میں اب تک اس ویڈیو کو دیکھنے کی ہمت نہیں مجتمع کر پائ۔ جسکی مذمت اس وقت ہر کوئ کر رہا ہے۔ شاید میں ایسا کبھی نہیں کر پاءونگی۔ مجھے اپنی اس کمزوری پہ ندامت ہے۔ میں ایک پر تشدد معاشرے کا حصہ تو ہو سکتی ہوں مگر اس سے سرزد ہونے والے ایسے حیوانیت کے مظاہروں کو دیکھنے سے کیوں گریز کرتی ہوں۔
اب جبکہ تمام لوگ اس واقعے کی کما حقہ مذمت کر چکے تو ہمیں اس سے اگلے مرحلے میں داخل ہونا چاہئیے۔ اور وہ ہے اسکی وجوہات کا تعین۔ کیونکہ ان دو لڑکوں کی جگہ کل آپ یا میں بھی اس مقام پہ ہو سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے قتل ہونے والوں میں یا ہو سکتا ہے تماشہ دیکھنے والوں میں۔ ایک غلط وقت میں اگر آپ غلط جگہ پہ، غلط لوگوں کے ساتھ موجود ہوں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہجوم کا پر تشدد ہونا اپنی نوعیت کا پاکستان میں پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ واقعات ہوئے البتہ انکی ویڈیوز اس طرح سامنے نہیں آ سکیں۔
وجوہات کے جاننے سے قبل ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے اور وہ ہے اپنے آپ سے سوالات۔
یہ مندرجہ ذیل چند سوالات ہیں جو میرے ذہن میں آتے ہیں ہو سکتا ہے آپکے ذہن میں اور مختلف سوالات بھی ہوں۔ تو ان سوالوں اور انکے جوابوں میں ایکدوسرے کو شریک کرتے ہیں۔
یہ مندرجہ ذیل چند سوالات ہیں جو میرے ذہن میں آتے ہیں ہو سکتا ہے آپکے ذہن میں اور مختلف سوالات بھی ہوں۔ تو ان سوالوں اور انکے جوابوں میں ایکدوسرے کو شریک کرتے ہیں۔
کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہئیے یا مذمت کرنے کے چھوڑ دینا چاہئیے؟
کیا بد دعائیں لوگوں کو انکے انجام تک پہنچا دیں گی، کیا ان واقعات کا سد باب بد دعاءووں سے کیا جا سکتا ہے؟ کیا بد دعا دینے والے اپنی کم ہمتی کو ظاہر نہیں کرتے؟
کیا یہ واقعات محض معاشرے میں موجود کچھ لوگوں کی پر تشدد فطرت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں یا ہم من حیث القوم ایک اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں؟ ہماری اس اخلاقی تنزلی کا باعث مذہب سے ہماری دوری، یا تعلیم کی کمی یا ہماری ایک مہذب قوم کے طور پہ تربیت نہ ہونا ہے؟
ہماری مذہب سے ظاہراً گہری وابستگی بھی ہمیں کیوں تشدد سے دور نہیں رکھ پاتی؟
کچھ لوگوں کے خیال میں مذہب سے دوری ، ان واقعات کا باعث ہے۔ تو وہ ممالک جو بالکل سیکولر ہیں وہاں ایسے واقعات کیوں اس تسلسل سے پیش نہیں آتے؟
جب ہم اس چیز پہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ایسے افعال ہمارے اوپر عذاب کا باعث بنتے ہیں تو پھر بھی ہم کیوں انکو کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے؟
کیا کچھ لوگ موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی بالا دستی کے جذبے کو کمزوروں پہ ظلم کر کے تسکین دیتے ہیں اس لئے یہ واقعات ہو پاتے ہیں؟
کیا تشدد پسند فطرت، فیوڈل نظام کی دین ہے؟
کیا ایسا اجتماعی بہیمانہ تشدد، معاشرتی نا انصافیوں کا حصہ ہے؟ تو پھر ہم اسے اپنے اوپر ظلم کرنے والے طاقتور طبقے کے خلاف کیوں استعمال نہیں کرتے؟
کیا تشدد انسانی فطرت ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا اسے سدھار کر کسی مثبت جذبے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
میں کل سے وھ ویڈیوں دیکھ کر بہت دکھی هوں کیونکه مجھے اپنا آپ نظر اتا ہے
ReplyDeleteمرنے والوں کی جگه پر
لیکن اسی ویڈیو کو دیکھنے سے کئی سوال ذہن میں اٹھے هیں
جن میں ایک یه بھی هے که ویڈیوں میں بڑے لڑکے کی لاش کے پیٹ پر سفید پٹکا نمامیں گولیوں کا کیا کام تھا اور اس عمر کے لڑکوں کے پاس گولیان خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے ائے ؟
