Showing posts with label Democracy. Show all posts
Showing posts with label Democracy. Show all posts

Tuesday, March 23, 2010

اقتدار کی جنگ

میں اور میری بیٹی جب بھی غسلخانے کا رخ کرتے ہیں تو میری صاحبزادی بہت اچھلتی کودتی اندر جاتی ہیں۔ نہانے اور پھر اس بہانے پانی بہانے کی خوشی انکے روئیں روئیں سے ٹپکتی ہیں۔ لیکن ہم دونوں کو اندر گئے کچھ ہی لمحے گذرتے ہیں کہ ایک افراتفری اور ہڑبونگ کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ باہر والوں کو یوں لگتا ہے کہ اندر ایک شیر اور ہاتھی کو بند کر دیا گیا ہے۔
ایک دن میری رشتے دار خاتون نے اسکی وجہ پوچھنے کی ہمت کر ڈالی۔ انہوں نے سوچا کہ ویسے تو یہ مارتی پیٹتی  دکھائ نہیں دیتیں لیکن غسلخانے میں ضرور  جا کر دن بھر کے چماٹ رسید کرتی ہونگی۔ آخر مہمانوں کے سامنے بھرم بھی تو رکھنا ہوتا ہے۔ 
تو انہوں نے اپنے لہجے میں ایک تجاہل عارفانہ پیدا کرتے ہوئے کہا۔ یہ تم دونوں آخر اندر کیا کرتی ہو کہ پورا گھر ہل جاتا ہے۔ میں نے انہیں انتہائ تحمل سے جواب دیا۔ کچھ ایسا خاص نہیں کرتے۔ اقتدار کی جنگ میں اتنا شور شرابہ تو ہوتا ہی ہے۔ ایکدم سنجیدہ ہوئیں اور کہنے لگیں کیا مطلب غسل خانے کے اندر کونسی اقتدار کی جنگ ہو سکتی ہے۔ میں نے  ان سے کہا کہ اگر عقابی روح سینوں میں بیدار ہو تو غسل خانے کے اندر کیا مردہ خانے کے اندر بھی شور شرابہ ہو سکتا ہے۔
کہنے لگیں، چلو اچھا اب باتیں نہ بناءو۔ میں تو بالکل دہل کر رہ جاتی ہوں۔ تم دونوں اندر اتنا چنگھاڑتی ہو۔ آخر غسل خانے میں کس چیز پہ جھگڑا ہوتا ہے۔ میں انکی طرف مڑی اور کہا آپکو یقین نہیں آرہا یہ اقتدار کی جنگ ہوتی ہے۔ جب ہم نہانے کے لئے اندر داخل ہوتے ہیں تو آپکو پتہ ہے سب سے اہم چیز پانی ہوتا ہے۔ وہ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ دوسری اہم چیز اسکا منبع ہے۔ چونکہ لیڈ پوزیشن میری ہے تو ہینڈ شاور میرے ہاتھ میں ہوتا ہے  یہ صورتحال میری صاحبزادی کے حق میں نہیں جاتی کیونکہ اس طرح وہ اسے حسب منشاء استعمال نہیں کر پاتیں۔ وہ اسکے لئے جنگ کرتی ہیں اور میں اسے ہر قیمت پہ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہوں اس طرح میری رٹ قائم ہوتی ہے۔   اگر ایسا نہ ہو تو پورا ٹینک پانی خرچ ہونے کے بعد ہمارے غسل خانے کی ہر چیز غسل کر لے گی سوائے انکے کیونکہ اس عمل کے دوران انہیں خود نہانے کی فرصت نہیں ملے گی۔ تو یہ اقتدار کی جنگ اس پورے عمل کے دوران چلتی ہے اور پچھلے دو سال چار مہینے سے ایسے ہی چل رہی ہے۔ پہلے میں خود  بھی ساری بھیگ جاتی تھی اب میں نے اپنے بچاءو کے طریقے ڈھونڈھ لئے ہیں۔
ارے تم لوگوں سے تو اب ایک بچہ قابو میں نہیں آتا۔ ہم سے پوچھودس دس بچے پیدا کئے اور اکیلے پالے پوسے-------------------------۔  سوچتی ہوں کہ اگر ماضی کی روایات کو جاری رکھتے ہوئے دو ہینڈ شاور ایکدن اپنی بیٹی کی پیٹھ پہ رسید کر دوں تو معاملہ اسی دن نبٹ ہو جائے گا۔ لیکن یہ تو بادشاہت کے زمانے کا طریقہ ہے۔ کیا جمہوری دور میں ایسا ممکن ہے۔ 
میں وہاں سے فوراً اٹھتی ہوں، اس سے پہلے کہ میری بیٹی پانی میں شرابور، میرے بستر پہ چڑھ کر اچھل کود مچائیں اور مجھے انکو کپڑے پہانے کے لئیے  بیڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک منتیں سماجتیں کرنی پڑیں صورتحال میرے قابو میں رہنی چاہئیے۔ آپکو معلوم ہے اقتدار کی اس جنگ میں وقت کی بھی بڑی اہمیت ہے۔