Monday, March 19, 2012

اے بی او ، خون کا نظام

لہو کے دو رنگ، یہ ایک فلم کا نام ہے۔ لہو کے دو رنگ ہوتے نہیں ایک ہی ہوتا ہے، چمکدار سرخ۔ اگر یہ سرخ کے بجائے کچھ اور ہوتا تو دنیا بھر کے ادب اور سیاست پہ انتہائ گہرے اثرات مرتب ہوتے۔ جن پہ اس وقت روشنی ڈالنا ممکن نہیں۔
 اس لئے اگر قتل کی کسی وارادت کی جگہ پہ مختلف افراد کے خون کے  دھبے ملیں تو وہ تمام بادی النظر میں ایک ہی نظر آئیں گے۔ لیکن ان دھبوں سے کم از کم یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ موقعہ ء واردات پہ کتنے لوگ موجود تھے۔ وہ ایسے کہ ان دھبوں کا بلڈ گروپ معلوم کر لیا جائے۔
لیب میں بلڈ گروپ معلوم کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ انڈا ابالنا۔  لیکن ٹہریں پہلے ہمیں خون کے مختلف گروپس پہ بات کر لینی چاہئیے۔
خون کے ان گروپس کی درجہ بندی خون کے سرخ ذرے پہ موجود انٹی جن کی وجہ سے ممکن ہے۔ سرخ ذرات پہ موجود یہ اینٹی جنز  پروٹین، کاربو ہائیڈریٹس، گلائیکو پروٹینز یا گلائیکو لِپِڈز کے بنے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ اسکا انحصار اس بات پہ ہے کہ وہ خون کا کون سا گروہ بناتے ہیں۔
 انکی بنیاد پہ خون کے تیس نظام سامنے آتے ہیں جن میں چھ سو مختلف اقسام کے اینٹی جنز معلوم کئے جا چکے ہیں۔ ان نطاموں میں سے کافی سارے نایاب ہیں یعنی بہت کم انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ بعض کچھ نسلوں ہی میں پائے جاتے ہیں۔
خون کی درجہ بندی کا ایک نظام جو بہت عام ہے اے بی او نظام کہلاتا ہے۔
 اس نظام میں خون کے سرخ ذرے پہ دو طرح کے اینٹی جنز ہو تے ہیں۔ ایک اے اور دوسرا بی۔ لیکن، معاملہ یہیں نہیں رکتا۔ خون کا تیسرا گروپ جو اس درجہ بندی میں سامنے آتا ہے وہ یہ کہ یہ دونوں اینٹی جنز ایک ساتھ سرخ ذرے پہ موجود ہوں تب یہ گروپ اےبی کہلاتا ہے اور چوتھی شکل یہ ہوتی ہے کہ یہ دونوںاینٹی جنز، سرخ  ذرے پہ غیر موجود ہوں۔ غیر موجودگی ریاضی کی زبان میں زیرو کہلاتی ہے اور زیرو ہوتا ہے گول بالکل او کی طرح,اس لئے یہ او گروپ کہلاتا ہے۔ مزید وضاحت کے لئے نیچے موجود چارٹ دیکھئیے۔

اب آپ سوچیں گے کہ گروپ پازیٹو اور نیگیٹو کیسے ہوتا ہے؟
 اسکی وجہ سرخ ذرے پہ ایک اور اینٹی جن کی موجودگی ہوتی ہے جو آر ایچ فیکٹر کہلاتا ہے۔ سو خون کے جس ذرے پہ آر ایچ فیکٹر موجود ہوگا وہ پازیٹو گروپ ہوگا اور جس پہ نہیں ہوگا وہ نیگیٹو کہلائے گا۔
اس طرح سے اے پوزیٹو کا مطلب ہوا اے اینٹی جن کے ساتھ آر ایچ فیکٹر بھی موجود ہے جبکہ اے نیگیٹو کا مطلب ہے اے اینٹی جن موجود اور آر ایچ فیکٹر غیر موجود۔
اس طرح سے او پازیٹو کا مطلب ہے اے اور بی اینٹی جن غیر موجود اور آر ایچ فیکٹر موجود ہے۔ یہی فارمولہ اس نظام کے باقی گروپس کے لئے بھی درست ہوگا۔

