Tuesday, March 27, 2012

دلدار کا وفادار

بس میں نے دال بگھار کر اپنا کچن کا کام ختم ہی کیا تھا کہ فون بجا۔ اٹھایا تو ایک ادیبہ دوست تھیں۔ سلام دعا کے فوراً بعد ہی کہنے لگیں ، 'آفس سے فون کر رہی ہوں یہ پوچھنا تھا کہ شرمین عبید کو ایوارڈ ملا اس بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟'۔  مستقل قارئین کو تو معلوم ہی ہے کہ میرا اس بارے میں کیا خیال ہے۔
میں نے ان سے دریافت کیا کراچی میں لٹریچر فیسٹول ہوا کیا آپ اس میں گئ تھیں۔ کہنے لگیں ، مجھے دعوت نامہ تو نہیں ملا تھا لیکن کسی اور ذریعے سے خبر ملی ، میں نے کوشش کی لیکن وہ اس قدر کونے میں ہے کہ جا نہیں سکی۔ البتہ کانفرنس میں آئے چند غیر ملکی ادیبوں سے میری کہیں اور ملاقات ہوئ۔  ان میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ آخر اردو لکھنے والے اس روئیے کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے۔ آخر یہ کیسے ہوتا ہے کہ اتنا بڑا مجمع اکٹھا ہو اور اس میں اردو کو اور اسکے لکھنے والوں کو نظر انداز کیا جائے۔
لیکن میں آپ سے شرمین عبید کے متعلق پوچھ رہی ہوں۔ وہ اپنے موضوع کی طرف واپس پلٹیں۔ 
میں ایک ایسی فلم کے بارے میں کیا رائے دوں۔ جسکی تخلیقی زبان وہ ہے جو ملک کے دو فیصد سے بھی کم لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں۔ جو بولتے اور سمجھتے ہیں انکی اکثریت مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ  یہ سب دیکھ کر' کیا جاہلیت ہے' کہہ کر اپنی دنیا میں گم  ہو جاتے ہیں۔  یہ وہ فلم ہے جو کسی نے اب تک پاکستان میں نہیں دیکھی۔ البتہ یہ کہ اسکا موضوع پاکستان کے ماحول سے لیا گیا ہے اور بنانے والی خاتون کی جائے پیدائش پاکستان ہے۔
کیا آپ نے فلم دیکھی ہے؟ میں نے ان سے پلٹ کر سوال کیا۔ جواب نفی میں ملا۔ میں سمجھ رہی تھی کہ آپکو کسی ذریعے سے مل گئ ہوگی۔ انہوں نے فرمایا۔ جی نہیں اسکے حقوق کسی غیر ملکی چینل کے پاس محفوظ ہونگے ایسے نہیں ملے گی۔ اخبار سے اطلاع ملی کہ موصوفہ اب اسے اردو میں ڈھالنے کا کام کریں گی۔ حالانکہ فلم کی پہلی ریلیز کے وقت اس میں اردو سب ٹائٹل دالے جا سکتے تھے۔
کیا یہ ہمارا المیہ نہیں کہ ہمارے جو لوگ علم کے وسائل تک زیادہ پہنچ رکھتے ہیں دنیا سے انکی واقفیت زیادہ ہوتی ہے وہ محض اپنے نام و نمود کے لئے عوامی زبان کے بجائے اس زبان کو ترجیح دیتے ہیں جو اس ملک کے لوگ نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے کہ انکی ترجیح بین الاقوامی منڈی ہوتی ہے اور اس ملک کی زمین نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ محض ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اردو صحافت اور اردو ادب، انگریزی صحافت اور انگریزی ادب ایک دوسرے سے کس قدر چاند اور سورج کی دوری پہ موجود ہیں۔
آج ایک عام بیس سالہ نوجوان جب نسیم حجازی کے ناول پڑھ کر مذہبی جذبے سے سرشار ہو رہا ہوتا ہے تو عین اسی وقت ایک انگریزی جاننے والا اسی عمر کا نوجوان محمد حنیف کے اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز پڑھ کر ہماری سیاسی اور ثقافتی زبوں حالی کی وجوہات کو جان رہا ہوتا ہے۔ کم از کم اس میںمخالف بات کو سننے کا حوصلہ تو پیدا ہوتا ہے۔
 اردو اخبار جنگ کا اتوار کا میگزین پڑھ کر جب ایک عام پاکستانی عورت، روائیتی فرماں بردار بیوی، بیٹی، بہن  اور بہو بننے کے طریقے سیکھ رہی ہوتی ہے تو انگریزی اخبار کے اتوار کے میگزین کو پڑھنے والی عورت یہ جان رہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی مونٹیسوری کی تعلیم میں کیسے مدد کر سکتی ہے، کوئ خاتون اپنے معذور بچوں کی کیا مدد کر سکتی ہے،  اپنے آپ کو چھاتی کے کینسر سے کیسے بچا سکتی ہے، اپنی روزانہ کی زندگی میں کارآمد مشغلے کیسے اختیار کر سکتی ہے اگر وہ پیشہ ور خاتون ہے تو کیسے ملازمت کے دوران جنسی ہراسمنٹ سے بچ سکتی ہے، یہ جان سکتی ہے کہ اسکے ملک میں دیگر پڑھی لکھی خواتین کیا کر رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہی نہیں اگر کسی بھی کتاب فروخت کرنے والی جگہہ کا جائزہ لیں تو وہاں اردو میں سب سے زیادہ مذہبی کتابیں ملیں گی۔ جب کہ انگریزی کتابوں میں دنیا کے ہر موضوع پہ ہر طرح کی کتابیں نظر آئیں گی۔
