بچے انسانی سوچ و فکر کے ارتقائ سفر کا بہترین مطالعہ بن سکتے ہیں۔ آجکل میں دیکھتی ہوں کہ کیسے میری چار سالہ بیٹی اپنے مشاہدے اور ضروریات کے مطابق اپنے خدا اور اسکی صفات کا ادراک حاصل کر رہی ہے۔
اس نے اب سے چند مہینے پہلے جب مونٹیسوری اسکول کا سفر شروع کیا تو وہ گھر سے جس اللہ کا تصور لے کر وہاں گئ تھی وہ اس سے محبت کرنے والا تھا۔ تحفے تحائف دیتا تھا اور اسکی ماں کی کسی بات سے خوش ہو کر تحفے میں انہیں اس جیسی پیاری بٹیا تحفے میں دے ڈالی۔ وہ جانتی ہے وہ خدا کا تحفہ ہے۔
لیکن اس خدا کے ساتھ مسائل تھے۔ اول ، وہ اسے نظر نہیں آتا تھا، دوئم اس نے ذاتی طور پہ اسے کچھ نہیں دیا تھا۔ وہ صرف ماما کے ذریعے اطلاع دیتا تھا کہ وہ مشعل کو پسند کرتا ہے۔ اس کے لئے روزانہ چاند، سورج ، ستارے نکالتا ہے، مگر یہ سارے کام بہت خفیہ طریقے سے ہوتے ہیں۔
ماما کہتی ہیں کہ کھانا اللہ دیتا ہے لیکن اس میں بھی جان نہیں لگتی کیونکہ بظاہر تو یہ ماما ہوتی ہیں جو بازار سے چیزیں لے کر آتی ہیں، گھر میں پکاتی ہیں اور میز پہ سجاتی ہیں۔ ایسے اللہ کو زیادہ یاد رکھنے کا کیا فائدہ، جو دوسروں سے پتہ چلتا ہے۔ پھر یہ کہ اس نرم خو، بے ضرر اللہ کا اوروں پہ رعب نہیں پڑتا۔
اسکول جانے کے کچھ عرصے بعد اسے ایک اور طرح کے اللہ میاں کا پتہ چلا۔ یہ وہ اللہ تھا جو گناہ دیتا ہے شرارتی بچوں کا، برے لوگوں کا دماغ صحیح کر دیتا ہے اور جو اچھے لوگ ہیں ان پہ بھی نظریں رکھتا ہے کہیں کوئ بد تمیزی نہ کر دیں۔ یہ اللہ مشعل کے مزاج سے میل کھاتا تھا۔ انہیں پسند آیا۔
شروع شروع میں انہوں نے اسے خاطر میں نہ لانے کا خیال کیا اور گناہ دینے کی ذمہ داری خود اٹھانے کی کوشش کی۔ اور جب بھی انہیں لگتا کہ انکی شان میں گستاخی کی گئ ہے وہ فوراً وارننگ دیتیں کہ صحیح ہو جائیں ورنہ میں گناہ دے دونگی۔ آپ نے مجھے ڈانٹا، میں آپکو بہت گناہ دونگی۔
چند دنوں میں انہیں اندازہ ہوا کہ انکے خود گناہ دینے سے لوگوں پہ کچھ ایسی دہشت طاری نہیں ہوتی، الٹا لوگ ہنستے ہیں۔
اللہ کا رعب اور دبدبہ، اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کا نسخہ ء کیمیاء انہیں بھی سمجھ میں آ گیا۔ اب وہ کسی سے ناراض ہوتیں تو اپنی دو ہتھیلیاں جوڑ کر اٹھاتیں اور زور سے کہتیں کہ اللہ میاں انہیں گناہ دے دیں۔ اگر کوئ ان کی اس ادا پہ مسکراتا تو اسے زیادہ سخت گناہ کی وعید ملتی۔ زیادہ تر لوگوں نے انکی اس ادا پہ توجہ دی۔ یعنی اس طریقہ میں کامیبای کے آثار نظر آئے۔
پھر کسی نے ایک دن ان سے دریافت کیا کہ گناہ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے اپنی تھوڑی کو کھجایا، سر پہ شہادت کی انگلی سے کئ دفعہ دستک دی پھر آنکھیں پھیلا کر جواب دیا، گناہ ایک زخم ہوتا ہے۔ اشفاق احمد بھی شاید اسی طرح کی بات کہتے۔ مزید پتہ چلا کہ جو لوگ بات نہیں مانتے انہیں اللہ میاں زخم لگا دیتا ہے اور اس میں سے پھر بہت خون نکلتا ہے۔ بہت تکلیف ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے چہرے پہ انتہائ کربناک تائثر پیدا کرے ہوئے کہا۔
