Showing posts with label دہلی. Show all posts
Showing posts with label دہلی. Show all posts

Tuesday, October 19, 2010

سر سید اور اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی-۲


اٹھارہ سو اٹھاون کے شروع میں سر سید کلکٹر کے ہمراہ بجنور واپس پہنچے۔ گھر کا قبضہ حاصل کیا۔ کئ لوگ جو ہنگامے کے دنوں میں سر سید کے دشمن ہو گئے تھے اور انکی جان کے درپے تھے۔ اب پریشان تھے۔ سرسید نے انکی سفارشیں کیں اور انکی گلو خلاصی کرائ۔
ہنگامے کے دنوں میں سر سید کی خدمات کی وجہ سے حکومت نے انہیں ضلع بجنور مین مسلمان باغی کی ضبط شدہ جاگیر بطور انعام دینا چاہی۔ مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ بڑا کام  اس وقت یہی سمجھتے تھے کہ ایسے وقت میں ان سے کوئ امر شرافت اور اسلام کی ہدایت کے بر خلاف سر زد نہیں ہوا۔
دسمبر اٹھارہ سو نواسی میں ایجوکیشنل کانفرنس میں تقریر کے دوران اس سانحے کا تذکرہ کرتے ہوئے سر سید نے لکھا کہ

غدر کے بعد نہ مجھ کو اپنا گھر لٹنے کا رنج تھا نہ مال و اسباب کے تلف ہو نے کا۔ جو کچھ رنج تھا اپنی قوم کی بربادی کا تھا اور غدر کے دوران ہندوستانیوں کے ہاتھ سے جو کچھ انگریزوں پہ گذرا اسکا رنج تھا۔--------- جب بعوض وفاداری کے تعلقہ جہاں آباد جو سادات نامی خاندان کی ملکیت اور لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کا تھا مجھ کو دینا چاہا تو میرے دل کو نہایت صدمہ پہنچا۔ میرے دل نے کہا کہ مجھ سے زیادہ نالائق دنیا میں نہ ہوگا کہ قوم پہ تو یہ بربادی ہو اور میں انکی جائیداد لے کر تعلقہ دار بنوں۔
اپریل اٹھارہ سو اٹھاون میں سر سید صدالصدور کے عہدے پہ ترقی پا کر مراد آباد میں تعینات ہوئے۔ اسکے علاوہ انہیں اس اسپیشل کمیشن کا ممبر بھی نامزد کیا گیا جو ضبط شدہ جائیدادوں کی عذر داریوں کا فیصلہ کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ مراد آباد میں متعدد ضبط شدہ جائیدادیں واگذار ہوئیں۔ مراد آباد کے ایک مسلمان رئیس مولانا عالم علی جو مشہور عالم، طبیب اور محدث تھے انہوں نے ہنگامہ آرائ کے دنوں میں چند یورپیئن عورتوں اور بچوں کو اپنے گھر میں پناہ دی تھی مگر باغیوں نے زبر دستی گھر میں گھس کر ان عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس میں مولانا بے قصور اور بے بس تھے مگر انگریز حکام کو ان پہ سازش کا شبہ تھا۔ جب انگریزوں کی عملداری دوبارہ قائم ہوئ تو وہ مواخذے اور سزا کے ڈر سے روپوش ہو گئے۔ سر سید نے انکے بارے میں انگریز حکام کے شکوک رفع کئے اور انکی بے گناہی ثابت کر کے انہیں مواخذے سے بچا لیا۔ ضابطے کی کارروائ کے بعد انہیں بری کر دیا گیا۔ اس طرح جہاں جہاں سر سید کا بس چلا مسلمانوں کی مدد کی اور انکی مصیبتوں کو کم کیا۔ مراد آباد  کے قیام کے دوران سر سید نے تاریخ سرکشی بجنور تحریر کی اور مئ اٹھارہ سو ستاون سے اپریل اٹھارہ سو اٹھارہ سو اٹھارہ اٹھاون تک ضلع بجنور میں جو واقعات پیش کآئے ان کو تاریخ وار ترتیب اور پوری تفصیل کے ساتھ لکھا۔ اس میں وہ تمام خط و کتابت بھی شامل ہے جو اس دوران انکے اور انگریز حکام کے درمیان ہوئ یا نواب محمود خان اور ہندو چوہدریوں نے انکے ساتھ کی۔ 
اٹھارہ سو ستاون کے ہنگامے کے بعد جب انگریزوں کی عملداری دوبارہ قائم ہوئ تو انگریزوں نے مسلمانوں کو بالخصوص اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا۔اور باغی قرار دئیے جانے کے لئے مسلمان ہونا کافی تھا۔ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے لی تھی اس لئے وہ انہیں ہی اپنا حریف اور دشمن سمجھتے تھے۔ اور اس سارے ہنگامے کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی سمجھتے تھے۔ وہ اس پہ یقین رکھتے تھے کہ یہ ساری سازش مسلمانوں کی ہے۔ حالانکہ ہنگامے کی وجوہات اور اس کے آغاز میں ہندو بھی اس میں شامل تھے۔ بعد میں ہندءووں نے موقع سے فاءدہ اٹھایا اور انگریزوں کی خیر خواہی کی آڑ میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔ یہ سب چیزیں مل کر مسلمانوں کو ہمہ گیر تباہی کی طرف لئے جا رہی تھیں۔ سر سید معاملے کی سنگینی سے آگاہ تھے اور اسکے تدارک کے لئے انہوں نے رسالہ اسباب بغاوت ہند لکھا۔ اس رسالے کی تفصیلات اس سے منسلکہ اگلی تحریر میں دیکھئیے گا۔ 