کیا یہ طبقہ یہ سوچتا ہے کہ کیوں عمیرہ احمد ایک اکثریت کو پسند ہے اور کیوں محمد حنیف کو پاکستان میں ایک محدود  طبقے کے علاوہ کوئ نہیں جانتا۔ جب محمد حنیف لکھتے وقت یہ سوچتے ہونگے کہ کس طرح انکے لکھے کو بین الاقوامی سطح پہ دیکھا جائے گا اس وقت عمیرہ احمد کیا یہ سوچتی ہوگی۔ عمیرہ احمد اس وقت اردو کی معروف لکھاری ہیں اور وطن میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد ان سے واقف ہے۔ عمیرہ احمد نے اپنا سفر خواتین اردو ڈائجسٹ سے شروع کیا اور محمد حنیف نے امریکہ کے پبلشنگ ادارے سے۔ عمیرہ احمد کو پاکستان میں توجہ ملی اور محمد حنیف عالمی سطح پہ مداح حاصل کرنا چاہتے ہونگے۔ ایک نے عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے لکھا دوسرے نے  تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے دلچسپ حقائق کو اس دنیا کے سامنے پیش کیا جہاں لوگ اس ملک کے بارے میں متجسس رہتے ہیں کہ یہاں پہ دہشت گردی کیسے پھل پھول رہی ہے۔ صرف تجسس، ایک جاہل معاشرے کو اسکی جاہلیت کا طعنہ دینے کا تجسس۔
ادھر پاکستانی بلاگنگ کی دنیا دیکھیں۔ اردو سے کہیں زیادہ بلاگز انگریزی میں ہیں۔ انگریزی بلاگنگ میں پیسے ملنے کے امکانات زیادہ ہیں، شہرت کے امکانات زیادہ ہیں۔ آپ ایک بین الاقوامی دنیا میں موجود ہوتے ہیں۔ زیادہ تبصرے، زیادہ ویوز۔ مگر اس سے پاکستان میں عوامی تبدیلی کیا پیدا ہو سکتی ہے؟ 
جیسی نیت ویسا پھل۔
 نتیجے میں ایک طبقے سے سلمان تاثیر پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے سے جو اکثریت میں ہے ممتاز قادری اور اس پہ پھول برسانے والے پیدا ہوتے ہیں۔ جب سلمان تاثیر مارے جاتے ہیں تو انکا طبقہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کیسے ہو گیا۔ وہ اس بات پہ دہشت زدہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں عدم برداشت کس قدر بڑھ گئ ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو جاننے سے دور رہتا ہے کہ اس معاشرتی روئیے میں انکا اپنا رویہ شامل ہے۔
میں اگر اس تلخ حقیقت کو اس طرح بیان کروں تو شاید کچھ لوگوں کو شدید لگے گا۔ لیکن یہ کہ ہمارے اس طبقے کی کیفیت اس شخص سے مختلف نہیں جو اپنے زخم کو کرید کرید کر ہرا رکھتا ہے کیونکہ اسے اس زخم کو سہلانے اور اسکی وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں، مزہ آتا ہے۔ یہاں تو شہرت بھی ملتی ہے۔ لیکن دھیان رہنا چاہئے کہ ایک زخم کو کرید کر ہمیشہ ہرا رکھا جائے تو وہ ناسور بن جاتا ہے۔
اس ملک میں تبدیلی کا عمل اس وقت تک شروع نہیں ہو سکتا جب تک کہ تبدیلی کی خواہش کا اظہار کرنے والے اپنی زبان وہ نہیں کر لیتے جو عوام کی زبان ہے۔ یہ حقیقت تو اب برطانیہ جیسے ملک نے بھی سمجھ لی ہے اور اپنی پہلی اردو ویب سائیٹ بھی بنا لی۔ 
 یہ بات اتنی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ آپ جنہیں تبدیلی سے روشناس کرانا چاہتے ہیں۔ انکے متعلق آپ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے سے اسکی زبان میں بات کرتے ہیں لیکن ان سے انکی زبان میں بات نہیں کرتے۔ انکے مسائل کے حل کے لئے ہر ٹام اینڈ جیری سے مشورہ لیتے ہیں لیکن مسائل کے یہ حل کبھی انکے سامنے نہیں رکھتے اور نہ ہی اسکے لئے خود کوشش کرتے ہیں۔
خیر، میں آجکل ایک کتا پال رہی ہوں  وہ بھی بیلجیئن شیفرڈ جیسا۔ یہ کتا بے حد ذہین اور وفادار جانور ہوتا ہے۔ لیکن اگر اسے انسانوں کے ساتھ گھلنے ملنے کا موقع نہ ملے اور کوئ اس سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے روزانہ کچھ وقت اسکے ساتھ نہ گذارے تو یہ حد سے زیادہ خونخوار بن جاتا ہے۔ اور معمولی باتوں پہ حملہ کرنے کو تیار رہتا ہے۔  یہی نہیں اسے اندازہ ہو جائے کہ مالک مجھے قابو نہیں کر سکتا تو وہ مالک پہ قابو پا لیتا ہے۔ مجھے اسے اپنا مطیع بنانےاور اسکی صلاحیتوں کواپنے حق میں رکھنے کے لئے، اسے نہ صرف احساس تحفظ دینا ہو گا بلکہ اسے یقین دلانا ہوگا کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں اور اسکی زبان سمجھتی ہوں۔ کہتے ہیں بیلجیئن شیفرڈ احسان فراموشی نہیں کرتا۔
اس لئے میں تو چلی اسکی زبان سمجھنے اور اسے اپنی سمجھانے۔

