یہ وہ موضوع ہے جس پہ تحقیق دانوں نے اپنے طور پہ کافی اندازے لگانے کی کوشش کی۔ کچھ عرصے قبل جب میں نے ایک بلاگر ساتھی کے بلاگ پہ یہ دعوی پڑھا کہ اردو نے دراصل پنجابی سے جنم لیا ہے تو میں نے اپنی ایک دوست سے جو اردو ادب میں ماسٹرز کر چکی ہے اور کراچی کے ادبی افق پہ مصروف اور سرگرم ہیں ان سے یہ سوال کیا۔ کئ ادبی محافل میں مختلف ادباء سے یہ پوچھا اور جواب ملا کہ بھئ ہر علاقے کے لوگ کھڑے ہوتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ انکے علاقے کی زبان ہے۔ اسکی وجہ اس زبان کی ہمہ گیریت ہے۔ میں نے انکی تحریر پہ بھی اسی قسم کے تبصرے کی کوشش کی مگر انہوں نے اس وقت اسے خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔
اب مزید بلاگرز نے اس قسم کے ثقافتی تسلط میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔ تو میں نے سوچا کہ ڈاکٹر انور سدید کا یہ اقتباس سب کو ضرور پڑھنا چاہئیے۔ یہ مجھ جیسے کسی شخص نے نہیں بلکہ انہی کے درمیان کے ایک شخص نے لکھا ہے جو اس وقت اپنی عمر کی آٹھویں دہائ میں ہے لیکن ان لوگوں کی بد قسمتی کہ یہ شخص بھی ایک علم دریاءو ہے جو انہیں راس نہیں آتے۔
ڈاکٹر انور سدید کے نام سے میرے وہ قارئین اب اچھی طرح واقف ہونگے جو پچھلے نو دس مہینے سے میرے بلاگ پہ آرہے ہیں۔ انہوں نے جامعہ پنجاب سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انکی کتاب 'اردو ادب کی تحریکیں' دراصل انکا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے جو انیس سو پچاسی میں منظر عام پہ آیا اور اپنی مقبولیت کی وجہ سے اسکے اب تک چار ایڈیشن آچکے ہیں۔ یہ اسوقت پاکستان کی تمام جامعات کے نصاب میں شامل ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ اسکے ارتقاء کے بارے میں اس کتاب میں کیا کہتے ہیں۔
مغلوں کی آمد سے پہلے مسلمان سلاطین نے قریباً دو سو سال تک اکناف ہند پر حکومت کی اور دہلی کو جہاں پہلے ترک شہ سواروں نے ڈیرے ڈالے تھے اتنی اہمیت حاصل ہو گئ کہ مسلمانوں نے اسے اپنا دارالسلطنت بنایا اور ترکوں کی یہ چھاءونی علم و ادب کا مرکز بن گئ۔ اس عرصے میں مسلمانوں اور مقامی باشندوں میں اختلاط کا سلسلہ غیر محسوس طور پہ جاری ہوا اور اس ادغام کا ایک غیر معمولی نتیجہ اردو زبان تھی۔ بقول حافظ محمود شیرانی
اردو کی داغ بیل اس دن پڑنی شروع ہو گئ تھی جس دن سے مسلمانوں نے ہندوستان میں آ کر توطن اختیار کیا۔
یہ نا موسوم یعنی بغیر نام کی زبان ہر علاقے میں مقامی بولی کے نام سے پہچانی گئ۔ چنانچہ شاہ میراں جی شمس العشاق نے اسے ہندی کا نام دیا امیر خسرو نے غرۃ الکمال میں مسعود سعد سلمان کے ہندوی دیوان کا تذکرہ کیا ہے۔ ملا وجہی نے سب رس میں اردو کو زبان ہندوستان کہا ہے۔ شاہ ملک بیجا پوری نے اسے دکنی اور محمد امین نے مثنوی یوسف زلیخا میں اسےگوجری سے موسوم کیا ہے یعنی گوجری کا نام دیا ہے۔ شیخ خوب محمد اسے گجراتی بولی کہتے ہیں۔ شیخ باجن نے اسے زبان دہلوی قرار دیا۔ مرور ایام سے زبان کے لئے ریختہ کا لفظ استعمال ہوا اور میر و غالب کے زمانے میں مروج رہا۔ اسی لئے غالب نے کہا
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں کہ اگلے زمانے میں کوئ میر بھی تھا
