Showing posts with label خود کشی. Show all posts
Showing posts with label خود کشی. Show all posts

Thursday, July 22, 2010

خود کشی اور دور جدید

ایک دانا کا کہنا ہے کہ خودکشی انسان کا خدا کو جواب ہے کہ آپ مجھے نہیں نکال سکتے، میں خود نکل رہا ہوں۔ آسان زبان میں ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے کا نعرہ لگائیں، ایک خود کشی نوٹ چھوڑیں کہ پیچھے رہ جانے والوں کو آسانی ہو اور میں نہیں کھیل رہا کہہ کر باہر۔
اسی طرح خود کشی کو عارضی مسائل کا مستقل حل کہا جاتا ہے۔ کچھ تخلیق کار بھی اپنے عروج کے دور میں خود کشی کر لیتے ہیں، انہیں شبہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے بہتر تخلیق نہ دیں پائیں گے, تو کیوں نہ خود کشی کر لیں۔ شاید اس لئے گانا بنا کہ آ خوشی سے خود کشی کرلیں۔ کچھ جسمانی طور پہ ہمیشہ کے لئے تخلیق کے کرب سے نجات پا لیتے ہیں  اور کچھ تخلیقی طور پہ خود کشی کر کے اپنے آپ کو اس مقام تک لے جاتے ہیں جہاں ان پہ دوسروں کو رحم آنے لگتا ہے۔ کچھ ذی حس اس لئے خود کشی کرنے پہ آمادہ ہوجاتے ہیں کہ ہائے میں نے تو ویسے بھی خود کو ختم کر دیا ہے، اب جسمانی رسم بھی پوری کئے لیتے ہیں۔ 
یہ تحریر ان خودکشیوں کے متعلق نہیں،  جو کوڑے کے ڈھیر سے کھانا اٹھا کر کھانے کی ہمت نہ پیدا ہونے کی وجہ سے کی جاتی ہیں کہ مرنے والے کو آخری وقت تک اپنے انسان ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ اور نہ ان کے متعلق جو  حیات ابدی کی خوشی کے یقین اور بھروسے پہ جدید ٹیکنیکل سہولیات سے مستفید ہوتے ہوئے اپنے ساتھ کئ لوگوں کو بالجبر حیات بعد الموت میں اپنا ہم سفر چن لیتے ہیں۔ اس پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اور ابھی لکھنے والے بہت کچھ  لکھیں گے۔
کچھ تہذیبیں آپ اپنے خنجر سے خود کشی کر لیتی ہیں یہ الگ بات کے دم آخر بھی یہ خنجر انہیں دوسری تہذیب  کےہاتھ میں نظر آتا ہے اور وہ اسے قتل عمد میں ڈال کر وقت رخصت کے ساتھیوں کو اسکا بدلہ لینے کی نصیحت بلکہ وصیت کرتے ہیں۔ یوں نصیحت اور وصیت کا یہ سلسلہ کئ سو سالوں تک کامیابی سے چل سکتا ہے ۔ ساتھی ایسی نصیحتوں پہ دل و جان سے عمل کرتے ہوئے کیوں اس شمع کو اپنی پوری توانائیوں سے  جلائے رکھتے ہیں یہ ایک معمہ ہے۔ ایسے معموں کو سلجھانے میں نفسیات داں ہی مدد کر سکتے ہیں۔
مجھے تو سارا قصور اس میں خنجر کا ہی نظر آتا ہے کہ نہ ہوتا اور نہ اتنے خیالات فاسدہ ذہن میں آتے۔ اب آپ میں سے کوئ اس مِیں جدید تہذیب کا ہاتھ بتائے تو یقیناً وہ صحیح ہوگا۔ یہ جدید تہذیب وہ شاطر ہے جو مختلف تہذیبوں کو وقفے وقفے سے ایکدوسرے کے سامنے کھڑا کر رہی ہے۔
کچھ نا آسودہ خواہشات بھی اسکا باعث ہوتی ہیں۔ مثلاً جب دوسری تہذیبیں ہاتھ میں خنجر رکھنے اور  مسلسل بد دعاءووں کے باوجود  اس سے خود خود کشی نہیں کرتیں  تو تنگ آکر اس خنجر کو کارآمد بنانے کے لئے اس خنجر کو بد دعا دینے والا ہی استعمال کر لیتا ہے۔  اس دوسری تہذیب سے اس خنجر کی چھین جھپٹ ایک الگ داستان ہے۔ نفسیات داں اسے فرسٹریشن کہتے ہیں۔ اور غالب کہتے ہیں کہ
جب دیکھا کہ وہ ملتا نہیں
اپنے ہی کو کھو آئے
کبھی کبھی، کسی خودکشی کا انداز عوام الناس کو اتنا بھاتا ہے کہ یکے بعد دیگرے اس طرح سے خودکشی کرنے کے واقعات سامنے آجاتے ہیں۔ اسے کاپی کیٹ سوسائیڈ  بھی کہتے ہیں جس پہ وردر اثر ہوتا ہے۔ اس میں لوگ خودکشی کرنے والے کے ماحول اور حالات سے اپنی یکسانیت دیکھتے ہیں، پسند آیا کہتے ہیں اور عدم کے سفر پہ روانہ ہو جاتے ہیں۔
اب صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ خودکشی کرنے کی جلدی کیا ہے یہ کام  کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے اور امکان غالب یہ ہے کہ جب بھی کریں گے کامیابی قدم چومے گی کہ ایک دفعہ یہ سوچ لیا جائے کہ یہ ہم کر سکتے ہیں تو آدھی فتح تو ویسے بھی حاصل ہو جاتی ہے۔  اس وقت تک  ایک مناسب آلہ ء خود کشی دریافت کریں۔
مناسب آلہ ء خود کشی  مرنے کے بعد کسی شخصیت کا مکمل اظہار ہوتا ہے ۔ اگرچہ تحقیق داں اسکا تعلق معیشت سے بھی جوڑتے ہیں۔ اور بزبان شاعر کہلواتے ہیں کہ
غریب شہر تو فاقوں سے مر گیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی
 فی الوقت جو آلات میسر ہیں ان میں سر فہرست خودکار بم کہ بعد از مرگ حیات میں بھی کٹ لگانے والوں کی ایک تعداد ساتھ ہی ساتھ روانہ ہوگی یوں عقابی روح، آسمانوں میں بعد از مرگ بھی مصروف بہ عمل رہے گی، اپنا خنجر، دوسروں کی تہذیب،یا اپنی تہذیب دوسروں کا خنجر اگر پوری قوم ایک ساتھ خودکشی کرنا چاہ رہی ہو تو انتہائ مناسب، کیڑے مار ادویات ، ٹرین کے آگے یا پل پر سے دریا یا سمندر میں چھلانگ لگا دینا یہ بچوں کے ساتھ خاندانی  طور پہ خودکشی کرنے کے لئے کافی آزمودہ ہے حکومت اسکی ترویج کے لئے مناسب انتظامات بھی کر رہی ہے، اس لئے کم سے کم مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا، ہیرے وغیرہ سے خود کشی کرنا آسان نہیں کہ ہیرے کے حصول سے پہلے کئ بار مرنا پڑے گا۔

