Wednesday, March 7, 2012

آبگینوں کے خواب

کل ساری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جائے گا۔ نہیں معلوم کہ تاریخ کے کس مقام پہ خواتین کا درجہ اس درجے پہ آگیا جہاں انکے  حقوق کے لئے تحاریک چلانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
پاکستان میں ایک سال نہیں صرف ایک ماہ کے واقعات کا جائزہ لیجئیے۔ 
کراچی میں پچھلے ایک ماہ میں ایک لڑکی  اجتماعی زنا بالجبر کا شکار ہوئ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بے پردہ پھرتی ہوگی نامناسب کپڑے پہنتی ہوگی اس لئے یہ کسی مرد کا حق بن گیا کہ اسے اس طرح بے عزت کرے۔ لیکن اسی ایک مہینے میں تقریباً تین بچیوں کو جنکی عمریں  پانچ سے چھ سال کی تھیں زنا بالجبر کا نشانہ بنایا گیا۔ اس جملے میں زنا بالجبر کا لفظ زائد ہے۔ اس عمر کی بچی کو نہ یہ معلوم ہوگا کہ اسکے ساتھ جو بربریت ہوئ ہے اسے کیا کہا جاتا ہے نہ یہ کہ اسکے ساتھ یہ کیوں کیا گیا ہے اور نہ ہی اغواء کے وقت اسے معلوم ہوگا کہ اس پہ اب کیا ستم ٹوٹ سکتا ہے۔
 کیا شہر میں کوئ آواز اٹھی؟
 نہیں  اس پہ آواز اٹھانے کا وقت نہیں۔ ابھی عافیہ ڈے تو منا لیں۔
اسی ایک مہینے میں مظفر گڑھ میں ایک خاتون کو بازار میں برہنہ کر کے پھرایا گیا۔ کیا کسی نے احتجاج کیا کہ یہ بے حیائ بند کرو۔ کیا یہ بے حیائ نہیں کہلاتی؟
جی نہیں یہ ان سب علاقوں کے رسم و رواج ہیں۔ جھگڑوں میں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ نزلہ تو گرتا ہی کمزور عضو پہ ہے۔
اسی ملک میں ایک ماہ میں تقریباً چھ خواتین پہ تیزاب پھینکا گیا۔ یہ سب کسی مرد کی انتقامی کارروائ کا نشانہ بنیں۔ کیا کوئ مجرم گرفتار ہوا؟ کیا کسی کو سزا ملی؟
 نہیں یہ سب نہیں ہو سکا۔ کیونکہ مجرم یہ قبیہہ فعل کرنے کے بعد پردہ ء غیب میں چلے گئے۔ 
کیا کسی نے اس پہ احتجاج کیا؟
 نہیں۔ 
کیا اس پہ احتجاج کی ضرورت ہے؟
 نہیں ، یہ خواتین ہی کا قصور ہوتا ہے کہ ان پہ تیزاب پھینکا جاتا ہے۔ اگر وہ اس طرح رہیں، اگر وہ یہ کریں، اگر وہ اس طرح کپڑے پہنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگر اس موضوع پہ بنائ گئ فلم کو ایوارڈ مل جائے تو فلم بنانے والی خاتون صرف اس لئے سی آئ اے کی ایجنٹ قرار پائے کہ اس نے ایسا موضوع کیوں اٹھایا جس سے پاکستان بدنام ہوتا ہے۔ حالانکہ اسے ایجنٹ قرار دینے کی دیگر وجوہات نکالی جا سکتی ہوں۔  لوگ جلدی جلدی اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کریں گے شرمین عبید کو ایوارڈ پاکستان کے منہ پہ ایک طمانچہ۔
 اور کل میں نے خبر سنی کہ ایک خاتون پہ تیزاب پھینک دیا گیا چوبیس گھنٹے گذرنے کے بعد بھی ہمارے کسی نوجوان کا کوئ بیان نہیں۔ یہ تیزابی طمانچے پاکستان کے منہ پہ کون مار رہا ہے؟ تیزاب بنانے والے، پھینکنے والے ان پہ فلم بنانے والے یا خواتین؟
یہ تیزاب پھینکنے والے مرد اپنے خاندانوں کے ساتھ اس زمین پہ موجود ہوتے ہیں ، رہتے ہیں، شادیاں کرتے ہیں انکے بچے ہوتے ہیں۔ اسی طرح زمین پہ پیر مار کر سینہ تان کر چلتے ہیں لیکن کسی شخص کو انکے گریبان پکڑنے کی ہمت نہیں ہوتی حتی کہ انکے گھر والے تک انہیں کسی وعظ یا نصیحت کرنے کی جراءت نہیں رکھتے یا شاید وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کسی نصیحت کی ضرورت ہی نہیں۔