Thursday, October 7, 2010

سر سید اٹھارہ سو ستاون سے پہلے-۲

گذشتہ سے پیوستہ


آئین اکبری کی تدوین ، ترتیب اور تصحیح میں جو محنت اور جاں فشانی سر سید نے دکھائ وہ حیرت انگیز ہے۔ یہ کتاب ابوالفضل نے لکھی تھی.  اس کتاب کا اسلوب نہایت مشکل اور پیچیدہ تھا۔ پھر مزید مشکل یہ کہ  اس میں ہر طرح کے سنسکرت، فارسی، عربی، ترکی اور ہندی الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔۔ مختلف نسخوں میں کاتبوں کی غلطی کی وجہ سے عبارت میں فرق آ گیا تھا۔ سر سید نے مختلف نسخوں کا تقابلی مطالعہ کیا۔  مشکل اور نامانوس الفاظ کی تشریح کی۔ اکبر کے زمانے کی اشیاء کے نام، طرز بو دو باش، رہائیش و استعمال کی اشیا، غرض کہ ہر شے کی تصاویر دلی کے لائق مصوروں سے بنوا کر کتاب میں شامل کیں۔

واقعات کے سن و سال ، اس زمان کی ٹیکس کی رقوم اور محاصل، اکبر کے عہد کی شاہی محاصل کی رقوم آئین اکبری کے مختلف نسخوں میں مختلف درج تھیں۔ سر سید نے انہیں تحقیق کر کے درست کیا۔  ہر طرح کی جدولوں کی تصحیح کی۔ در حقیقت یہ کام سر سید کے علاوہ کسی کے بس کا نہ تھا۔ اس کتاب کو یوروپ میں بڑی پذیرائ ملی۔ اس کتاب میں مسلمانوں کے ایک بادشاہ یعنی اکبر کے کارناموں کو بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا گیا تھا جس سے یوروپ آشنا نہ تھا۔۔۔ اس کتاب کی تقریظ سر سید نے مرزا غالب سے لکھوانی چاہی۔ انہوں نے سوچا کہ مرزا غالب ہی انکی اس محنت کی قدر جان سکتے ہیں۔ غالب نے بجائے نثر کے اسکی تقریظ فارسی نظم میں ایک مثنوی کے پیرائے میں لکھی۔
اس تقریظ کے تذکرے سے پہلے  یہ جاننا چاہئیے کہ  یہ وہ زمانہ تھا  جب غالب اپنا مشہور زمانہ پینشن کا مقدمہ لڑ رہے تھے اور اسکے لئے انہیں کلکتہ کا سفر کرنا پڑا۔  کلکتہ شہر کی صفائ، دفتری کاموں کے طریقے اور انتظام اس سے غالب بہت متائثر ہوئے۔ پانی پہ چلتی بھاپ کے انجن سے چلنے والی کشتی نے انہیں حیران کر دیا۔ یہ سب  دیکھ کر غالب  انگریزوں کی ترقی  اور حسن انتظام کے قائل ہو گئے۔  کلکتہ شہر کی اس خوبی کا تذکرہ اپنے دیوان میں اس طرح کرتے ہیں کہ
کلکتہ کا جو تونے ذکر کیا اے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
اس تقریظ کو ڈاکٹر خورشید رضوی کے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے  کہ
اس دفتر پارینہ کو زندہ کرنے کے لئے سر سید جیسے با صلاحیت آدمی کا اس قدر محنت صرف کرنا وقت کا زیاں ہے۔ یہ وقت آئین اکبری پہ نگاہ بازگشت ڈالنے کا نہیں بلکہ انگریزوں کے دستور آئین سے نظر ملانے کا ہے۔ جنہوں نے عناصر فطرت  کو تسخیر کر کے نو بہ نو ایجادات کی ہیں اور بحر و بر پہ اپنا سکہ رواں کر دیا ہے۔
سر سید کو توقع نہ تھی اور اس سے انہیں رنج پہنچا۔ انہوں نے اسے مرزا غالب کو واپس کر دیا کہ یہ مجھے درکار نہیں۔ مگر غالب کو اپنی رائے کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ اسی لئے انہوں نے غالباً اسے نظم میں لکھا تھا۔ اور اسے اپنی کلیات فارسی میں شامل کر دیا۔ غالب نے سر سید کو لکھا۔
ابھی تک آپ اپنے پرانے آئین جہاں بانی کی ترتیب و تصحیح میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ زندگی کا نیا آئین کلکتہ پہنچ گیا ہے اور بہت جلد ہند کی ساری تہذیبی زندگی کو اپنی گرفت میں لے لیگا۔
غالب آخر غالب رہے۔
سر سید ان سے کبیدہ خاطر تو ہوئے۔ لیکن یہ شاید اسی کا اثر تھا کہ انہوں نے اپنی اس کوشش کا زیادہ تذکرہ کبھی نہیں کیا۔ اور شاید یہی چیز ان میں ایک مصلح قوم کو مہمیز دینے باعث بنی۔ مگر تاریخ کہتی ہے کہ اگر اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کا واقعہ نمودار نہ ہوتا تو سر سید اپنے انہی کاموں میں مصروف رہتے۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے انکے تصورات کی دنیا کو بدل دیا۔

