Wednesday, April 25, 2012

پاکستان سے ترکی

زیر زمین حوض کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے گائڈ نے بتایا کہ اگر اس پانی میں پتھر پھینکیں تو دوبارہ استنبول ضرور آتے ہیں۔ مارکیٹنگ اسٹریٹجی، میں نے سوچا اور گائڈ کا دل رکھنے کو ایک سکہ پانی میں اچھال دیا۔ وہ ان سکوں میں جا کر مل گیا جو صاف پانی کی تہہ میں چمک رہے تھے۔  یہ سب سکے جمع ہو کر منافع میں جاتے ہونگے۔ میں نے دل میں پکے بنئیے کی طرح حساب لگایا۔
کون ایسا ہوگا جو دوبارہ استنبول نہ آنا چاہے۔ اگر کسی کو یہاں ہر گلی میں سینکروں سال پرانی تاریخی عمارت سے دلچسپی نہ ہو تو یہاں کے کھانے اسے کھینچ لائیں گے۔ اور کچھ نہیں توباسفورس کا وہ پل کھینچ لائے گا جو ایشیا کو یوروپ سے ملاتا ہے۔ یہاں آکر پتہ چلے گا کہ جب یوروپ کا حسن ایشیاء کے حسن سے ملتا ہے تو کیا دلکش نقش ابھرتے ہیں۔ استنبول میں شاید دنیا کے خوبصورت ترین لوگ بستے ہیں۔ اتنے خوبصورت چہرے میں نے مغرب میں نہیں دیکھے۔
  اسکے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں گئے اور یہ دیکھا کہ پانی کو سکے دینے کا رواج ہر جگہ ہی ہے۔ کسی زمانے میں جب پانی دیوتا تھا تو اسے راضی رکھنے کے لئے ایک نوجوان لڑکی دینا بھی ایک رواج ہوا کرتا تھا۔ ہر دیوتا کو عورتیں بڑی پسند ہوتی ہیں قربانی کے لئے۔  تمدن میں ترقی کے ساتھ  ساتھ ہر دو کی حیثیئت میں فرق آیا ۔ جدید انسان صرف سکے عطا کرتا ہے وہ بھی اپنی خوشی کے واسطے۔
ٹورنٹو جیسے جدید شہر کے جدید شاپنگ مال میں نصب فوارے کے اردگرد جمع ہو جانے والے پانی میں بھی سکے جھلملا رہے تھے۔  شاید خیال یہ ہوتا ہے کہ پانی میں پیسے ڈالیں اور اپنی کوئ دلی خواہش بھی اسکے ہمراہ ڈال دیں۔ پانی اپنے بہاءو میں اسے قبولیت کے دروازے تک لے جائے گا۔

ایک لمبا عرصہ گذرنے کے بعد اس سکے نے اپنی قیمت ادا کی اور میں ایک دفعہ پھر استنبول میں موجود ہوں۔  رات بھر سفر کی مصروفیت میں رہنے کے بعد اگلا دن بس یونہی سا گذرا۔ موسم کے ساتھ تعلق نبھانے کی کوششیں۔ سارا دن بارش ہوتی رہی۔ درجہ ء حرارت ویسے ہی کم تھا۔ پندرہ ڈگری سینٹی گریڈ۔ کراچی والوں کے لئے سردی ہی ہے لیکن بارش کے بعد استنبول والے بھی گرم کپڑے پہنے نظر آئے۔ یہاں ابھی سردی رخصت نہیں ہوئ۔ 
اس سے اگلے دن لمبی قطارمیں لگ کر نیلی مسجد کے اندر قدم رکھا۔ یہ قطار جوتے اتار کر تھیلی میں رکھنے کے لئے تھی۔ حیرانی ہوئ کہ پچھلی دفعہ تو ایسی کوئ قطار نہ تھی۔ لوگوں کا رش بہت زیادہ تھا۔ وجوہات یہ معلوم ہوئیں کہ ایک تو اتوار تھا اور دوسرے ترکی کے قومی دن کی چھٹی کی وجہ سے مقامی لوگ اور سیاح سبھی موجود تھے۔ مسجد کے اندر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔
 داخلی دروازے پہ پلاسٹک کی تھیلیاں مل رہی تھیں جن میں جوتے ڈال  کر مسجد کے اندر داخل ہو سکتے ہیں بس پہن کر نہیں پھر سکتے۔ یہ اتا ترک کا سیکولر ترکی ہے یہاں ایسی ہی دلچسپ باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مسجد کے احاطے میں اس موقع پہ مختلف پروڈکٹس کے اشتہارات لگے ہوئے تھے لیکن ان میں سے ایک بھی خواتین کے پردے یا جہاد پہ نہیں تھا جو کہ ہمارے ملک کے پسندیدہ موضوعات ہوتے ہیں۔