بچوں میں خون کا کون سا نظام ہوگا؟
 اسکا کچھ انحصار والدین میں موجود نظام پہ بھی ہے۔ اکثر لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ ماں کا گروپ اے ہے باپ کا گروہ اے ہے لیکن بچے کا گروپ او ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ہمارے جسم میں  موجود خصوصیات کا کوڈ ان دھاگوں میں موجود ہوتا ہے جنہیں کروموسومز کہتے ہیں۔
 یہ کروموسومز ہمیں وراثت میں ملتے ہیں. انسان میں ہر خلئِے میں انکی تعداد تئیس جوڑے ہوتی ہے۔  ہر کروموسوم دو دھاگوں سے مل کر بنتا ہے۔ ان میں سے ایک باپ کی طرف سے آتا ہے اور دوسرا ماں کی طرف سے۔ ان دھاگوں پہ سمجھ لیں کہ انفارمیشن کے نقطے بنے ہوتے ہیں۔ بالوں کے رنگ کے نقطے موجود ہیں تو خون کے گروپ کے بھی۔ انہیں سائینسی زبان میں ایلِل کہتے ہیں۔  ان میں سے جو حاوی ہو جاتا ہے بچے کو وراثت میں وہی خصوصیت ملتی ہے۔ وراثت میں ملنے والی خصوصیات معاشرتی رجحان نہیں دیکھتیں۔  اس لئے ماں یا باپ کسی کی بھی خصوصیات لینے میں آزاد ہوتی ہیں۔
ایک ماں جو بلڈ گروپ 'بی' رکھتی ہے۔ اسکے بلڈ گروپ میں دو طرح کے ایلل ہو سکتے ہیں۔  ایک' بی' اور 'او'، او کا مطلب ہم جانتے ہیں کچھ نہیں۔ اگر ایک ایلِل بی ہے اور دوسرا کچھ نہیں تو نتیجہ 'بی' نکلے گا۔ دوسرا سیٹ ہوگا، بی اور بی۔ دو 'بی' مل کر 'بی' ہی بنائیں گے۔
اس طرح سے سیٹ کچھ اس طرح بنیں گے۔
او اور او= او
بی اور او= بی
اے اور او= اے
اے اور بی= اے بی
اے اور اے= اے
بی اور بی= بی

اس سارے معمے کو اس تصویر کی مدد سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
تصویر میں باپ کا گروپ 'اے' ہے جس میں دو ایلل ہیں 'اے اور ' او'۔ ماں کا بلڈ گروپ 'بی' ہے جس میں دو ایلل ہیں 'بی' اور 'او'۔ یہ چار ایلل جب ملتے ہیں تو چار مختلف سیٹس دیتے ہیں۔ جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بچہ اس بات کی اہلیت رکھتا ہے کہ ان چار میں سے کوئ بھی ایلل سیٹ لے لے۔ زیادہ مضبوط جینز عام طور پہ حاوی رہتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی کمزور جین کا بھی زور چل جاتا ہے۔ لہذا اے اور بی گروپ رکھنے والے وا؛لدین کے یہاں  'او' گروپ رکھنے والے بچے کی پیدائش ممکن ہے۔