حوالہ؛
سر سید احمد خان ، شخصیت اور فن۔ اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد
موج کوثر، شیخ محمد اکرام ، سروسز بک کلب، آرمی ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ


سر سید اٹھارہ سو ستاون سے پہلے-۱

گذشتہ سے پیوستہ

اٹھارہ سو اٹھارہ میں سر سید کے والد کا انتقال ہوا۔ اس وقت انکی عمر اکیس سال تھی۔ تب انہوں نےملازمت کا ارادہ  کیا۔ اپنے خالو کے پاس جا کر کام سیکھنا شروع کیا جوکہ دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے صدر امین تھے۔ اور وہیں سر رشتےدار ہو گئے۔ بعد میں جب دہلی کے سیشن جج نے انہیں سیشن کورٹ میں سر رشتے دار لگانا چاہ تو انکار کر دیا کہ ابھی اس کام کے لائق نہیں۔ اٹھارہ سو انتیس میں رابرٹ ہیملٹن کمشنر آگرہ مقرر ہوئے تو سر سید کو نائب منشی کا کام سپرد کر دیا۔ سر سید نے اس دوران دل لگا کر کام سیکھا اور دیوانی قوانین کا ایک خلاصہ تیار کر لیا۔ اسے دیکھ کمشنر بہت متائثر ہوا اور اسکی ایک کاپی اعلی حکام کو بھیج کر سفارش کی کہ انہیں منصف کے عہدے پہ تعینات کیا جائے۔اس عہدے کے لئے منصفی کا ایک امتحان ہوتا تھا جس میں سر سید پہلی کوشش میں کامیاب ہو گئے۔ یہ خلاصہ قوانین منصفی کے امتحان کے امیدواروں کے لئے بڑا مجرب نسخہ ثابت ہوا۔ اسکا نام سر سید نے انتخاب الاخوین تجویز کیا۔۔ چند ہی روز میں تمام صوبوں سے شائع ہو گیا اور کئ امیدواروں نے اسکی بدولت منصفی حاصل کی۔ اٹھارہ سو چوراسی میں انجمن اسلامیہ لاہور نے انکی لاہور آمد پہ استقبالیہ دیا اور بطور خاص اسکا تذکرہ کیا۔
ملازمت میں آنے سے پہلے وہ اپنے بڑے بھائ کے ساتھ اخبار 'سید الخبار' نکالا کرتے تھے اٹھارہ سو بیالیس میں وہ فتح پور سیکری میں منصف مقرر ہوئے۔ یہاں مولانا نور الحسن کی صحبت رہی اور انکے توجہ دلانے پہ شاہ عبدالعزیز کی شیعیت کے متعلق کتاب 'تحفہ اثنا عشریہ کے دو باب ترجمہ کئے۔ اس دوران میلاد کی مجلسوں کے لئے تین رسالے لکھے۔ اسکا خیال اس لئے آیا کہ اس وقت رسول اللہ کی ولادت، حالات زندگی اور وصال کے بارے میں موجود عام کتابچوں میں صحیح روایات نہ تھیں۔ اور ان میں بہت سی بے بنیاد اور توہم پرست باتیں راہ پا گئ تھیں۔ دوسرا رسالہ تحفہ حسن  کے نام سے لکھا۔ جس میں اہل تشیع کے حضرت ابو بکر صدیق  پہ بے جواز طعن و تشنیع کا جواب لکھا اور تولا اور تبرہ پہ عقلی نکتہ چینی  کر کے انکی اصلیت واضح کی۔ ایک تیسرا رسالہ تسہیل فی جرالثقیل کے نام سے لکھا جو ایک عربی رسالے کا ترجمہ تھا۔ سید احمد بریلوی، شاہ اسمٰیل شہید اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ اس زمانے میں اپنے آپکو علی الاعلان وہابی کہتے تھے جب سب وہابی باغی سمجھے جاتے تھے۔ سید احمد کی تحریک اصلاح سے متائثر تھے۔ انہوں نے سید احمد اور شاہ اسمعیل کی تائید میں کئ کتابیں لکھیں۔ ان میں راہ سنت و رد بدعت بھی شامل ہے۔ یہ کتاب اٹھارہ سو پچاس میں لکھی۔ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب کا جواب لکھتے ہوئے سر سید لکھتے ہیں کہ