غیر ملکی خواتین کھلی ٹانگوں اور بیشتر خواتین ننگے سر کے ساتھ مسجد کے اندر موجود تھیں مگر طیب اردگان صاحب نے ابھی تک اس اہم مسئلے کی طرف نظر نہیں کی کہ کیسے مسجد کی حرمت خواتین کی اس حرکت کی وجہ سے خراب ہوتی ہے۔


استنبول تقریباً ویسا ہی ہے جیسا میں نے اسے پہلی دفعہ دیکھا۔ بس اس قہوے والے کی دوکان اپنی جگہ پہ نہیں تھی جہاں ترکش چائے پیتے ہوئے ایک پرندے نے میرے کپڑوں پہ بیٹ کر دی تھی اور میرے ترکش دوست نے اسے خوش نصیبی جانا تھا۔
نوجوان جوڑے اسی طرح ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے پھر رہے ہیں۔ ایکدوسرے کے ہاتھ سہلا رہے ہیں اور کانوں میں سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ انکی ساتھی خواتین میں حجاب اور بغیر حجاب ہر طرح کی خواتین موجود ہیں۔ جدید محبت نے یہ سب رسومات توڑ دی ہیں کم از کم ترکی کو دیکھ کر یہی لگتا ہے۔ ہر طرح کی خواتین کانوں میں ہونے والی سرگوشیوں سے شرماتی ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ شرماتے ہوئے وہ اور زیادہ حسین لگتی ہیں۔
وہی مسجد کے پاس قبلہ ء حاجات  یعنی جام و سبو بھی موجود ہیں۔ اسکی ایک سادی سی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ شہر کے اس حصے میں سب سے زیادہ تاریخی عمارات موجود ہیں مثلاً نیلی مسجد، آیہ صفیاء، ٹوپ کاپی محل، گرانڈ بازار، اسپائس بازار اور پرانے شہر کی فصیلیں سب ایکدوسرے سے قریب ہیں۔ اگر آپ پیدل چلنے کے شوقین ہیں اور ساتھ میں بچے یا بوڑھے ہم سفر موجود نہیں تو بآسانی گھوم پھر کر دیکھ سکتے ہیں۔ اس حصے میں ہوٹل بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ سیاحوں کا وقت بچتا ہے۔ سیاحوں کی اکثریت مغربی معاشرے سے آتی ہے اس لئے  بنتی نہیں ہے بات مئے و ساغر لئے ہوئے۔ اس لئے بھنو پاس آنکھ رکھنی ہی پڑتی ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ سیاح ترکی کی معاشی ترقی میں ایک اہم حیثیئت رکھتے ہیں سیاحت ترکی کی آمدنی کا ایک اہم حصہ ہے۔ حکومت سیاحوں کو مشکلات میں نہیں ڈال سکتی ہے۔ ہمم، لیکن شراب پینے اور بیچنے کی آزادی پورے ترکی کے لئے عام ہے۔ جسے نہیں پینا، وہ بیچتا ضرور ہے مگر پیتا نہیں۔