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اردو اگرچہ بے نام اور بے عنوان تھی لیکن سماجی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے وسیع علاقوں میں بولی جاتی تھی۔ چنانچہ اردو کے ارتقائ خاکے میں جو اولین نقوش نظر آتے ہیں ان میں پنجاب ، سندھ، گجرات، دکن، راجستھان اور گونڈیانہ وغیرہ کے بہت سارے الفاظ موجود ہیں۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے رگ وید کو اردو کی تاریخ کا پہلا سرا قرار دیا ہے۔ اور یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ اس زبان کا خام مواد مقامی بولیوں کی صورت میں رگ وید کے زمانے میں بھی موجود تھا۔ عربی کے الفاظ عرب تاجروں اور مسلمان فاتحین کی بدولت ہندوستان میں در آمد ہوئے اور جب مسلمان فاتحین دلی کی طرف بڑھے تو ان الفاظ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
دلی چونکہ مسلمانوں کا پایہ ء تخت تھا اس لئے یہی مقام اردو کا بھی دارلخلافہ قرار پایا۔ علاءوالدین خلجی کی فتح دکن اور محمد تغلق کے دارالخلافے کی تبدیلی سے یہ اثرات جنوب میں پہنچے اور ایک مخلوط زبان وجود میں آگئ۔ جسکے اولین شعراء میں مسعود سعد سلمان لاہوری، فرید گنج شکر، بو علی قلندر، امیر خسرو، اور قطبن وغیرہ شامل تھے۔ چنانہ سید سلمان ندوی کے اس نظرئیے سے انکار ممکن نہیں کہ
یہ مخلوط زبان سندھ، گجرات۔ دکن، پنجاب اور بنگال ہر جگہ کی صوبائ زبانوں سے مل کر ہر صوبہ میں الگ الگ پیدا ہوئ، یہ کسی ایک قوم یا زبان کا نہیں بلکہ مختلف قوموں اور زبانوں کے میل جول کا ایک ناگزیر اور لازمی نتیجہ ہے۔ اور غوریوں ، خلجیوں اور تغلقوں کے زمانے میں پیدا ہو چکی تھی۔
ایک اسٹوپڈ سوال ہے کہ اگر یہ مختلف زبانوں سے مل کربنی ہے تو پنجابی یا سرائیکی تو اس سے پہلے
ReplyDeleteکی زبان ہوگی۔
شاذل صاحب، اس وقت یہ بات نہیں ہو رہی کہ پنجابی یا سرائیکی اردو زبان سے کتنے دن بڑی ہیں۔ آپ نے اگر یہ تحریر غور سے پڑھی ہو تو یہ بھی پڑھا ہوگا کہ اردو زبان کا سرا رگ وید سے جا کر ملتا ہے یعنی تقریباً ڈیڑھ دو ہزار سال پہلے۔
ReplyDeleteبات یہ ہے کہ ایک زبان جو ہفت ہزاری ہو اسکے متعلق یہ دعوی کرنا کہ فلاں سے بنی ہے کس قدر درست بیان ہے۔ خود پنجابی یا سرائکی زبانوں نے بھی کسی زبان سے جنم لیا ہے۔ یہ اکیلی تو پیدا نہیں ہوئیں۔ اور نہ ہی ملکوں کی پیدائیش کی طرح کسی بھی زبان کا کوئ یوم پیدائیش ہے۔ اس میں اردو بھی شامل ہے۔ مختلف قومیں یہاں آتی گئیں اور زبان کے مختلف انداز بنتے گئے۔ ایک وقت تھا کہ اردو کے پھلنے پھولنے کے حالات مغلوں کے زمانے میں پیدا ہوئے۔ آج جب ہندوستان تقسیم ہو گیااور انہوں نے اپنی قومی زبان ہنگی کر لی تو یہ وہاں سے ختم ہو گئ۔ ہندی اور اردو زبان کے جھگڑے پہ ہی سرسید نے کہا تھآ کہ اب ان دونوں قوموں کا ایک ساتھ رہنا مشکل ہے۔
فارسی، اردو، سرائیکی، پنجابی، سندھی، ہندی، بنگالی یہ سب لسانیات کی زبان میں سسٹر لینگوایجز کہلاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زبان کے بہت سے الفاظ دوسری زبان میں ملتے ہیں۔ تھوڑی کمی بیشی سے محاورے ملتے ہیں اور جملوں کی ساخت بھی۔
کھیت کے کھیت کاٹ ڈالے مولیوں کے اور ابھی بھی کاں چٹا ہی ھے۔