اس ویڈیو میں مارتے هوئے گالیاں دیتے هوئے ایک لفظ چند بار کہتا ہے جس سے لگتا ہے که معاملے میں سکیس بھی شامل ہے
قانوں کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے
یه ایک افاقی اصول ہے لیکن جب پاکستان جیسے حالات بن جائیں تو ؟
شہباز شریف پر بھی تو ماروائے عدالت قتلوں کا الزام لگاتے هیں ناں جی لوگ ؟
وھ کیا تھے؟
اور اپ بھی اگر ایسی جگه هوں جہاں اپ کی نظروں کے سامنے، ڈاکو قتل کرکے بھاگتے هوئے پکڑے جائیں
اور مرنے والے کو اپ جانتے هیں
لیکن ڈاکوں کو نہیں جانتے هیں
تو اپ کا کیا رویه هو گا
کیا اپ ان کو پولیس کے حوالے کردیں گے ؟
یا کہ نام نہاد عوامی انصاف هونے دیں گے یا ان کی حمایت میں عوامی انصاف ہدف بننا پسند کریں گے؟
پولیس والوں نے لڑکوں کو پکڑنے کے باوجود ، عوام کے حوالے کیوں کیا؟
اب نے بھی پاکستان میں هی پرورش پائی هے
جب بھی لڑائی هو ،اس پاس کے کچھ ناں کچھ لوگ چھڑانے کے لیے ضرور اتے هیں
ان لڑکوں کو چھڑانے کے لیے کیوں کسی نے کوشش نہیں کی؟
ایک میچور سی آواز اتی هے
پٹرول ڈال کر آک کیوں نهیں لگاتے ؟
کیوں ؟
سبھی ان کے خلاف لوگ وهاں کھڑے تھے؟
مجھے معلوم ہے که یرے اس کومنٹ لکھنے پر بہت لوگ غصه کریں کے لیکن یاد رهے میں اس ظلم کی حمایت میں نہین لکھ رها هوں
صرف اس نظر سے دیکھ رها هوں که اگر میں جج هوتا تو؟
اور میں یه سمجھتا هیں که
پاکستان میں لوگوں کے مشتعل هوجانے کے پیچھے
پاکستان میں ورزشی ماحول کے ختم هوجانے کی وجه ہے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے یک دم نہیں هوا کرتے
ليکن ليکن ان دونوں لڑکوں کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور جماعت اسلامي/اسلامی جميعت طلبا کا اپنا ريکارڈ تشدد کرکے ہلاک کرنے ميں کيسا ہے؟ بہت اچھا نہيں۔ تو کہيں يہ جماعت اسلامی کا اپنا نامہ اعمال تو سامنے نہيں آگيا؟ لوگ دوسروں پہ عذاب کی بددعائيں کرہے ہيں، کہيں يہ واقعہ جماعت اسلامی پہ عذاب تو نہيں۔
ReplyDeleteخاور صاحب، یہ ویڈیو میں نے بالکل نہیں دیکھی۔ میری اطلاعات اخبار اور نیٹ اسی قسم کے ذرائع ہیں۔ مجھے یہ بات آپ سے ہی پتہ چلی ہے کہ انکے پاس گولیاں بھی تھیں۔
ReplyDeleteخیر اگر وہ ڈاکو بھی ہوں اور انہیں اس وجہ سے قتل کر دیا جائے کہ پولیس کے ہاتھ لگنے کے بعد انصاف کی کوئ امید نہیں رہتی تب بھی اس قدر تشدد کا کوئ جواز نہیں۔
اسی طرح مختلف سیاسی جماعتیں تو تشدد کی ایسی بھیانک وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں انکا کیا جواز۔ ایک آبادی کا دوسری آبادی پہ بغیر کسی وجہ کے حملہ آور ہو جانا اسکا کیا جواز۔ جبکہ مارنے والا مرنے والے کو جانتا تک نہیں۔ اور صرف جان سے مارنا ہی نہیں اذیت کو اسکی انتہا پہ پہنچا کر مارنا اسکا کیا جواز ہے۔
میرا اپنا یہ گمان ہے کہ اس سارے معاملے میں لڑکی کا کوئی نہ کوئی چکر ہے. پاکستان میں عموما ایسا حیوانی تشدد تب سامنے آتا ہے جب کسی نے مخالف کا کوئی قتل کیا ہو یا پھر جنس کا کوئی چکر ہو.
ReplyDeleteایک عجیب بات مقتولین کے گھروالوں کا ردعمل ہے. میرے حساب سے تو ان کی والدہ کو غشی کے دورے پڑنے چاہیں یا کوئی سکتہ وغیرہ طاری ہونا چاہیے. لیکن ان کے والدین اور داد جان ٹیلی ویثرن پر نسبتا سکون کے ساتھ انٹرویو دیتے نظر آرہے ہیں. ان کا حوصلہ اور صبر واقعی قابل داد ہے.
جہاں تک آپ کے اٹھائے گئے سوالات کا تعلق ہے. تو سو باتوں کی ایک ہی بات ہے کہ عدل ختم ہے. باقی رہا مذہب ، تعلیم یا غربت تو یہ جزوی عوامل تو ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی وجہ نہیں.
تشدد انسانی فطرت شائد نہیں ہے. البتہ یہ جن جذبات سے جنم لیتا ہے وہ نفس کا ایک لازمی جز ہیں. ان کی تشفی کی جاسکتی ہے لیکن اسے درست طرف نہیں لگایا جاسکتا.
