تاریخ میں دو قسم کی شخصیات کو عظیم ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ ایک وہ تاریخی شخصیات جنکے بارے میں مءورخ واقعات کی چھان بین کر کے انکے کارناموں کو بیان کرتا ہے۔ اس میں مبالغہ، تعصب، اور خوشامد شامل ہو سکتے ہیں۔ مگر چونکہ واقعات تاریخی ہوتے ہیں تو غیر جانبدار مءورخ کے لئے بھی موقع ہوتا ہے کہ انکی خامیوں اور کمزوریوں کو بھی صحیح روپ میں پیش کر سکے۔
دوسری دیو مالائ شخصیات ہوتی ہیں۔ یہ وہ خاکے ہیں جو عوام کے ذہن میں ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنے حالات میں موجودہ حکمرانوں سے اپنے مسائل کا حل نہیں پاتے تو اس ہیرو کو تراشتے ہیں۔ ان دیومالائ شخصیات میں بہادری، شجاعت ، ذہانت و فیاضی کی خوبیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح یہ ایک طرف خدا کے پسندیدہ بندے اور دوسری طرف عوام کے نجات دہندہ بن جاتے ہیں۔ ان جذبات سے فائدہ اٹھا کر وقتاً فوقتاً کچھ لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نجات کے لئے آئے ہیں۔
جو فلسفی اور مءورخ تاریخ میں افراد کی اہمیت کو مانتے ہیں۔ ان کے یہاں جمہور اور جمہوریت سے دشمنی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ ہر اس نظام کے خلاف ہوتے ہیں جہاں اقتدار خاص آدمی کے دائرے سے نکل کر عوام کے ہاتھ میں چلا جائے۔ انکے نزدیک تخیلقی اقلیت ہی ذہن و شعور کی مالک ہوتی ہے اس لئے یہ مساوات، برابری ، آزادی اور ارادہ ء اجتماعی کے خلاف ہوتے ہیں
تاریخ میں شخصیات اور افراد کے تاریخ ساز کردار کی اہمیت کا اثر یہ ہوا کہ عوام میں اور معاشرے کی اکثریت میں خود اعتمادی کا جذبہ ختم ہو گیا، اور جب بھی معاشرہ بحرانوں سے دو چار ہوا یا مسائل پیدا ہوئے تو وہ اسکی توقع کرتے رہے کہ کوئ شخصیت پیدا ہوگی اور انکے مسئلے حل کر دے گی۔ نسلیں اسی موہوم امید پہ زندگیاں قربان کر دیتی ہیں کہ کوئ آئے گا اور انہیں تمام مظالم سے نجات دلا کر دنیا میں امن و انصاف قائم کر دے گا۔ اس نظریہ نے عوام کی قوت، طاقت اور عمل کو ختم کر کے انہیں ظلم کو خاموشی سے سہنا سکھایا اور اسی کے سہارے ہر آمر اور ظالم نے کامیابی سے حکمرانی کی۔
تاریخ میں اگر شخصیتوں کو عقیدت سے دیکھا جائے تو وہ تاریخ نہیں مذہب ہے۔ پھر وہ شخصیت تاریخ کے دائرے سے نکل کر معجزے، کرامات اور مافوق الفطرت باتوں سے منسوب ہو جاتی ہے۔ جس سے اسکی عظمت کم ہوتی ہے۔ اس لئے مشہور مفکر ریناں نے کہا کہ اب اگر دنیا کا ایمان حضرت عیسی پر سے اٹھے گا تو محض ان معجزوں کی وجہ سے کہ جنکی وجہ سے ابتدا میں لوگ ان پہ ایمان لائے۔
تاریخ میں شخصیتوں کی اہمیت ہے لیکن تنہا شخصیتیں تاریخ ساز نہیں ہوتیں۔ حالات انکو بنانے میں اور انکے افکار و نظریات کی تشکیل میں حصہ لیتے ہیں اور پھر یہ شخصیات حالات کو بناتی ہیں اور معاشرے کی تعمیر کرنے میں سرگرم عمل ہوتی ہیں۔
حوالہ؛
کتاب، تاریخ اور فلسفہ ء تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی، پبلشر فکشن ہاءوس، لاہور۔
خاص آدمی
خاص آدمی