شہر میں ٹرام بھی چلتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس سے سفر کرتی ہے۔ دنیا کے ہر حصے میں لوگ سستے طریقے سے سفر کرنا چاہتے ہیں۔ مہنگا طریقہ اسی وقت اختیار کرتے ہیں جب حکومت میں بھیڑئیے لوٹ کھسوٹ کے علاوہ کچھ کرنا نہ جانتے ہوں اور لوگ جو کچھ بھی کریں اس میں انکی ذاتی دلچسپی اور مفاد کے علاوہ کچھ اور شامل نہ ہو۔ اس طرح سے کراچی جیسے پونے دو کروڑ آبادی والے شہر میں شہر کے اندر چلنے والی ٹرین کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے۔ اسکی وجہ ٹرانسپورٹ مافیا کو فائدہ پہنچانا رہا۔ اس سے پہلے کراچی میں ٹرام سروس بھی بھٹو کے زمانے میں کچھ اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ختم کی گئ۔ ریل کی پٹٹریاں تک لوگ اکھاڑ کر لے گئے۔ جہاں باقی ہیں وہاں لوگوں نے ناجائز تجاوزات اس طرح پٹٹریوں کے پاس قائم کر لی ہیں کہ آئندہ پچاس سالوں میں ان سے یہ زمین واپس لینا ناممکن نظر آتا ہے۔
بھیڑیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں دور اندیشی اور ویژن کی کمی ہوتی ہے اور وہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی اور ایک عام مرغی میں نہ صرف فرق نہیں کر سکتے بلکہ اس سے مستفید ہونے کے صحیح طریقے بھی نہیں جانتے۔ یہی حال ہماری اسمبلیوں میں موجود بھیڑیوں کا ہے۔ وہ اس ملک سے بہت زیادہ کما سکتے ہیں مگر صرف اسی پہ غدر مچاتے رہتے ہیں جو قدرت انہیں مہیا کر دیتی ہے۔
سفر کی باقی روداد بعد میں موقع ملنے پہ۔ اب تک کے لئے بس اتنا ہی۔  

10 comments:

  1. پھر ترکی ؟
    ہممم .... کچھ کوہ ارارات تک بھی کبھی پروگرام بنا کہ نہیں ؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ کوہ ارارات کا انگریزی نام کیا ہے۔ نہیں وہاں کا ارادہ نہیں ہے۔ دراصل یہ ہمارا پلانڈ پروگرام نہیں ہمیں دوسروں کے تابع رہنا پڑے گا۔

      Delete
  2. آپ کی یہ پوسٹ سیارہ پر اپ ڈیٹ نہیں ہوسکی۔ پتہ لگائیں کیا دوبارہ کوئی بلاگی گڑبڑ ہوگئی ہے ؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. ابھی اس ساری معلومات کا وقت نہیں ہے۔ پاکستان واپس آکر ہی چیک کریں گے کیا مسئلہ ہے۔

      Delete
  3. استنبول اگر ترکی کے یورپی سرے پر واقع ہے تو کوہ ارارات مخالف سمت میں ایشیائے کوچک پر ایران اور آرمینیا کی سرحدوں پر واقع ہے۔ سنتے ہیں کہ ترکی کی اصل سیر تو یہ ہے کہ ایک سرے سے شروع کیا جائے اور وادی اناطولیا سے گذرتے دوسرے سرے پر اختتام کیا جائے۔ مستنصر حسین تارڑ نے اپنے کسی سفرنامے میں ارارات کا انتہائی دلفریت نقشہ کھینچا ہے۔
    ارارات کا انگریزی نام ارارات ہی ہے۔ وکی پیڈیا کے اس صفحہ پر کچھ مزید معلومات بھی دستیاب ہیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس کے لئے خاصہ سرمایہ اور فرصت چاہئیے ہوگی کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک ترکی جیسے ملک کو دیکھا جائے۔ ابھی تو یہ دونوں نہیں اور اگر کبھی ہوئے تو اس وقت شاید دیگر حالات سازگار نہ ہوں۔ اس لئے جو میسر ہے اسی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وادی ء اناطالیہ بھی خوبصورتی میں کم نہیں۔ ایک طرف ہرے بھرے پہاڑوں کے پیچھے سے برف کا سنگھار کئے پہاڑ جھانک رہے ہیں۔ دوسری طرف صاف ستھرا سمندر کا نیلا پانی اڑ رہا ہے۔ طرح طرح کے درخت اور پھول موجود ہیں۔ لوگ بھی خاصے اچھے ہیں۔ دلچسپ جگہ ہے۔