Sunday, March 25, 2012

باتونی پنکھا

وہ سونے کے کپڑے پہن کر ادھر ادھر ٹہل رہی تھیں۔ پھر میرے کمرے میں چلی آئیں۔ 'ماما آپ سو رہی ہیں'۔ 'نہیں، میں تھوڑا سا تھک گئ ہوں اور انتظار کر رہی ہوں۔ بابا آجائیں تو ہم کھانا کھائیں۔ لیکن آپکے سونے کا وقت ہو چکا ہے۔ اب آپ سو جائیں'۔ 'ماما، مجھے کون سلائے گا'۔ ' ارے یار میں نے انکے کمرے تک جانے کی سستی میں کہا۔ 'اچھا ادھر ہی سو جاءو۔ جب بابا آئیں گے تو تمہیں تمہارے بستر پہ پہنچا دیں گے۔ وہ جلدی سے میرے پہلو میں آگئیں۔ 'اب باتیں بالکل نہیں خاموشی سے آنکھیں بند کرو اور سو جاءو۔ میرا اس وقت بولنے کا موڈ نہیں ہے۔ ہلنا جُلنا نہیں میرا انگوٹھا زخمی ہے۔ اندھیرے میں تم اس پہ اپنا ہاتھ یا ٹانگ مار دوگی'۔ 'ماما، میں تھوڑی سی دیر کے لئے سءوونگی" ٹھیک ہے میں نے جواب دیا۔ جب بچہ ایک دفعہ سو جائے تو پھر تو سوئے گا۔
دس سیکنڈ بعد آواز آئ۔
 'ماما، یہ پنکھا مائے مے، مائے مے بول رہا ہے'، 'ہوں'۔ پھر خاموشی اور کروٹیں لینے کی آوازیں۔ ' ماما ، اب یہ پنکھا بائے باں، بائے باں کر رہا ہے'۔ 'ہاں ، لیکن اب تمہاری آواز نہیں آنی چاہئیے، ورنہ  یہاں سے باہر'۔ میں نے پھر دھمکی دی۔ 
بیس سیکنڈ بعد۔
 ماما، یہ پنکھا، گیں گاں ، گیں گاں بول رہا ہے۔ ماما، یہ پنکھا اپنا مائینڈ بدلتا ہے تو الگ طریقے سے بولنے لگتا ہے'۔ مشعل میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ باتیں نہیں کریں گی اور خآموشی سے آنکھیں بند کر کے سوئیں گی'۔  'ماما، میں باتیں نہیں کر رہی ہوں۔ پنکھا باتیں کر رہا ہے۔ ویسے بھی میں نے کہا تھا کہ میں تھوڑی سی دیر کے لئے سوءونگی۔ میں سو چکی اب جا رہی ہوں'۔ یہ کہہ کر وہ بستر سے پھسلیں اور یہ جا وہ جا۔
میں نے سوچا، چلیں دس منٹ کے لئے اب آنکھیں بند کر کے خاموشی سے پڑی رہونگی۔ سو تکئے میں منہ چھپا کر لیٹ گئی۔ لیکن اب بھی کوئ باتیں کر رہا ہے۔ مائے مے، مائے مے۔ یہ پنکھا تو واقعی باتیں کرتا ہے۔

