آپ پیدل چلنے کے شوقین ہیں اور ساتھ میں بچے یا بوڑھے ہم سفر موجود نہیں تو بآسانی گھوم پھر کر دیکھ سکتے ہیں۔ اس حصے میں ہوٹل بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ سیاحوں کا وقت بچتا ہے۔ سیاحوں کی اکثریت مغربی معاشرے سے آتی ہے اس لئے  بنتی نہیں ہے بات مئے و ساغر لئے ہوئے۔ اس لئے بھنو پاس آنکھ رکھنی ہی پڑتی ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ سیاح ترکی کی معاشی ترقی میں ایک اہم حیثیئت رکھتے ہیں سیاحت ترکی کی آمدنی کا ایک اہم حصہ ہے۔ حکومت سیاحوں کو مشکلات میں نہیں ڈال سکتی ہے۔ ہمم، لیکن شراب پینے اور بیچنے کی آزادی پورے ترکی کے لئے عام ہے۔ جسے نہیں پینا، وہ بیچتا ضرور ہے مگر پیتا نہیں۔


شہر میں ٹرام بھی چلتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس سے سفر کرتی ہے۔ دنیا کے ہر حصے میں لوگ سستے طریقے سے سفر کرنا چاہتے ہیں۔ مہنگا طریقہ اسی وقت اختیار کرتے ہیں جب حکومت میں بھیڑئیے لوٹ کھسوٹ کے علاوہ کچھ کرنا نہ جانتے ہوں اور لوگ جو کچھ بھی کریں اس میں انکی ذاتی دلچسپی اور مفاد کے علاوہ کچھ اور شامل نہ ہو۔ اس طرح سے کراچی جیسے پونے دو کروڑ آبادی والے شہر میں شہر کے اندر چلنے والی ٹرین کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے۔ اسکی وجہ ٹرانسپورٹ مافیا کو فائدہ پہنچانا رہا۔ اس سے پہلے کراچی میں ٹرام سروس بھی بھٹو کے زمانے میں کچھ اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ختم کی گئ۔ ریل کی پٹٹریاں تک لوگ اکھاڑ کر لے گئے۔ جہاں باقی ہیں وہاں لوگوں نے ناجائز تجاوزات اس طرح پٹٹریوں کے پاس قائم کر لی ہیں کہ آئندہ پچاس سالوں میں ان سے یہ زمین واپس لینا ناممکن نظر آتا ہے۔
بھیڑیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں دور اندیشی اور ویژن کی کمی ہوتی ہے اور وہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی اور ایک عام مرغی میں نہ صرف فرق نہیں کر سکتے بلکہ اس سے مستفید ہونے کے صحیح طریقے بھی نہیں جانتے۔ یہی حال ہماری اسمبلیوں میں موجود بھیڑیوں کا ہے۔ وہ اس ملک سے بہت زیادہ کما سکتے ہیں مگر صرف اسی پہ غدر مچاتے رہتے ہیں جو قدرت انہیں مہیا کر دیتی ہے۔
سفر کی باقی روداد بعد میں موقع ملنے پہ۔ اب تک کے لئے بس اتنا ہی۔  

Wednesday, June 22, 2011

ٹھرکی

شادی کے پندرہ دن بعد ہم دونوں سیر وتفریح کی غرض سے ترکی روانہ ہوئے۔  ہمارا وہاں قیام پندرہ دن کے لئے تھا۔ اس لئے ایک گائڈڈ ٹور لے لیا جس میں چھ شہر شامل تھے۔ یوں ہم ان پندرہ دنوں میں گھڑی پہ نظر رکھے، بسوں اور ٹور گائیڈز کے پیچھے دوڑتے رہے اور ان شہروں میں جابجا بکھری ہوئ تاریخِ کو ازبر کرتے رہے۔  یہ ہمارا ہنی مون نہیں بلکہ اسٹڈی ٹور ثابت ہوا۔
استنبول پہنچنے کے دوسرے دن جب ہم نیلی مسجد، آیہ صوفیہ اور ٹوپ کاپی کا محل دیکھ کر فارغ ہوئے تو سہ  پہر کو ہم استنبول کے گرانڈ بازار کی طرف نکل گئے۔ یہ سب جگہیں ہماری رہائش گاہ اور ایکدوسرے سے اتنے قریب تھیں کہ ہم پیدل ہی چکر لگا رہے تھے۔
