یہ وہ موضوع ہے جس پہ تحقیق دانوں نے اپنے طور پہ کافی اندازے لگانے کی کوشش کی۔ کچھ عرصے قبل جب میں نے ایک بلاگر ساتھی کے بلاگ پہ یہ دعوی پڑھا کہ اردو نے دراصل پنجابی سے جنم لیا ہے تو میں نے اپنی ایک دوست سے جو اردو ادب میں ماسٹرز کر چکی ہے اور کراچی کے ادبی افق پہ مصروف اور سرگرم ہیں ان سے یہ سوال کیا۔ کئ ادبی محافل میں مختلف ادباء سے یہ پوچھا اور جواب ملا کہ بھئ ہر علاقے کے لوگ کھڑے ہوتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ انکے علاقے کی زبان ہے۔ اسکی وجہ اس زبان کی ہمہ گیریت ہے۔ میں نے انکی تحریر پہ بھی اسی قسم کے تبصرے کی کوشش کی مگر انہوں نے اس وقت اسے خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔
اب مزید بلاگرز نے اس قسم کے ثقافتی تسلط میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔ تو میں نے سوچا کہ ڈاکٹر انور سدید کا یہ اقتباس سب کو ضرور پڑھنا چاہئیے۔ یہ مجھ جیسے کسی شخص نے نہیں بلکہ انہی کے درمیان کے ایک شخص نے لکھا ہے جو اس وقت اپنی عمر کی آٹھویں دہائ میں ہے لیکن ان لوگوں کی بد قسمتی کہ یہ شخص بھی ایک علم دریاءو ہے جو انہیں راس نہیں آتے۔
ڈاکٹر انور سدید کے نام سے میرے وہ قارئین اب اچھی طرح واقف ہونگے جو پچھلے نو دس مہینے سے میرے بلاگ پہ آرہے ہیں۔ انہوں نے جامعہ پنجاب سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انکی کتاب 'اردو ادب کی تحریکیں' دراصل انکا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے جو انیس سو پچاسی میں منظر عام پہ آیا اور اپنی مقبولیت کی وجہ سے اسکے اب تک چار ایڈیشن آچکے ہیں۔ یہ اسوقت پاکستان کی تمام جامعات کے نصاب میں شامل ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ اسکے ارتقاء کے بارے میں اس کتاب میں کیا کہتے ہیں۔
مغلوں کی آمد سے پہلے مسلمان سلاطین نے قریباً دو سو سال تک اکناف ہند پر حکومت کی اور دہلی کو جہاں پہلے ترک شہ سواروں نے ڈیرے ڈالے تھے اتنی اہمیت حاصل ہو گئ کہ مسلمانوں نے اسے اپنا دارالسلطنت بنایا اور ترکوں کی یہ چھاءونی علم و ادب کا مرکز بن گئ۔ اس عرصے میں مسلمانوں اور مقامی باشندوں میں اختلاط کا سلسلہ غیر محسوس طور پہ جاری ہوا اور اس ادغام کا ایک غیر معمولی نتیجہ اردو زبان تھی۔ بقول حافظ محمود شیرانی
اردو کی داغ بیل اس دن پڑنی شروع ہو گئ تھی جس دن سے مسلمانوں نے ہندوستان میں آ کر توطن اختیار کیا۔
یہ نا موسوم یعنی بغیر نام کی زبان ہر علاقے میں مقامی بولی کے نام سے پہچانی گئ۔ چنانچہ شاہ میراں جی شمس العشاق نے اسے ہندی کا نام دیا امیر خسرو نے غرۃ الکمال میں مسعود سعد سلمان کے ہندوی دیوان کا تذکرہ کیا ہے۔ ملا وجہی نے سب رس میں اردو کو زبان ہندوستان کہا ہے۔ شاہ ملک بیجا پوری نے اسے دکنی اور محمد امین نے مثنوی یوسف زلیخا میں اسےگوجری سے موسوم کیا ہے یعنی گوجری کا نام دیا ہے۔ شیخ خوب محمد اسے گجراتی بولی کہتے ہیں۔ شیخ باجن نے اسے زبان دہلوی قرار دیا۔ مرور ایام سے زبان کے لئے ریختہ کا لفظ استعمال ہوا اور میر و غالب کے زمانے میں مروج رہا۔ اسی لئے غالب نے کہا
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں کہ اگلے زمانے میں کوئ میر بھی تھا
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اردو اگرچہ بے نام اور بے عنوان تھی لیکن سماجی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے وسیع علاقوں میں بولی جاتی تھی۔ چنانچہ اردو کے ارتقائ خاکے میں جو اولین نقوش نظر آتے ہیں ان میں پنجاب ، سندھ، گجرات، دکن، راجستھان اور گونڈیانہ وغیرہ کے بہت سارے الفاظ موجود ہیں۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے رگ وید کو اردو کی تاریخ کا پہلا سرا قرار دیا ہے۔ اور یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ اس زبان کا خام مواد مقامی بولیوں کی صورت میں رگ وید کے زمانے میں بھی موجود تھا۔ عربی کے الفاظ عرب تاجروں اور مسلمان فاتحین کی بدولت ہندوستان میں در آمد ہوئے اور جب مسلمان فاتحین دلی کی طرف بڑھے تو ان الفاظ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
دلی چونکہ مسلمانوں کا پایہ ء تخت تھا اس لئے یہی مقام اردو کا بھی دارلخلافہ قرار پایا۔ علاءوالدین خلجی کی فتح دکن اور محمد تغلق کے دارالخلافے کی تبدیلی سے یہ اثرات جنوب میں پہنچے اور ایک مخلوط زبان وجود میں آگئ۔ جسکے اولین شعراء میں مسعود سعد سلمان لاہوری، فرید گنج شکر، بو علی قلندر، امیر خسرو، اور قطبن وغیرہ شامل تھے۔ چنانہ سید سلمان ندوی کے اس نظرئیے سے انکار ممکن نہیں کہ
یہ مخلوط زبان سندھ، گجرات۔ دکن، پنجاب اور بنگال ہر جگہ کی صوبائ زبانوں سے مل کر ہر صوبہ میں الگ الگ پیدا ہوئ، یہ کسی ایک قوم یا زبان کا نہیں بلکہ مختلف قوموں اور زبانوں کے میل جول کا ایک ناگزیر اور لازمی نتیجہ ہے۔ اور غوریوں ، خلجیوں اور تغلقوں کے زمانے میں پیدا ہو چکی تھی۔