یہ ویڈیو میں نے بھی نہیں دیکھی، بلکہ دیکھ ہی نی سکا۔۔۔اسلئے معلومات وہی ہیں جو عمومی طور پہ سب کو ہیں۔۔۔ کل سے اس واقعے کے بارے میں سوالات ہی سوالات سامنے آ رہے ہیں۔۔۔ اگر صرف اس واقعے کو دیکھا جائے تو یہ جاننا زیادہ اہم ہے کہ اصل قصہ کیا ہوا تھا۔۔ اس بارے میں بھی کئی کہانیاں سامنے آ چکی ہیں۔ لیکن اگر بحیثیتِ مجموعی دیکھا جائے تو اصل میں سد باب اس ’موب سائیکی‘ یعنی Mob psychie کا کرنا ضروری ہے۔۔ کیوں ہمیں یہ لگتا ہے کہ اگر کوئی گناہگار ہے تو ہم قانون ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔۔ ؟
ReplyDeleteمیں بھی یہ ویڈیو دیکھنے کی ہمت نہیں کر رہا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دل مزید سخت ہو جائے گا لہذا اور لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ چاہے آپ اس میں لڑکی ڈال لیں یا ڈاکو۔ کیا یہ درست عمل تھا؟ مہذب معاشرہ کہتا ہے نہیں۔ مگر تاریخ کہتی ہے مہذب معاشروں کی تشکیل انہی واقعات کے بعد ہوتی ہے۔ مگر اس سے پہلے گیہوں سے ساتھ گھن کو پسنا پڑتا ہے۔
ReplyDeleteان دنوں میں نے تبصرہ کرنا چھوڑا ہوا ہے ، ایک تو اپنی بیماری کی وجہ سے دوسرا اپنی بے بسی اور بے حسی کی وجہ سے ، آپ کے سوالوں کا جواب یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو دیکھیں ، اگر آپ یہ سمجھیں کہ آپ ٹھیک ہیں تو باقی سب ٹھیک ہیں اگر آپ انکی جگہ ہوتیں تو شاید وہ ہی کرتیں جو انہوں نے کیا ، اور اگر آپ یہ سمجھیں کہ نہیں آپ میں کمزوریاں اور خامیاں ہیں تو اس کا مطلب یہ کہ ایسی ہی خامیاں اور کمزوریاں دوسروں میں بھی ہیں ۔ ۔۔ ۔ ۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہم اپنے آپ کو صحیح ہی سمجھتے ہیں ۔ ۔۔ غلط صرف دوسرے ہوتے ہیں ۔ ۔۔ ۔ ۔ اور یہ ہی وجہ ہے ان تمام حادثات کی ۔ ۔ ۔چاہے کوئی مانے یا نہ مانے
ReplyDeleteمن حیث القوم ہم بے شک اخلاقی تباہ حالی کا شکار ہیں۔
ReplyDeleteلیکن ابھی بھی الحمد اللہ سیکولر معاشرے جتنے تباہ حال نہیں ہوئے ہیں۔
سیکولر معاشرے میں اگر ماں باپ تیرہ سالہ بچی کو ڈاکٹر کے پاس لے جا کر اسقاط حمل کرواتے ہیں۔ تو ا س سے اس سیکولر معاشرے میں کوئی قیامت نہیں آتی۔اڑوس پڑوس والے بس اسطرح ذکر کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے کوئی کوڑا کرکٹ ڈرم میں پھینک کر آ گیا ھے۔
نہ ہی بچی کا مستقبل تباہ ہو تا ھے۔مستقبل کیسا؟روشن اور رنگ برنگی ہی ہوتا ھے۔
یہاں پر آجاتا ھے اخلاقیات کا پیمانہ جو بات سیکولر معاشرے میں بد اخلاقی میں نہیں آتی ہمارے معاشرے میں غیر انسانی فعل ہوتا ھے۔
اور ہمارے معاشرے کی یہ بدحالی آدھا تیترآدھا بیٹر جیسا حال ہونے کی وجہ سے ہے۔
دینی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہی یہ حال ھے۔
اسلام کو چھوڑ بھی نہیں سکتے اور عہد حاضر کی چکا چوند اور فلمی ستاروں جیسی زندگی بھی گذارانا چاھتے ہیں۔
ہر کوئی یورپ امریکہ جاپان جیسا لائف سٹائیل مانگتا ھے۔
لیکن اس میں ہم اپنی بہن بیٹی کو شامل نہیں دیکھ سکتے۔
لیکن دوسروں کی بہن بیٹی کو دیکھنا چاہتے ہیں۔کہ زندگی میں ہیروئین کی بھی ضرورت ہوتی ھے۔
ہم دوسروں کی بہن بیٹی کو فحش نگاہوں سے تو دیکھنا چاھتے ہیں۔
لیکن کوئی ہماری بہن بیٹی کو نظر اٹھا کر دیکھ لے تو آنکھیں نکال لینے پر تل جاتے ہیں۔
دین سے دوری ہی اس تباہ حالی کی وجہ ھے۔اگر دین کے بغیر معاشرے سے برائیاں ختم ہو جاتیں تو میں جاپان میں سولہ سال کی عمر سے رہ رہا ہوں۔اگر سچے دل سے یہاں کے معاشرے کا اور پاکستانی معاشرے کو موازنہ کروں تو ہمارے معاشرہ تشدد پسند ہونے کے باوجود اخلاقی طور پر دیوالیہ ہونے کے باوجود ان سے بہتر ھے۔صرف فرق ان کے ہاں جو کچھ ہوتا ھے وہ برائی نہیں ہوتی ہمارے ہاں جو کچھ ہو تا ھے۔ہمارے پیمانے کے مطابق برائی اور غیر انسانی فعل ہوتا ھے۔
ہماری تمام اخلاقی برائیوں کی جڑ مسجد اور کلیسا دونوں کے حصول کی خواہش ہے۔
یعنی ڈبل سٹنڈرڈ۔
شاید الفاظ کی مفلسی کی وجہ سے اپنی با ت نہ کہہ سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوابات حاضر ہيں