اسی مہینے کا واقعہ ہے کہ اقلیتی ہندو لڑکی کو جبراً مسلمان کر کے اسکی ایک مسلمان لڑکے سے شادی کرا دی جاتی ہے وہ ہندو لڑکی رنکل کماری سے سید فریال شاہ بن جاتی ہے۔ انٹر نیٹ پہ مبارکباد کی ویڈیوز چل جاتی ہیں۔ اگر ملک میں کوئ فکر کی آواز اٹھتی ہے تو یہ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مغربی میڈیا اسے پاکستان کا امیج بگاڑنے کے لئے استعمال کرے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی لڑکیوں کی پسند کی شادی پہ انہیں کاری قرار دے کر قتل کر دیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو مایا خان کو شہہ دیتے ہیں کہ پارکوں میں ملنے والے جوڑوں کو ہراساں کریں۔ ہم پارکس میں یہ بے حیائ نہیں پھیلنے دیں گے۔  لیکن جب معاملہ ایک اقلیتی لڑکی کا آتا ہے تو ساری اخلاقیات کا دیوالہ نکل جاتا ہے اور اسکی جگہ ایک مست نعرہ، نعرہ ء تکبیر آجاتا ہے۔ ایک ہندو لڑکی کو مسلمان کر کے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کرادی اس ثواب میں جتنے لوگ شامل ہوجائیں کم ہیں۔ اس لئے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو ہر دل بے قرار۔ ہندءووں کی ایک لڑکی کو عقد نکاح میں لے آنا ہندوستان فتح کرنے سے کم نہیں۔ بابری مسجد کا بدلہ لے لیا۔ 
یہ نہیں معلوم کہ عورت کو بیوی بنا لینا یا اس سے جنسی تعلق  قائم کر لینا، مرد کی فتح کیوں قرار پاتا ہے جبکہ وہ عورت اس فاتح سے دل سے نفرت کرتی ہو۔
۔
۔
۔
کیا آپکو معلوم ہے کہ اگر ایک عورت خوشبو لگا کر باہر نکلتی ہے تو جنت کی خوشبو اسے لاکھوں میل دور تک نہیں ملتی، کیا آپ جانتے ہیں کہ اپنی بچیوں کو حیا عادی بنانے کے لئے انہیں بچپن سے  پردے کی عادت ڈال دینی چاہئیے، کیا آپکو معلوم ہے کہ با اختیار عورت رکھنے والے معاشرے ناسور بن جاتے ہیں۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ میراتھن ریس میں عورتوں کا دوڑنا بے حیائ ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز عورت کی برداشت اور اپنے آپکو جھکا لینے میں ہے۔
 یہ ساری معلومات مجھے نیٹ کی دنیا میں آجکے نوجوان مردوں کی گفتگو کے نتیجے میں ملتی ہیں باقی جو اوپر خبریں میں نے لکھی ہیں وہ اخبار سے ہی مل پاتی ہیں اس پہ ہمارے نوجوان کچھ لکھنا پسند نہیں کرتے۔  اس سے پاکستان کا امیج خراب ہوتا ہے وہ انتہائ دور اندیش ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ سب سی آئ اے والے کراتے ہیں۔ وہ سی آئ اے کی کسی ایسی سازش کا شکار ہونے والے نہیں ہیں۔
شرمین عبید کا کہنا ہے کہ اپنے خوابوں کو مت چھوڑیں۔ میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کی ایسی باتوں میں نہیں آتی۔ کل اگر میں کسی  مشکل میں پھنس جاءوں تو یہ صاحبہ تواس پہ دستاویزی فلم بنا کر اپنی شہرت کھری کر لیں گی۔ انکے تعلقات کی پہنچ پہنچ کہاں تک ہوگی۔ یہ فلم تو کسی غیر ملکی چینل پہ اپنی قیمت وصول کرے گی۔ میرے ہم وطن تو وہ دستاویزی فلم دیکھ تک نہیں پائیں گے۔ اور وہ حسین کپڑوں میں کیوٹ شکل کے ساتھ ایک اور ایوارڈ وصول کرنے کے لئے چھم سے اسٹیج پہ موجود ہونگیں۔ گوروں کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ کیا تیزاب سے جھلسنے والی عورت اور یہ عورت ایک ہی ملک کی باسی ہیں۔  وہ اس معمے میں ہی پھنس کر رہ جائیں گے کہ اگر ایسا ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے۔ جبکہ یہاں ہم وطن مجھ پہ گذرے ہر ستم کو سی آئ اے کی سازش بنا کر معاملہ ہوا کر دیں گے۔
اس لئے میں اپنے خوابوں کو آبگینوں کی طرح سنبھالے اپنے ہم وطنوں سے ہی پوچھتی ہوں منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟

