زیر زمین حوض کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے گائڈ نے بتایا کہ اگر اس پانی میں پتھر پھینکیں تو دوبارہ استنبول ضرور آتے ہیں۔ مارکیٹنگ اسٹریٹجی، میں نے سوچا اور گائڈ کا دل رکھنے کو ایک سکہ پانی میں اچھال دیا۔ وہ ان سکوں میں جا کر مل گیا جو صاف پانی کی تہہ میں چمک رہے تھے۔ یہ سب سکے جمع ہو کر منافع میں جاتے ہونگے۔ میں نے دل میں پکے بنئیے کی طرح حساب لگایا۔
کون ایسا ہوگا جو دوبارہ استنبول نہ آنا چاہے۔ اگر کسی کو یہاں ہر گلی میں سینکروں سال پرانی تاریخی عمارت سے دلچسپی نہ ہو تو یہاں کے کھانے اسے کھینچ لائیں گے۔ اور کچھ نہیں توباسفورس کا وہ پل کھینچ لائے گا جو ایشیا کو یوروپ سے ملاتا ہے۔ یہاں آکر پتہ چلے گا کہ جب یوروپ کا حسن ایشیاء کے حسن سے ملتا ہے تو کیا دلکش نقش ابھرتے ہیں۔ استنبول میں شاید دنیا کے خوبصورت ترین لوگ بستے ہیں۔ اتنے خوبصورت چہرے میں نے مغرب میں نہیں دیکھے۔
اسکے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں گئے اور یہ دیکھا کہ پانی کو سکے دینے کا رواج ہر جگہ ہی ہے۔ کسی زمانے میں جب پانی دیوتا تھا تو اسے راضی رکھنے کے لئے ایک نوجوان لڑکی دینا بھی ایک رواج ہوا کرتا تھا۔ ہر دیوتا کو عورتیں بڑی پسند ہوتی ہیں قربانی کے لئے۔ تمدن میں ترقی کے ساتھ ساتھ ہر دو کی حیثیئت میں فرق آیا ۔ جدید انسان صرف سکے عطا کرتا ہے وہ بھی اپنی خوشی کے واسطے۔
ٹورنٹو جیسے جدید شہر کے جدید شاپنگ مال میں نصب فوارے کے اردگرد جمع ہو جانے والے پانی میں بھی سکے جھلملا رہے تھے۔ شاید خیال یہ ہوتا ہے کہ پانی میں پیسے ڈالیں اور اپنی کوئ دلی خواہش بھی اسکے ہمراہ ڈال دیں۔ پانی اپنے بہاءو میں اسے قبولیت کے دروازے تک لے جائے گا۔
ایک لمبا عرصہ گذرنے کے بعد اس سکے نے اپنی قیمت ادا کی اور میں ایک دفعہ پھر استنبول میں موجود ہوں۔ رات بھر سفر کی مصروفیت میں رہنے کے بعد اگلا دن بس یونہی سا گذرا۔ موسم کے ساتھ تعلق نبھانے کی کوششیں۔ سارا دن بارش ہوتی رہی۔ درجہ ء حرارت ویسے ہی کم تھا۔ پندرہ ڈگری سینٹی گریڈ۔ کراچی والوں کے لئے سردی ہی ہے لیکن بارش کے بعد استنبول والے بھی گرم کپڑے پہنے نظر آئے۔ یہاں ابھی سردی رخصت نہیں ہوئ۔
اس سے اگلے دن لمبی قطارمیں لگ کر نیلی مسجد کے اندر قدم رکھا۔ یہ قطار جوتے اتار کر تھیلی میں رکھنے کے لئے تھی۔ حیرانی ہوئ کہ پچھلی دفعہ تو ایسی کوئ قطار نہ تھی۔ لوگوں کا رش بہت زیادہ تھا۔ وجوہات یہ معلوم ہوئیں کہ ایک تو اتوار تھا اور دوسرے ترکی کے قومی دن کی چھٹی کی وجہ سے مقامی لوگ اور سیاح سبھی موجود تھے۔ مسجد کے اندر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔
داخلی دروازے پہ پلاسٹک کی تھیلیاں مل رہی تھیں جن میں جوتے ڈال کر مسجد کے اندر داخل ہو سکتے ہیں بس پہن کر نہیں پھر سکتے۔ یہ اتا ترک کا سیکولر ترکی ہے یہاں ایسی ہی دلچسپ باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مسجد کے احاطے میں اس موقع پہ مختلف پروڈکٹس کے اشتہارات لگے ہوئے تھے لیکن ان میں سے ایک بھی خواتین کے پردے یا جہاد پہ نہیں تھا جو کہ ہمارے ملک کے پسندیدہ موضوعات ہوتے ہیں۔
غیر ملکی خواتین کھلی ٹانگوں اور بیشتر خواتین ننگے سر کے ساتھ مسجد کے اندر موجود تھیں مگر طیب اردگان صاحب نے ابھی تک اس اہم مسئلے کی طرف نظر نہیں کی کہ کیسے مسجد کی حرمت خواتین کی اس حرکت کی وجہ سے خراب ہوتی ہے۔