ReplyDeletehttp://www.theajmals.com/blog/2010/08/%D8%A7%D9%86%D8%AF%D9%88%DB%81%D9%86%D8%A7%DA%A9-%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9%DB%81-%DB%94-%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%AC%D9%88%D8%A7%D8%A8/#comments
یاسر صاحب، آپ نے جو بہتر ہونے کا معیار چنا ہے وہ آپکا ذاتی ہو سکتا ہے۔ لوگوں کا شراب پینا، جنس میں دلچسپی لینا اس معاملے میں کھلا ہونا یہ ایک نوعیت کی برائ ہے۔ لیکن کسی انسان کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کرنا، لوگوں کے ہجوم کھڑے ہو کر اس منظر کو دیکھیں، انہیں غیر انسانی طریقے سے ختم کرنا، غصے میں انکی لاشوں کو بھی نہ چھوڑنا یہ وہ بر بریت ہے جو شاید چنگیز خانی فوجیں کرتی ہونگیں۔
ReplyDeleteمیں تو ان دو برائیوں کو ایک جیسا نہیں سمجھتی۔ میں ایک شراب پینے والے کے ساتھ بات کر سکتی ہوں ، ایک ایسے شخص کے ساتھ مجھے خطرہ نہیں جو ایک عورت کے ساتھ بغیر شادی کیئے رہ رہا ہو اور اس سے اسکے بچے ہوں، ایک ایسی عورت سے مجھے خطرہ نہیں جو کسی ناجائز بچے کی ماں ہو۔ لیکن ایک ایسا معاشرہ جہاں یہ خطرہ موجود ہو کہ کسی بھی وقت آپ کسی ہجوم کے ہاتھوں ایسے انجام تک پہنچ سکتے ہیں کہ لوگ صرف اندازہ ہی کرتے رہ جائیں کہ اصل واقعہ کیا تھا۔ اس سے زیادہ ہولناک بات کچھ اور نہیں ہو سکتی۔ لوگوں کا آدم خور ہونا اور لوگوں کا عیاش ہونا ہر دو قدریں بالکل مختلف ہیں۔
عثمان، عدل معاشرے میں کس ذریعے سے پیدا کیا جائے گا۔
اجمل صاحب، آپ نے ان سب سوالوں کے جواب میں ایک پوری پوسٹ لکھی اسکا شکریہ۔ مجھے اگرچہ کچھ باتوں سے اختلاف ہے مگر پھر بھی میں سمجھتی ہوں کہ ہر شخص کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہم ایک ناکام قوم کی حیثیت سے کیسے باہر آ سکتے ہیں۔
ReplyDeleteاختلاف ہر کسی کا حق ہے مگر اس کی بنياد خلوص اور حق کيلئے محنت ہونا چاہيئے
ReplyDeleteرانا ثنا پنجاب حکومت کے لگائے گئے پوليس افسروں کے اطوار کو ذمہ دار ٹہرا رہے ہيں
ReplyDeletehttp://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101035444&Issue=NP_LHE&Date=20100823&sms_ss=email
"لیکن ابھی بھی الحمد اللہ سیکولر معاشرے جتنے تباہ حال نہیں ہوئے ہیں۔"
ReplyDeleteکيا بات ہے سيکولر معاشرے کو گالی دينے والے بھی سيکولر معاشروں ميں ہی جاکے رہنا پسند کرتے ہيں- منافقت اور کس کو کہتے ہيں-
آپ کے سوالات کے پڑھ کر ان کے جوابات ذھن میں آئے تھے جو کے میں نے دینے کی کوشش کی۔
ReplyDeleteسوال از جواب نہ دے سکا شاید اس وجہ سے کچھ اپنے دل کی بات نہ کہہ سکا۔
پاکستان کے شرابی کا تو مجھے معلوم نہیں۔اگر سیکولر معاشرے کے شرابی کی بات کریں تو یہاں کا شرابی جب سرور میں ہوتا ھے تو انسانی اخلاقیات مذہبی یا اسلامی اخلاقیات کی بات نہیں کر رہا۔انسانی اخلاقیات اس سرور میں ختم ہو جاتی ہیں۔شراب نوشی کی وجہ سے سیکولر معاشرے میں کتنے غیر انسانی جرائم ہوتے ہیں وہ پولیس کی کرائم رپورٹ سےمعلوم ہو جاتے ہیں۔اگر ان جرائم پر لکھنا شروع کریں تو میرے خیال میں اس کیلئے ایک علیدہ بلاگ بنانا پڑے گا اور روزانہ اس بلاگ کا پیٹ بھرنا پڑے گا۔
اجتعماعی طور پر ظلم ہورہا ہو اور سب تماشہ دیکھ رہے ہوں۔بے شک یہ ایک انتہائی اخلاقی پستی ہے اور کوئی بھی باشعور انسان اس کی تائید نہیں کر سکتا۔
ان سیکولر معاشروں میں بھی پارٹیوں میں اجتعماعی طور پر عورت کی عصمت دری کی جاتی ھے۔عورت یا تو خاموش ہو جاتی ھے یا عدالت میں اپنی مرضی نہ شامل ہونے کا ثبوت دیتی پھرتی ہے۔بات اخلاقیات کی ھے۔اگر یہ کہا جائے کہ سیکولر معاشرے میں اجتعماعی ظلم نہیں ہوتا تو سراسر غلط ھے۔
ان کے معاشرے میں قانون کی حکمرانی ھے اور کوئی چھوٹا بڑا اگر قانون کی خلافی ورزی کرے تو مجرم ہوتا ھے۔
یورپ امریکہ جاپان وغیرہ جیسے سیکولر معاشرے نے بھی اسی طرح کےمظالم دیکھے اور اس وقت ایک بہتر معاشرہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔بہتر اس لئے کہ ابھی بھی اس معاشرے میں غیر انسانی اور غیر اخلاقی حرکات ہوتی ہیں۔جو کسی بھی انسانی اخلاقیات کے معیار کے منافی ہوتی ہیں۔