ReplyDeleteاس موضوع کا ذرا عوامی زبان میں حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب کھوتے یا گھوڑے ہیں۔ یعنی اصلی تے نسلی۔
اسی حساب سے بولی بھی ھے۔
جو کھوتا اور گھوڑا نہیں وہ خچر ہے۔
یعنی یہ بھی اصلی تے نسلی۔
خچر کی بولی بھی ھے کھوتے اور گھوڑے کی بولی کا مکسچر۔
اب سب اپنی اپنی برتری ثابت کریں۔
یہاں سے بحث شروع کرتے ہیں کہ خچر کا ابا کون تھا۔
کھوتا یا گھوڑا؟
لیکن جو بعد میں نسل ہوئی یعنی خچر اور کھوتے کی یا خچر اور گھوڑے کی
اس میں اور ابتدائی نسل میں کیا فرق ھے؟
اب کون سی والی اعلی نسلی ھے اور کونسی والی گھٹیا؟
اور رگڑا رگڑی میں جو پیدا ہوتے گئے ان کی بولی کونسی والی ھے۔
جد امجد کی یا بعد میں گڑبڑ کرنے والوں کی؟ا
اور ان میں سے کون اعلی نسل کا کھوتا گھوڑا یا خچر ھےاور کونسا والا گھٹیا؟
ان کی کونسی والی زبان یا بولی اعلی ھے اور کونسی گھٹیا؟
برائے مہربانی اسے ثابت کریں۔
اچھی تفصیل ہے. اگرچہ لسانیات سے کبھی واسطہ نہیں رہا لیکن میں نے اردو کو ہمیشہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کی مشترکہ وراثت تصور کیا ہے. اردو زبان پنجاب کے شہروں میں بولی جانے والی پنجابی کے اتنا قریب ہے کہ بولتے وقت احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ دوران گفتگو کب ایک سے کھسک کے دوسری پر چلے گئے. زبان تو ایک ایسی چیز ہے کہ اس میں دائمی ارتقا جاری رہتا ہے. کسی زبان کے متعلق کے متعلق کسی خاص تاریخ پر انگلی رکھ کے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اس وقت اس چیز سے وجود میں آئی تھی. اور یہی زبان کی خوبصورتی ہے.
ReplyDeleteباقی رہے ہم مسلمان....تو ہمیں جھگڑنے کے لئے کچھ نا کچھ چاہیے. عربوں میں بھی کشیدگی رہتی ہے عربی زبان کے متعلق. مصری اپنے آپ کو برتر گردانتے ہیں تو شامی اپنے آپ کو.
اللہ ہی بھلا کرے.
اور یہ ڈاکٹر انور سدید کا کوئی لنک وغیرہ ہی دے دینا تھا۔ میں تو آپ کا بلاگ دس ماہ سے نہیں پڑھ رہا۔ نیا داخلہ لیا ہے سکول میں۔
ReplyDelete(:
اصل میں میں نے اس بحث کو کہیں اور دیکھ کر یہاں پوچھ لیا
ReplyDeleteیاسر صاحب، اسکا جواب میں ذرا آسان سی کیمسٹری میں دیتی ہوں ۔ جب ہم دو مرکبات کو ملاتے ہیں تاکہ ہمیں کوئ تیسرا مرکب مل جائے۔ مثلاً شراب تیار کرنے کے لئے مختلف چیزوں کو ملا کر رکھ دیا۔اب اگر آپ اسے آدھ گھنٹے بعد چیک کریں تو سارے کا سارا مادہ شراب میں تبدیل نہیں ہوا ہوگا۔ بلکہ اس میں چیزوں کا مکسچر بنا ہوگا۔ اسے اور زیادہ وقت سیں گے۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپکی ضرورت کی چیز اس میں اپنی زیادہ سے زیادہ مقدار میں ہوگی۔ لیکن اس میں غیر ضروری اجزاء بھی ہونگے جو آپکو نہیں چاہئیے تھے، انہیں آپ بننے سے نہیں روک سکتے۔ اکثر اوقات یہ غیر ضروری اجزاء بھی کار آمد ہوتے ہیں۔ اب اعلی شراب حاصل کرنے کے لئے آپ اسے کشید پہ لگا دیں گے۔ یوں ایک خاص درجہ ء حرارت پہ مثلاً اٹھتر ڈگری پہ اصل شراب بھاپ میں تبدیل ہو کر اڑنے لگے گی۔ اس بھاپ کو ایک ٹھنڈی ٹیوب میں سے گذاریں تو یہ مائع حالت میں آجائے گی۔ باقی کا کچرا دوسری طرف رہ جائے گا۔ اس طرح ایک خاص ٹمپریچر پہ نکل کر آنےوالی چیز خالص ہے۔ دوسری طرف کچرے میں سے بھی مختلف چیزون کو اسی طرح درجہ ء حرارت میں فرق سے باری باری جمع کیا جا سکتا ہے۔