لیکن پھر یہاں سے کہانی میں ٹوئسٹ پیدا ہوا۔ اگر مشعل اللہ میاں کا تحفہ ہے اور اللہ میاں اس سے محبت کرتے ہیں اور اللہ میاں ماما سے بھی محبت کرتے ہیں تو اللہ میاں ایک اتنا تکلیف والا، خون بہنے والا زخم کیسے دے سکتے ہیں۔
اس خیال کے اظہار کے بعد مشعل ، ناراض ہوئیں اور گناہ کی نوید دیتی ہوئ چل گئیں، لیکن کچھ ہی دن گذرے تھے کہ انہوں نے اپنی کہانی میں ایک کردار کا اضافہ کیا۔
اور یہ کردار تھا شیطان کا۔ کھانے کی میز پہ جب سب کسی ایسی گفتگو میں لگ جاتے جو انکی دلچسپی کی نہ ہوتی تو اب وہ خدا سے گناہ دینے کی درخواست کے بجائے زورزور سے کہتیں، سب خاموش ہو جائیں، جو کھانے کے دوران بات کرتا ہے اسکا کھانا شیطان کھاتا ہے۔ پھر شیطان بڑا کار آمد ثابت ہونے لگا۔ تیز نہیں چلنا چاہئیے، ورنہ شیطان ساتھ چلتا ہے۔ دن میں بستر پہ نہیں لیٹنا چاہئیے شیطان بھی ساتھ لیٹ جاتا ہے۔ ہر وہ کام جو وہ چاہتی تھیں کہ انکے منسلکہ لوگ نہ کریں اس سے براہ راست منع کرنے کے بجائے شیطان سے وابستہ کر دیتیں۔ اس طرح وہ خود بچ جاتیں اور جس کسی کو لعنت دینی ہوتی وہ شیطان کو دیتا۔
ہر وقت شیطان کے ذکر سے گھبرا کر، ایک دن دادی اماں نے پوچھا آخر یہ شیطان کون ہے کیوں ایسا کرتا ہے؟ انہوں نے اپنے نگٹس کو کیچپ میں ڈبوتے ہوئے نہایت تشویشناک سنجیدگی سے کہا دادی اماں، شیطان بہت برا 'شخص' ہوتا ہے۔ کیا برا کام کرتا ہے؟ جواب ملا، آپکو نہیں پتہ بہت برے کام کرتا ہے۔ مثلاً کیا کرتا ہے؟ وہ ناں انہوں نے نگٹ کے اوپر سے کیچپ کو چاٹا۔ وہ ناں ، دوسروں کے نگٹس کھا جاتا ہے، کیچپ میں پانی ملا دیتا ہے، صوفے پہ پانی گرا دیتا ہے، کھانے کی ٹیبل پہ پانی گرا دیتا ہے اور پانی کے گلاس میں اسٹرا ڈال کر گُڑ گُڑ کرتا ہے۔ بہت خراب ہوتا ہے بالکل بد تمیز۔
لیکن جیسا کہ بیان سے لگ رہا ہے اور اسے جلد ہی مشعل نے بھی محسوس کر لیا کہ شیطان کی عادات و اطوار بہت کچھ انکی عادت و اطوار سے ملتی جلتی ہیں۔ ایک دفعہ پھر انہیں اللہ میاں کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ اس دفعہ عقلمندی دکھاتے ہوئے انہوں نے اللہ میاں کے دو حصے کر دئیے۔ ایک اچھے اللہ میاں ہیں۔ جو تحفے وغیرہ دیتے ہیں اور دوسرے اللہ میاں بہت خطرناک ہیں وہ تیر کی طرح سیدھا رکھتے ہیں گناہ وغیرہ دے کر۔ گناہ تو اب آپ سمجھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ سو اب وہ اپنے عقائد میں زرتشتوں سے خاصی قریب ہے یعنی خدا دو طرح کے ہوتے ہیں ایک نیکی کا خدا یزداں اوردوسرا بدی کا خدا اہرمن۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمانوں کے خدا تک انکی رسائ کیسے ہوتی ہے۔