کچھ اشعار اقبال کے فیس بک کی دنیا میں گردش میں ہیں۔ میں نے کلیات اقبال کھولا یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا یہ واقعی اقبال کے ہیں تو یہ ایک نظم بانگ درا میں مل گئ۔ طویل نظم آرام سے پڑھیں۔
اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی
تیزی نہیں منظور طبیعت کی دکھانی
شہرہ تھا بہت آپکی صوفی منشی کا
کرتے تھے ادب ان کا اعالی و ادنی
کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوف میں شریعت
جس طرح کے الفاظ میں مضمر ہوں معانی
لبریز مئے زہد سے تھی دل کی صراحی
تھی تہہ میں کہیں دُرد خیال ہمہ دانی
کرتے تھے بیاں آپ کرامات کی اپنی
منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی
مدت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے
تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی
حضرت نے میرے ایک شناسا سے یہ پوچھا
اقبال، کہ ہے قمری شمشاد معانی
پابندی ء شریعت میں ہے کیسا؟
گو شعر میں ہے رشک کلیم ہمدانی
سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا
ہے ایسا عقیدہ اثر فلسفہ دانی
ہے اسکی طبیعت میں تشیع بھی ذرا سا
تفصیل علی ہم نے سنی اسکی زبانی
سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادت میں داخل
مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی
کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے
عادت ہے یہ ہمارے شعراء کی پرانی
گاتا ہے جو شب کو تو سحر کو ہے تلاوت
اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی
لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے
بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی
مجموعہء اضداد ہے ، اقبال نہیں ہے
دل دفتر حکمت ہے، طبیعت خفقانی
رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف
پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی
اس شخص کی تو ہم حقیقت نہیں کھلتی
ہوگا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی
القصہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے
تا دیر رہی آپکی یہ تغز بیانی
اس شہر میں جو بات ہو اڑ جاتی ہے سب میں
میں نے بھی سنی اپنی احبّاء کی زبانی
اک دن جو سر راہ ملے حضرت زاہد
پھر چھڑ گئ باتوں میں وہی بات پرانی
فرمایا شکایت وہ محبت کے سبب تھی
تھا فرض مرا راہ شریعت کی دکھانی
میں نے یہ کہا کوئ گلہ مجھ کو نہیں ہے
یہ آپ کا حق تھا زرہ قرب مکانی
خم ہے سر تسلیم مرا آپ کے آگے
پیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی
گر آپکو معلوم نہیں میری حقیقت
پیدا نہیں کچھ اس سے قصور ہمہ دانی
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے میرے بحر خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اسکی جدائ میں بہت اشک فشانی
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
آپ کی اس والی پوسٹ کا مقصد واضح نہیں ہوا، برائے مھربانی وضاحت کردیں۔
ReplyDeleteاور اقبال کی اس نظم کی وضاحت یہ ہے کہ :
مولوی صاحب ، محض سنی سنائی پر جوکہ سچ بھی تھا ، اقبال سے بدگمان تھے اور اسکو اسکے تضادات کی بناء پر مستقبل میں کسی نئے مذہب کا بانی تصور کررہے تھے۔
جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو مولوی صاحب نے صاف فرمادیا کہ انکا مقصد اقبال کی تصحیح کرنے کی تھی، اور اقبال نے انکی سرزش کرنے اور نصحیت کرنے کے حق، دونوں کو بلا کسی خفگی کے قبول کیا، اور اپنے متعلق یہ فرمادیا کہ جب وہ خود بھی اپنی حقیقت سے لاعلم ہیں اور انکو خود بھی اپنی حقیقت کی تلاش ہے تو دوسرے انہیں کیا سمجھیں گے ؟
مقاصد اور اسباق:
01. بلاتحقیق سنی سنائی خبر کو آگے نہیں پھیلایا جائے اور نا ہی اس بناء پر کسی سے بدگمان ہونا چاہیئے۔
02. پڑوسیوں کی خبرگیری کرتے رہنا چاہیئے
03. جس کو نصیحت کرنی مقصود ہو، تو اسکی غیر موجودگی میں، یا پھر محفل اور مجمع میں اسکی بات کرنا نفع بخش نہیں، اور غیبت کے حکم میں آتا ہے۔
04. جب بدگمانیاں پیدا ہو جایئں تو قطع تعلق کے بجائے آپس میں مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے گلے شکوے دور
کرلیئے جایئں۔
05. خودی کی تلاش و حصول کی کوشیشیں کرنی چاہیئے۔
06. کسی کی ٹوہ میں رہنے اور اسکے بارے میں رائے قائم کرنے کے بجائے اپنی ذات کی تلاش میں رہنا اور اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیئے:
ReplyDeleteابلیس (اپنے مشیروں سے)
امت محمد کے بارے میں کہتا ہے کہ:
جانتا ہوں میں یہ اُمّت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِبیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکار شرعِ پیغمبر کہیں
الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظِ ناموس زن، مرد آزما، مردا آفریں
موت کا پیغام ھر نوعِ غلامی کے لیے
نے کوئی فُغفُور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
!اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں
چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب!