جیسے ہی ہم گرانڈ بازار میں داخل ہونے لگے میرے شوہر صاحب نے کہا کہ آپ ذرا اس گلی کو چیک کریں میں ابھی آتا ہوں۔ میں گلی میں سیدھی چلتی چلی گئ۔ گرانڈ بازار خاصہ بڑا بازار ہے کہا جاتا ہے کہ اس مِں چار ہزار سے زائد دوکانیں ہیں۔ خوبصورتی اس بازار کی یہ ہے کہ ایک چھت تلے دور تک پہلا ہوا ہے اسکی چھت میں گنبد اور محرابیں بنی ہوئ ہیں۔ جن پہ خوبصورت، رنگین نقش و نگار ہیں۔ جو کہ ترک قدیم تعمیری ثقافت کا حصہ ہے۔
صراط مستقیم پہ کوئ زیادہ دور مستقل مزاجی سے چل پائے یہ کم ہوتا ہے۔ راستے کے  موڑ کے اسرار اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔
میں بھی ایک گلی میں مڑ گئ۔
دوکاندار آوازیں لگا لگا کر اپنی جانب متوجہ کرانا چاہتے تھے۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ میں ہوں کہاں کی۔ انکی اکثریت نجانے کیوں مجھے عرب سمجھ رہی تھی اور وہ بار بار کہہ رہے تھے اسماء، اسماء۔ جیسے ہمارے یہاں پٹھان ہر نوجوان لڑکی کو شمائلہ کہتے ہیں۔
اسی شور میں ایک دوکاندار نے کہا آر یو فرام پاکستان، کراچی۔ میں خوشی میں رک گئ۔ ترکی میں زبان بڑا مسئلہ ہے۔ یوروپی نقوش رکھنے والے ترک انگریزی سے تقریباً نابلد ہیں۔ استنبول، ترکی کا ایک بڑا سیاحتی شہر ہے اس سمیت باقی پانچ شہروں میں بھی زبان ایک مسئلہ رہی۔ خریداری کے لئے کیلکولیٹر استعمال ہوتا ہے۔ بیشتر لوگ انگریزی گنتی بھی نہیں جانتے۔ یہ دوکاندار دو تین دفعہ کراچی آ چکا تھا۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں جو بتایا وہ یہ تھا کہ وہ کراچی سے قالین لا کر یہاں بیچتا ہے۔ اسکے علاوہ زینب مارکیٹ ، کراچی سے چیزیں لے کر آتا ہے اس سے انہیں بڑی آمدنی ہوتی ہے۔
خیر جناب، اس دوکاندار سے باتیں بگھارنے کے بعد جب میں پلٹی تو وہی ہوا ، جسکی توقع کی جانی چاہئیے تھی۔ میں راستہ بھول چکی تھی۔
کوئ انگریزی نہیں جانتا تھا، زیادہ لوگوں سے راستہ پوچھ کر میں اپنے آپکو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی اس لئے طے کیا کہ باہر جانے کے لئے کسی ایک سیدھے راستے پہ چلتے چلے جانا چاہئیے۔ ترکیب کامیاب رہی۔ میں بازار سے باہر نکل آئ۔ لیکن یہ وہ دروازہ نہیں تھا جہاں سے اندر داخل ہوئے تھے۔
تھوڑی دور چلنے کے بعد کوشش کی کہ نیلی مسجد کے مینار نظر آجائیں۔ استنبول کی پہچان خوب صورت نیلی مسجد ہے۔ لیکن زمین آسمان کی سرحدیں اس نظارے  سے محروم تھیں۔ یعنی میں خاصی دور نکل آئی تھی۔
اب رسک لینا ہی پڑے گا۔ میں نے ایک جوس کارنر قسم کی دوکان پہ رک کر ایک جوس کا ڈبہ لیا اور اس بہانے دوکاندار سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ نیلی مسجد کس طرف ہے۔ اسے انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ اس نے ایک اور شخص کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بھی اشاروں ہی سے سمجھا ۔ اور پھر اشاروں میں اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔ سمجھ میں آئ کہ اس طرف سیدھے چلتے رہنا ہے۔
کوئ دس منٹ چلنے کے بعد نیلی مسجد کے مینار نظر آئے۔ اب میں ہوٹل تک پہنچ سکتی تھی۔ خاصی دیر ہو چکی تھی اور میرا خیال تھا کہ موصوف ہوٹل پہنچ چکے ہونگے۔ ریسیپشن سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ابھی نہیں آئے۔ چابی میرے پاس نہیں تھی۔ متعلقہ شخص بھی وہاں نہیں تھا۔ میں لابی میں رک گئ۔
