Tuesday, August 24, 2010

کیمیکل کامبی نیشنز-۱

جب مرکبات آپس میں تعامل میں کرتے ہیں تو انکا یہ عمل چند قوانین کے ماتحت ہوتا ہے۔ یہ قوانین 'کیمیکل کامبی نیشنز' کہلاتے ہیں۔  بنیادی طور پہ یہ چار قوانین ہیں جو کسی تعامل کے ہونے  میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ درج ذیل ہیں

قانون بقائے کمیت
law of conservation of mass

مستقل تناسب کا قانون
 law of constant proportion

مختلف تناسب کا قانون
law of multiple proprtions

 متبادل تناسب کا قانون
 law of reciprocal proportions

اب ہم ان قوانین کے کسی تعامل پہ اثرات کو باری باری دیکھتے ہیں۔

  بقائے کمیت کا قانون

قدیم یونانی فلسفے میں کہا جاتا تھا کہ کچھ نہیں سے کچھ نہیں جنم لیتا۔ یعنی عدم سے عدم ہی وجود میں آتا ہے۔ جین فلسفہ کے بانی مہاویرا ہے کہتا ہے کہ کائنات اور اسکے اجزاء مثلاً مادہ نہ ہی پیدا کیا جا سکتے ہیں اور نہ ہی ختم کیا جا سکتے ہیں۔ تیرہویں صدی کے ایرانی عالم ناصر الدین الطوسی کا کہنا تھا کہ ایک مادی جسم مکمل طور پہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ صرف اپنی ماہیئت، حالت، ترکیب،رنگ اور اسی طرح کی دوسری خصوصیات تبدیل کرتا ہےاور ایک دوسرے مرکب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

بقائے کمیت کا قانون پہلی دفعہ مکمل طور پہ انٹونی لوائزے نے بیان کیا اور اس نے اپنے تجربات سے اسے ثابت کیا۔ اسکی وجہ سے اسے جدید طبیعیات کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان تجربات میں اس نے مختلف تعاملات کو دیکھا۔  مثلاً زنگ لگنے کا عمل۔ اس عمل سے پہلےلوہے کے ایک ٹکڑے کو ایک سیلڈ بند ٹیوب میں بند کر کے اس  ٹیوب کا وزن کیا گیا اور زنگ لگنے کے بعد بھی اسکا وزن کیا گیا۔  نتیجہ یہ نکلاکہ ہر دو صورتوں میں وزن برابر تھا۔

یہ قانون کہتا ہے کہ ایک بند نظام میں وقت گذرنے کے ساتھ نظام کی کمیت مستقل رہتی ہے۔ یعنی ایک کیمیائ تعامل اگر کسی بند نظام میں ہو رہا ہو تو مادہ نہ وجود میں آتا ہے اور نہ ختم ہوتا ہے اس طرح مادے کی مقدار وہی رہتی ہے جو تعامل کے آغاز میں ہوتی ہے البتہ مادے کے اجزاء اپنی ترتیب یا ماہیت تبدیل کر لیتے ہیں۔
اس قانون کی وجہ سےکیمیاء کی نئ بنیاد پڑی اور یہ ممکن ہو سکا کہ ری ایکٹنٹس کی مقدار متعین کی جا سکے اور حاصل پروڈکٹس کی مقدار کا پہلے سے اندازہ کیا جا سکے۔  اس طرح سے اسٹیکییئومیٹری یا مقداری کیمیاء کا تصور جنم لے سکا۔
اب ہم اسکی ایک مثال دیکھتے ہیں۔
مثال ؛
  ہائیڈروجن  اور آکسیجن مل کر پانی بناتے ہیں۔ اگر چار گرام ہائیڈروجن استعمال کرنے سے چھتیس گرام پانی بن رہا ہے تو آکسیجن کے کتنے گرام چاہیئِں ہونگے۔ 
سب سے پہلے اس تعامل کی مساوات دیکھتے ہیں۔
 اور پھر پروڈکٹس میں سے جس ری ایکٹنٹ کی مقدار دی ہوئ ہے اسے منفی کر دیں۔ دوسرے متعامل یا ری ایکٹنٹ کی مقدار معلوم ہو جائے گی۔



اس مثال میں جب ہم نے چھتیس گرام جو کہ پروڈکٹ کا وزن ہے اس میں سے ہائیڈروجن کے چار گرام نکال دئیے تو آکسیجن کے بتیس گرام حاصل ہوئے اس طرح سے مساوات میں تیر کے نشان کے دونوں جانب تعامل کے بعد بھی  مقدار گرام میں برابر رہی۔


