Wednesday, April 11, 2012

زندہ رشوت، مردہ بخشش

ہمارے 'محبوب صدر' نے  جب بن بلائے مہمان کے طور پہ بھارت جانے کا قصد کیا تو  دشمنوں نے جو اللہ کے کرم سے انکے کم نہیں، جس میں انکی شکل کا کم اور عقل کا حصہ زیادہ نظر آتا ہے۔  ان پہ الزام لگایا کہ وہ بھارت سے کوئ خفیہ ڈیل کرنے جا رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے بار بار کہا کہ انکے اس دورے کا مقصد اجمیر شریف کی زیارت کے علاوہ کچھ نہیں ، جہاں وہ اپنی بیگم کی منت پوری کریں گے۔ ارے جناب، تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور یہ سیاستداں بھینگے کی۔ جس طرف کی دکھاتے ہیں اس طرف مقصود نہیں ہوتا۔ 
 ڈرانے والے تو انہیں کئ بار ڈرا چکے ہیں کہ مرنے والوں کا اتنا تذکرہ اچھا شگن نہیں۔ اگر مرنے والے نے بھی انہیں اس شدت سے یاد کیا تو  اس ملک کا، پیپلز پارٹی کا اور ننھے بلاول کا کیا ہوگا۔ لیکن  زرداری صاحب  بھی اپنے نام کے ایک ہی ہیں۔ ایک دفعہ ٹھان لی تو بس انڈیا جا کر ہی دم لیا۔ یہی نہیں جتنا لمبا دورہ مقصود تھا اتنا ہی رکھا اس میں وطن میں سو سے زائد فوجیوں کی سیاچن حادثے میں ہلاکت بھی رخنہ نہ ڈال سکی۔ وہ جانتے ہیں موت کا ایک دن مقرر ہے اور اجمیر شریف وہی جاتا ہے جسکا بلاوا آتا ہے۔
اسکی وجہ کچھ دل جلے یہ بتاتے ہیں کہ اب انکے مسائل کا حل نہ سپریم کورٹ کے پاس ہے نہ سوئس بینکوں کے پاس ، اب اگر انکے مسائل کا حل کسی عالم گوگیا پاشا کے پاس ہی ہے۔  بڑے لوگوں کی باتیں بڑی۔ اگر انکو کوئ بتا دے کہ آپ کسی کار کے حادثے میں کریں گے تو وہ دعا کریں گے کہ لیموزین جیسے ماڈل کی نئ کار ہو۔
اس لئے ملکی روحانی باباءوں کو انہوں نے بنظر حقارت  بھی نہ دیکھا۔  حتی کہ ہمارے ملک میں جہاں مزاروں اور مجاوروں کی کمی نہیں۔ وہ خود ایک سیاسی خاندان کے مجاور ہیں، انکے وزیر اعظم ایک روحانی خاندان کے مجاور۔ ہر دو خاندان کی سیاسی اور روحانی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ مخالفین ایڑی چوٹی کا زور لگا دینے کے باوجود انکی شہرت میں کوئ کمی نہ لا سکے۔ مزاروں کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ زندہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
خیر، اس سب کے باوجود قرعہ ءفال اجمیر والوں کے نام کیوں نکلی؟
 محبوب صدر کا کہنا ہے کہ بیوی کی منت پوری کرنے آئے ہیں۔ ایک ایسے نازک وقت میں جب کہ ملک کا ملک انکے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے وہ پرائے دیس میں کیوں فاختائیں اڑا رہے ہیں اسکا جواب تو خلیل خاں ہی دے سکتے ہیں یا وہ۔ فی الوقت تو ان کے ہم وطن ااس ایک کروڑ ڈالر یعنی تقریباً نوے کروڑ کی رقم پہ طعنہ زن ہیں جو انہوں نے اجمیر کے مزار کے نام کی ہے۔ اگر یہ رقم وہ وطن میں ان زندہ لوگوں کے نام کر دیتے جن پہ دن بہ دن انکی ناکام طرز حکومت کی وجہ سے زندگی کے دروازے بند ہو رہے ہیں تو شاید انہیں اجمیر شریف جانے کی ضرورت پیش نہ ہوتی جو زندہ لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں انہیں مُردوں سے مدد نہیں چاہئیے ہوتی ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مرنے کے بعد انہیں پاکستان میں شاید دو گز زمین نہ ملے، اس لئے اپنے لئے اجمیر میں بعد از مرگ زمین ان پیسوں کے عیوض بک کرائ ہے۔ تاکہ اس مجاور کا مزار وہاں بنے۔  ارے نہیں صاحب،  زمین نے کوئ گناہ ثواب کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ سبھی اس کے کنوئیں میں جاتے ہیں۔ خاک وہیں پہنچتی ہے جہاں کا خمیر ہوتا ہے۔ کیا چشتی صاحب انکی ہمراہی قبول فرمائیں گے؟
یہ اجمیر والے بزرگ معین الدین چشتی  جو ہیں انہوں نے کاہے کو انہیں بلاوا بھیجا  اسکا بھی اندازہ نہیں۔  لوگوں کا اندازہ ہے کہ اللہ والوں کی بھی شاناں ہوتی ہیں۔ جسے نواز دیں۔ بس ایسی ہی باتوں سے اللہ والوں سے دل ہٹ سا جاتا ہے۔ خیر ایک معتقد نے بتایا کہ کچھ دنوں کے لئے ملک کو نحوست سے پاک کرنے کے لئے چشتی صاحب نے ایسا کیا باقی دنوں کے لئے کیوں نہیں کیا، ان مخصوص دنوں میں کیا بات تھی؟
کیا اجمیر کے مزار میں قیام پذیر چشتی صاحب، زرداری صاحب کا یہ دان قبول کر لیں گے یا انکے منہ پہ دے ماریں گے۔ اسکا نتیجہ بھی وقت ہی بتائے گا۔
ابھی یہ نہیں معلوم کہ زرداری صاحب نے یہ پیسے اپنی ذاتی جیب سے دئیے ہیں یا ہمارے ٹیکس سے۔ اگر ہمارے ٹیکس سے دئیے ہیں تو کم از کم مجھے احتجاج کا حق حاصل ہے۔ میں نے انہیں ٹیکس کی صورت میں یہ رقم اس مقصد کے لئے نہیں دی تھی۔
ہمارے شہزادے بلاول بھی والد صاحب کے ہمراہ تھے۔ سنا ہے کہ وہاں کے شہزادے راہول گاندھی کو انہوں نے اپنی سلطنت آنے کی دعوت دی ہے۔ انہیں آنا بھی چاہئیے یہ دیکھنے کے لئے ہم پاکستانی کتنے بڑے دل کے مالک ہیں کہ اپنے بچے مار کر دوسروں کے مزاروں پہ چڑھاوے چڑھاتے ہیں اس لئے کہ ہم منت کی صورت میں کئے جانے والے وعدے سے نہیں پھر سکتے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ووٹ کی صورت میں کئے گئے وعدے اوراعلی عہدے پہ لئے گئے حلف کی ہماری نظر میں کوئ اہمیت نہیں ہوتی۔
 بس یونہی خیال آرہا ہے، سیاست میں تصوف تو ہوتی ہے کیا تصوف میں سیاست ہوتی ہے؟ کیا معین الدین چشتی صاحب رشوت لیتے ہیں؟
  