18 comments:

  1. بہترین۔۔۔ بلکل درست فرمایا آپ نے۔۔۔

    ReplyDelete
  2. Speechless....V nicely written

    ReplyDelete
  3. quite harsh comments on sharmeen I didn't expect such fundaental & rightest comments from ur side atleast :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپکا خیال ہے کہ ان پہ تبرہ دائین بازو والوں کی نمائیندگی کرتا ہے۔ جبکہ دائیں بازو والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے جو موضوع لیا اس سے بیرون ملک پاکستان کا امیج خراب ہوتا ہے۔
      میرا یہ مءوقف نہیں۔ عوام میں شعور پیدا کرنے کے لئے ان موضوعات کو سامنے لا کر ان پہ بات کرنی پڑے گی۔ اگر آپ اپنے ملک میں نہیں کریں گے تو بیرون ملک لوگوں کو آزادی ہے وہ جو چاہیں کریں۔ دنیا اب خاصی سمٹ چکی ہے۔ حقائق کو چھپایا نہیں جا سکتا۔
      بہتر بات یہ ہے کہ ہم اپنا طرز عمل بدلیں۔ اور بیرون ملک لوگوں کو ڈسکس کرنے کے بجائے اپنے مسائل حل کرنے پہ توجہ دیں۔

