Showing posts with label ڈاکٹر مبارک علی. Show all posts
Showing posts with label ڈاکٹر مبارک علی. Show all posts

Saturday, May 1, 2010

خاص آدمی-۲

تاریخ میں دو قسم کی شخصیات کو عظیم ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ ایک وہ تاریخی شخصیات جنکے بارے میں مءورخ واقعات کی چھان بین کر کے انکے کارناموں کو بیان کرتا ہے۔ اس میں مبالغہ، تعصب، اور خوشامد شامل ہو سکتے ہیں۔ مگر چونکہ واقعات تاریخی ہوتے ہیں تو غیر جانبدار مءورخ کے لئے بھی موقع ہوتا ہے کہ انکی خامیوں اور کمزوریوں کو بھی صحیح روپ میں پیش کر سکے۔
 دوسری دیو مالائ شخصیات ہوتی ہیں۔ یہ وہ خاکے ہیں جو عوام کے ذہن میں ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنے حالات میں موجودہ حکمرانوں سے اپنے مسائل کا حل نہیں پاتے تو اس ہیرو کو تراشتے ہیں۔ ان دیومالائ شخصیات میں بہادری، شجاعت ، ذہانت و فیاضی کی خوبیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح یہ ایک طرف خدا کے پسندیدہ بندے اور دوسری طرف عوام کے نجات دہندہ بن جاتے ہیں۔ ان جذبات سے فائدہ اٹھا کر وقتاً فوقتاً کچھ لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نجات کے لئے آئے ہیں۔ 
جو فلسفی اور مءورخ تاریخ میں افراد کی اہمیت کو مانتے ہیں۔ ان کے یہاں جمہور اور جمہوریت سے دشمنی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ ہر اس نظام کے خلاف ہوتے ہیں جہاں اقتدار خاص آدمی کے دائرے سے نکل کر عوام کے ہاتھ میں چلا جائے۔ انکے نزدیک تخیلقی اقلیت ہی ذہن و شعور کی مالک ہوتی ہے اس لئے یہ مساوات، برابری ، آزادی اور ارادہ ء اجتماعی کے خلاف ہوتے ہیں
تاریخ میں شخصیات اور افراد کے تاریخ ساز کردار کی اہمیت کا اثر یہ ہوا کہ عوام میں اور معاشرے کی اکثریت میں خود اعتمادی کا جذبہ ختم ہو گیا، اور جب بھی معاشرہ بحرانوں سے دو چار ہوا یا مسائل پیدا ہوئے تو وہ اسکی توقع کرتے رہے کہ کوئ شخصیت پیدا ہوگی اور انکے مسئلے حل کر دے گی۔ نسلیں اسی موہوم امید پہ زندگیاں قربان کر دیتی ہیں کہ کوئ آئے گا اور انہیں تمام مظالم سے نجات دلا کر دنیا میں امن و انصاف قائم کر دے گا۔ اس نظریہ نے عوام کی قوت، طاقت اور عمل کو ختم کر کے انہیں ظلم کو خاموشی سے سہنا سکھایا اور اسی کے سہارے ہر آمر اور ظالم نے کامیابی سے حکمرانی کی۔
تاریخ میں اگر شخصیتوں کو عقیدت سے دیکھا جائے تو وہ تاریخ نہیں مذہب ہے۔ پھر وہ شخصیت تاریخ کے دائرے سے نکل کر معجزے، کرامات اور مافوق الفطرت باتوں سے منسوب ہو جاتی ہے۔ جس سے اسکی عظمت کم ہوتی ہے۔ اس لئے مشہور مفکر ریناں نے کہا کہ اب اگر دنیا کا ایمان حضرت عیسی پر سے اٹھے گا تو محض ان معجزوں کی وجہ سے کہ جنکی وجہ سے ابتدا میں لوگ ان پہ ایمان لائے۔
تاریخ میں شخصیتوں کی اہمیت ہے لیکن تنہا شخصیتیں تاریخ ساز نہیں ہوتیں۔ حالات انکو بنانے میں اور انکے افکار و نظریات کی تشکیل میں حصہ لیتے ہیں اور پھر یہ شخصیات حالات کو بناتی ہیں اور معاشرے کی تعمیر کرنے میں سرگرم عمل ہوتی ہیں۔


حوالہ؛
کتاب، تاریخ اور فلسفہ ء تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی، پبلشر فکشن ہاءوس، لاہور۔
خاص آدمی