مولانا سید احمد اور ٹھیک ٹھیک سمجھو تو شاہ اسمعیل کی تمام کوشش اس بات پہ مبذول تھی کہ ہندوستان میں اپنے مذہب اسلام کی تہذیب اور اصلاح کرنی چاہئیے۔
سر سید کے عقائد میں بعد میں تبدیلیاں ہوئیں لیکن مولانا سید احمد بریلوی کا اصلاحی جوش ان میں تمام عمر باقی رہا۔
اٹھارہ سو چھیالیس میں انہیں دہلی شہر کے نواح میں موجود پرانی عمارتوں کی تحقیق کا شوق ہوا۔۔ انہوں نے بڑے ذوق و شوق سے اس پہ کام کیا اور ایسی شاید ہی کوئ دستاویز اس موضوع پر میسر ہو۔ انہوں نے سو کے قریب پرانی عمارتوں کا بغور جائزہ لیا۔ انکے کتبے پڑھے۔ پھر انکی نقلیں تیار کیں اور یہ اہتمام کیا کہ ان میں وہی رسم الخط رکھا جائے جس میں کتبے کی اصل عبارت موجود تھی۔ ہر عمارت کے بنانے والے کے حالات، عمارت کی تعمیر کا مقصد،، اسکی مختصر تاریخ، عمارت کا اسکیچ، اسکی شکست و ریخت اور اس میں اضافوں کا حال، اسکے نقشے اور تعمیر کی فنی باریکیاں غرض ہر ممکنہ تفصیل انہوں نے اس میں ڈالی۔
سر سید لکھتے ہیں کہ
قطب صاحب کی لاٹ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہیں جا سکتے تھے انکے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا  لیا کرتے تھے۔ میں خود اوپر چڑھ کر ہر کتبے کا چربہ اتارتا تھا۔
یہ کتاب صرف ڈیڑھ سال کے عرصے میں مکمل کی گئ اور طبع بھی ہو گئ۔۔
اس کتاب کا چوتھا باب دلی کے مشہور اور نامور لوگوں کے ذکر پہ ہے جس میں ایک سو بیس مشائخ، علماء، فقراء، مجذوبوں، اطباء، قراء، شعراء، خوش نویسوں یا خطاطوں، مصوروں اور موسیقاروں  کا تذکرہ ہے۔
کتاب کا پہلا ایڈیشن امام بخش صہبائ کے زیر اثر ادق اور پیچیدہ  تھا۔ جس کا جلد ہی سرسید کو اندازہ ہو گیا اور دوسرا ایڈیشن انہوں نے  ازسرنو لکھا اور مطالب کو آسان زبان میں بیان کیا۔
دہلی کے ڈپٹی کمشنر کو یہ کتاب اتنی پسند آئ کہ وہ اسے اپنے ساتھ لندن لے گیا۔ واپسی پہ اس نے سر سید کے ساتھ بیٹھ کر اسکا ترجمہ انگریزی میں کیا۔ لیکن یوروپ میں جو انگریزی ترجمہ پھیلا وہ موسیو گارسن دتاسی کا فرانسیسی ترجمہ تھا جو انہوں نے اٹھارہ سو ساٹھ میں کیا تھا۔ یہ کتاب یوروپ کے علمی حلقوں میں بڑی سراہی گئ اور اسکی وجہ سے لندن کی رائل ایشیاٹک سوسائٹی نے سرسید کو اپنا آنریری  فیلو بنا لیا۔
سر سید نے ایک اور رسالہ لکھا جس میں انہوں اس موضوع پہ دلائل جمع کئیے کہ زمین حرکت نہیں کرتی مگر بعد میں اپنے اس خیال سے رجوع کر لیا ور حرکت زمین کے قائل ہو گئے۔ اس کتاب کا نام ہے قول متین و رابطال حرکت زمین۔
پیری مریدی کے مروجہ طریقے کے خلاف ایک رسالہ کلمۃ  الحق لکھا۔  سلسلہ نقشبندیہ میں تصور شیخ کے حق اور اسکی وضاحت میں ایک رسالہ اٹھارہ سو تریپن میں لکھا۔ سلسلۃ الملوک کے نام سے ایک رسالہ لکھا جس میں پانچ ہزار سال تک کے ان راجاءوں، فرماں رواءوں اور سلاطین اور بادشاہوں کی فہرست مرتب کی جو دہلی کے حکمران رہے۔  اور انکی تعداد راجہ یدہشٹر سے لیکر ملکہ  قیصر ہند تک تقریباً دو سو دو بنتی ہے۔ انکے مختصر کوائف بھی اس میں موجود ہیں۔
اٹھارہ سو پچپن میں انہیں بجنور میں صدر امین مقرر کیا گیا تو تو انہوں نے بجنور کی مفصل تاریخ لکھنا شروع کی اور آئین اکبری پہ کام شروع کیا۔