اگر سیکولر معاشرے کو اچھا سمجھ کر مذہب کو غیر ضروری کہہ دیا جائے تو یہ ایک غلط معیار ہوگا۔
میرے خیال میں ہم یہ سب برداشت کر کے سہہ کر ہی اپنے مزاج کے مطابق ایک اچھا معاشرہ بنا سکتے ہیں۔نہ کہ ہمارے دینی مزاج سے مطابقت نہ رکھنے والے معاشرے کو اپنا نے سے۔
بے شک مزاج تو دینی ھے لیکن مزاج میں دین نہیں ھے۔
ہماری اخلاقی تباہ حالی مجھے اسی میں محسوس ہوتی ھے۔
میں ذاتی طورپر دین کو اپنا معیار بنانے پر مجبور ہوں۔
یہ معیار میں کسی پر مسلط نہیں کر سکتا۔
سخت گرمی میں لانگ کوٹ پہننے سے کیا حال ہوگا اس کا تصور بھی کیا جاسکتا ھے۔اور سخت سردی میں ہاف آستین پہننے کا بھی۔
وڈیو میں نے بھی نہیں دیکھی کہ کوئی فائدہ نہیں۔
ReplyDeleteآج یہاں کے مقامی چینل پر اس کلپ کا کچھ حصہ دکھایا گیا لیکن دھندلا کر کے۔
میرے خیال میں اس قسم کے واقعات ان جذبات کا نتیجہ ہیں جو ناراضی،غصے اور بے بسی سے جنم لیتے ہیں۔
مذہب ان واقعات کی وجوہات کی روک تھام تو کر سکتا ہے لیکن موقع پر موجود لوگوں پر قابو پانا یا تو صرف کسی لیڈر کا کام ہے یا پولیس کا۔
ریاست کے ادارے (اس معاملے میں پولیس( جہاں کمزور ہوں گے وہاں ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
ان واقعات کی وجوہات کیا ہیں، میرے خیال میں انصاف کا نہ ہونا، دولت کی غیر مساوی تقسیم، جمہوری اداروں کی عدم دستیابی اور لوگوں کا احساس بے بسی۔ یہ سب مل کر کچھ ایسے ہی حالات بناتے ہیں۔
اگر مذہب مذات خود آپکو رجم کرنے کی تعلیم دیتا ہو تو سر عام اسطرح لاٹھیوں سے پیٹ کر مارنے میں کیا حرج۔
ReplyDeleteملا حضرات کو سبق ہو جانا چاھیے۔ اسطرح سر عام تشدد کی اسلام میں کوے گنجائش نہیں۔
اس قسم کے معاشرتی رویے سے نکلنے کا طریقہ یہ ہے کہ ملک میں بہتر تعلیم کو عام کیا جائے۔ اور معاشرے میں تشدد کی مذمت کے کلچر کو فروغ دیا جائے چاہے اس تشدد کی وجوہات کچھ بھی ہوں۔
ReplyDeleteٹی وی چینلز پر جو موڈیفائیڈ ویڈیو چلی ہے اسے دیکھ کر میں بہت شرمسار ہوں اور اب یوٹیو کی ویڈیو کے زریعے اپنی قوم کی تہذیب کے جنازہ اور اخلاق کے تماشہ کا مزید افسوس ناک پہلو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔
ReplyDeleteمیرے مطابق ایسے واقعات کے تدارک کا قرآن و سنت کی روشنی میں ایک فوری اور ایک طویل مدتی لائحہ عمل ہے، جسکی تفصیل میں جلد اپنے بلاگ پر لکھوں گا۔ البتہ ایک بات جس کی طرف میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب تین سال قبل کراچی میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے دو ڈاکوں کو نظر آتش کیا گیا تھا تو بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے اسکی حمایت کی تھی, یہاں تک کہ انتہائی پڑھے لکھے نام نہاد باشعور طبقے نے بھی اس سخت متشددانہ رویہ کی حوصلہ افزائی کی، میں نے اس وقت ہی کہا تھا کہ عوام الناس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ مجرموں کو سزا دیں ۔ اسکی کئی وجوہات ہیں، اول عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے، دوئم جرم کی سزا جرم سے بہت زیادہ دے دی جاتی ہے، اور سوئم اس طرح کے واقعات اگر بڑھے تو لوگ اپنی دشمنیاں بھی نکالیں گے۔ لیکن بہت سے پڑھے لکھے لوگوں نے مجھے ڈاکوں کا ساتھی قرار دیا اور آج میری بات ٹھیک ثابت ہوئی۔
ReplyDeleteیہاں مجھے حضرت مسیح علیہ سلام سے کی ایک روایت یاد آئی۔ ایک دفعہ ایک خاتون نے زنا کیا تو مسیح علیہ سلام کو اسکی خبر دی گئی اور حد لگانے کا مطالبہ کیا گیا تو مسیح علیہ سلام نے ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے پہلا پتھر وہ مارے گا جس نے یہ جرم خود کبھی نہ کیا ہو۔
ReplyDeleteپاکستان کا ایک اور واقعہ یاد آیا جب ایک صاحب اپنے گھر میں موم بتی کی روشنی میں قرآن کریم کی تلاقت کررہے تھے کہ موم بتی صفحات مقدسہ پر گر گئی اور شعلے بھڑک اٹھے، یہ منظر پڑوسن نے کسی طرح دیکھ لیا اور شور مچادیا۔ پھر کیا ہونا تھا کہ آن کی آن میں قرآن کی محبت کے جھوٹے دعویداروں نے اس شخص کو اپنی درنددگی کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا۔