اسکی ایک  ویڈیو ہے۔



مزید دیکھنے کے لئے ان لنکس پہ جائیں۔


جاری ہے

نوٹ؛ یہ تحریر زینب ضیاء کی فرمائیش پہ لکھی گئ ہے۔ ان سے درخواست ہے کہ مختلف الفاظ کا اردو ترجمہ صحیح کر دیں۔ فی الوقت میرے پاس اردو کی کتاب موجود نہیں ہے۔

17 comments:

  1. منبع قانون یعنی - خالق کائنات - بہت شکریہ

    ReplyDelete
  2. کیمسٹری میں نے میٹرک تک ہی پڑھی تھی. اور دو سال تک یہی سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ مساواتیں متوازن کیسے کی جاتیں ہیں.
    ناصر الدین طوسی والا لنک درست کرلیں.
    دوسرے شاگردوں کے سوالوں کے جواب دے دیے. میرے سوال کو ایسے ہی ٹرخا دیا. اب اگر ادھر میں فیل ہو جاؤں تو ذمہ دار کون ہے؟

    ReplyDelete
  3. عثمان، لنک درست کر دیا ہے۔ اطلاع کا شکریہ۔ آپکا کون سا سوال ٹرخا دیاہے۔ سوال پھر سے کیا جائے۔ میرے ذہن میں نہیں آرہا ہے۔

    ReplyDelete
  4. کاربن کے علاوہ کسی دوسرے عنصر پر مبنی زندگی کے امکانات کے بارے میں پوچھا تھا. یعنی زندگی کی ایسی شکل جس کے لئے کاربن ضروری نہ ہو. سوال ویسے بائیو کیمسٹری سے متعلق ہے.

    ReplyDelete
  5. عثمان، یہ جو آپ نے کاربن کے علاوہ زندگی کی بات کی ہے۔ یہ سائینس کم اور سائینسی فکشن زیادہ ہے۔ مجھے یاد آیا کہ اسکا تفصیلی جواب میں نے لکھا تھا مگر کچح ٹیکنیکل وجوہات کی بناء پہ یہ ادھر نہیں آیا جہاں آپ نے پوچھا تھا۔ چونکہ کاربن کی سب سے بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ زنجیری مرکبات بنا لیتا یے تو اسی چیز کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ دوسرے ایسے عناصر جو زنجیری مرکبات بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اگر وہ کاربن کی جگہ لے لیں تو کیا زندگی ممکن ہے اور اسکے نتیجے میں کیسی زندگی وجود میں آئے گی۔ اس پہ ایک اخباری آرٹیکل میں نے کافی عرصے پہلے جنات کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ایک بحث میں پڑھا تھا۔ دیکھیں ممکن ہوا تو ادھر ادھر سے حقائق جمع کر کے اس پہ بات کرتے ہیں۔ خالص اس موضوع پہ کوئ کتاب میری نظر سے نہیں گذری۔

    ReplyDelete
  6. آپ کی یہ بات درست ہے کہ یہ سائنس کم اور فکشن ذیادہ ہے. بلکہ اس پر جتنی کتابوں کی ورق گردانی کی ہے ان میں بھی مرچ مسالا ذیادہ ہے. لیکن دوسری طرف اس بات کو ابھی پوری طرح نظر انداز بھی نہیں کیا گیا. خاص طور پر نظام شمسی میں زندگی کے آثار دیکھنے کی کوششوں میں ایسے امکانات کو مدنظر رکھا گیا ہے.
    جنات میرا نہیں خیال کہ کسی کمیائی مرکب سے بنے ہیں ورنہ روشنی ان سے ٹکر کر ہماری آنکھوں تک ضرور پہنچتی.

    ReplyDelete
  7. عثمان، لیکن کچھ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے جنات دیکھے ہیں۔ ابھی دو دن پہلے میں ایک پچھتر سالہ بزرگ سے بات کر رہی تھی اور انہوں نے بتایا کہ انہوں نے دیکھا اور ایک دفعہ نہیں کئ دفعہ دیکھا۔ فرض کریں کہ ایسی ایک مخلوق موجود ہے تو وہ اس چیز پہ قادر ہے کہ جب چاہے وہ روشنی کو جذب کر لے اور جب چاہے روشنی اس سے ٹکرا کر واپس آجائے۔
    ویسے جنہیں ہم جنات کہتے ہیں وہ کوئ خلائ مخلوق بھی ہو سکتے ہیں۔ آخر خلائ مخلوق کو جنات سے الگ کوئ چیز کیوں سمجھا جائے۔