ReplyDeleteشراب جمع کر کے بوتل میں اچھ طرح ڈھک کر رکھ دیں۔ ورنہ ہوا سے اسکا تعامل ہوتا رہے گا اور یہ اصلی شراب کو خراب کر سکتی ہے اور شراب کا سرکہ بن جائے گا۔
اگر آپ اسے کشید نہیں کریں گے تو یہ کچی شراب کہلائے گی جسے پی کر کوئ خدا کو پیارا ہو سکتا ہے کہ اس میں ایتھانول کے ساتھ میتھانول بھی موجود ہوگا جو جسم کے لئے زہر ہے۔ یہ کچی شراب گھٹیا شراب کہلاتی ہے۔ شراب جتنی پرانی ہو قیمتی ہوتی جاتی ہے۔
یہی حال زبان کا ہے جیسے انگریزی زبان۔
البتہ فراز نے کہا تھا کہ مزہ بڑھتا ہے جو شرابیں شرابوں میں ملیں۔
امید ہے اس آسان مثال سے آپکو سب اچھی طرح سمجھ میں آ گیا ہوگا۔
اعلی اردو نستعلیق اردو کہلاتی ہے۔ اور گھٹیا اردو ٹپوری۔
عثمان، یہ دو لنکس حاضر ہیں۔
http://www.mombu.com/culture/pakistan/t-dr-anwar-sadeed-unbelievably-prolific-1987972.html
http://splus.nation.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-english-online/print/Writers-Block/13-Dec-2008/Galaxy-of-intellectuals
اردو ایک خوبصورت زبان ہے قطع نظر اس کے کہ اسکی ابتدا کیسے اور کہاں ہوئی۔
ReplyDeleteپنجاب میں اردو کے ارتقا کے متعلق سب سے پہلے نظریہ مشہور و معروف محقق اور ایک اہلِ زبان حافظ محمود شیرانی نے دیا تھا۔ حافظ محمود شیرانی کو شاید اب بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن تقسیم سے پہلے برصغیر میں ان کا طوطی بولتا تھا، "مقالاتِ شیرانی" اور دیگر کتب انجمن ترقیِ اردو نے شائع بھی کی ہیں، اور انکے صاحبزادے "اختر شیرانی" بھی خاصے مشہور شاعر تھے۔
اردو کی ابتدا اور ارتقا کے متعلق ان کی ایک کتاب شائع ہوئی تھی "پنجاب میں اردو"، اس میں انہوں نے اپنا نظریہ پیش کیا تھا، جو کہ ظاہر ہے ابتک نظریہ ہی ہے۔ اس کتاب نے جہاں بہت مقبولیت حاصل کی تھی وہیں اس پر بحثیں بھی بہت ہوئیں جنہیں "نقوش" کے مدید محمد طفیل نے نقوش کے ایک نمبر "ادبی معرکے نمبر" میں جمع کر دیا ہے۔ اس کتاب کے جواب میں ایک اور کتاب مقبول ہوئی جو کہ نصیر الدین ہاشمی کی "دکن میں اردو" تھی اور پھر ایک اور کتاب "سندھ میں اردو" بھی شائع ہوئی۔
سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب "نقوشِ سلیمانی" میں اس طرف تفصیلی بحث کی ہے۔
کہنے کا مقصد یہ کہ مختلف محققین نے ابھی تک برصغیر کے مختلف علاقوں میں اردو زبان کی ابتدا اور ارتقا اور نشوونما کے متعلق اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں، گو کہ سبھی صرف نظریات ہی ہیں۔
وارث صاحب، آپکے تفصیلی اور معلوماتی تبصرے کا بے حد شکریہ۔
ReplyDeleteآپ نے بجا فرمایا کہ مختلف محققین نے اب تک صرف نظریات پیش کئے ہیں۔ اور ان پہ وثوق سے کچھ کہنا بےکار ہے۔