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں
ہے یہی بہتر الٰہیّات میں الجھا رہے
یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات!
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات
ابنِ مریم مرگیا یا زندۂ جاوید ہے؟
ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جدایا عین ذات؟
آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے
یا مجدّد جس میں ہوں فرزندِ مریم کے صفات؟
ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں
یہ الٰہیّات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے!
تابساطِ زندگی میں اس کے سب مُہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوّف اس کے حق میں خوب تر!
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امّت کی بیداری سے میں!
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ ترکردو مزاجِ خانقاہی میں اسے
شاعر : ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
اقبال کے مزيد اقتسابات جو آجکل کی نسل سے اوجھل رکھے جاتے ہيں؛
ReplyDelete’’مذہب اسلام پر قرون اولیٰ سے ہی مجوسیت اور یہودیت غالب آ گئی۔ میری رائے ناقص میں اسلام آج تک بے نقاب نہیں ہوا‘‘۔(خط بنام راغب احسن’’جہان دیگر‘‘ صفحہ ۸۹۔ خط ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۴ء)
’’مجھے یقین ہے کہ اگرنبی کریم ؐ بھی دوبارہ زندہ ہوکراس ملک میں اسلام کی تعلیم دیں توغالباً اس ملک کے لوگ اپنی موجودہ کیفیت اوراثرات کے ہوتے ہوئے ’’حقائق اسلامیہ‘‘ نہ سمجھ سکیں‘‘۔(مکاتیب اقبال بنام خان نیازالدین صفحہ ۷۳۔ شائع کردہ اقبال اکادمی)
’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ا س جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں‘‘۔
( لیکچرملت بیضا پر عمرانی نظر ۔ ۱۹۱۰ء)
ملکہ وکٹوريہ کی وفات پہ `حکيم الامت` علامہ اقبال نے انتہائی دکھ بھری ماتمی نظم لکھ کر اپنے دکھ کا اظہار کيا۔ ملاحظہ ہو نيچے۔ کس امت کے حکيم تھے علامہ؟ مسلم يا برطانوي؟
ReplyDeleteUpon the death of Queen Victoria in 1901, Dr. Iqbal penned an epicedium of ten pages, entitled ‘Tears of Blood’, from which we give a few verses below. The Queen died on the day of Eid-ul-Fitr, and Iqbal wrote:
“Happiness came, but grief came along with it,Yesterday was Eid, but today muharram came.
“Easier than the grief and mourning of this day, Would be the coming of the morn of the day of judgment.
“Ah! the Queen of the realm of the heart has passed away, My scarred heart has become a house of mourning.
“O India, thy lover has passed away, She who sighed at thy troubles has passed away.
“O India, the protective shadow of God has been lifted from above you, She who sympathised with your inhabitants has gone.
“Victoria is not dead as her good name remains, this is the life to whomever God gives it.
“May the deceased receive abundant heavenly reward, and may we show goodly patience.”
(Baqiyyat-i Iqbal, Poem runs over pages 71– 90.)
In December 1911, on the occasion of the coronation of King George V, Iqbal wrote and read out a poem entitled ‘Our King’:
“It is the height of our good fortune, That our King is crowned today.
“By his life our peoples have honour, By his name our respect is established.
“With him have the Indians made a bond of loyalty, On the dust of his footsteps are our hearts sacrifced.”
(Baqiyyat-i Iqbal, p. 206
So, What is the point? We all know that in his middle age he was little bit influenced by "Qadiyani/Ahmadi Group" but after words he repent and at the time of his death he was a true "Muslim".
Deleteٰ
Iqbal was human and humans make mistakes, so he also did but afterwords he returned back to "Islam", you can find details in "Tulo-e-Islam" Magazine by "Ghulam Ahmed Pervaiz (Monkr-e-Hadiths): http://www.tolueislam.org/Bazm/drIqbal/AI_ahmadism.htm " and here also : http://www.naqeeb.ahrar.org.pk/read.php?book_id=52010&article=596&page=1
The Governor of Punjab, impressed by Iqbal's poem on the death of Queen Victoria, conferred knighthood upon him in 1922.
ReplyDeletein mujahid e Islam Lord Nazir kay baarya bhi likhain ju pehlay dhamki day kay ub mukar gai hain..
ReplyDeleteنتیجہ یہ ھے کہ آجکل کے مسلمان ممالک قطعآ اسلامی نہیں۔۔۔اور مسلمان علماء اور اُنکے سارے پیروکار۔۔۔۔اسلام سے بہت دُور ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔جو بقول اقبال ھر کسی اور کافر کہتے ھین۔۔اور خود جنت کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ھیں۔۔۔۔۔اسلام ۔۔نام کا بھی اسلام نہیں رھا۔۔۔۔۔۔اقبال نے جب سچ کہا تو سچ کہا۔۔۔۔
ReplyDeleteنتیجہ یہ نکلا کہ ۔۔اسلام نام کا ھے ورنہ علماء سے لیکر ۔۔سب پیروکار تک۔۔۔۔سب اسلامی ممالک۔۔قطعآ مسلمان نہیں ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں اقبال کی دانش مندی کی تعریف کرتا ھُوں۔۔
ReplyDelete