وہاں ایک پندرہ سولہ سال کی لڑکی اپنی ماں کے ساتھ موجود تھی۔ ان سے باتیں شروع ہوئیں۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں اپنے شوہر کو گرانڈ بازار میں کھو آئ ہوں تو بے اختیار زور زور سے ہنسنے لگیں۔ پندرہ دن کی دولہن شوہر گم کر کے آرہی ہے۔ ماں اپنی بیٹی کی ایسی ہی باتیں بتانے لگی وہ یہودی النسل خواتین اسرائیل سے گرمیوں کی چھٹیاں  گذارنے آئے ہوئے تھیں۔
پاکستان میں تو ہم نے صرف را کے ایجنٹوں کا نام سنا ہے کبھی کسی یہودی سے ملاقات نہ ہونے پائ۔
تھوڑی دیر میں متعلقہ شخص آیا اور مجھے کمرے تک چھوڑ گیا کہ وہ چابیوں کا نچارج تھا۔
میں جا کر بالکونی میں کھڑی ہو گئ۔ تاکہ شوہر صاحب کو آتے ہوئے دیکھ سکوں۔ عقل مندی کا تقاضہ تھا کہ وہ ہوٹل واپس آئیں۔ نیچے سڑک پہ نظر جمائے جمائے مجھے احساس ہوا کہ ترکی ہمارے ملک سے کس قدر مختلف ہے حالانکہ یہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ سڑک پہ خواتین مغربی مختصرلباس میں گھوم رہی ہیں۔ ایک لڑکی منی اسکرٹ، گہرے گلے اور بغیر آستین کی ٹی شرٹ پہنے اپنے ساتھی مرد کی کمر میں ہاتھ ڈالے جا رہی ہے۔ اسی روڈ پہ ایک لڑکی عبایہ اور اسکارف پہنے اپنے ساتھی مرد کا ہاتھ پکڑے چل رہی ہے جبکہ مرد کا ہاتھ اسکی کمر میں حمائل ہے۔ سر عام اپنی خواتین سے التفات دکھانا چاہے وہ حجاب میں ہوں یا بے حجاب، محرم ہوں یا نامحرم ترکی میں برا نہیں سمجھا جاتا۔ روڈ کے کنارے گھنے درختوں کے نیچے نوجوان جوڑے ایک دوسرے کی بانہوں میں گم ہیں۔ وہ اتنے گم تھے کہ، انکے چہرے نظر نہیں آرہے تھے۔
ایک  گھنے درخت کے نیچے ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ نظر آرہا ہے۔ ایسے رسیٹورنٹ استنبول میں بہت ہیں۔ جن میں اچھی شراب اور جوس سب دستیاب ہیں۔ ارد گرد کی میزوں پہ لوگ اپنے مطلب کے مشروب سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ 
یہ اتنی عجیب جگہ ہے کہ ٹوپ کاپی محل جسے ایک میوزیم میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ اور اسکے ایک حصے میں اسلامی نوادرات کا مجموعہ ہے۔ جس میں رسول پاک کے موئے مبارک سے لیکر وہ قرآن پاک موجود ہے جسکی تلاوت حضرت عثمان وقت شہادت کر رہے تھے۔ اور اس حصے میں احترام کے پیش نظر ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت ہوتی رہتی ہے۔ باہر اس سے چند گز کے فاصلے پہ ریسٹورنٹ میں لوگ ترکی کے مشہور ڈونلڈ اور شیش کباب بیئر اور سرخ شراب کے ساتھ بیٹھے کھا رہے ہیں۔ ادھر نیلی مسجد کے اردگرد پھیلے پارک میں نوجوان انگوروں کی بیلوں تلے ایک دوسرے کو فسانہ ء عشق سنانے میں مصروف۔
شاید اسی کے لئے شاعر نے کہا کہ 
بھوں پاس قبلہ ء حاجات چاہئیے
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہئیے
ترکی تو ٹھرکی ہے۔ کسی نے ترکی جانے سے پہلے میرے کان میں سرگوشی کی تھی۔
 یہیں ایسی دوکانیں بھی نظر آتی ہیں جہاں دیواروں پہ اسلامی طغرے نصب ہیں اور جہاں کسی بھی قسم کا نشہ آور مشروب نہیں ملتا۔ اذان تمام مساجد سے ایک وقت میں ہوتی ہے اور اسکا وقت مقرر ہے۔ تمام مساجد میں خواتین کے لئے جگہ موجود ہے۔ تمام مساجد کے ساتھ صاف ستھرے وضو خانے موجود ہیں۔ تمام وضو خانوں کے ساتھ صاف ستھرے بیت الخلاء موجود ہیں۔