بی بی آپ نے بہت متنازا عنوان چُنا ہے-- شاہ میرا جی، شمس العشاق جانم، ملا وجہی سب رس، ملک خوشنود-- اور سب سے پرانی اردو کی کتاب جسکو جمیل جالبی نی ایڈیت کیا ہے پدم راؤ کدم راو جسکا مصنف نظامی بیدری، ولی ویلوری پر ڈاکٹر غلام مصطفی خان سندھ یونیورسٹی کام کیا ہے ( ویلورحیدراباد سے بانچسو کیلو میٹر ہے) یہ سارے مصنف دکن سے تعلق رکھتے ہین-- اپنی زبان کو ھندی یا ھندوی کہتے تھے، ( فارسی کے علاوہ دوسری زبانون کو ھندی یا ھندوی کہا جاتا تھا-- ولی دکنی جو اردو کو نیا روب دیا-- بھی دکن سے تعلق تھا- مٹریلسٹک شواھد کہتے ہین اردو دکن سے پیدا ھوی-- جو لوگ اپنی شناخت کو اجاگر کرنے لیلئے اردو کا مولد پنجاب ، دھلی بنایا-- حتی مدراس کو بھی اس دوڑ می رھا--
ReplyDeleteبلاگ اس بحث کا متحمل نہی ہے-- فیس بک پر مین نے ایک غزل نوٹ کیا ہے شاعر شاہجہان سے دارشکوہ تک دربار سے منسلک تھا نام سورج بھان برھمن ہے
حد یہ ھے کہ اچھے خاصے علاقے مین یہ پرانی اردو بولی جاتی ہے--
محترم ًحمد وارث صاحب میرے استاد ہین
ReplyDeleteحافبط محمود شرانی کا نظریہ یہ تھا کہ اردو مولد پنجاب ہے
يہ تبصرہ نعمان کی پوسٹ پر کيا تھا وہاں تو سنسر ہوگيا. پاکستان کيں ترقی نہيں کرتا؟ کنوينشنل بيوقوفی سے اختلاف کرنے والا ہر شخص قابل گردن زني
ReplyDelete----
عنيقہ کے علاوہ باقی سب کو پڑھ کر مايوسی ہوئی اگرچہ حيرت نہيں. پنجاب کے لوگوں سے تو کوئی گلہ نہيں کہ ان کا ہر ردعمل جبلی اور عادت کے تابع ہوتا ہے جسکا سمجھ بوجھ سے کوئی سروکار نہيں، ليکن باقی لوگ بھی سٹيريوٹيپيکل جواب ہی دے سکے. ذيادہ کہنے کا روادار نہيں کہ اندھوں ميں اندھا بن جانا چاہيئے کہ انيقہ کی طرح جھاڑ پڑھ جائے يا کم سے کم تبصرہ حذف ہوجائے- يہ اکيسويں صدی ہے؟ کم از کم پاکستان ميں تو نہيں کہ اگر مغربی اثرات اور مصنوعات نکال دی جائيں تو باقی سب پتھروں کے زمانے کا ہے- ذہن بھي-
میرے خیال میں اردو زبان و ادب کے ارتقاء میں متحدہ ہندوستان کےتقریبا تمام ہی علاقوں کا کچھ نہ کچھ عمل دخل ضرور ہے، لیکن پنجاب خاص کر مشرقی پنجاب، لاہور، دہلی، یوپی، لکھنو اور حیدرآباد دکن کو اردو کی مشترکہ طور جنم بھومی قرار دیا جانا چاہئے۔ ایک اور بات یہ کہ اردو کی ترقی میں یوپی اور پنجاب کے شہروں کا کردار غیر معمولی ہے۔
ReplyDeleteپنجاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہاں کہ لوگ اردو کو اپنی مادری زبان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، اردو زبان و ادب کی ترقی کیلئے انکا کردار سب سے زیادہ ہے لیکن بد قسمتی سے اہل زبان اردو سے زیادہ انگریزی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
بے نام صاحب آپکو اپنا نام لکھتے ہوئے شرمندگی کیوں محسوس ہوتی ہے؟ اپنی شناخت سے اتنی منہ چوری!
میں پچھلے کئی سال سے تبصرے کررہا ہوں،اور میں نے ہمیشہ یہ بتایا کہ میرا خاندان سندھی پنجابھی پٹھان اور اردو اسپیکنگ لوگوں پر مشتمل ہے اور محلہ بھی گونا گوں مسالک اور زبانوں کا مجموعہ ہے!(یہاں تک کہ وہاں قادیانی بھی موجود ہیں)
ReplyDeleteمجھے ہمیشہ یہی سکھایا گیا کہ یہ سب چیزیں صرف پہچان کے لیئے ہین تفاخر کے لیئے نہیں!
اور انسان صرف دو حصوں میں بٹے ہوتے ہیں اچھے انسان برے انسان ،سچے انسان جھوٹے انسان ،مہذ ب انسان بد تہذ یب انسان پڑھے لکھے انسان جاہل انسان،مجرم انسان اور جرائم سے نفرت کرنے والا انسان،اگر میرے دل میں کوئی تعصب ہے تو ایک برے ،بدتہذ یب ،جاہل(خصوصا جو جہالت کا مظاہرہ بھی کرے)اور مجرم انسان کے لیئے ہے!!!!