استنبول تقریباً ویسا ہی ہے جیسا میں نے اسے پہلی دفعہ دیکھا۔ بس اس قہوے والے کی دوکان اپنی جگہ پہ نہیں تھی جہاں ترکش چائے پیتے ہوئے ایک پرندے نے میرے کپڑوں پہ بیٹ کر دی تھی اور میرے ترکش دوست نے اسے خوش نصیبی جانا تھا۔
نوجوان جوڑے اسی طرح ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے پھر رہے ہیں۔ ایکدوسرے کے ہاتھ سہلا رہے ہیں اور کانوں میں سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ انکی ساتھی خواتین میں حجاب اور بغیر حجاب ہر طرح کی خواتین موجود ہیں۔ جدید محبت نے یہ سب رسومات توڑ دی ہیں کم از کم ترکی کو دیکھ کر یہی لگتا ہے۔ ہر طرح کی خواتین کانوں میں ہونے والی سرگوشیوں سے شرماتی ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ شرماتے ہوئے وہ اور زیادہ حسین لگتی ہیں۔
وہی مسجد کے پاس قبلہ ء حاجات یعنی جام و سبو بھی موجود ہیں۔ اسکی ایک سادی سی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ شہر کے اس حصے میں سب سے زیادہ تاریخی عمارات موجود ہیں مثلاً نیلی مسجد، آیہ صفیاء، ٹوپ کاپی محل، گرانڈ بازار، اسپائس بازار اور پرانے شہر کی فصیلیں سب ایکدوسرے سے قریب ہیں۔ اگر آپ پیدل چلنے کے شوقین ہیں اور ساتھ میں بچے یا بوڑھے ہم سفر موجود نہیں تو بآسانی گھوم پھر کر دیکھ سکتے ہیں۔ اس حصے میں ہوٹل بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ سیاحوں کا وقت بچتا ہے۔ سیاحوں کی اکثریت مغربی معاشرے سے آتی ہے اس لئے بنتی نہیں ہے بات مئے و ساغر لئے ہوئے۔ اس لئے بھنو پاس آنکھ رکھنی ہی پڑتی ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ سیاح ترکی کی معاشی ترقی میں ایک اہم حیثیئت رکھتے ہیں سیاحت ترکی کی آمدنی کا ایک اہم حصہ ہے۔ حکومت سیاحوں کو مشکلات میں نہیں ڈال سکتی ہے۔ ہمم، لیکن شراب پینے اور بیچنے کی آزادی پورے ترکی کے لئے عام ہے۔ جسے نہیں پینا، وہ بیچتا ضرور ہے مگر پیتا نہیں۔
شہر میں ٹرام بھی چلتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس سے سفر کرتی ہے۔ دنیا کے ہر حصے میں لوگ سستے طریقے سے سفر کرنا چاہتے ہیں۔ مہنگا طریقہ اسی وقت اختیار کرتے ہیں جب حکومت میں بھیڑئیے لوٹ کھسوٹ کے علاوہ کچھ کرنا نہ جانتے ہوں اور لوگ جو کچھ بھی کریں اس میں انکی ذاتی دلچسپی اور مفاد کے علاوہ کچھ اور شامل نہ ہو۔ اس طرح سے کراچی جیسے پونے دو کروڑ آبادی والے شہر میں شہر کے اندر چلنے والی ٹرین کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے۔ اسکی وجہ ٹرانسپورٹ مافیا کو فائدہ پہنچانا رہا۔ اس سے پہلے کراچی میں ٹرام سروس بھی بھٹو کے زمانے میں کچھ اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ختم کی گئ۔ ریل کی پٹٹریاں تک لوگ اکھاڑ کر لے گئے۔ جہاں باقی ہیں وہاں لوگوں نے ناجائز تجاوزات اس طرح پٹٹریوں کے پاس قائم کر لی ہیں کہ آئندہ پچاس سالوں میں ان سے یہ زمین واپس لینا ناممکن نظر آتا ہے۔
بھیڑیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں دور اندیشی اور ویژن کی کمی ہوتی ہے اور وہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی اور ایک عام مرغی میں نہ صرف فرق نہیں کر سکتے بلکہ اس سے مستفید ہونے کے صحیح طریقے بھی نہیں جانتے۔ یہی حال ہماری اسمبلیوں میں موجود بھیڑیوں کا ہے۔ وہ اس ملک سے بہت زیادہ کما سکتے ہیں مگر صرف اسی پہ غدر مچاتے رہتے ہیں جو قدرت انہیں مہیا کر دیتی ہے۔
سفر کی باقی روداد بعد میں موقع ملنے پہ۔ اب تک کے لئے بس اتنا ہی۔