بلڈ گروپ معلوم ہونے کا فائدہ کیا ہے؟
اسکا فائدہ یہ ہے کہ انتقال خون کی صورت میں ایک شخص کو درست خون ملتا ہے۔ اگر خون کا گروپ ایک جیسا نہ ہو تو جو شخص خون لیتا ہے اسکے خون کے سرخ ذرات ٹوٹنے لگتے ہیں اور اسکی موت واقع ہوجاتی ہے۔  انتقال خون کے لئے صرف بلڈ گروپ کا ایک جیسا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات انکی کراس میچنگ بھی کی جاتی ہے تاکہ کسی بھی اور طرح کے رد عمل سے بچا جا سکے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ خون میں موجود دیگر اینٹی جنز آپس میں نہ ملتے ہوں۔
بعض بیماریاں خون کے گروپ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اگر خون کا گروپ پتہ ہو تو اسکی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ مثلاً ایک حاملہ عورت جس کے خون کا گروپ منفی ہو اگر اسکے ہونے والے بچے کا گروپ مثبت ہو تو اسکے جسم میں بچے کے اینٹی جنز کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا ہوجاتی ہیں جو بچے کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اور اس سے بچے کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ بیسویں صدی میں طب کے شعبے میں ہونے والی کامیابی میں یہ کامیابی بھی شامل ہے کہ ماءووں کو ایک انجکشن دینے سے بچے کی زندگی بچائ جا سکتی ہے۔ اگر یہ انجکشن نہ دیا جائے تو ایسی عورت کے یہاں ہمیشہ مردہ بچے پیدا ہونے کے امکانات ہونگے۔

کیا انتقال خون کے لئے دینے والے اور لینے والے کے خون کے گروپس کا ایک جیسا ہونا ضروری ہے؟
اگر کوئ ایمرجنسی ہو اور خون کی بہت کم مقدار دینی ہو تو ایسا ہمیشہ لازمی نہیں ہوتا۔  لیکن اسکے بھی اصول ہیں۔ 
اے گروپ رکھنے والے، اے گروپ کا خون لے سکتے ہیں۔ 'بی' والے 'بی' کا، اے بی والے، اے بی کا۔ لیکن یہ تینوں گروپس 'او' گروپ بھی لے سکتے ہیں۔  کیونکہ 'او' کا مطلب ہے کوئ اینٹی جن نہیں ہے۔ یعنی کسی قسم کا ضد رد عمل پیدا ہونے کا امکان نہیں۔او گروپ کسی اور گروپ کا خون نہیں لے سکتا۔ کیونکہ اسکے پاس کوئ اینٹی جن موجود نہیں ہے۔  گروپ 'اے بی' سے تعلق رکھنے والے 'اے' اور 'بی' دونوں گروپ قبول کر سکتے ہیں۔ کیونکہ انکے پاس دونوں اینٹی جنز موجود ہوتے ہیں۔ یہ 'او' گروپ کا خون بھی لے سکتے ہیں۔
صرف اے بی او نظام ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ آر ایچ فیکٹر بھی ضروری ہے۔ آر ایچ فیکٹر مثبت رکھنے والے صرف مثبت گروپ کو خون دے سکتے ہیں۔ کیونکہ انکے پاس مثبت اینٹی جن موجود ہوتا ہے۔ آر ایچ منفی رکھنے والے مثبت اور منفی دونوں کو دے سکتے ہیں کیونکہ انکے پاس کوئ آر ایچ اینٹی جن نہیں ہوتا۔
ان دونوں کو عوامل کو ملائیں تو نتیجہ کچھ یوں نکلتا ہے۔ 'منفی او' گروپ رکھنے والے ہر ایک خون دے سکتے ہیں اس لئے یونیورسل ڈونر کہلاتے ہیں اور گروپ'مثبت اے بی' ہر گروپ لے سکتے ہیں اس لئے یونیورسل ایکسیپٹر کہلاتے ہیں۔
  