میں سب زبانوں اور قوموں کی یکساں عزت کرتا ہوں اور ان سے یکساں محبت بھی کرتا ہوں،مجھے تو ہر انسان چاہے وہ مسلمان ہویا غیر مسلم پیارا لگتا ہے کہ وہ میرے اللہ کی تخلیق ہے!!!
میرے آدھے سندھی اور آدھے اردو اسپیکنگ ہونے پر اس جاہل اور بد تہزیب شخص یاسر خوامخواہ نے جس طرح کا تبصرہ کیا ہے وہ بھی کچھ لوگوں کو نظر آنا چاہیئے مگر اس سے صرف نظر کیا گیا ہے کہ اس سے بہت سے لوگوں کے سینوں میں ٹھنڈک پہنچ رہی ہے جو میری لکھی سچائیوں کو ہضم نہیں کر پارہے تھے،آپ کی پوسٹ پر تو اس نے شائد اپکے ڈر سے پورا نہیں لکھا مگر جہانزیب اشرف کی پوسٹ پر اوپر لکھے ہوئے تبصرے کے بعد اس کا اخری جملہ یہ ہے!
اورثابت کریں کہ عبد اللہ نامی شخص کا شجرہ نصب کیا ھے۔
کیا تبصرہ نگاروں کی کوئی عزت نہیں ہوتی؟یا یہاں بھی بلاگر اور تبصرہ نگار کا فرق ملحوظ رکھتے ہوئے تعصب برتا جائے گا؟؟؟؟
معاملہ یہ ہے کہ یہ لوگ جس طرح چاہیں دوسروں کو ذلیل کریں انہیں پورا حق حاصل ہے،لیکن دوسرے اگر ان کی کمیونٹی میں پھیلے ہوئے جرائم کی طرف اشارہ بھی کردیں تو یہ بھڑوں کے چھتے کی طرح اسے چمٹ جائیں گے،بھائی میں کیا اپنے پاس سے بات کرتا ہوں میں بھی تو میڈیا میں جو رپورٹ کیا جاتا ہے اسی حوالے سے بات کہتا ہوں!!!
اگرمیڈیا غلط ہے تو اسے لگام دیں اور اگر اپنے اندرخرابیاں ہیں تو انہیں ایڈمٹ کرین جب مرض کو مانیں گے نہیں تو علاج کیسے کریں گے!
بہت سے سن آف دی سوائل کو آج یہ صاف صاف بتا دوں کےمیرے والد پاکستان بننے سے پہلے سے کراچی میں رہائش پزیر تھے تو میں بھی سو کالڈ سن آف دی سوائل ہوا،مگر مجھے اس لفظ سے اتنی نفرت ہے کہ میں گالی دینا پسند نہ کرنے کے باوجود ایسے لوگوں کو جو خود کو سن آف دی سوائل کہہ کہہ کر فخر کرتے ہیں سن آف دی سوائن کہنا پسند کرتا ہوں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسری قوموں اور خصو صا مہاجروں پلس لیاقت علی خان سے نفرت کی گھٹی دے کر بڑے کئے گئے!
اور ان کی نفرت لا محدود ہوتی ہے سوائے اپنی برادری کے یہ ہر دوسرے شخص سے نفرت کرتے ہیں یا اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں!!!
مگرانہیں اپنی یہ خامی یا تو سجھائی نہیں دیتی یا یہ اسے سرے سے خامی سمجھتے ہی نہیں ہیں!
اب ایسے لوگوں سے آپ کوئی صحتمندانہ بحث مباحثہ کر بھی نہیں سکتے کہ یہ فورا گالی گلوچ یا سامنے والے کی بے عزتی پر اتر آتے ہیں، اس کی تعلیم یا خاندان یا کمیونٹی کے حوالے سے اسے ذلیل کرنا شروع کردیتے ہیں !!!!
مجھے ان لوگون نے کیا کیا نہیں کہا مینے ان کی باتوں کاجواب دیا مگر کوشش کی کہ حد سے باہر نہ نکلوں ،اور یہ میری ایک بات غلط ثابت نہیں کرسکے!!!