جاری ہے

Saturday, September 4, 2010

سر سید احمد خان-تعلیم۔ ۲


سر سید کی تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا۔ بسم اللہ قرآن حکیم سے ہوئ۔ اپنی والدہ اور ایک استانی سے جو انکے خاندان کے بچوں کو پرھاتی تھیں پڑھنا لکھنا سیکھا پھر فارسی اور عربی کی ابتدائ کتابیں پڑھیں۔ گلستان اور بوستان کے مطالعے میں بھی انکی والدہ انکی مدد کرتی رہیں۔ مکتب کی تعلیم میں مولوی حمید الدین انکے اتالیق تھے۔ تعلیمی استعداد پیدا ہونے پہ اپنے ننہیالی تلخصص ریاضی کی طرف آئے۔ پھر آلات رصد کے علوم کی تحصیل کا شوق ہوا۔ پھر اپنے خاندانی حکیم غلام حیدر کے زیر اثر طب میں دلچسپی لینے لگے۔ طب کی ابتدائ کتابیں ان سے پڑھیں اور کچھ عرصے انکی شاگردی میں طبابت کا تجربہ حاصل کیا۔ یہ دلچسپی بھی زیادہ عرصے نہ رہی۔ طبیعت کے رجحان اور افتاد طبع کے مطابق مختلف کتابیں انکے زیر مطالعہ رہیں مگر علم کے کسی خاص شعبے میں کوئ قابل لحاظ قابلیت پیدا کرنے کا خیال نہیں آیا۔ البتہ دہلی کی علمی و ادبی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقعہ انہیں اکثر ملتا رہتا تھا۔ اہل علم و ادب سے انکی ملاقات رہتی۔ اس وقت کے مشہور شعراء و ادباء میں مرزا غالب، مفتی صدر الدین خان آزردہ۔ اور امام بخش صہبائ کے ہاں انکا آنا جانا تھا۔
سن  ۱۸۴۶میں انکے عزیز بڑے بھائ سید محمد خان چند روز بیماری میں مبتلا رہ کر وفات پا گئے۔ اس صدمے نے انکے دماغ پہ گہرا اثر ڈالا۔ دنیا کی رنگینیوں سے دل اچاٹ ہو گیا۔انکی کایا ہی پلٹ گئ۔ داڑھی بڑھا لی۔ زہد و تقوی میں مستعد ہو گئے۔ علم کی پیاس ازسر نو عود کر آئ دینی کتب کا کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ لڑکپن میں جو رسائل سرسری پڑھے تھے انہیں دوبارہ غور خوض سے پڑھا۔ مولوی واعظ علی جو دلی کے مشہور واعظ تھے ان سے علم فقہ پر کتابیں پڑھیں۔ مولوی فیض  الحسن سے مقامات حریری اور سبعہ معلقہ کے چند قصیدے سبقاً پڑھے۔ شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے اور شاہ رفیع الدین کے خلف الصدق سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ پھر انہی سے علوم القراں کی تحصیل کی اور سند لی۔
اس دوران صہبائ، آزردہ اور غالب کے یہاں بھی باقاعدگی سے حاضر ہوتے رہے۔ اور ان سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ غالب کے خاندان سے انکے ننہیال کے خاندانی روابط تھے۔ وہ انہیں اپنا چچا کہتے تھے اور غالب ان سے بیٹوں جیسا سلوک کرتے اور شفقت فرماتے۔
تو صاحب، یہ ان لوگوں کے قصوں میں سے ایک کا قصہ ہے جو اپنی جہالت پہ فخر کر کے اسے بیان نہیں کرتے تھے بلکہ اسے کم کرنے کی جدو جہد میں لگے رہتے تھے۔ یہ کہانی ابھی جاری ہے۔