Friday, March 23, 2012

پاکستان؟

آج جب گھر سے نکلی تو ٹی وی پہ قومی ترانے چل رہے تھے۔ فیس بک پہ لوگ تیئیس مارچ جیسے قومی دن پہ اپنے  جذبات سے فضا کو پرجوش بنائے ہوئے تھے۔  گھر سے باہر نکل کر بس جمعہ بازار تک گئ ، سبزیاں لینے اور یہ طلسم ٹوٹ گیا۔
ہوا یوں کہ جب میں نے امرود والے کے اس دعوے کے رد میں کہ اس نے بقول اسکے بہترین امرود رکھے ہیں۔ ایک بھی داغ دار نہیں ہوگا۔ ایک کے بعد ایک چار داغدار امرود نکال کر واپس رکھے تو بازار ان نعروں کی آواز سے گونج اٹھا جو سڑک سے آرہی تھیں۔ دوکاندار کی داغدار زبان رک گئ اور اسکی توجہ روڈ پہ ہو گئ۔ میں نے بھی مڑ کر دیکھا  بلا کسی خوف کے کہ کوہ قاف میں تو موجود نہیں ہوں۔ ایک کے بعد کئ منی بسیں گذریں جن پہ لوگوں کا ہجوم جئے سندھ نیشنلسٹ پارٹی کے جھنڈے لئے بیٹھا وہ نعرے لگا رہا تھا جنکے مطلب  اور معنی سے وہ خود بھی آگاہ نہیں تھے۔ مجھے بھی سمجھ نہیں آرہے تھے۔ یہ گاڑیاں شہر کے اس حصے کی طرف سے آرہی تھِں جہاں سندھی بلوچ گوٹھ ہیں۔ یہ وہ عوام ہے جو پیچھے پلٹ کر دیکھ نہیں سکتی۔ اس لئے نہیں کہ پتھر کی بن جائے گی اس لئے کہ اسے پیچھے دیکھنا ہی نہیں آتا۔ دیکھنا تو اسے آگے بھی نہیں آتا۔ جو انکے جدی پشتی رہ نما دکھا دیں وہی دِکھنے لگتا ہے۔
گھر آکر شہر کے حالات جاننے کا تجسس ہوا کہ ایک دوست سے ملنے کا وعدہ تھا۔ معلوم ہوا کہ  سندھ کی آزادی کا مطالبہ رکھنے والی اس ریلی کے شرکاء کی وجہ سے شاہراہ فیصل پہ بد ترین ٹریفک جام ہے۔ اور اس رکے ہوئے ٹریفک میں مسلح افراد نے لوٹ مار شروع کی ہوئ ہے۔
یہ جئے سندھ کی اس سلسلے میں پہلی ریلی نہیں تھی۔ ابھی چار دن پہلے بھی میں انکی ایسی ہی ریلی میں پھنسی اور جہاں جانے کا ارادہ تھا اسے ترک کے واپس آگئ۔
میں نے اپنا گھر سے نکلنے کا خیال منسوخ کیا۔ اور سوچنے لگی کہ ایک طرف بلوچستان میں آزادی کی نام نہاد جنگ سردار لندن، فرانس اور امریکہ میں بیٹھ کر لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف خیبر پختون خواہ میں انتہا پسندوں نے تحریک چلائ ہوئ ہے کہ انکے علاقے کی علاقہ غیر والی حیثیت بحال کر کے اسے حکومت  پاکستان کے رائج قوانین سے نہ صرف نجات دی جائے بلکہ باقی کے ملک میں بھی انکی مرضی کا نظام حکومت لایا جائے۔ جسے وہ شرعی حکومت کا نام دیتے ہیں۔ ادھر خدا بہتر جانتا ہے کہ کس کی شہہ پہ اچانک جئے سندھ والوں کو سندھ کی آزادی کے نعرے پہ دوبارہ کھڑا کر کے کراچی میں اودھم مچانے کی اجازت دے دی گئ ہے۔ ابھی چند دن پہلے کراچی میں کسی خفیہ ہاتھ نے کراچی کی دیواروں پہ مہاجر صوبے کا مطالبہ بھی لکھنے کی کوشش کی۔  ادھر پنجاب  میں جنوبی پنجاب باقی پنجاب سے اپنا حق مانگ رہا ہے۔ ادھر باقی پنجاب نئے سرے سے مسلمان ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اب ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے۔ یہ ملک یہاں کی بنیادی اقوام کو چاہئیے یا نہیں؟
مجھ سے ایک بزرگ نے دریافت کیا کہ یوم پاکستان کیوں منایا جاتا ہے؟ میں نے مطالعہ پاکستان میں برسوں پڑھے ہوئے جواب کو طوطے کی طرح دوہرا دیا۔ اس دن دو قومی نظرئیے کی بنیاد پہ پاکستان بنانے کا مطالبہ ایک قرارداد کی صورت میں مسلمانوں کی طرف سے متفقہ طور پہ پیش کیا گیا تھا۔ پھر پاکستان کا پہلا آئین بھی اسی دن پیش ہوا۔