اور ان لوگوں میں اکثریت ان کی ہے جو خود بمع اپنے خاندان کے پاکستان ہمیشہ کے لیئے چھوڑکر جا چکے ہیں یا اپنی اولادوں کو باہر سیٹل کروا چکے ہیں ،اور جب بھی پاکستان کو ضرورت پڑتی ہے یہ دور دور نظر نہین آتے مگر پھر بھی یہ سن اف دی سوائل ہیں اور یہ ملک انہی عظیم لوگوں کے لیئے بنایا گیا تھا،باقی ہم جیسے بے وقوف جن کا جینا مرنا اسی ملک کے لیئے ہے ہماری نہ تو کوئی اوقات ہے اور نہ حیثیت!
مجھے اس بات کا بھی پورا یقین ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں کے متمول گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جاگیردار گھرانے!
جمال کے تبصرے مین بھی اسی سچائی کی طرف اشارہ ہے !!!
رہی بے نام تبصروں کی بات تو میں اللہ کو حاضر ناضر جان کر یہ کہتا ہوں کہ یہ بے نام لوگ کون ہیں میں انہیں ہر گز نہیں جانتا، اور جو بھی گالم گلوچ کے جواب مین گالم گلوچ کرتا ہے وہ یا تو اردو بولنے والوں کا دشمن ہے یا نادان دوست!!!
مجھے یہ بھی یقین ہے کہ آپکو جو گالم گلوچ والے تبصرے موصول ہورہے ہیں وہ ان ہی لوگون کے ہیں جو بات بات پر آپے سے باہر ہوکر گالیوں پر اتر آتے ہیں!!!!
ReplyDeleteباقی آپ خود سمجھدار ہیں فرحان کے ذریعے ان کی آئی پیز چیک کروا لیں یا اس کے بتائے طریقے سے خود چیک کرلیں!
زبان کے ارتقا پر ایک اچھی تحریر کا شکریہ۔ ہم تو اتنا کہیں گے کہ بقول شاعر
ReplyDeleteاردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
اور
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
اور آخر میں میر سے اتمام حجت کرتے ہیں کہ
گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے
یہ کہتے چلیں کہ تمام زبانیں اپنے اپنے محاسن رکھتی ہیں، کسی کی دل شکنی مقصود نہیں۔
** ہم اس جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتے کہ اردو زبان کا بیج کہاں بویا گیا اور اس کے انکھوے کہاں پھوٹے۔ البتہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ زبان کی علاقائی تقسیم جو آج ہے وہ 800 ، 900 سال پیشتر نہ تھی۔ اُس وقت تک اکثر دیسی زبانوں نے کوئی واضح شکل بھی اختیار نہیں کی تھی۔
ReplyDeleteقدیم مورخین نے اول تو زبان کے مسائل سے بحث ہی نہیں کی ہے اور اگر اشارۃً ذکر کیا ہے تو بڑے مبہم انداز میں۔
** اردو زبان اور ادب نے 300 سال تک جتنی ترقی دکن میں کی اس کی نظیر پورے ملک میں نہیں ملتی۔ اسی لیے دکن کے لوگ اگر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پُرکھوں نے اردو کو نکھارا ، بنایا ، سنوارا اور اس میں ادبی شان پیدا کی تو یہ دعویٰ بےبنیاد نہیں ہے۔
*****
مقالہ : اردو زبان کا ارتقا
صفحات (A4 سائز) : 20
پ-ڈ-ف فائل سائز : 2.2 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ کیجئے : Here
بلاگ جتنا بھی لطیف، تحقیق طلب اور سنجیدہ ہو، عبداللہ بھائی آپ فتنہ و فساد پر مبنی ، عناد اور متعصب گفتگو کی طرح ڈال کر اصل موضوع سے سب کی توجہ ہٹادیتے ہیں، اس ہی لئے کئی بلاگر نے آپکا نام بارہ سنگھا رکھ دیا ہے. اگر آپ کے ساتھ کسی پنجابی، پٹھان یا طالبان نے کچھ برا ہوا ہے تو کیا ضروری ہے کہ بدلے کے طور پر ہم بلاگستان والوں کے پیچھے پڑھ جائیں. میں تو آپکے تبصروں کو ہمیشہ بغیر کسی ایڈیٹ کے شائع کرتا ہوں لیکن صاحب کچھ برداشت آپ بھی کیا کریں، صاحب کچھ تو اپنے زہن میں وسعت پیدا کریں اور اختلاف رائے کو ہضم کرنے کی عادت اپنائیں. آپ پانچ سال سے تبصرے کررہے ہیں یہ اچھی بات ہے، امید ہے آئندہ بھی کرتے رہیں گے لیکن تھوڑی سی برداشت ...........
