Sunday, April 1, 2012

احساس کی برکت

بازار میں انار دیکھے تو دیگر پھلوں کے ساتھ  اسے بھی خریدنے کا سوچا۔ قیمت پوچھی،  معلوم ہوا کہ ڈیڑھ سو روپے کلو ہیں۔  انار کی قیمت اسی عدد کے آگے پیچھے گھومتی رہتی ہے۔ گھر کے سب لوگوں کو انار بہت پسند ہیں۔ خاتون خانہ کو سب کی پسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس لئے میں نے دوکاندار کو اسے بھی تول دینے کو کہا۔ 
میری برابر کھڑی خاتون سیب لے رہی تھیں اور انکے ساتھ ایک میری بیٹی کا ہم عمر بچہ کھڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنی ماں سے  کہا کہ وہ بھی انار لینا چاہتا ہے۔ ماں نے کہا نہیں بہت مہنگے ہیں ۔ ہم سیب لے رہے ہیں۔ بچے نے ضد کی اور ماں نے اسے جھڑک دیا۔
میں نے ایک انار اور چنا اور دوکاندار سے کہا کہ اسے بھی ساتھ میں تول دے۔ جب تک وہ تول کر نکالتا وہ لوگ ادائیگی کر کے آگے بڑھ گئے۔ میں نے اس بچے کو پیچھے سے آواز دی اور وہ انار اسکے ہاتھ میں تھما دیا۔ یہ دیکھ کر اسکی ماں نے کہا نہیں واپس دو۔ اور مجھ سے کہنے لگیں بچے تو بس ایسی ہی ضد کرتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں یہ میری طرف سےآپکے بچے کے لئے تحفہ ہے میری اپنی بچی بھی اتنی ہی بڑی ہے۔ یہ کہہ کر میں دوسری سمت پلٹ گئ۔
چار پانچ ماہ گذرے ہونگے کہ ایک دن روڈ سے گذرتے ہوئے ایک پھلوں کی دوکان کو دیکھ کر میں نے سوچا پھل خرید لینے چاہئیں۔ میں پھلوں کی دوکان پہ موجود تھی۔ پھل لیتے ہوئے میری بچی کی نظر اسٹرابیریز پہ بڑی۔ اسے اسٹرا بیریز بڑی پسند ہیں۔ ابھی اسٹرابیریز کا موسم شروع ہوا تھا۔ اور میرا خیال تھا کہ اس وقت لینا درست نہیں ایک تو مہنگی ہونگیں دوسرا ذائقہ بھی بہتر نہیں ہوگا۔ لیکن بچی کے ضد کرنے پہ میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ڈیڑھ سو روپے پاءو ہیں۔ یعنی چھ سو روپے کلو۔ قطعی نہیں، میں نے سوچا۔ بہت مہنگی ہیں بیٹا۔ یہ کہہ کر باقی خریداری کی ادائیگی کر دی۔
بیٹی صاحبہ بہت ناراض ہوئیں۔ کہنے لگیں کیا آپ دو اسٹرابیری بھی نہیں لے سکتیں۔ میں نے پھر سمجھایا، ابھی بہت مہنگی ہیں، کچی بھی ہیں، دس بارہ دن بعد یہ اور پک جائیں گی اور سستی بھی ہوجائیں گی تو لیں گے۔ میں ان والدین میں سے ہوں جو بچوں کو حقیقی دنیا کے قریب رکھنا چاہتے ہیں اس لئے اس چیز میں حرج نہیں سمجھتی کہ انہیں پتہ ہو کہ والدین انکے لئے کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں۔ 'ماما صرف دو'۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا۔ اب مجھے غصہ آگیا۔ دوکاندار صرف دو نہیں دیتے۔ اس طرح بازار میں ضد نہیں کرنی چاہئیے ورنہ اگلی بار آپ بازار نہیں آ سکیں گی۔ یہ کہہ کر سامان اٹھا کر ہم گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔
گاڑی ابھی اسٹارٹ ہی کی تھی کہ میں نے دیکھا پٹھان دوکاندار دوڑا ہوا ہماری طرف آرہا ہے۔ خیال آیا کہ پیسے تو کم زیادہ نہیں ہو گئے۔ وہ آیا تو میں نے کھڑکی کے شیشے نیچے کر دئے۔ اسکے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ اسکا ہاتھ کھڑکی سے اندر آیا اور اس نے میری بچی کے ہاتھ میں تین اسٹرابیریز تھما دیں۔ مجھے فوراً ہی انار والا واقعہ یاد آگیا۔ میں نے اس دوکاندار کا شکریہ ادا کیا۔ 
گاڑی کو دوبارہ روڈ پہ ڈالتے ہوئے میں نے اپنی بچی کو بتایا کہ  یہ بالکل ضروری نہیں کہ آئیندہ آپ  کو کوئ دوکاندار اس طرح چیزیں دے، جب کوئ اجنبی کوئ چیز دیتا ہے تو اسے انکار کرنا  چاہئیے ہر اجنبی شخص اچھا نہیں ہوتا اور جب لے لیں تو اسکا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہئیے اس سے دینے والے کو خوشی ہوتی ہے کہ آپ اسکے احساس کو جانتے ہیں۔
لیکن دل میں مجھے خیال آیا کہ ایک انار کے بدلے تین اسٹرابیریز۔ اگر کسی کام کو کرتے وقت نیت میں اخلاص ہو، انسان بے غرض ہو اور اسے کسی صلے یا ستائیش کی تمنا نہ ہو تو وہ کام  بھی زندگی کے بڑھتے ہوئے سفر میں پلٹ کر آپکو شکریہ ضرور کہتا ہے۔ بس انسان اور موقع بدل جاتے ہیں۔ اسی کو برکت کہتے ہیں۔    