Friday, April 30, 2010

خاص آدمی

.ایک بلاگ پہ سے گذری تو اس سوال پہ نظر پڑی

کتنے لوگ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ ایک اکیلا بندہ کچھ نہیں کر سکتا ؟ اور کتنے لوگ اس کے برعکس سوچ میں یقین رکھتے ہیں ؟
مختلف تبصروں پہ سے گذرتے ہوئے کچھ خیال آیا کہ کافی عرصے پہلے ڈاکٹر مبارک علی کی ایک کتاب پڑھی تھی، تاریخ اور فلسفہ ء تاریخ۔ کتاب کوچھانا پھٹکا اور اس سوال سے قطع نظر مندرجہ ذیل تحریر کا باعث بن گیا۔
ڈاکٹر مبارک علی تاریخ کے استاد ہیں اور اس موضوع پہ کئ کتابیں لکھ چکے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ انسان اور اسکے مقاصد کو زیر بحث لاتے ہوئے ایک نظریہ یہ پیدا ہوا کہ فطرت کسی ایک شخص کو مافوق الفطرت طاقت دیتی ہے تاکہ  وہ اس مقصد کے لئے جدو جہد کرے اس میں وہ عوام کی اکثریت کو لیکر چلتا ہے۔ وہ قانون اور اخلاق سے بالاتر ہوتا جو کچھ کرتا ہے صحیح ہوتا ہے۔ تاریخ میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ان شخصیات کے عمل کا نتیجہ ہے۔ تاریخ ان لوگوں کی سوانح عمری کے علاوہ کچھ نہیں
 تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ افراد تاریخ ساز ہوتے ہیں، انکے عمل سے تاریخ کا بہاءو تیز ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ افراد تاریخ کا راستہ متعین کرتے ہیں۔ کیونکہ تاریخ کا ہر واقعہ گذشتہ واقعات اور ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور وہ افراد جو تاریخ کی تعمیر میں نمایاں کردار دا کرتے ہیں محض اک آلہ ءکار ہوتے ہیں۔
پلیخانوف کہتا ہے کہ
'بارسوخ افراد اپنے کردار اور اپنے ذہنوں کی مخصوص صفات کی بدولت واقعات کو اور انکے مخصوص نتائج کو تو بدل سکتے ہیں لیکن وہ واقعات کے عمومی رجحان کو نہیں بدل سکتے جو دوسری قوتوں سے متعین ہوتے ہیں۔
 وہ یہ کہتا ہے کہ جب بھی عظیم افراد کے ارتقاء کے لئے سازگار حالات موجود ہوئے یہ لوگ ہر جگہ نمودار ہوئے۔ یعنی صاحب صلاحیت شخص کا نمودار ہونا معاشرتی تعلقات کی پیداوار ہوتا ہے۔ ایک عظیم انسان دوسروں کے مقابلے میں واقعات کی رفتار کو سمجھتا ہے یہی اسکی عظمت ہے۔
تاریخِ میں معاشی و سیاسی و معاشرتی قوتیں اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ تاریخ کو مسلسل تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ دنیا میں انقلابات ان قوتوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ شخصیتیں صرف ان کے عمل کو تیز کر دیتی ہیں۔ ورنہ انکے بغیر بھی وہی کام ہوگا مگراس کام کی تکمیل میں زیادہ وقت اورزیادہ لوگ چاہئیے ہونگے۔ شخصی حکومت کے زمانے میں شخصیات کو اہمیت دی جاتی تھی اور انکے کارنامے لکھے جاتے تھے اس لئے اس میں حکمراں طبقے کی تاریخ تو ہوتی ہے لیکن عوام کی نہیں۔ مذہبی علماء کی تو ہوتی ہے لیکن انکے پیروکاروں کی نہیں، زمینداروں کی تو ہوتی ہے لیکن کسانوں کی نہیں، فوجی جرنیلوں کی ہوتی  ہے سپاہیوں کی نہیں، صنعت کاروں کی ہوتی ہے مزدوروں کی نہیں۔
اس طرح روائتی تاریخ میں اس بات پہ زور دیا گیا  ے کہ تاریخ صرف عظیم شخصیتوں کے کارناموں کا مرقع ہے۔ قدرت انہیں خاص صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کرتی ہے اور یہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعے معاشرہ کی ترقی اور تمدن کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تاریخ کا دوسرا نظریہ یہ ہے کہ عظیم شخصیتیں بذات خود کچھ نہیں ہوتیں بلکہ یہ حالات کی پیداوار ہوتی ہیں۔ شخصیتوں کی اہمیت اسی وقت ہوتی ہے جب انکے کام کے کے لئے  حالات سازگار ہوں اور معاشرہ کا ذہن ان کے پیغام اور تسلیمات کو سننے کے لئے  اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو اگر وہ سازگار ماحول سے ہٹ کر پیدا ہوتے ہیں تو انکی عظمت ختم ہو جاتی ہے۔
بقول 'ٹالسٹائ۔'عظیم شخصیتیں بذات خود کچھ نہیں ۔ بلکہ یہ واقعات ہیں جو انکا روپ اختیار کر لیتے ہیں'۔
یہ بات کچھ تاریخی واقعات کو دیکھنے کے بعد صحیح بھی لگتی ہے۔ ورنہ ایسا کیوں کہ گلیلو جب یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ زمین نہیں بلکہ سورج اس کائنات کا مرکز ہے تو پابند سلاسل ٹہرتا ہے اور دس سال قید و بند میں گذارنے کے بعد اسے عدالت میں اپنے اس بیان کی معافی جمع کرانے کے بعد رہائ ملتی ہے۔ لیکن یہی بات جب  کپلر کہتا ہے تو فلکیات کی دنیا میں انقلاب آجاتا ہے۔
کولونیل نظام کے خاتمے کے بعد ایشیا و افریقہ سمیت دیگر ممالک میں شخصیت پرستی کا فروغ ہوا۔ ، ہر نئے آزاد ملک نے شخصیتوں کے بت تراشے اور انکے گرد ایسی روایات کا ہالہ تیار ہوا کہ انکی حیثیت انتہائ مقدس و متبرک ہو گئ۔ آزادی کی تحریکوں میں انکی جدوجہد کو اس قدر مبالغہ کے ساتھ پیش کیا کہ عوام کی قربانیوں اور انکے کردار کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔


 جاری ہے۔