سر سید احمد خان-تعلیم۔ ۱

گذشتہ سے پیوستہ

سر سید کا نام انکے والد کے پیر و مرشد ، شاہ غلام علی نے احمد خان رکھا تھا۔ وہ پیدائیش کے وقت بڑے تندرست اور صحت مند تھے۔ جب انکے نانا نے انہیں پہلی دفعہ دیکھا تو کہا ' یہ تو ہمارے گھر میں جاٹ پیدا ہوا ہے'۔
وہ اپنے بچپن میں شوخ، شرارتی اور مستعد تھے۔ ایک دفعہ اپنے ہمجولی کو مکا دے مارا اس نے ہاتھ پہ روکا تو اسکی انگلی اتر گئ۔ بچپن میں وہ پڑھائ لکھائ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے، نہ انہوں نے تعلیم کے دوران کسی غیر معمولی ذہانت یا طباعی کا مظاہرہ کیا۔لیکن وہ اپنا سبق باقاعدگی سے یاد کرتے تھے۔ گھر میں پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا۔ انکی والدہ اور نانا انکی تدریس اور تعلیم کا خیال رکھتے تھے۔اپنے نانا کے ساتھ کھانے کا تذکرہ سر سید اس طرح کرتے ہیں۔
میرے نانا صبح کا کھانا اندر زنانہ میں کھاتے تھے۔ بچوں کے آگے خالی رکابیاں ہوتی تھیں۔ نانا صاحب ہر ایک بچے سے پوچھتے تھے کہ کون سی چیز کھاءوگے؟ جو کچھ وہ بتاتا وہی چیز چمچے میں لے کر اپنے ہاتھ سے اسکی رکابی میں ڈال دیتے۔ تمام بچے  بہت ادب اور صفائ سے انکے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ سب کو خیال رہتا تھا کہ کوئ چیز گرنے نہ پائے۔ ہاتھ کھانے میں زیادہ نہ بھرے اور نوالہ چبانے کی آواز منہ سے نہ نکلے۔ رات کا کھانا وہ دیوان خانے میں کھاتے تھے ہم سب لڑکے انکے ساتھ بیٹھتے تھے۔ ہم کو بڑی مشکل پڑتی تھی۔ نہایت سفید چاندنی کا فرش بچھا ہوا ہوتا تھا کسی کے پاءوں کا دھبہ سفید چاندنی پر لگ جاتا تھا تو اسکو بھگا دیتے تھے کہ کتے کے پاءوں کیوں رکھتا ہے۔ روشنائ وغیرہ کا دھبا کسی کے کپڑے پر ہوتا تھا تو اس سے بھی نا خوش ہوتے تھے۔
سر سید میں اظہار بیان کا ایک قدرتی جوہر تھا۔ جو بعد میں انکی شخصیت کا وصف بن کر سامنے آیا۔ اسکا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے۔
سر سید ایک دن اپنے نانا حضور کو سبق سنا رہے تھے کہ اس مصرعے پہ پہنچے۔ طمع را سہ حرف است، ہر سہہ تہی۔
سر سید نے ترجمہ کیا طمع کے تین حرف تینوں خالی۔ وہ خفا ہوئے بولے۔ 'بے پیر، سبق یاد نہیں کرتا۔'۔ سر سید کہتے ہیں مجھے اتنا رنج ہوا کہ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔  بعد میں خیال آیا کہ است کا ترجمہ نہیں کیا۔ ورنہ فقرہ یوں ہوتا۔ طمع کے تین حرف ہیں تینوں خالی۔ لیکن دیکھا جائے تو سر سید کا بے ساختہ ترجمہ زیادہ رواں، فصیح اور اردو محاورے کے قریب ہے۔