انہوں نے دریافت کیا لیکن جس دن بنگلہ دیش بنا۔ نہ صرف اس قرارداد سے تعلق رکھنے والا  پاکستان اس دن ختم ہو گیا تھا بلکہ واقعی اگر کوئ دو قومی نظریہ تھا تو وہ بھی اس دن غلط ثابت ہوا۔  رہا آئین تو اس  پہلے کے بعد کئ آئین آئے۔ یہ آئین جسکی بگڑی ہوئ شکل اب موجود ہے۔ جو بھٹو نے بنایا۔ اسے قوم کو دینے کے بعد چوبیس گھنٹوں میں اس میں پہلی ترمیم ہوئ، جو بھٹو ہی نے کی تھی مخالفین کو دبانے کے لئے۔ اس لئے ان دونوں وجوہات کی بناء پہ تو اب اس دن کو بالکل نہیں منانا چاہئیے۔ کیوں مناتے ہو تم لوگ یہ دن؟
کیوں مناتے ہیں ہم یہ دن، کیا اس لئے کہ قومی ترانوں کو گانے کی پریکٹس ہو سکے یا اس لئے کہ اپنی منافقت کی ہم مزید مشق کر سکیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اگلی نسلوں میں اپنی پوری آب و تاب سے منتقل نہ ہو سکے؟
ملک کی سیاسی حالات کی ابتری کا اندازہ لگانے کے لئے مزید اشارے دیکھیں۔ گیلانی صاحب عدالت کے زور دینے پہ بھی سوئس حکومت کو خط لکھنے کے لئے تیار نہیں۔ انکے بقول وہ صدر صاحب کی پیٹھ میں چھرا نہیں مار سکتے۔ یہ نہ کر کے وہ  پاکستان کے سینے میں چھرا مار رہے ہیں اسکا انہیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں بلکہ پرواہ بھی نہیں۔
 اعتزاز احسن جو ججوں کی بحالی تحریک میں آگے آگے ہو رہے تھے۔ جسکی وجہ اب یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ بس مشرف کے لکھے کو مٹانا چاہتے تھے۔ اس کیس میں انہوں نے بھی اپنے ضمیر کی شاید صحیح قیمت وصول کر لی ہے۔ کہتے ہیں عدالت کو گیلانی صاحب کے گدی نشیں ہونے کا تو خیال کرنا چاہئیے۔
یہی نہیں، ادھر برہمداغ بگتی کے اوپر سے سارے مقدمات واپس۔ کیوں جناب؟ اس لئے کہ بلوچستان کہیں پاکستان سے الگ نہ ہوجائے۔ پھر پاکستان کے  یہ چھوٹے چھوٹے لوگ کیوں سزائیں بھگتتے ہیں اس لئے کہ وہ کسی نواب خاندان سے نہیں۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ پولیس اور عدالت کا نظام ہی ختم کر کے اس عذاب سے جان چھڑائیں۔
طالبان سے مذاکرات کر کے انکے مطالبات پہ غور ہونا چاہئیے۔ وہ کس لئے؟ کیونکہ ملک میں امن اسی طرح قائم ہو سکتا ہے کہ جنونیوں سے بھی خوشگوار تعلقات رکھے جائیں۔
ادھر کل زرداری صاحب  کو تاحیات صدر منتخب کیا جائے گا۔ وہ کیوں بھئ؟ کیونکہ اگر وہ پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے تو جئے سندھ والے تو سندھ کو پاکستان سے الگ کر کے لے جائیں گے۔ 
یہ پاکستان کیا کاغذ پہ ایک نقشے کا نام ہے؟ 
پاکستان کیا کسی قرارداد کا نام ہے؟
پاکستان کیا کسی نظرئیے کا نام ہے؟
پاکستان کیا ایک کرکٹ ٹیم کا نام ہے؟
حقیقت کچھ یوں نظر آتی ہے کہ یہاں کے حکمرانوں کو، سرداروں کو، جاگیرداروں کو، نوابوں کو اگر اسکے چھوٹے چھوٹے حصے بنا کر  وہاں کا والی وارث بنادیا جائے تو نہ صرف یہ اسے اپنی خوش قسمتی جانیں گے بلکہ انکے زیر سایہ آنے والے عوام بھی اس نشے میں کئ نسلیں زمین پہ رینگ کر گذار لیں گے۔
آخر ہم یوم پاکستان کیوں مناتے ہیں؟ جبکہ ہم پاکستان پہ یقین نہیں رکھتے۔
جب ہم الگ ہو جائیں گے تو کس حصے کا نام پاکستان ہوگا اور کیا وہاں یوم پاکستان منایا جائے گا؟
اور  اب آخری سوال وہ کیا چیز ہے جو پاکستان کو جوڑ کر رکھ سکتی ہے؟ دائیں بازو والے شاید ایک دفعہ پھر اسکاجواب مذہب دیں لیکن میرے خیال میں شاید ایٹم بم۔ کیونکہ الگ ہوتے ہوئے  ان قوتوں کو یہ بھی تو سوچنا پڑے گا کہ آخر ایٹم بم کس کے حصے میں جائے گا۔ 