ReplyDeleteحیدر آبادی صاحب، آپکے اس لنک کا بے حد شکریہ۔ یہ مضمون تو اتنے پہلے لکھا گیا اسکے باوجود لوگ اپنی غلط باتوں پہ اصرار کرتے ہیں۔ اسکا مطلب وہ پڑھتے نہیں بس سنتے ہیں۔
ReplyDeleteکاشف نصیر،
ReplyDeleteمیرا تبصرہ پوسٹ کے بالکل مطابق ہے،مگر یہ بات صرف سمجھ دار لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں!
اور یہ ہم بلاگستان والے کیا ہوتا ہے؟؟؟؟؟؟
میری برداشت کی فکر نہ کرو،وہ کم سے کم اتنی ضرور ہے کہ تم جیسوں کے ہر طرح کے جھوٹ اور بہتان برداشت کر ہی لیتی ہے،ہاں البتہ تم لوگ منہ کی کھا کر بھی جھوٹ لکھنے اور بولنے سے باز نہیں آتے!!!!!
کسی کے بلاگ پر کیا لکھنا ہے اور کیا نہیں اس کا فیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو؟؟؟؟
ویسے تم نے اس پوسٹ سے کچھ سیکھابھی یا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
اپ کی تحریر بڑی اچھی اور معلوماتی ہے ایک بات معلوم کرنی ہے اپنی علم میں اضافہ کیلئے کہ اس وقت دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی اور لکھی جاتی ہیں جو الٹی طرف سے لکھی جاتی ہیں صرف چند زبانیں جن میں اردو بھی شامل ہے سیدھی طرف سے کیوں لکھی جاتیں ہیں
ReplyDeleteنغمہ سحر، آپکے تبصرے کا شکریہ۔ کسی زبان کے رسم الخط کا انحصار اس بات پہ ہے کہ اس زبان نے ابتداً کس زبان سے جنم لیا۔ جب انسان نے لکھنا شروع کیا تو اس وقت لکھنے کا فن عام نہیں تھا۔
ReplyDeleteزبان کسی قوم کی میراث نہیں۔ اس میں مختلف تہذیبوں کا حصہ ہوتا ہے یہ اپنے ارتقاء کا سفر آہستہ آہستہ طے کرتی ہے۔ انگریزی زبان بھی اب سے تین چار سو سال پہلے ایسی نہ تھی جیسی اب ہے۔
وہ زبانیں جو لاطینی زبان سے وجود میں آئیں ان میں لاطینی زبان کی طرح رسم الخط بائیں سے دائیں ہے۔ جیسے انگریزی،ڈچ، پرتگیزی، فرنچ،ڈینش، اسپینش وغیرہ۔
چین اور ملحقہ علاقوں میں جو زبان لکھی جاتی ہے وہ اوپر سے نیچے ہوتی ہے اگرچہ بعض جگہوں پہ انگریزی کے زیر اثر اسے بھی بائیں سے دائیں لکھا جاتا ہے۔ اردو کے وجود میں فارسی اور عربی زبانوں کا بڑا حصہ ہے اور اس لئے یہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ دنیا میں کچھ زبانیں ایسی بھی ہیں جو ایک ہی وقت میں ہر سمت میں لکھی جاتی ہیں۔
تحریر اپنی ابتدائ حالت میںدراصل ایک علامتی تصویر تھی۔ جب یہ ارتقاء کے سفر پہ روانہ ہوئ تو ان تصویری علامتوں نے حرف کی شکل لے لی۔
یہ نیچے کچھ زبانوں کی ایک فہرست دی ہے جو دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہیں۔
Right-To-Left Script Languages
(Note many languages are also written in other scripts, which may be left-to-right.)
Arabic Arabic, Azeri/Azerbaijani1, Bakhtiari, Balochi, Farsi/Persian, Gilaki, Javanese3, Kashmiri, Kazakh3, Kurdish (Sorani), Malay3, Malayalam3, Pashto, Punjabi, Qashqai, Sindhi, Somali2, Sulu, Takestani, Turkmen, Uighur, Western Cham, Urdu
Hebrew Hebrew, Ladino/Judezmo2, Yiddish
N'ko Mandekan
Syriac Assyrian, Modern Aramaic Koine, Syriac
Thaana/Thâna Dhivehi/Maldivian
Tifinar Tamashek
عنیقہ جاوید گوندل نے جہانزیب اشرف کے اور نعمان کے بلاگ پر آپکو مخاطب کیا ہے،
ReplyDeleteمحض اطلاعا عرض ہے!!!
http://www.urdujahan.com/blog/politics/2010/civilized/#comments