اسلام جو عقل اور شعور کا مذہب ہے جو سوچنے سمجھنے کی سلاحیت عطا کرتا ہے لیکن ہم نے اسے ایک جزباتی اور روایتی چیز میں تبدیل کردیا ہے۔ اسلام کے نام صرف روایات رہ گئی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ جو شخص زندگی بھر قرآن نہیں پڑھتا اور اس کتاب مبین کا ایک بھی حق ادا نہ کرکے اسکی توحین اور اللہ کی عظیم ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے وہ اگر سن لے کہ کسی نے قرآن کی توحین کی تو آگ بگلولہ ہوجاتا ہے، اسی طرح کوئی ساری عمر نماز نہ پڑھے لیکن سن لے کوئی مسجد شہید کی گئی تو سب سے بڑا مسلمان بن جاتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایمان کی ٖحرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، صدیوں میں نمازی بن نہ سکا
حالی نے امت مرحومہ کا رقعت آمیز نوحہ پڑھ کر سب کو رنجیدہ کردیا ، شیخ الہند مفتی محمود الحسن رحمہ اللہ نے مرض کی مگر تشخیص فرمائی۔ کہا قرآن کے معنوی خزانوں سے دوری اور باہمی اختلاف زوال کا سبب ہیں۔ مفتی اعظم مفتی شفیع اور ڈاکٹر اسرار علیہ رحمہ نے مزید وضاحت کی کہ باہمی اختلاف بھی قرآن سے دوری کا ہی کا نتیجہ ہے گویا اس امت کی تباہی کا واحد سبب قرآن سے دوری ہے۔ رسول اللہ صلہ اللہ و علیہ وسلم نے کہا کہ میں قرآن اور سنت کو تمہارے بیچ چھوڑ کر جارہا ہوں اور وللہ ہم نے قرآن اور سنت کو چھوڑ دیا۔مولانا لاہوری نے شیخ الہند کے نظریہ پر درس قرآن کے عوامی جلسوں کی شمع جلائی اور ایک ڈاکڑ نے آج تک اس شمع کو بوجھنے نہ دیا۔ لیکن اکثر ہیں جو نہیں مانتے اور قرآن فہمی کے بجائے قرآن خانی پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اقبال نے کہا
"تو کتاب خواں ہے صاحب کتاب نہیں"
کیا آپ میرے اس سوال کا جواب دیں گی کہ سوات کی ایک مبہم، نامعلوم اور متنازعہ ویڈیو پر الطاف بھائی اور عاصمہ جہانگیر کا جو رد عمل آیا تھا اسکی ایک معمولی سی جھلک بھی سیلاکوٹ کے قطعی اور ناقابل تردید واقعہ پر کیوں نظر نہ آئی۔ کیا یہ لبرل انتہاپسندی نہیں ہے ؟
عنیقہ میں آپ کی اس بات سے سو فیصد اختلاف کرتا ہوں کہ ہماری مذہب سے گہری وابستگی ہے، یہ مذہب اسلام کا مذاق اڑانا ہے کہ ایک قوم اس سے گہری وابستگی رکھتی ہو اور اقوام عالم میں اپنے طرز عمل کی وجہ سے بدترین قوم سمجھی جاتی ہو۔ سچی اور پکی بات یہ ہے کہ اس ملک کی اکثریت مسلم بائے چانس ہے اور اسلام کو اس نے اپنی محنت، جستجو، تحقیق، قربانی اور عقل کی بنیاد پر حاصل نہیں کیا۔ ہم اسلام کو صرف آباء کی وراثت سمجھتے ہیں اور ہمارا طرز عمل فاسق و فاجر والا ہے۔ بلکہ عمل کیا ہم ہیں ہی فاسق و فاجر۔
اسلام اور دین ہماری زندگیوں کا نا مقصد ہے نہ ہی ہمیں اسکی کوئی فکر ہے، رمضان کے مہینے میں روزے کے عالم میں ہماری سڑکوں پر جو طرز عمل اختیار کیا جات ہے، زخیرہ اندوزی، من مانی قیمت، کرپشن، سود، رشوت، دغا، جھوٹا اور غیبت ، پھر رمضان میں کراچی جسے شہر میں عصبی خانہ جنگی، اے اللہ ہم بھی کسی کافر قوم سے کم ہے۔
حقیقت زرا تلخ ہے اور وہ یہ کہ اگر ہم کلمہ کو ایک طرف کردیں تو ہمارا حال دنیا کی بدترین کافر قوم سے بھی بد ہے، وہ عقیدہ کے کافر ہیں اور ہمارے اعمال کافروں والے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان قوم کافروں سے بدتر ہوجائے تو اسکا یہی حال یہی ہوتا ہے جو ہمارا ہو رہا ہے۔ اب کراچی کا حال دیکھیں، اورنگی ٹاون کے بارہ لاکھ لوگ جس ذہنی عزیت میں زندگی گزار رہے ہیں اسکا اندازہ خود اہلیان کراچی کو نہیں۔ اردو زبان کی سیاست کرنے والے اورنگی کے اپنے ہی ووٹرز کو مرنے کے لئے ہمیشہ اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم مہاجر پھر بھی انہی عصبیت پسندوں کو ووٹ دیتے ہیں جنکی وجہ سے ہمارا بہترین ماضی برباد ہوچکا اور مستقبل داو پر لگا ہے۔ پھر پختونوں کے نام کی سیاست کرنے والوں کو اپنے لیڈر کی تو فکر ہے لیکن غریب پختونوں کی دیت سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔
اصل میں تو ہم نے امن حیث القوم اپنے اعمال سے اللہ کے دین کا مذاق اڑایا اب اللہ ساری دنیا میں ہمیں مزاق بنارہا ہے۔