5 comments:

  1. حسب معمول "بہرپور طنز"، جو بھی باتیں لکھی کچھ بھی نیا نہیں تھا، خیر آپ کے ایک سوال کا جواب دے دیتا ہوں کہ : ہاں جی جعلی "تصوف" میں سیاست تو کیا "خاندانی" حکومتیں بھی ہوتی ہیں۔
    باقی رہا سوال "خواجہ معین الدین چشتی" کی رشوت لینے کا کا تو اگر یہ واقعی میں ولی اللہ تھے تو بروز قیامت انکا ہاتھ ہوگا اور زرداری کا گریبان۔
    کم کہے کو کافی سمجھیئے کہ عقل والوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔

    ReplyDelete
  2. سُنا ہے کہ مزاروں پر تین قسم کے لوگ جاتے ہیں ۔
    ایک ۔ دعا کہنے ۔ یہ لوگ شاذ و نادر ہی جاتے ہیں یعنی وہاں سے گذر ہو جائے اور ان کے پاس وقت ہو
    دو ۔ بے علم لوگ جو اپنی طرف سے احتاماً جاتے ہیں
    تین ۔ مجرم جو چڑھاوے چڑھا کر سمجھتے ہیں کہ ان کے گناہ دُھل گئے

    ReplyDelete
  3. ہم لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے جیسے اعمال ہونگے ویسے ہی ہم پر حکمران آئینگے۔

    ReplyDelete
  4. Pakistan National Assembly and Government controlled by Saudi King
    http://www.youtube.com/watch?v=CCYmMLRKg1Y

    ReplyDelete
  5. یہ دورہ سراسر ذاتی دورہ تھامقصد بلاول کو یہ ٹاسک دینا تھا کہ پس از مرگ میرے مزار و کاروبار کو کن خطوط پر چلانا ہے یہ دنیا تو چند روزہ ہے کیوں نا وہاں کا بندوبست کیا چائے جہاں ہمیشہ رہنا ہے

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