      Delete
  4. جی شرمین چنوئے کا فی الحال اتنا ہی قصور معلوم ہو سکا ہے کہ موصوفہ بااثر طبقے کی ہیں اور کلفٹن وغیرہ میں رہتی ہیں۔ ان کے اس پورے کام اور کاوش میں آخر کیا غلطی ، خرابی یا گناہ ہے ؟ واضح نہیں ہوسکا۔ مثلاً شرمین چنوئے آخر کیا کرتیں جو ان کے ناقدین کو مطمئن رکھتا ؟ نہ بناتیں فلم ؟
    برطانیہ میں لاکھوں پونڈ کمانے والے اور پاکستان میں "ایڈونچر" ( ؟) کے شوق میں چکر لگانے والے پلاسٹک سرجن ڈاکٹر محمد جواد کی عزت افزائی نہیں کی آپ نے ؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. شرمین چینوئے اور انکے طبقے کا ایک سب سے بڑا قصور ہے اور وہ یہ کہ یہ سب جو کچھ کرتے ہیں ذاتی شہرت اور منفعت کی نیت سے کرتے ہیں۔
      انکی بنائ ہوئ اس فلم کے حقوق کسی غیر ملکی چینل کے پاس ہونگے۔ یہ فلم پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے اپنا راستہ بنائے گی۔ جس پہ یہ شور کھڑا کیا جائے گا کہ پاکستان میں کاپی رائیٹس کے حقوق کی چوری کی جاتی ہے۔
      میں اس فلم پہ کوئ بھی تبصرہ کرنے سے معذور ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے اس فلم کی پروڈکشن میں کیا کمال دکھائے ہیں۔ تکنیکی لحاظ سے یہ کس قدر شاندار ہے۔ کیا اس فلم میں موضوع کا احاطہ بہترین طریقے سے کیا گیا ہے۔ اور یہ فلم واقعی اس ایوارڈ کی حقدار ہے۔ میں کیا وہ سب بھی نہیں جانتے جو اس بات پہ بے حد خوش ہیں۔ تو کیا میں بس اس بات پہ جوش کا اظہار کروں کہ انہوں نے اس خوفناک موضوع پہ فلم بنائ اور انہیں آسکر ایوارڈ ملا۔
      کسی کمرشل فلم کو ایوارڈ ملے تو بھی ایک عام انسان کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ یہ فلم اس ایوارڈ کی حقدرا ہے یا نہیں۔ اس وقت آپ اس بات پہ ناراض نہیں ہوتے کہ فلم کے ڈائریکٹر پہ تنقید کی جارہی ہے۔
      اگر آپ سے کہا جائے کہ اس ایوراڈ پہ تبصڑہ کریں تو آُ یہ کہیں گے میں فلم تو دیکھ لوں۔ کیا ڈاریکٹر کی شکل دیکھ کر تبصرہ کر دوں۔
      دنیا کے تمام غریب ممالک، ایسی فلموں کی پروڈکشن کے لئے کسی خزانے سے کم نہیں۔ خاص طور پہ جب ان فلموں کی نمائیش امیر ممالک میں کرنا مقصود ہو تو یہ موضوعات چیونٹیوں کے لئے شہد سے کم نہیں ہوتے۔
      تو کیا میں اس بات پہ پر جوش ہو جاءوں کہ انہوں نے ہماری اس مصیبت سے اپنے لئے شہرت خرید لی۔
      بالکل ایسے ہی جیسے ایک رپورٹر مصیبت میں پھنسے ایک شخص کی فلم بناتا ہے اپنا کیمرہ سنبھال کر وہاں سے اسے اسی حال میں چھوڑ کر واپس پلٹتا ہے فلم ایڈٹ کر کے ایک مخصوص حلقے کو دکھا کر واہ واہ سمیٹتا ہے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹی کرتا ہے اور سوچتا ہے اس سے بھی زیادہ جاندار موضوع پہ اگلی فلم ہونی چاہئیے۔
      اس فلم سے کسی بھضی تیزاب سے جھلسی ہوئ عورت کو کیا فائدہ پہنچا۔ اگر آج کسی عورت کے ساتھ یہ سانحہ پیش آجائے تو وہ یہ تک نہیں جانتی ہوگی کہ برطانیہ میں ایسا کوئ ڈاکٹر ہے جو اسکا مفت علاج کر سکتا ہے۔
      پھر فلم کا مقصد یہی رہ گیا ناں کہ آپ نے اپنی شہرت کے لئے ایک ایسے موضوع کو اٹھا لیا جس پہ پاکستان میں شعور پیدا کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔
      اب وہ یہ فلم بناتیں یا نہ بناتیں اس سے پاکستان کی ایک عام عورت کو کیا نقصان۔
      اس سے تو وہ ڈاکٹر کہیں بہتر ہے جو برطانیہ میں لاکھوں روپے کما سکتا ہے لیکن اپنے وقت اور صلاحییت کی زکوات نکال کر ایک عورت کی مدد کرتا ہے۔
      تصویر کا دوسرا مزیدار رخ دیکھئیے۔ وہ آسکر ایوارڈ وصول کرنے کے لئے اسٹیج پہ موجود ہیں۔ ایوارڈ بھی اس فلم کے سلسلے میں جس میں ایک عورت اپنے وجود کا ایک اہم حصہ یعنی اپنا چہرہ کھو بیٹھتی ہے لیکن وہ اسٹیج پہ جس لباس اور سج دھج کے ساتھ آتی ہیں اس پہ تو ہالی وڈ کی کئ ایکٹریس رشک کر رہی ہونگیں۔ پاکستان کی جھلسی ہوئ عورت سے زیادہ انکی دلچسپی تو پاکستان کے ڈیزائنرز میں ہوگی۔ میں خود پوچھنا چاہتی ہوں کہ انہوں نے کس ڈیزئینر سے اپنا ڈریس ڈیزائن کروایا۔
      اگر کسی تیزاب سے جھلسی عورت نے یہ تقریب دیکھی ہوگی یا انکی اخبار میں شاٰئع ہونے والی تصاویر دیکھی ہونگیں تو وہ جس اذیت سے گذری ہوگی اسکا اندازہ شرمین چینوئے نہیں کر سکتیں۔ اگر کر سکتیں تو وہ اس تقریب کے لئے یہ لباس بالکل منتخب نہ کرتیں۔ چاہے وہ اسے اپنی کسی بھی پارٹی میں پہنتیں مگر وہاں نہیں۔ ہمدرد انسان کا رویہ اسکے طرز عمل میں جھلکتا ہے۔