    ReplyDelete
  8. معاملہ محض جن کے نظر آنے یا نظر نہ آنے تک محدود نہیں. جن ایک ایسی مخلوق ہے جو طبعی طور پر ہماری دنیا میں مداخلت نہیں کرسکتے.
    میں آج تک سڑک پر چلتے ہوئے کسی جن سے نہیں ٹکرایا. کیوں؟ شائد اس لئے کہ وہ جس مادے سے تخلیق کئے گئے ہیں وہ ہم سے نہیں ٹکرا سکتا.
    کائنات کا طاقتور ترین جن۔۔۔شیطان ابلیس بھی صرف نفس انسانی میں وسوسہ ہی پیدا کرنے تک محدود ہے۔ طبعی طور پر دنیا پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ مزید یہ کہ انسانی نفس کوئی مادی چیز نہیں۔ ایک مادی چیز ایک غیر مادی چیز پر اثر انداز کیسے ہوسکتی ہے؟
    اگر بات مذہب کی طرف آتی ہے تو سوائے حضرت سلیمان کے اور کسی انسان کا جنات سے براہ راست تعلق ثابت نہیں۔ جن بزرگوں کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ ایسے ہی بزرگ ہمیں سینکڑوں سالوں تک جن کا سایہ ہونے کی کہانیاں سناتے رہے ہیں۔ وہ تو بھلا ہوا علم نفسیات کا جس نے ہمیں شیزو فرینیا اور دوسری بیماریوں کا بتایا۔ اور ان سے صحت یاب ہونے کے لئے کوئی روحانی عمل کی بجائے ادویات اور طبعی طریقے بتائے۔ مزید یہ کہ ان بزرگ کو خود کچھ نہیں پتا کہ انھوں نے کیا دیکھا ہے۔
    جنات کو آپ بے شک خلائی مخلوق کا نام دے دیجئے۔ لیکن خلائی مخلوق ایک یک خلوی جاندار یا پودا بھی ہوسکتا ہے۔

    ReplyDelete
  9. ان بزرگوں سے ایک سوال ضرور پوچھیے گا۔ کہ جب ان کو جن نظر آیا تو دوسرے لوگ موجود تھے؟ اور کیا دوسرے لوگوں کو بھی یہ دیکھائی دیا؟
    عموما ایسے لوگوں کے پاس دو ہی جواب ہوتےہیں۔ کہ یاتو جن انھیں اکیلے میں دیکھائی دیا۔ یا پھر دوسرے لوگوں کی موجودگی میں بھی صرف اور صرف انھیں ہی نظر آیا۔ گویا روشنی کی شعائیں جن سے ٹکرا کر صرف اور صرف انھیں کی آنکھوں تک پہچتی ہیں۔
    اب ان واقعات کی صحت کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیجئے۔

    ReplyDelete
  10. ہممم، سر سید احمد خان کا خیال تھا کہ جن دراصل جراثیم کے لئے استعمال کیا گیا لفظ ہے۔ چونکہ عجیب اتفاق ہے کہ میں نے بھی آج تک نہیں دیکھا سو میں اس سلسلے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتی۔ سوائے اسکے کہ ہم اپنے جنات کو اتنا برتر کیوں سمجھتے ہیں اور ادھر مغرب والے ہمارے جنات کو حقیر جان کر اپنی خلائ مخلوقات کو خلاء میں ڈھونڈھتے رہتے ہیں حتی کہ انکے لئے پیغامات تک چھوڑ رکھے ہیں کہ جیسے ہی ملے ہم سے رابطہ کریں۔ یہی نہیں ان خلائ مخلوقات پہ فلمیں بناتے ہیں اور اس میں انسانوں سے مشابہ ایک مخلوق کے اعضاء کو توڑ مروڑ کر اسے خلائ مخلوق کا نام دے دیتے ہیں۔ مثلاً ایواٹار۔ لگتا ہے تہذیبوں کی جنگ اس محاذ پہ بھی جاری ہے۔

    :) :)

    ReplyDelete
  11. ہر شخص کو نہیں صرف 'پہنچے' ہوئے لوگوں کو نظر آتے ہیں یا جن سے ، جن دوستی کرنا چاہے۔ میں تو یہ بات نہیں پوچھتی، مجھے معلوم ہے اسی قسم کا جواب ملے گا۔