Tuesday, March 20, 2012

صداقت کی وراثت

جن سے مل کر زندگی سے محبت ہو جائے وہ لوگ آپ نے دیکھے نہ ہوں مگر ایسے بھی ہیں۔ ڈاکٹر شیر شاہ کا شمار انہی لوگوں میں کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں وراثتی رہ نماء سیاست کے نام پہ لوگوں کو قتل کرتے ہوں اور اپنے مفاد کے لئے ہر ظلم روا رکھتے ہوں۔ جہاں حکمرانی کے نام پہ اپنی  اور اپنی نسلوں کی عیاشی کے سامان کئے جاتے ہوں۔ جہاں غریب کی غربت کو بیچ کر اپنے لئے خزانے جمع کئے جاتے ہوں۔ جہاں اشرافیہ کا طبقہ دولت اور شہرت دونوں ہی اپنے حلقے میں بانٹتا پھرتا ہو اور معاشرے کے کمزور طبقے کے حصے میں ترس اور حقارت کے سوا کچھ نہ آتا ہو۔ وہاں ان جیسے لوگوں کا موجود ہونا ایک معجزہ لگتا ہے۔
آخر ایسے انسان ایک خود غرض معاشرے کے کینوس پہ کس طرح نمودار ہوجاتے ہیں۔ اسکا بڑا کریڈٹ اس بات کو جاتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کے سامنے کون سی زندگی پیش کرتے ہیں۔اور اسے پیش کرتے وقت وہ عملی طور پہ اسکی صداقت پہ خود کتنا پورا اترتے ہیں۔
مجھے انکی شخصیت، پاکستانی خواتین کے لئے انکی گراں مایہ خدمات اور ان سے دردمندی رکھنے کی وجہ سے ہی نہیں پسند بلکہ یہ بھی پسند ہے کہ ہمہ وقت حالت کام میں رہنے کے باوجود انکی زندہ دلی اپنی جگہ رہتی ہے۔  ایک گائناکولوجسٹ کے طور پہ وہ اپنی بے لوث خدمات کے لئے کئ بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن انکا اصل ایوارڈ وہ خواتین ہیں جنہیں انہوں نے زندہ درگور ہونے سے بچا لیا۔
ڈاکٹر شیر شاہ کا ایک مضمون مجھے ایک دوست کی توسط سے ملا۔ یہ مضمون ڈان اخبار میں چھپ چکا ہے۔ اسکا اردو ترجمہ یہاں حاضر ہے۔ ڈاکٹر شیرشاہ کا یہ مضمون انکے والد صاحب کے حوالے سے ہے۔











اسکین شدہ صفحات کو بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے ان پہ کلک کیجئِے۔


Monday, March 19, 2012

اے بی او ، خون کا نظام

لہو کے دو رنگ، یہ ایک فلم کا نام ہے۔ لہو کے دو رنگ ہوتے نہیں ایک ہی ہوتا ہے، چمکدار سرخ۔ اگر یہ سرخ کے بجائے کچھ اور ہوتا تو دنیا بھر کے ادب اور سیاست پہ انتہائ گہرے اثرات مرتب ہوتے۔ جن پہ اس وقت روشنی ڈالنا ممکن نہیں۔
 اس لئے اگر قتل کی کسی وارادت کی جگہ پہ مختلف افراد کے خون کے  دھبے ملیں تو وہ تمام بادی النظر میں ایک ہی نظر آئیں گے۔ لیکن ان دھبوں سے کم از کم یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ موقعہ ء واردات پہ کتنے لوگ موجود تھے۔ وہ ایسے کہ ان دھبوں کا بلڈ گروپ معلوم کر لیا جائے۔
لیب میں بلڈ گروپ معلوم کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ انڈا ابالنا۔  لیکن ٹہریں پہلے ہمیں خون کے مختلف گروپس پہ بات کر لینی چاہئیے۔
خون کے ان گروپس کی درجہ بندی خون کے سرخ ذرے پہ موجود انٹی جن کی وجہ سے ممکن ہے۔ سرخ ذرات پہ موجود یہ اینٹی جنز  پروٹین، کاربو ہائیڈریٹس، گلائیکو پروٹینز یا گلائیکو لِپِڈز کے بنے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ اسکا انحصار اس بات پہ ہے کہ وہ خون کا کون سا گروہ بناتے ہیں۔
 انکی بنیاد پہ خون کے تیس نظام سامنے آتے ہیں جن میں چھ سو مختلف اقسام کے اینٹی جنز معلوم کئے جا چکے ہیں۔ ان نطاموں میں سے کافی سارے نایاب ہیں یعنی بہت کم انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ بعض کچھ نسلوں ہی میں پائے جاتے ہیں۔
خون کی درجہ بندی کا ایک نظام جو بہت عام ہے اے بی او نظام کہلاتا ہے۔
 اس نظام میں خون کے سرخ ذرے پہ دو طرح کے اینٹی جنز ہو تے ہیں۔ ایک اے اور دوسرا بی۔ لیکن، معاملہ یہیں نہیں رکتا۔ خون کا تیسرا گروپ جو اس درجہ بندی میں سامنے آتا ہے وہ یہ کہ یہ دونوں اینٹی جنز ایک ساتھ سرخ ذرے پہ موجود ہوں تب یہ گروپ اےبی کہلاتا ہے اور چوتھی شکل یہ ہوتی ہے کہ یہ دونوںاینٹی جنز، سرخ  ذرے پہ غیر موجود ہوں۔ غیر موجودگی ریاضی کی زبان میں زیرو کہلاتی ہے اور زیرو ہوتا ہے گول بالکل او کی طرح,اس لئے یہ او گروپ کہلاتا ہے۔ مزید وضاحت کے لئے نیچے موجود چارٹ دیکھئیے۔