چھ مختلف شہروں کو بسوں کے سفر کے ذریعے دیکھا۔ ترکی ایک جدید ترقی یافتہ ملک ہے۔ ترکی ترقی میں کسی مغربی ملک سے کم نہیں۔ سیاحتی نظام اتنا مضبوط ہے کہ کسی جگہ ہمیں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں ہوئ۔ کوئ افراتفری نہیں۔ ٹرانسپورٹ انتہائ منظم،  روڈ صاف ستھرے، ہوٹلز صاف ستھرے ، کھانا بہترین، جو انکے ٹور میں موجود ہے وہ سب مہیا ہوگا۔
  سوائے کونیہ کے جہاں مولانا رومی کا احترام بہت زیادہ ہے۔ کسی اور شہر میں سر عام شراب پینے پہ کوئ منادی نہیں۔ اور اناطولیہ کا گائڈ کونیہ کے لوگوں کو منافق کہتا ہے۔ گھروں میں شراب پیتے ہیں باہر نہیں۔
آج مجھے ترکی پھر یاد آیا۔ جب میں دیکھتی ہوں کہ پاکستان کے شدت پسند مذہبی عناصر ترکی کے حالیہ الیکشن میں اسلام پسندوں کی لگاتار تیسری بار کامیاب ہونے کی خوشی کواپنی فتح سمجھتے ہیں ۔
ترکی کی اسلام پسند حکومت اپنے عوام کی مذہبی طرز زندگی پہ زور زبردستی نہیں دکھاتی۔ وہ مسجد کے زیر سایہ خرابات دینے کو معیوب نہیں سمجھتی۔ کیا ایسی اسلام پسندی ہمارے مذہبی حلقوں کے حلق سے نیچے اتر سکتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ترکی میں تیسری بار اسلام پسندوں کی آنے والی حکومت کا منشور کیا ہے۔
جسٹس پارٹی کے طیب اردگان ،  ترکی کے موجودہ وزیر اعظم اپنا ویژن ۲۰۲۳پیش کرتے ہیں۔ 
اس کے تحت وہ ترکی کو دنیا کا بے مثال ملک بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ترکی کو دنیا کی پہلی دس معیشتوں میں لا کر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ برآمدات میں اضافہ، اوسط آمدنی میں اضافہ، غیر ملکی تجارت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ جسکے نتیجے میں توقع ہے کہ مزید تین کروڑ نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ اس منصوبے میں توانائ بڑھانے اور بچانے کے منصوبے شامل ہیں۔ خارجہ پالیسی کے لئے ترکی کو یوروپی یونین کا فعال ترین کارکن بنایا جائے گا۔ وہ یوروپی یونین جو ترکی کو یوروپ کا حصہ تسلیم کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ ترکی عالمی امن و استحکام کو بڑھانے میں اپنا فعال ترین کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اسکے تحت عوام کے لئے معالجین یعنی ڈاکٹرز  کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا اس ویژن میں یہ چیز شامل ہے کہ کوئ ایک ترک شہری بھی ایسا نہ ہو جسےہیلتھ انشورنس حاصل نہ ہو۔ٹرانسپورٹ کے شعبے میں گیارہ ہزار کلو میٹر ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ ہے۔ایسی بندرگاہ بنانے کا منصوبہ ہے جو دنیا کی پہلی دس بندر گاہوں میں شامل ہو۔ ہوائ جہاز کہ صنعت میں خود کفالت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دو ہزار تئیس تک ترکی کو دنیا کا پانچوں بڑا سیاحتی مرکز بنایا جائے گا۔ جس سے اسے پچاس ارب ڈالر کا ریوینیو ملے گا۔
یہ پورا ویژن، ترکی کو معاشی، سطح پہ مضبوط بنانے کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔ کساد بازاری کے اس دور میں جب دہشت گردی اور جنگ کی وجہ سے ہماری معیشت بد حالی کا شکار ہے۔ ترکی اس وقت دنیا کی بلند ہوتی ہوئ معیشتوں میں سے ایک ہے۔
