Showing posts with label پاکستانی شادیاں. Show all posts
Showing posts with label پاکستانی شادیاں. Show all posts

Sunday, February 21, 2010

اجازت ہے؟

میری اماں بہت ناراض ہو رہی تھیں۔ کہنے لگیں یہ جو ہم اس مسجد میں ہر جمعرات کو درس سننے جاتے ہیں تو آجکل یہاں جماعت اسلامی کی خواتین درس دے رہی ہیں۔ بالکل دماغ خراب ہو گیا ہے انکا۔ میں نے تو جانا چھوڑ دیا۔ میں اطمینان سے انکے روحانی ڈائجسٹوں کے مجموعے کی ورق گردانی کرتی رہی کہ روحانی ڈائجسٹ انہیں بہت پسند ہے۔  اور ویسے بھی ہم سب جانتے ہیں کہ وہ جب ایک دفعہ بولنا شروع کریں تو پھر وہی بولتی ہیں۔
کہنے لگیں یہ ان لوگوں نے اب ایک نیا تماشہ نکالا ہے۔ میں نے سر اٹھا کر انکی طرف دیکھا۔ اب یہ لوگ کہنے لگے ہیں کہ اپنے شوہروں کی دوسری اور تیسری چوتھی شادی کراءوو جبھی یہ شادی کا مسئلہ حل ہوگا۔ ارے انکی عقل تو ہمیں لگتا ہے کہ گھاس چرنے چلی گئ ہے۔
یہ وہ پہلا دن تو نہیں تھا جب میں نے یہ نظریہ سنا  اس سے پہلے بھی میں نے اس طرح کی بات سنی کہ یہ اسلامی احکامات سے رو گردانی کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ اسلام میں دوسری شادی ک حکم نہیں اجازت ہے۔ البتہ یہ پہلا رد عمل ضرور تھآ جو مجھے ڈائریکٹ حاصل ہوا۔
اور اب جناب  پنجاب اسمبلی میں ہماری ایک محترم خاتون ممبر نے اس نظرئیے کی ترویج کی اور وہ بھی اسمبلی کے پلیٹ فارم سے کہ مردوں کی ایک سے زائد شادیوں پہ انکی بیگمات کو انہیں ترغیب دینا چاہئیے۔ یہی شادی کے مسئلے کا حل ہے۔ اور میں اپنی اماں کے الفاظ استعمال نہ کرنا چاہوں تو کہوں کہ انکی عقل کولہو کے بیل کی طرح ایک کولہو پہ گھومے جارہی ہے۔ یہ تو اتنی معذور ہیں کہ انکی عقل گھاس تک چرنے نہیں جا سکتی۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن  سے قوم یہ توقع کرتی ہے کہ وہ ملک کے بہتر مستقبل کے لئیے قانون سازی کریں گے۔ کچھ ساز کرنے کے لئیے محض آواز کا ہونا کافی نہیں اس کے لئیے انسانی دماغ کو اسکی متوازن حالت میں استعمال کرنا  آنا ضروری ہے۔
اب میں بغیر کسی حدیث اور قرآنی حوالوں کے کے اس بات کو اس طرف لیجاتی ہوں جو آجکے پاکستان کے بنیادی حقائق ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی انیس سو اٹھانوے کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق مردوں کی تعداد عوتوں سے زیادہ ہے اور سو عوتوں کے لئیے تقریباً ایک سو آٹھ مرد موجود ہیں۔ جبکہ اسلامی رواج کے مطابق ایک عورت اور ایک مرد کی شادی ہوتی ہے تو دراصل پاکستان میں خواتین کی قلت ہو گئ ہے۔ اس قلت کے اپنے اسباب ہیں جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ لیکن جہاں پہلے ہی خواتین کی تعداد کم ہو وہاں مردوں کو ایک سے زائد شادی کے مشورے دینا اور اسے شادی نہ ہونے کی وجہ سمجھنا، سوائے جہالت کے اور کسی چیز کو ظاہر نہیں کرتی۔ یہاں یہ بھی جاننا چاہئیے کہ قدرتی حیاتیاتی نظام میں تقریباً ہر اسپیشی میں مادہ کی تعداد عام طور سے زیادہ ہوتی کہ اسی میں نظام کی بقا ہوتی ہے۔
یہ وہ شدت پسند روئیے ہیں جو مسائل کے صحیح اسباب جاننے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ کسی نہ کسی طور اسے مذہب سے منسلک کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس سے ثواب جو حاصل ہوتا ہے۔ شاید پاکستانی عوام کو ایک لمبے عرصے تک انتظار کرنا پڑیگا کہ کب ہمارے قانون سازی کرنیوالے ادارے اور لوگ اتنا شعور حاصل کر پائیں کہ گناہ اور ثواب کے دائروں سے نکل کر مسائل کی اصل وجوہات کو جانیں اور لوگوں کی فلاح کے لئیے کچھ کر پائیں۔
معاشرے میں شادی نہ ہونا اور خاص طور پہ خواتین کی شادی کا مسئلہ، ہمارے حرص، لالچ، نمو د و نمائش اور انسانی قدرتی ضروریات کو نظر انداز کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ اور اسے اسکے صحیح تناظر میں دیکھ کر ہی اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو ہم عوام حکومت سے اس بات کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ اسمبلی کی سطح  سے ایسے لطیفوں کی آمد روکی جائے اور اس قسم کے احمقانہ مشوروں کو پیش کرنے سے پہلے ممبران پہ یہ پابندی عائد کی جائے کہ وہ اعداد و شمار کو ان میں ضرور شامل کریں۔ معزز ارکان پارلیمنٹ وہاں اپنا وقت خوشگوار طریقے سے گذارنے نہیں جاتے۔ بلکہ ایک لمبے چوڑے خرچے کے بعد انہیں وہاں اس لئیے عیاشی کرائ جاتی ہے کہ وہ ملکی مسائل کا اجتماعی طور پہ کوئ حل نکالیں۔

حوالہ جات؛