      Delete
  4. 1۔۔۔۔۔
    مسجد میں لگے ہوئے یہ پوسٹر کسی پروڈکٹ کے اشتہار نہیں بلکہ حضور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں منائے گئے ہفتے کی مناسبت سے لگائے گئے قرآنی آیات و احادیث کے ترجمے پر مبنی پوسٹر ہیں۔
    2---
    ہاں درست فرمایا آپ نے ، قدیم زمانے کے جھوٹے دیوی دیوتا انسانوں کی قربانی کے طلب گار ہو ا کرتے تھے۔ قربان جائیں حضور نبی رحمت کے جن کی غلامی کے صدقے میں بنی نوع انسان کو ایسے تمام جھوٹے خداووں کی عبودیت سے نجات ملی اور صرف ایک سچے خدا پر ایمان لا کر ہر قسم کے ناجائز بلیدان سے رہائی نصیب ہوئی۔
    یہ اعزاز بھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حصے میں آیا کہ انھوں نے اپنے ایک خط کے ذریعے مصر کی دوشیزاوں کو نیل دیوتا کی بھینٹ چڑھنے سے نجات بخشی۔
    3۔۔۔۔
    ترکوں کی عظیم اکثریت اسلام کی والہ و شیدا ہے لیکن ان کا ملک اصطلاحی اعتبار سے کوئی اسلامی تو کیا مسلم ملک بھی نہیں ہے۔ بدترین قسم کے سیکولرزم اور کمالزم کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ یہ نظریات فاشسٹ فوجی لیڈر کمال اتاترک نے ترکی پر مسلط کیے تھے اور ابھی تک انھیں ترکی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ عالم اسلام میں کہیں بھی یوں گندے جوتوں سمیت صحن مسجد میں جانا ممکن نہیں۔ مسلمان ملک تو ایک طرف ہندوستان سمیت بے شمار دیگر سیکولر ملکوں میں بھی اس کا تصور ممکن نہیں۔ ہاں ترکی میں اپنی نوعیت کے انوکھے فاشسٹ سیکولرزم کے آڑ میں کمال اتاترک اور اس کے ساتھیوں نے اسے ممکن بنا دیا۔
    لیکن وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ یہ حقیقت آپ کے دو دورہ ہائے ترکی کے مختصر وقفے سے بھی واضح ہے۔ جدید ترکی بدل رہا ہے۔ اس وقت بعض حاضر سروس جرنیل جیل کی سلاحوں کے پیچھے بھیجے جاچکے ہیں اور ان پر مقدمات چل رہے ہیں۔ خود میرے ترک دوستوں کا کہنا ہے کہ صرف چند سال پیشتر کوئی خواب میں بھی ایسا نہیں سوچ سکتا تھا۔
    عبد اللہ نور