Wednesday, August 11, 2010

ایک ماں اپنے بیٹے کی زبانی-۲

گذشتہ سے پیوستہ

سر سید کہتے ہیں کہ جو کچھ آمدنی ہوتی تھی اس میں سے پانچ فی صد کے حساب سے میری والدہ ہمیشہ الگ رکھتی جاتی تھیں۔ اور اس سرمایہ کو حسن انتظام کے ساتھ نیک کاموں میں صرف کرتی تھیں۔ کئ جوان لڑکیوں کا انکی امداد سے نکاح ہوا اکثر پردہ پوش عورتیں جو معاش سے تنگ ہوتیں انکی ہمیشہ خبر گیری کرتیں۔ غریب خاندانوں کی جوان لڑکیاں جو بیوہ ہو جاتیں انکو دوسرا نکاح کرنے کی نصیحت کرتیں۔ دوسرے نکاح کو برا سمجھنے والوں سے نفرت کرتیں۔ غریب رشتے داروں کے یہاں جاتیں اور خفیہ حیلے بہانے سے انکی مدد کرتیں۔ بعض رشتے دار مردوں نے ایسی عورتوں سے شادی کر لی تھی جن سے ملنا معیوب سمجھا جاتا مگر وہ برابر انکے گھر جاتیں اور انکی اولاد سے شفقت سے پیش آتیں۔
انکی والدہ کو شاہ غلام علی سے عقیدت تھی  اور وہ ان سے بیعت تھیں۔ لیکن انہوں نے کبھی کوئ منت یا نذر یا نیاز نہیں مانی۔ تعویذ یا گنڈے پر تاریخوں یا دنوں کی سعادت یا نحوست پر انکو مطلق یقین نہ تھا۔ لیکن اگر کوئ کرتا تو اسکو منع نہ کرتیں اور یہ کہتیں کہ اگر انکو منع کیا جائے اور اتفاق سے وہی امر پیش آجائے جسکے خوف سے وہ ایسا کرتے ہیں تو انکو یقین ہو جائے گا کہ ایسا نہ کرنے سے یہ ہوا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو نہ ہوتا۔
سر سید کے ننہیال والے شاہ عبدالعزیز سے عقیدت رکھتے تھے۔ شاہ عبدالعزیز کے یہاں بچوں کو ایک گنڈا دیا کرتے تھے۔ جس میں ایک ہندسہ یا حرف سفید مرغ کے خون سے لکھا ہوتا۔ اور جس بچے کو دیا جاتا اسے بارہ برس تک انڈہ یا مرغی کھانے کی ممانعت ہوتی۔ سرسید کے صاحبزادوں کو بھی انکے ننہیال والوں نے یہ گنڈے پہنائے۔ اسکے باوجود جب یہ بچے انکی والدہ کے ساتھ کھانا کھاتے تو وہ کھانے میں موجود انڈہ یا مرغی بلا تامل کھلا دیتیں۔
سر سید کو بچپن میں باہر تنہا جانے کی اجازت نہ تھی اور ہر چند کے نانا کی اور انکی والدہ کی حویلی میں صرف ایک سڑک درمیان میں تھی جب کبھی وہ نانا کے یہاں جاتے تو ایک آدمی ساتھ میں جاتا۔ اس لئے بچپن میں گھر سے باہر عام صحبتوں میں بیٹھنے یا آوارہ پھرنے کا بالکل اتفاق نہ ہوا۔
سر سید کو انکی ایک خادمہ نے جیسا کہ صاحب حیثیت خاندانوں کا دستور تھا،  پالا تھا اور وہ اسے ماں بی کہہ کر بلاتے تھے۔
انہیں ان سے بہت محبت تھی۔ جب وہ پانچ برس کے تھے تو انکا انتقال ہو گیا۔ انہیں اسکے مرنے کا بہت رنج ہوا۔ والدہ نے سمجھایا کہ وہ خدا کے پاس گئ ہے۔ بہت اچھے مکان میں رہتی ہے۔ بہت سے نوکر چاکر اسکی خدمت کرتے ہیں اور اسکی بڑے آرام سے گذرتی ہے تم مطلق فکر نہ کرو۔ مدت تک اسکی ہر جمعرات کو فاتحہ ہوتی۔ مرتے وقت اس نے کہا تھا کہ میرا سارا زیور سید کا ہے۔ مگر والدہ اسکو خیرات کرنا چاہتی تھی۔ ایکدن انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر تم کہو تو یہ گہنا ماں بی بی کے پاس بھیج دوں۔ میں نے کہا ہاں بھیج دو۔ والدہ نے وہ سب گہنا مختلف طرح سے خیرات کر دیا۔
سر سید کا بیان ہے کہ 
میں جب دلّی میں منصف تھا تو میری والدہ کی یہ نصیحت تھی کہ جہاں تم کو ہمیشہ جانا ضرور ہے وہاں کبھی سواری پہ جایا کرو اور کبھی پیادہ پا جایا کرو۔ زمانے کا کچھ اعتبار نہیں۔ کبھی کچھ ہے اور کبھی کچھ۔ پس ایسی عادت رکھو کہ ہمیشہ اسے نبھا سکو۔
ایک دفعہ کا ذکر بتاتے ہیں کہ وہ ایک زیبن نامی بڑھیا کی خبر گیری کرتی تھیں۔ اتفاق سے وہ دونوں ایک ساتھ بیمار پڑ گئیں۔ حکیم  نے افاقے کے لئے والدہ صاحبہ کے لئے ایک معجون کا نسخہ تیار کیا جو قیمتی تھا مگر مقدار میں صرف اتنا ہوا کہ ایک شخص اسے استعمال کر لے۔ انہوں نے وہ اپنی والدہ کو پہنچا دی۔ انکی والدہ کو خیال آیا کہ زیبن کو کون تیار کروا کے دے گا تو انہوں نے وہ معجون پابندی سے زیبن کو کھلا دیا۔ چند دنوں بعد جب میں نے ان سے پوچھا کہ معجون نے آپکو بہت فائدہ کیا تو ہنسیں اور کہا کہ کیا بغیر دوا کے خدا صحت نہیں دے سکتا۔ معلوم ہوا کہ دوا تو صرف زیبن نے کھائ لیکن صحت خدا نے دونوں کو دی۔ 
اب اس آخری واقعے کے بعد، محترم قارئین، دوا علاج کرنا مت چھوڑ دیجئیے گا۔  خدا توکلی اچھی چیز ہے مگر اونٹ کو رسی ڈالنا ضروری ہے۔ تو یہ تھا سر سید کی والدہ کا ایک اجمالی خاکہ، ایک ایسی مسلمان خاتون جو آج سے دو  سو سال پہلے موجود تھیں۔ سرسید کی طبیعت اور مزاج پر اپنی والدہ کی عادات و خصائل کا خاصہ اثر تھا۔
مندرجہ بالا واقعات حالی کی حیات جاوید سے لئے گئے ہیں۔