    ReplyDelete
  12. سرسید احمد خان کے زمانے میں جو نیوٹونئین سائنس رائج تھی. اس کی وجہ سے ان کی مجبوری تھی کہ وہ جراثیم سے بڑھ کر جنات کی کوئی تاویل پیش کرنے سے قاصر تھے. آجکل کی سائنس کافی لبرل ہے. ہم سیارہ زمین سے باہر زندگی کی موجودگی پر باآسانی بات کرسکتے ہیں. یہاں تک کہ متوازی کائنات کے بارے میں نظریات موجود ہیں کہ جس کے طبعی قوانین ہم سے مختلف ہوں. تو بس کسی قسم کی تاویل پر اترنے کی بجائے جنات کو ایک الگ باشعور نوع تسلیم کرنے کی گنجائش ہے.
    مغرب میں خلائی مخلوق کے علاوہ جنوں بھوتوں پر مبنی ڈراؤنی فلمیں بھی بنتی ہیں. ایسے تصورات یہاں بھی بہت ہیں.
    جہاں تک خلائی مخلوق کی بات ہے. تو کم از کم اس بات پر گمان رکھنے میں کوئی تعامل نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی یک خلوی جاندار ، بیکٹیریا یا کوئی فنجائی نما پودا کسی سیارے پر موجود ہوگا. مزید یہ کہ اگر ارتقائے زندگی زمین پر واقع ہوسکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ کہیں اور نہ ہوسکتا ہو.
    ڈریک مساوات سے آپ کتنے بھی اندازے دوڑائیں. جواب کچھ نہ کچھ حوصلہ افزاء ہی نکلتا ہے.
    اس ساری معاملے میں ایک اور اہم بلکہ سب سے بڑا ایشو یہ ہے کہ ماہرین حیاتیات اب تک زندگی کی کوئی واضح تعریف نہیں کرپائے. جتنی بھی تعریف کی گئیں ہیں ان کی کوئی نہ کوئی رعایت موجود ہے. وائرس کو لے لئجئے. یہ جاندار ہے کہ بے جان. اب جب زمین پر موجود زندگی کی واضح تعریف کرنا ممکن نہیں تو زندگی کی آفاقی تعریف کیونکر ممکن ہے. اور فرض کریں کہ کہیں کوئی زندگی موجود ہے تو عین ممکن ہے کہ ہم کبھی جان ہی نہ پائیں کہ ہم تو صرف اس چیز کو زندہ کہنے کہ عادی ہیں جو ہماری غیر معیاری تعریف پر پورا اترتی ہے.

    ReplyDelete
  13. عثمان آپکا کہنا صحیح ہے کہ جیسے جیسے سائینس اپنا سفر آگے کی طرف طے کر رہی ہے بہت ساری قدیم الجھنیں اب اپنی نئ ممکنات رکھتی ہیں۔ یہ بات بھی آپکی بالکل صحیح ہے کہ ززدگی صرف انسان جیسی مخلوق سے وابستہ نہیں بلکہ ایک یک خلوی مخلوق بھی ، مخلوق کہلاتی ہے۔
    سر سید اپنے وقت کے لحاظ سے مذہبی خیالات کی سائینسی توجیہہ پیش کرنا چاہ رہے تھے۔ جبکہ وہ سائینس کے بالکل ابتدائ ادوار تھے۔ چونکہ ہم مستقبل سے واقف نہیں لیکن اپنے اب تک کے علم پہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ نہ صرف ابھی کائنات نا تمام ہے بلکہ انسان کو ابھی بہت آگے جانا ہے ایک ایسا سفر جہاں سے اسے اپنا نکتہ ء آغاز پتہ چلے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے زمینی مسائل سے بھی نمٹنا پڑے گا۔ کیونک اس سے مجھے فرق نہیں پڑتا کہ جنات ہیں یا نہیں لیکن بجلی ہے یا نہیں اس سے بڑا فرق پڑتا ہے۔
    :) :)
    یہ الگ بات کہ ضیا صاحب کے زمانے میں جنات سے توانائ پیدا کرنے کے طریقے معلوم کرنے پہ زور دیا گیا۔

    ReplyDelete
  14. السلام و علیکم سب سے پہلے تو بہت بہت معذرت دیرمیں تبصرہ کرنے پر دراصل نیٹ کو مجھ سے کچھ ایسی دشمنی ہوگئی تھی کہ جب میں بیٹھتی تو چلتا ہی نہیں تھا۔ میری فرمائش اتنی جلدی پوری کرنے پر بہت بہت شکریہ۔ میں خود بھی کیمسٹری انگلش میں پڑھ رہی ہوں میرے پاس بھی اردو کی کتاب نہیں ہے۔ مجھے بھائی نے یہ کہہ کر ڈرادیاتھا کہ بہت مشکل اردو میں لکھا ہوا ہے لیکن مجھے بخوبی سب سمجھ میں آگیا۔ ان شاءاللہ میں مستقبل میں اور بھی فرمائشیں کرتی رہوں گی اس امید کے ساتھ اسی طرح پوری ہوتی رہیں گی۔ :)
    ایک بار پھر بہت بہت شکریہ

    ReplyDelete
  15. زینب ضیاء، شکریہ۔ ابھی ایک قانون تو باقی ہے۔ مگر رمضان کی وجہ سے وقت کی کچھ تنگی ہے۔ ویسے چشم ما روشن دل ماشاد۔
    :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