اس ویژن دو ہزار تئیس میں جو ترکی کی اسلام پسند جماعت کی طرف سے پیش کیا گیا ہے ایسی کوئ ایک شق نظر نہیں آتی جس میں ملک میں نظام شریعت کے قیام زور دیا گیا ہو۔ جس میں جہاد اور جہادی قوتوں کی پشت پناہی کا عزم کیا گیا ہو۔ جس میں دفاعی طاقت کو بڑھانے کا اظہار ہو۔  جس میں اسکولوں یا تعلیمی سطح پہ نصاب کو اسلامی بنانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔ جس میں خواتین کو چادر اور چار دیواری میں بند کرنے کا عندیہ دیا گیا ہو۔ جس میں مغربی قوتوں سے نفرت کا اظہار کیا گیا ہو۔
ایک ایسے ترکی میں جو اب سے چند سال پہلے میں نے دیکھا اور جو اب بھی کم و بیش ایسا ہی ہے کہ میرے ایک عزیز پچھلے سال وہاں گئے اور اسے ویسا ہی پایا۔ جیسا میں نے دیکھا تھا۔ اسلام پسندوں کی کامیابی کیا وہ معنی رکھتی ہے جو ہمارے یہاں کے شدت پسند سمجھ رہے ہیں اور سمجھانا چاہتے ہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ ہمارے مذہب پرست وہاں کی عام زندگی کو دیکھیں تو ترکوں کے اسلام پہ لعنت بھیج کر فی الفور انہیں کافر قرار دے دیں گے۔
میں تو سمجھتی ہوں کہ ہم میں سے ہر وہ شخص جو ترکی جانے کے وسائل برداشت کر سکتا ہو اسے ضرور صرف چار دن ہی سہی استنبول میں ضرور گذارنے چاہئیں۔ بالخصوص وہ جو شدت پسندوں سے ہمدردی کا رجحان رکھتے ہیں۔ انہیں وہاں جا کر اندازہ ہوگا کہ باوجود تمام آزادی اور مذہب کے عدم پروپیگینڈے کے ترکی میں مذہب پسند اپنی مرضی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ اور غیر مذہب پسند اپنی مرضی کی۔ ترکی ایک سیکولر ملک ہے۔
کہیں پر بھی لوگوں نے ہمیں اس وجہ سے اہمیت نہیں دی کہ ہم پاکستانی مسلمان ہیں۔ کسی نے ہم سے ہمارا فقہ نہیں پوچھا۔ کسی نے ہم سے دینی مسائل پہ بات نہیں کی۔ کسی کو فکر نہیں تھی کہ ہم نماز پڑھتے ہیں یا نہیں، ہم شراب پیتے ہیں یا نہیں۔ میں سر پہ دوپٹہ اوڑھتی ہوں یا نہیں۔ کوئ میری نماز کی وجہ سے مجھ پہ صدقے واری نہیں ہو رہا تھا۔ کوئ مجھے شراب نہ پینے کی وجہ سے ستائشی نظروں سے نہیں دیکھ رہا تھا۔  کسی کو ملت اسلامیہ کے پارہ پارہ ہوجانے کا صدمہ نہیں تھا۔ کسی کو خلافت کی تجدید سے دلچسپی نہیں تھی۔
یہ بھی حیرانی کی بات ہے جسٹس پارٹی نے الیکشن کے دوران مذہب کو اپنی تشہیری مہم میں استعمال نہیں کیا۔ بلکہ انکا موٹو ترکی کی مجموعی ترقی رہا۔
کیا یہاں مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں مذہبی جماعتیں کیا رول ادا کرتی ہیں اور وہ ملکی سطح پہ کسی بھی قسم کے ویژن سے کیسے بالکل محروم ہیں۔ اتنی محروم ہیں کہ ایسا کوئ قانون بنانے میں مدد نہیں کر سکتیں جسکی رو سے خواتین کو سر عام برہنہ پھرانے والے کے لئے عبرت ناک سزا رکھی جا سکے یا خواتین پہ تیزاب پھینکنے والوں کو خوفناک انجام کے سامنے کا ڈر ہو۔ درحقیقت وہ اور انکے پیروکار ایسے واقعات کی مذمت تک کرنے سے گھبراتے ہیں۔ یہ مذہبی جماعتیں نوجوانوں کو ملک کی ترقی کی توانائ بنانے کے بجائے اپنے مفادات کی جنگ کو جہاد کا نام دے کر ان نوجوانوں کو اس کا ایندھن بناتی ہیں۔ 
میں حیران ہوتی ہوں۔ جب یہ لوگ ترکی کے اسلام پسندوں کی ترکی میں فتح پہ تالیاں بجاتے ہیں تو آخر یہ کیا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ کیا سوچتے ہیں یہ لوگ؟  سمجھ میں نہیں آتا کہ ٹھرکی کون ہے؟