آپ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں اس لئے عرض ہے کہ خدا کیلئے بربریت کا لفظ استعمال نہ کیا کریں، یہ اسطلاح یورپ کے لوگ افریکہ کے بربر قبائل کے خلاف اپنی نفرت کے اظہار کے لئے استعمال کرتے اور ہم مسلمانوں نے بغیر جانے اسکو اختیار کرلیا۔
ReplyDeleteعدل کو پیدا کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ازل سے موجود ہے. انسانی تہذیب کا اصل اور سب سے بڑا چیلنج عدل کو کسی نظام کے ذریعے اپنے معاشرے میں برقرار رکھنا ہے. اب اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ یہ نظام عدل برقرار کسطرح ہوگا تو اس کی فکر کرتے انسانوں کی نسلوں کی نسلیں گذر گئیں. اور جنہوں نے کسی نہ کسی شکل میں اسے برقرار رکھ لیا وہ آگے بڑھ گئے.
ReplyDeleteجہاں میں رہتا ہوں انفرادی طور پر تو مجھے اس معاشرے کے نظام عدل کا خوف اور اس پر بھروسہ ہے اور معاشرے سے ہی اس پر عمل کرنے کی ترغیب ملتی رہتی ہے.
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100823_silakot_cameraman.shtml
ReplyDelete.سیالکوٹ: قتل کے چشم دید گواہ
ReplyDeleteعلی سلمان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
’سترہ برس کا لڑکاخاموشی سے مار برداشت کرتا رہا لیکن اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا‘
سیالکوٹ میں دو نوجوان بھائیوں کی بھرے مجمع میں ہلاکت کی فوٹیج تیار کرنے والے کیمرہ مین بلال خان سے میں نے پوچھا کہ کیا ہلاکت کی فکم بندی ان دونوں لڑکوں کی جان بچانےسے اہم تھی؟
جواب ملا کہ’میں کر بھی کیا سکتا تھا۔‘ ٹی وی نیوز ون کے کیمرہ مین بلال خان کوئی پون گھنٹہ تک اس ہلاکت کی فلم بندی کرتے رہے تھے۔
یہ ویڈیو فوٹیج ہلکے پھلکے سنسر کے ساتھ ٹی وی چینلوں پر نشر ہوئی اور اب یو ٹیوب پر بلا سنسر تمام تر المناکی لیے موجود ہے۔
بلال خان چھ برس سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ یہ بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ صحافی کی سوچ خبر سے آگے نہیں جاسکتی اور اسے مرتے ہوئے انسان کو بچانے سے زیادہ اس کی فوٹو بنانے کی فکر ہوتی ہے۔
ہم زیادہ سے زیادہ حکومتی انتظامیہ کو فون کر کے لڑکوں کی مدد کے لیے بلا سکتے تھے لیکن جب حکومت پولیس کی شکل میں خود موجود تھی اور وہ لوگ موجود ہونے کے باوجود تشدد نہیں روک رہے تھے تو ہم کس کو فون کر کے بلاتے؟
بلال خان
اگرچہ ایسا تاثر کلی طور پر درست نہیں ہے لیکن بلال خان کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ سوال اٹھائے گئے ہیں۔
میں نے بھی ان سے پوچھا کہ وہ پون گھنٹے تک لڑکوں کے مرنے کے ’تماشے‘ کی فلم بندی کرتے رہے انہیں بچانے کے لیے کوشش کیوں نہیں کی؟ وہ خود سے نہ روکتے لیکن کم از کم فون پر اطلاعات دے کر تو ان کا بچاؤ کرسکتے تھے؟
بلال خان نے جواب دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ حکومتی انتظامیہ کو فون کر کے لڑکوں کی مدد کے لیے بلا سکتے تھے لیکن جب حکومت پولیس کی شکل میں خود موجود تھی اور وہ لوگ موجود ہونے کے باوجود تشدد نہیں روک رہے تھے تو وہ کس کو فون کر کے بلاتے؟
بلال خان کے نزدیک فون کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا تھا اس لیے وہ فلم بندی میں مصروف رہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ انہیں تشدد اور دھکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خود پولیس اہلکار انہیں دھکے دیتے اور بار بار فلم بندی سے روکتے رہے لیکن چونکہ سب کی توجہ کا اصل مرکز لڑکوں پر ہونے والا تشدد تھا اس لیے وہ تمام تر دھکوں کے باوجود ہینڈی کیم (کیمرے) سے بیس سے پچیس منٹ کی فوٹیج بنانے میں کامیاب ہوئے۔
کافی لوگوں نے ہمیں روکا، تشدد کیا، دھکے دیئے لیکن یہ میرا فرض تھا کہ میں اگر موقع پر موجود ہوں تو اس ظلم کی فلم بندی کروں
بلال خان
کیمرہ مین نے کہا کہ ’کافی لوگوں نے ہمیں روکا، تشدد کیا، دھکے دیئے لیکن یہ میرا فرض تھا کہ میں اگر موقع پر موجود ہوں تو اس ظلم کی فلم بندی کروں۔‘