ایک ماں اپنے بیٹے کی زبانی-۱

اگست کا مہینہ شروع ہونے سے قبل میرا مصمم ارادہ تو یہ تھا کہ اس مہینے سرسید پہ جو کچھ لکھنا چاہ رہی ہوں اسے لکھ دوں۔ کہ دستور جو کچھ ہو لیکن موقع اچھا ہے۔ لیکن ایک تو میں سات سمندر پار بمعہ اپنے خاندان کے ہجرت نہیں کر گئ  ہمیشہ کے لئے۔ اور یہ کہہ کر مٹی پاءوں کہ سانوں کی۔ دوسرے یہ کہ تباہ کن سیلاب جیسا کہ زرداری صاحب نے بھی فرمایا بغیر اطلاع کے آ گیا۔ تیسرے یہ کہ کراچی میرا جائے توطن اور متوقع جائے مدفن ہے۔ اس طرح میرا قلم شہر کراچی اور ملک کے درمیان ایک فری الیکٹرون کی طرح حرکت میں آگیا۔  ادھر جو لوگ شہر سے باہر تھے انکا شہر میں آ کر اٹک گیا۔ پھر یہ کہ جوتم پیزار مجھے پسند تونہیں کہ جمہوری طریقہ نہیں، لیکن پھر بھی جمہور اور جوتے کے درمیان چلی جنگ، یہاں بھی جگہ پا گئ کہ یہی رائج الوقت جمہوریت ہے۔
خیر، سر سید احمد خان پہ اردو وکیپیڈیا پہ ایک تفصیلی مضمون موجود ہے۔ تو پھر میرا  دل کیوں چاہ رہا ہے کہ ان پہ لکھوں؟
بات یہ ہے کہ  یہ مضمون  دستاویزی قسم کا ہے۔ اس سے انکے کارنامے تو پتہ چلتے ہیں لیکن بحیثیت ایک زندہ انسان انکی شخصیت محسوس نہیں ہوتی۔
ادھر میں نے انکے حوالے سے کچھ کتابیں دیکھیں، جنکا تذکرہ آگے کسی تحریر میں آئے گا۔ لیکن ایک دن میں نارتھ ناظم آباد کراچی سے گذرتے ہوئے وہاں واقع ایک چھوٹی سی لائبریری میں داخل ہو گئ۔ اسکا نام تیموریہ لائبریری ہے۔ یہاں مجھے ایک چھوٹی سی کتاب ملی جسکا نام ہےسر سید احمد خان، شخصیت اور فن۔ اس کتاب کے مصنف ہیں جمیل یوسف اور اسے اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد نے شاٰئع کیا ہے۔ مجھے یہ کتاب اس حوالے سےخاصی پسند آئ۔
 اس سلسلے کی پہلی تحریر انکی والدہ کے حوالے سے ہے۔
  سر سید کے خاندان ددھیالی خاندان کے دہلی کے مغل خاندان سے روابط تھے۔انکے دادا کو بادشاہ کی طرف سے خطابات اور عہدہء احتساب و قضا دیا گیا۔ انکے والد کو بھی شاہ کی طرف سے یہی خطبات اور منصب پیش کیا گیا۔ مگر اپنی آزاد طبیعت اور درویشی کی وجہ سے انہوں سے اسے قبول کرنے سے معذرت کر لی۔
انکے نانا، خواجہ فرید الدین احمد خان بہادر،  ۱۸۱۵ء میں اکبر شاہ عالم ثانی کے وزیر اعظم رہے۔ اور دبیرا لدولہ امین الملک مصلح جنگ کے خطابات پائے۔ گورنر جنرل ولزلی نے انہیں اپنا وزیر بنا کر ایران بھیجا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے منصب وزارت کی پیش کش کو اپنی سب سے بڑی بیٹی عزیزالنساء بیگم  جو کہ سرسید کی والدہ تھیں، انکے مشورے پہ قبول نہ کیا۔
سر سید کی والدہ ماجدہ غیر معمولی سیرت و کردار کی مالک اور بڑی دانشمند خاتون تھیں۔  وہ نہ صرف بڑی راسخ العقیدہ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ صحیح العقیدہ مسلمان تھیں۔ سر سید ااپنی والدہ کے فہم دین کے متعلق لکھتے ہیں
اس زمانہ میں جبکہ میرے مذہبی خیالات اپنی ذاتی تحقیق پر مبنی ہیں اب بھی میں اپنی والدہ کے عقائد میں کوئ ایسا عقیدہ جس پر شرک یا بدعت کا اطلاق ہو سکے نہیں پاتا۔
سرسید کی عظیم شخصیت اور بے مثل سیرت و کردار کی تشکیل و تعمیر میں زیادہ تر انکی والدہ کی تربیت کا حصہ ہے۔ انکے والد میر متقی ایک آزاد منش اور درویش صفت انسان تھے اور زیادہ وقت اپنے مرشد حضرت شاہ غلام علی کی خانقاہ پہ گذارتے اور انکی صحبت میں رہتے تھے۔ گھر کا انتظام و انصرام سر سید کی والدہ کے سپرد تھا۔ 
اپنی والدہ کے بارے میں بتاتے ہیں
جب میں انکو سبق سناتا یا نئے سبق کا مطالعہ انکے پاس بیٹھ کر دیکھتا تو ایک لکڑی جس میں سوت کی گندھی ہوئ تین لڑیں باندھ رکھی تھیں۔ اپنے پاس رکھ لیتیں۔ وہ خفا تو اکثر ہوتی تھیں مگر ان سوت کی لڑوں سے کبھی مجھے مارا نہیں۔
دس گیارہ برس کی عمر میں ایک دفعہ ایک بوڑھے نوکر کو تھپڑ مار دیا، والدہ نے گھر سے نکال دیا۔  نوکرانی نے چپکے سے خالہ کے گھر پہنچا دیا۔ دو دن خالہ کے گھر چھپے رہے تیسرے دن خالہ لیکر والدہ کے پاس گئیں۔ تاکہ قصور معاف کرائیں، انہوں نے نوکر سے معافی مانگنے کی شرط پہلے رکھی۔ ڈیوڑھی میں جا کر نوکر کے آگے ہاتھ جوڑے تو قصور معاف ہوا۔
سر سید کے بڑے بھائ کا جواں عمری میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ مرض الموت میں وہ انکے پاس ہی بیٹھی رہتیں۔ ایک مہینہ اسی حالت میں رہ کر انتقال کر گئے۔ انکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ فجر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ وضو کر کے نماز پڑھی اور اشراق تک مصلے پہ بیٹھی رہیں۔ انہی دنوں ایک رشتے دار کی بیٹی کی شادی ہونے والی  تھی۔ شادی میں صرف چار دن رہ گئے تھے کہ یہ حادثہ پیش آگیا۔ لوگوں نے حسب دستور شادی کو ملتوی کرنا چاہا انکی موت کے تین دن بعد وہ انکے گھر گئیں اور کہا میں شادی والے گھر میں آئ ہوں۔ ماتم تین دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ جو خدا کو منظور تھا ہو چکا۔ تم شادی کو ہرگز ملتوی نہ کرو۔

جاری ہے