کیا بلڈ گروپ تبدیل ہو سکتا ہے؟
نارمل حالات میں ایک انسان کا بلڈ گروپ زندگی بھر تبدیل نہیں ہوتا۔ لیکن یہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ اسکی چند ایک صورتیں ہیں۔  ہڈیوں کے گودے میں اگر تبدیلی ہو تو بلڈ گروپ تبدیل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ  وہ خلیات جو خون بناتے ہیں وہ ہڈی کے گودے میں ہوتے ہیں۔ اگر یہ خلیات بدل جائیں تو خون کا گروپ بھی بدل جائے گا۔ یوں کینسر کا ایسا علاج جس میں ہڈیوں کا گودا تبدیل ہوتا ہے ۔ مریض کے خون کے گروپ میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ اگر گودا دینے والے کے خون کا گروپ مختلف ہو۔ اور یہ بالآخر وہی ہوجاتا ہے جو گودا دینے والے کا ہوتا ہے۔ 
اسکے علاوہ یہ اس وقت بھی ممکن ہے جب جسم میں خود دفاعی نظام کی بیماری پیدا ہو جائے۔ اس صورت میں جسم کا دفاعی نظام اپنے ہی خلیات کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے اور انہیں تباہ کرنے لگ جاتا ہے۔ اس طرح خون کو مخصوص گروپ دینے والے اینٹی جنز تباہ ہو جاتے ہیں اور خون کا گروپ بدل جاتا ہے۔ 
قارئین، یہ تھیں کچھ ابتدائ، دلچسپ اور مختصر معلومات خون کے بارے میں۔ امید ہے کچھ نہ کچھ آپ کو ضرور سمجھ آیا ہوگا اور یہ آپکے لئے عملی طور پہ کارآمد ثابت ہونگیں۔
ارے ہاں ہم تو یہ بتا رہے تھے کہ خون کا گروپ کیسے معلوم کرتے ہیں۔ لیکن یہ تحریر اتنی لمبی ہو گئ۔ اس لئے پھر کبھی۔
:)

9 comments:

  1. عقیدے سے اب آپ دلیل کی طرف آگئیں۔ ہممم خوش آئیند ہے۔
    :)
    وہ جو اوپر آپ نے سیٹ بنائے ہیں مساواتوں کی صورت میں ... وہ کچھ درست معلوم نہیں ہوتے۔ کم از کم ایک مساوات کا میں کاؤنٹر مثال ہوں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ آپ کروموسومز کے ایللز کی بات کر رہے ہیں ، نہیں یہ بالکل درست ہیں۔
      آپ ذرا اپنی کاءونٹڑ مثال دیں تو ہم اندازہ کریں کہ آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔

      Delete
  2. آپ نے کہا :
    بی اور او = بی

    جبکہ ہمارے ہاں والدہ او پازیٹو ، والد بی پازیٹو جبکہ میں او پازیٹو ہوں۔
    یعنی یہ تو ہوگیا :
    بی اور او = او

    ReplyDelete
    Replies
    1. نہیں یہاں آپ نے صحیح نہیں سمجھا۔ ایک کروموسومز دو ایلل کا بنا ہوتا ہے۔ ہر انسان کے ایک خلئیے میں تیئیس کروموسومز ہوتے ہیں۔
      آپکی والدہ کا او گروپ ہے اس لئے انکے کروموسومز کے دونوں ایلل او ہونگے جبکہ آپکے والد صاحب کا بی ہے اس میں دو امکانات ہیں۔ یا تو انکے دونوں ایلل بی کے ہونگے یا پھر ایک بی اور دوسرا او ہوگا۔
      آپکا او ہے اسکا مطلب آپ کے دونوں ایلل او ہونگے۔

      Delete
  3. اوہ اچھا بی پازیٹیو میں دو ایلل ہوگئے۔بی اور او
    پھر تو او اور او ایلل کا سیٹ بن سکتا ہے۔

    ReplyDelete
  4. لو جی میٹرک کا بیالوجی پیرڈ یاد آگیا۔

    ReplyDelete
  5. بہت آسان اور سادہ الفاظ میں ایک مشکل موضوع بیان کیا ہے. بہت خوب -

    ReplyDelete
  6. ایک بات واضح کر دوں کہ بچہ جب پیدا ہونے سے قبل ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اس وقت پلے سینٹا سے بچے کا اگر کچھ خون ماں کی طرف چلا جاتا ہے۔ تو یہاں سے گڑبڑ شروع ہوتی ہے کہ ماں اور بچے کا بلڈ گروپ مختلف نہ ہو یعنی مثبت اور منفی نہ ہو۔ اگر ہو تو اس سے بچاؤ کے لئے دوسرے حمل سے انجیکشن لگنا شروع ہوتا ہے :) باقی اس بارے ایکسپرٹس ہی بہتر رائے دے سکتے ہیں

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