      پھر وہی سوال، انہیں ان خواتین کی اذیت سے ہمدردی تھی یا اپنے خوابوں کے حصول سے۔
      رویہ، روئیے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ نیت، نیت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
      قصہ مختصر، اس فلم کے بنانے یا نہ بنانے سے پاکستانیءوں کو کوئ فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان سے باہر اگر لوگوں کو پتہ چلا تو کیا ہوا۔ کیا وہ پاکستان آ کر کسی عورت کو اس ظلم کا شکار ہونے سے بچائیں گے۔

      Delete
  5. بہت ہی زوردار اور فصیح پوسٹ لکھا ہے آپ نے۔ اسے ٹویٹ بھی کیا آپ نے۔ اگر آپ کی سائٹ پہ آپ کی تحریروں کو "شیر" کرنے کی سہولت ہوتی تو بڑا اچھا ہوتا۔

    خاص طور پر جیسے آپ نے رنکل کماری کے متعلق اظہارِ خیال کیا ہے ہم مسلمانوں کے لئے ایسی حق گوئی و بے باکی ضروری ہے۔

    ReplyDelete
  6. رپورٹر کا کام تو رپورٹ کرنا ہے۔ رپورٹ ہی کرے گا۔ اور کیا کرے۔ سنسنی خیزی میں بھی موضوعات کی اہمیت ہے۔ پارکوں میں جوڑوں کے پیچھے کیمرہ لے کر بھاگنا کیا کم سنسنی خیز تھا۔
    نیت کا تو واقعی کسی کو نہیں پتا۔ کیا پتا نہیں نیت محض پاکستان کی واٹ لگانا ہی ہو۔ آسکر والوں کی نیت کا بھی کیا پتا۔
    یہ تمام تنقید لاہور کی بیوٹیشن مسرت مصباح کے بارے میں بھی سن چکا ہوں۔ یہ اکثر و بیشتر اعتراضات اسقدر عمومی ہیں کہ تقریباً کسی بھی کامیاب شخص پر اٹھائے جا سکتے ہیں۔
    سائیڈ نوٹ کے طور پر ہونے والی تنقید الگ چیز ہے۔ سائیڈ نوٹ کو مرکزی اعتراض بنا کر پورے کام ہی کو مسترد کردینا الگ بات ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. رپورٹر میرے متعلق کوئ چیز رپورٹ کر کے اسے کسی ایسی جگہ جا کر بیان کرے، جس سے نہ مجھے کوئ فائدہ ، نہ میرے اردگرد کے رہنے والوں کو کچھ پتہ۔ البتہ اس سے اسکی آمدنی اچھی ہو جائے اور ایسے لوگ اس پہ واہ واہ کریں جنکا نہ وہ مسئلہ ہو اور جو اسکے لئے کچھ کر بھی نہ سکیں۔ تو کیا اس رپورٹر کے لئے یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ جو بھی کچھ اس نے کیا محض اپنی شہرت کے لئے کیا۔ کیا مجھے اس واہ واہ میں اس لئے شامل ہونا چاہئیے کہ یہ ایک خاتون نے کیا ہے۔
      میں تو بتا چکی کہ میں نے کیا آپ نے بھی انکے کام کو نہیں دیکھا ہوگا۔ میں اور آپ دونوں ہی نہیں جانتے کہ انکا کام کیا ہے۔ کیا اس کام کا مقصد خواتین کے مصائب کا احساس دلانا تھا، کیا اس کام کا مقصد برطانوی ڈاکٹر کے کام کو سامنے لانا تھا، کیا اس کام کا مقصد اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں حکومت کو کوئ احساس دلانا تھا ۔ مجھے نہیں آپکو بھی نہیں پتہ کہ اس فلم کا پیغام کیا ہے۔