یہ موضوع ذہن میں تھا کہ  میں ایکدن ادارہ ء معارف اسلامی جا پہنچی۔ مقصد تو کچھ اور تھا۔ مگر برآمدے میں ایک میز پہ کچھ کتابوں کے ساتھ پچاس فی صد سیل کا بورڈ نظر آیا۔  کسی بھی چیز پہ سیل کا بورڈ، مجھ جیسوں کو صراط مستقیم سے ہٹا سکتا ہے۔ سو اگلے لمحے میں وہاں اپنے آپکو کچھ کتابوں کی خریداری کے لئے راضی کرتی ہوئ پائ گئ۔ سیل سے کچھ نہ لینا نعمت سے انکار ہے۔  میں منکروں میں سے نہیں۔ اور پچاس فی صد سیل پہ شکر گذاروں میں بآسانی شامل ہوا جا سکتا ہے۔
کچھ کتابیں ہاتھ لگیں ان میں  پچپن صفحوں کی ایک کتاب خود کشی کے موضوع پہ ملی۔ میں نے اسے فوراً لے لیا۔  گھر آکر پڑھا تو پتہ چلا کہ 'خود کشی اور دور جدید'، جناب راشد نسیم نے لکھی ہے۔ یہ مضمون پہلے پہل فرائیڈے اسپیشل میں تین اقساط میں شائع ہوا اور پذیرائ ملنے کی وجہ سے انیس سو ننانوے میں کتاب کی شکل میں چھاپ دیا گیا۔ اسکا دیباچہ جناب منور حسن موجودہ امیر جماعت اسلامی نے لکھا ہے۔
یہاں اسکے دو صفحات کا عکس حاضر ہے۔  یہاں آپ خود اندازہ لگائیں کہ تجزیہ اور نتائج کس طرح مرتب کئے جاتے ہیں۔ اور پھر انکی نظریاتی ترویج کیسے کی جاتی ہے۔


نوٹ؛  تصویر کو واضح دیکھنے کے لئے اس پہ کلک کریں۔