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی میں نے تو اپنے دو دوروں کے درمیان کوئ فرق نہیں دیکھا۔ پہلے بھی کچھ خواتین اسکارف میں اور کچھ بکنیز میں نظر آتی تھیں۔ اب بھی ویسا ہی تھا۔ کسی ترک کو اتا ترک سے نفرت نہیں کوئ عام ترک اتا ترک کو برا بھلا کہتے نظر نہیں آتا۔ کوئ اپنی حکومتی پالیسیوں کو برا بھلا کہتا نظر نہیں آتا۔
      ویسے دیکھا جائے تو اسلام میں بھی سب سے زیادہ قربانیاں عورتوں سے ہی مانگی گئ ہیں۔
      عورتوں کے حوالے سے آپ نے صرف عرب کے حالات کو دیکھا ہے دنیا اس وقت عرب سے آگے بھی تھی۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ آسٹریلیا، امریکہ، چائنا ، افریقہ اور یوروپ میں کیا حالات تھے۔ یہ آپ نہیں جانتے۔
      اس وقت بھی عورتوں کے حالات مسلم ممالک اتنے ہی دگرگوں ہیں جتنے کی کسی اور تیسری دنیا کے ملک میں۔
      خواتین کی مار پٹائ کا وہی تناسب ہے جو کسی اور غیر مسلم ملک میں ہے۔ بیٹوں کو بیٹیوں پہ ترجیح دینے کا وہی تصور ہے جو کسی اور غریب اور جاہل اور غیر مسلم ملک میں ہے۔
      یہی نہیں عورتوں کو مرد کی جنسی خواہش کو پورا کرنے کا ذریعہ اسی طرح سمجھا جاتا ہے جس طرح کے دنیا کے کسی اور ملک میں۔ بس یہ کہ اسے مذہبی تحفظ دیا گیا ہے اور وہاں نہیں۔
      یہی نہیں طلاق کا حق مرد کے پاس ہے جب دل چاہے بغیر کسی وجہ کہ تین الفاظ ادا کرے اور چھٹی۔ عورت کے حصے میں طویل رفاقت کے بعد بھی ایک معمولی مہر کی رقم کے سوا کچھ نہیں آتا۔ اور اگر عورت خود سے طلاق چاہے تو اسے خلع کے لئے پیسے ، جہیز یا کچھ اور لین دین کرنا پڑے گا، شرعی طریقہ یہی بیان کیا جاتا ہے۔ اس ]پہ بھی مرد کی رضامندی چاہئیے ہوتی ہے۔
      عورتوں کو ہر وقت اس بات کے لئے برین واش کیا جاتا ہے کہ وہ دراصل ذہنی اعتبار سے سے ایک مرد سے کم تر ہیں اور انکا صحیح مقام صرف گھر کے اندر پوشیدہ رہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کی عورتیں سب سے زیادہ کاہل، نکمی اور ذہنی اعتبار سے کم تر ہوتی ہیں۔
      اس طرح سے اگر ایک عورت خواہش کرے تو وہ کشتی یا سائکل یا گاڑی نہیں چلا سکتی۔ اگر ایک عورت خواہش کرے تو پہاڑ نہیں سر کر سکتی اگر وہ خواہش کرے تو جہاز نہیں اڑا سکتی۔ کہا جائے گا ان سب چیزوں کی عورتوں کو کیا ضرورت؟
      عورتوں کو جن چیزوں میں الجھا کر رکھا جاتا ہے وہ سر کے بال ہیں۔ سر کے بال ڈھک کر رکھنا چاہئیں ان میں بڑا فتنہ ہے۔ کیا واقعی اللہ عوتوں کو انکے سر کے بالوں سے دیکھتا ہے۔ خیر یہ ایک لمبی بات ہے۔
      اگر اس وقت کے معاشرے میں پیغمبر اسلام نے اس وقت کی عورتوں کی حالت زار کو بہتر کرنے کے لئے کچھ اقدامات کرنے کی کوشش کی بھی تھی تو انکے آجکے پیروکاروں نے اسے دوبارہ جہالت کے زمانے میں پہنچانے میں کوئ کسر نہیں چھوڑی اور اسکے باوجود وہ فخر کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو بڑے حقوق دئیے ہیں۔ جدید قوانین بھی خواتین کو کچھ برے حقوق نہیں دیتے۔ وہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ اسلام سے بہتر حقوق دے رہے ہیں اور انہوں نے مسلم علماء کی طرح حقوق کا دروازہ بند نہیں کیا۔ وہ زمانے کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اسے اور بہتر کر سکتے ہیں۔ اس بارے میں آپکا خیال ہے؟

      Delete
  5. بہت دلچسپ سفرنامہ ہے، لیکن بہت مختصر....!

    ReplyDelete
  6. "بھیڑیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں دور اندیشی اور ویژن کی کمی ہوتی ہے اور وہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی اور ایک عام مرغی میں نہ صرف فرق نہیں کر سکتے بلکہ اس سے مستفید ہونے کے صحیح طریقے بھی نہیں جانتے"

    بہت خوب کہا !!

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