3 comments:

  1. بہت بہترین سبق ہے آپ کی تحریر میں۔۔۔ شکریہ

    ReplyDelete
  2. السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
    میں آپ کے بلاگ کا قاری تو ہوں مگر تبصرہ پہلی بار کر رہا ہوں۔
    نیکی کوئی بھی چھوٹی نہیں ہوتی، اپنے بھائی کیلئے اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجا لینا بھی صدقہ شمار ہوتا ہے۔
    اماں عائشہ کھجور کا ایک دانہ صدقہ کرتی تھیں مگر اس اہتمام کے ساتھ کہ ہاتھ کو دھو کر خوشبو لگا کر، صحابہ پوچھتے اماں، دینا آپ نے کھجور کا ایک دانہ ہوتا ہے مگر اہتمام ایسا؟ تو آپ جواب دیا کرتی تھیں کہ کیا قرآن یہ نہیں کہتا کہ جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی تو اسکا اجر ضرور پائے گا۔ اور یہ کھجور کا دانہ تو کئی لاکھ ذرات پر مشتمل ہے۔ واضح رہے کہ عربی میں ذرہ کا مطلب ایٹم ہوتا ہے۔
    معاشرے میں دینے کا رواج دو وجہ سے رکا ہوا ہے کہ زیادہ دینے کی توفیق نہیں ہوتی اور تھوڑا دیتے ہوئے شرم آتی ہے۔ آپ اچھائی کریں، خواہ کتنی چھوٹی ہی کیوں نا ہو یہ ضرور لوٹے گی۔
    ایک واقعہ لکھتا ہوں، میرا دوست مدینہ شریف میں رہتا ہے، کسی جگہ ملازمت کرتا تھا، دکان کیلئے سامان لینے گیا تو اپنے بٹوے سے ہاتھ ہاتھ دھو بیٹھا، 4700 ریال کے علاوہ کاغذات بھی گئے دکاندار نے پیسے وصول کر کے نوکری سے بھی برخواست کر دیا۔ بعد میں اپنی کپڑے کی دکان ڈالی۔ ایک بار ایک ترکی حجانی اسکی دکان پر اپنا پرس بھول گئی جس میں 47000 ریال تھے، سوچا شاید 10 گنا ہو کر لوٹ رہے ہیں مگر ذہن سے شیطان کو جھٹکا دیکر باہر کیا اور پرس احتیاط سے رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد وہ ترکی عورت لڑکھڑاتی آتی دکھائی دی۔ کہتا ہے آگے بڑھ کر اسے سہارا نا دیتا تو گر جاتی، بٹھا کر پانی پلایا اور پرس دیکر دعائیں لیں۔ اس نے یہ دکان آف سیزن میں لی تھی، رمضان کے قریب اسے 470،000 پگڑی پر بیچ دیا اور ہوٹل کے بزنس میں آگیا۔ آجکل ایک کنٹریکٹنگ کمپنی چلا رہا ہے۔
    میری امی پہلی بار حج پر گئیں تو طواف کے دوران ہی ایک سائل نے مجھ سے پیسے مانگے، میں نے جیب سے نکال کر دیئے تو امی کو اچھا نا لگا کہ کیسا آدمی ہے اللہ کے گھر میں بندوں سے سوال کر رہا ہے، میں نےامی سے کہا کہ کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے۔ حرم سے باہر نکل کر گئے قصر کرا کر حجام کو پیسے دینا چاہے تو اس نے بتایا کہ ایک آدمی نے میرے اور میرے چھوٹے بھائی کے پیسے دیدیئے ہیں، حیرت سے دکان سے باہر آئے تو ایک
    شناسادوست نا صرف کھڑا مسکرا رہا تھا بلکہ اس نے ہمارے لیئے کچھ سنڈوئچ اور جوس وغیرہ بھی لے رکھے تھے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