اب آپ سوچیں گے کہ گروپ پازیٹو اور نیگیٹو کیسے ہوتا ہے؟
 اسکی وجہ سرخ ذرے پہ ایک اور اینٹی جن کی موجودگی ہوتی ہے جو آر ایچ فیکٹر کہلاتا ہے۔ سو خون کے جس ذرے پہ آر ایچ فیکٹر موجود ہوگا وہ پازیٹو گروپ ہوگا اور جس پہ نہیں ہوگا وہ نیگیٹو کہلائے گا۔
اس طرح سے اے پوزیٹو کا مطلب ہوا اے اینٹی جن کے ساتھ آر ایچ فیکٹر بھی موجود ہے جبکہ اے نیگیٹو کا مطلب ہے اے اینٹی جن موجود اور آر ایچ فیکٹر غیر موجود۔
اس طرح سے او پازیٹو کا مطلب ہے اے اور بی اینٹی جن غیر موجود اور آر ایچ فیکٹر موجود ہے۔ یہی فارمولہ اس نظام کے باقی گروپس کے لئے بھی درست ہوگا۔

بچوں میں خون کا کون سا نظام ہوگا؟
 اسکا کچھ انحصار والدین میں موجود نظام پہ بھی ہے۔ اکثر لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ ماں کا گروپ اے ہے باپ کا گروہ اے ہے لیکن بچے کا گروپ او ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ہمارے جسم میں  موجود خصوصیات کا کوڈ ان دھاگوں میں موجود ہوتا ہے جنہیں کروموسومز کہتے ہیں۔
 یہ کروموسومز ہمیں وراثت میں ملتے ہیں. انسان میں ہر خلئِے میں انکی تعداد تئیس جوڑے ہوتی ہے۔  ہر کروموسوم دو دھاگوں سے مل کر بنتا ہے۔ ان میں سے ایک باپ کی طرف سے آتا ہے اور دوسرا ماں کی طرف سے۔ ان دھاگوں پہ سمجھ لیں کہ انفارمیشن کے نقطے بنے ہوتے ہیں۔ بالوں کے رنگ کے نقطے موجود ہیں تو خون کے گروپ کے بھی۔ انہیں سائینسی زبان میں ایلِل کہتے ہیں۔  ان میں سے جو حاوی ہو جاتا ہے بچے کو وراثت میں وہی خصوصیت ملتی ہے۔ وراثت میں ملنے والی خصوصیات معاشرتی رجحان نہیں دیکھتیں۔  اس لئے ماں یا باپ کسی کی بھی خصوصیات لینے میں آزاد ہوتی ہیں۔
ایک ماں جو بلڈ گروپ 'بی' رکھتی ہے۔ اسکے بلڈ گروپ میں دو طرح کے ایلل ہو سکتے ہیں۔  ایک' بی' اور 'او'، او کا مطلب ہم جانتے ہیں کچھ نہیں۔ اگر ایک ایلِل بی ہے اور دوسرا کچھ نہیں تو نتیجہ 'بی' نکلے گا۔ دوسرا سیٹ ہوگا، بی اور بی۔ دو 'بی' مل کر 'بی' ہی بنائیں گے۔
اس طرح سے سیٹ کچھ اس طرح بنیں گے۔
او اور او= او
بی اور او= بی
اے اور او= اے
اے اور بی= اے بی
اے اور اے= اے
بی اور بی= بی

اس سارے معمے کو اس تصویر کی مدد سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
تصویر میں باپ کا گروپ 'اے' ہے جس میں دو ایلل ہیں 'اے اور ' او'۔ ماں کا بلڈ گروپ 'بی' ہے جس میں دو ایلل ہیں 'بی' اور 'او'۔ یہ چار ایلل جب ملتے ہیں تو چار مختلف سیٹس دیتے ہیں۔ جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بچہ اس بات کی اہلیت رکھتا ہے کہ ان چار میں سے کوئ بھی ایلل سیٹ لے لے۔ زیادہ مضبوط جینز عام طور پہ حاوی رہتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی کمزور جین کا بھی زور چل جاتا ہے۔ لہذا اے اور بی گروپ رکھنے والے وا؛لدین کے یہاں  'او' گروپ رکھنے والے بچے کی پیدائش ممکن ہے۔

بلڈ گروپ معلوم ہونے کا فائدہ کیا ہے؟
اسکا فائدہ یہ ہے کہ انتقال خون کی صورت میں ایک شخص کو درست خون ملتا ہے۔ اگر خون کا گروپ ایک جیسا نہ ہو تو جو شخص خون لیتا ہے اسکے خون کے سرخ ذرات ٹوٹنے لگتے ہیں اور اسکی موت واقع ہوجاتی ہے۔  انتقال خون کے لئے صرف بلڈ گروپ کا ایک جیسا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات انکی کراس میچنگ بھی کی جاتی ہے تاکہ کسی بھی اور طرح کے رد عمل سے بچا جا سکے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ خون میں موجود دیگر اینٹی جنز آپس میں نہ ملتے ہوں۔
بعض بیماریاں خون کے گروپ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اگر خون کا گروپ پتہ ہو تو اسکی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ مثلاً ایک حاملہ عورت جس کے خون کا گروپ منفی ہو اگر اسکے ہونے والے بچے کا گروپ مثبت ہو تو اسکے جسم میں بچے کے اینٹی جنز کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا ہوجاتی ہیں جو بچے کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اور اس سے بچے کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ بیسویں صدی میں طب کے شعبے میں ہونے والی کامیابی میں یہ کامیابی بھی شامل ہے کہ ماءووں کو ایک انجکشن دینے سے بچے کی زندگی بچائ جا سکتی ہے۔ اگر یہ انجکشن نہ دیا جائے تو ایسی عورت کے یہاں ہمیشہ مردہ بچے پیدا ہونے کے امکانات ہونگے۔