انہوں نے کہا کہ مجھ پر بہت دباؤ ڈالا گیا اور بعد میں جان سے مارنے کی دھمکی دیکر فوٹیج ضائع کرنے کا بھی کہا گیا لیکن بلال خان کے بقول انہوں نے جان پر کھیل کر فوٹیج بنائی تھی اور وہ اسے نشر ہونےسے کیسے روک لیتے۔
’وہاں موجود پولیس والے اپنا فرض پورا نہیں کررہے تھے اگر میں بھی اپنے فرض سے غلفت برتتا تو اس ظلم کو سامنے کس طرح لایا جاسکتا تھا۔‘
بلال خان کے علاوہ دنیا ٹی وی چینل کے کیمرہ مین رپورٹر حافظ عمران بھی وہاں موجود تھے اور بلال خان کے بقول انہوں نے بھی عکس بند کی تھی لیکن بعد میں دونوں نے اپنی اپنی فوٹیج کو ملاکر ایڈیٹ کیا اور اپنے اپنے ٹی وی چینلوں کو جاری کردی۔
گوجرانوالہ ریجن میں ایسی درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگا اور ایسے متعدد واقعات ہوئے جہاں لاشوں کو سرعام بازاروں میں پھرایا گیا اور ان کی نمائش کرتے ہوئے پولیس افسروں نے لاؤڈ سپیکر پرعبرت حاصل کرنے کی نصیحتیں کیں
بلال خان نے بتایا کہ جب وہ پہنچے تو ابھی دونوں لڑکے زندہ ہی تھے ان کے بقول چھوٹا لڑکا حافظ منیب تو تین چار منٹ کے اندر ہی مر چکا تھا جبکہ دوسرا پون گھنٹے تک زندہ رہا حتی کہ جب اسے الٹا لٹکایاگیا تو وہ تب بھی زندہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ سترہ برس کا لڑکاخاموشی سے مار برداشت کرتا رہا لیکن اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔ بلال خان کے بقول اس نے الٹے لٹکنے کےدوران دم توڑا تھا اور بعد میں جب پولیس کے اعلیٰ افسروں کے آنے کے بعد ان کی لاشیں اتاری گئیں تو تب بھی ان کی بے حرمتی کی گئی اور لاشوں کو سہارا دیئے بغیر رسیاں کاٹ دی گئیں۔
مبصرین کا کہناہے کہ بات یہ نہیں کہ لڑکے ڈکیتی کرنے آئے تھے یا یہ کرکٹ کھیلنے کےدوران جھگڑا ہوا اصل بات یہ ہے گوجرانوالہ ریجن کی پولیس ملزموں کو سرعام سزادینے پر یقین رکھتی ہے۔
گوجرانوالہ ریجن میں ایسی درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگا اور ایسے متعدد واقعات ہوئے جہاں لاشوں کو سرعام بازاروں میں پھرایا گیا اور ان کی نمائش کرتے ہوئے پولیس افسروں نے لاؤڈ سپیکر پرعبرت حاصل کرنے کی نصیحتیں کیں۔
گوجرانوالہ ریجن میں گزشتہ دو ڈھائی برس کےدوران ہونے والے اس طرح کے درجنوں واقعات میڈیا پر رپورٹ ہوتے رہے لیکن وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت کے کان پر جوں رینگی۔
ReplyDeleteاس بحث سے قطع نظر کہ اس ویڈیو کوکس حد تک سنسر کرنے کے بعد جاری کیا جاتا اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ اس فوٹیج کے منظر عام پر آنے کےبعد ہی لڑکوں کو ہلاک کرنے والوں اور ان کی حمایت کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوسکا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلال خان کی بنائی ویڈیو پر شدید عوامی ردعمل نے حکومت کو کسی حد تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
نتیجے میں ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی’ بڑھکوں‘ اور انکوائریاں بٹھانے کے علاوہ عملی اقدام یہ کہ حسب روایت نچلے درجے کے پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیاگیا۔ان سے بڑے درجے کے ضلعی پولیس آفیسر کو معطل کیا اور ریجنل پولیس افسر کو ایک عہدے سے ہٹا کر دوسرا عہدہ دیدیا گیا۔
کاشف نصیر صاحب، بربریت لفظ اردو لغت میں موجود ہے اسکے معنی ہیں وحشت، وحشی، خونخواری۔ فیروز الغات کے مطابق یہ لفظ عربی سے لیا گیا ہے۔
ReplyDeleteارے عنیقہ بری بات آپ بھی کیا اہل زباں کی اردو ٹھیک کروانے بیٹھ گئی ہیں کاشف نسیر برا مان جائیں گے!
ReplyDeleteپچھلی بار آپ نے ان کے گیلانی اور جیلانی کے اعتراض پر جواب دعوی کردیا اور اب بر بریت پر بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:)
یہ الگ بات ہے کہ وہ ابھی تک وہ یہ فیصلہ نہیں کرسکے ہیں کہ نصیر میں سین آتا ہے یا صواد!
Apparently these two boys themselves went for vigilante justice but instead became victims;
ReplyDeletehttp://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101037655&Issue=NP_LHE&Date=20100825&sms_ss=email