      اخبارات میں جو خبر آتی ہے وہ یہ کہ وہ ایک بہادر خاتون ہیں جنہوں نے اس موضوع پہ فلم بنائ۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے فلمیں بنانے کے لئے بڑے رسک لئے۔ لیکن اب آپکی دلیل سامنے رکھوں تو کاروبار میں رسک تو لینا ہی پڑتا ہے۔ جب کوئ بڑا کام کرنا چاہتا ہے تو بڑا رسک لیتا ہے۔
      آسکر والوں کی نیت کا پتہ تو فلم دیکھ کر ہی چل سکتا ہے۔ لیکن فلم بنانے والے کی نیت کا پتہ نہیں۔
      صرف یہ بتائیں کہ کیا موضوعات پہ آسکر ایوارڈ ملتا ہے یا فلم کی دیگر تیکنیکی خوبیاں بھی گنی جاتی ہیں۔ اگر آسکر ایوارڈ صرف موضوعات پہ ملتا ہے تو ہمارے یہاں بڑے موضوعات ہیں ہر سال آسکر ہمارے یہاں آ سکتا ہے۔
      ابھی تک کسی ایک جگہ پہ بھی میں نے فلم کے معیار کے بارے میں کچھ نہیں پڑھا ہر ایک صرف ایک بات کہہ رہا ہے فلم کا موضوع ایسا ہے۔
      چلیں اگر آپ اس سے خوش تو جناب شرمین عبید صاحبہ بڑی مبارکاں اور بدھئیاں۔
      لیکن اسکے ساتھ ہی اپنی ہم وطن دیگر خواتین کے لئے یہ وارننگ کہ ایسی کامیابیاں انکے حصے میں اتنی آسانی سے نہیں آ سکتیں۔ اس لئے اپنے خواب چنتے وقت تھوڑی احتیاط کریں۔

      Delete
  7. مزا نئیں آیا جی۔ بالکل بھی نئیں۔
    اس سے ذیادہ ہمدردی تو ارشاد احمد عارف اور عرفان صدیقی وغیرہ نے دکھا دی ہے۔
    :)
    نیکسٹ پوسٹ پلیز۔۔۔

    ReplyDelete
  8. Replies
    1. اب مزہ آیا۔ یہ ہوتی ہے بہادری۔ میں تو صبح سے اس خبر کے مزے لے رہی ہوں۔

      Delete
    2. اب مزہ آیا۔ یہ ہوتی ہے بہادری۔ میں تو صبح سے اس خبر کے مزے لے رہی ہوں۔

      Delete
  9. راءی کا پہاڑ بنایا آپ نے


    http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101471093&Issue=NP_KHI&Date=20120312

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ ہے انگریزی اخبار کی رپورٹ۔
      http://epaper.dawn.com/DetailNews.php?StoryText=12_03_2012_113_005
      کیا انگریزی میں تفصیلات دینا آسان ہوتا ہے۔ یہ اردو اخبارات اور انگریزی اخبارات اتنے مختلف رجحانات کیوں رکھتے ہیں۔ اردو صحافت اتنا زیادہ دائیں بازو کی طرف جھکاءو کیوں رکھتی ہے۔

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