کیا انتقال خون کے لئے دینے والے اور لینے والے کے خون کے گروپس کا ایک جیسا ہونا ضروری ہے؟
اگر کوئ ایمرجنسی ہو اور خون کی بہت کم مقدار دینی ہو تو ایسا ہمیشہ لازمی نہیں ہوتا۔  لیکن اسکے بھی اصول ہیں۔ 
اے گروپ رکھنے والے، اے گروپ کا خون لے سکتے ہیں۔ 'بی' والے 'بی' کا، اے بی والے، اے بی کا۔ لیکن یہ تینوں گروپس 'او' گروپ بھی لے سکتے ہیں۔  کیونکہ 'او' کا مطلب ہے کوئ اینٹی جن نہیں ہے۔ یعنی کسی قسم کا ضد رد عمل پیدا ہونے کا امکان نہیں۔او گروپ کسی اور گروپ کا خون نہیں لے سکتا۔ کیونکہ اسکے پاس کوئ اینٹی جن موجود نہیں ہے۔  گروپ 'اے بی' سے تعلق رکھنے والے 'اے' اور 'بی' دونوں گروپ قبول کر سکتے ہیں۔ کیونکہ انکے پاس دونوں اینٹی جنز موجود ہوتے ہیں۔ یہ 'او' گروپ کا خون بھی لے سکتے ہیں۔
صرف اے بی او نظام ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ آر ایچ فیکٹر بھی ضروری ہے۔ آر ایچ فیکٹر مثبت رکھنے والے صرف مثبت گروپ کو خون دے سکتے ہیں۔ کیونکہ انکے پاس مثبت اینٹی جن موجود ہوتا ہے۔ آر ایچ منفی رکھنے والے مثبت اور منفی دونوں کو دے سکتے ہیں کیونکہ انکے پاس کوئ آر ایچ اینٹی جن نہیں ہوتا۔
ان دونوں کو عوامل کو ملائیں تو نتیجہ کچھ یوں نکلتا ہے۔ 'منفی او' گروپ رکھنے والے ہر ایک خون دے سکتے ہیں اس لئے یونیورسل ڈونر کہلاتے ہیں اور گروپ'مثبت اے بی' ہر گروپ لے سکتے ہیں اس لئے یونیورسل ایکسیپٹر کہلاتے ہیں۔
  
کیا بلڈ گروپ تبدیل ہو سکتا ہے؟
نارمل حالات میں ایک انسان کا بلڈ گروپ زندگی بھر تبدیل نہیں ہوتا۔ لیکن یہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ اسکی چند ایک صورتیں ہیں۔  ہڈیوں کے گودے میں اگر تبدیلی ہو تو بلڈ گروپ تبدیل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ  وہ خلیات جو خون بناتے ہیں وہ ہڈی کے گودے میں ہوتے ہیں۔ اگر یہ خلیات بدل جائیں تو خون کا گروپ بھی بدل جائے گا۔ یوں کینسر کا ایسا علاج جس میں ہڈیوں کا گودا تبدیل ہوتا ہے ۔ مریض کے خون کے گروپ میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ اگر گودا دینے والے کے خون کا گروپ مختلف ہو۔ اور یہ بالآخر وہی ہوجاتا ہے جو گودا دینے والے کا ہوتا ہے۔ 
اسکے علاوہ یہ اس وقت بھی ممکن ہے جب جسم میں خود دفاعی نظام کی بیماری پیدا ہو جائے۔ اس صورت میں جسم کا دفاعی نظام اپنے ہی خلیات کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے اور انہیں تباہ کرنے لگ جاتا ہے۔ اس طرح خون کو مخصوص گروپ دینے والے اینٹی جنز تباہ ہو جاتے ہیں اور خون کا گروپ بدل جاتا ہے۔ 
قارئین، یہ تھیں کچھ ابتدائ، دلچسپ اور مختصر معلومات خون کے بارے میں۔ امید ہے کچھ نہ کچھ آپ کو ضرور سمجھ آیا ہوگا اور یہ آپکے لئے عملی طور پہ کارآمد ثابت ہونگیں۔
ارے ہاں ہم تو یہ بتا رہے تھے کہ خون کا گروپ کیسے معلوم کرتے ہیں۔ لیکن یہ تحریر اتنی لمبی ہو گئ۔ اس لئے پھر کبھی۔
:)