Saturday, September 4, 2010

سر سید احمد خان-تعلیم۔ ۱

گذشتہ سے پیوستہ

سر سید کا نام انکے والد کے پیر و مرشد ، شاہ غلام علی نے احمد خان رکھا تھا۔ وہ پیدائیش کے وقت بڑے تندرست اور صحت مند تھے۔ جب انکے نانا نے انہیں پہلی دفعہ دیکھا تو کہا ' یہ تو ہمارے گھر میں جاٹ پیدا ہوا ہے'۔
وہ اپنے بچپن میں شوخ، شرارتی اور مستعد تھے۔ ایک دفعہ اپنے ہمجولی کو مکا دے مارا اس نے ہاتھ پہ روکا تو اسکی انگلی اتر گئ۔ بچپن میں وہ پڑھائ لکھائ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے، نہ انہوں نے تعلیم کے دوران کسی غیر معمولی ذہانت یا طباعی کا مظاہرہ کیا۔لیکن وہ اپنا سبق باقاعدگی سے یاد کرتے تھے۔ گھر میں پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا۔ انکی والدہ اور نانا انکی تدریس اور تعلیم کا خیال رکھتے تھے۔اپنے نانا کے ساتھ کھانے کا تذکرہ سر سید اس طرح کرتے ہیں۔
میرے نانا صبح کا کھانا اندر زنانہ میں کھاتے تھے۔ بچوں کے آگے خالی رکابیاں ہوتی تھیں۔ نانا صاحب ہر ایک بچے سے پوچھتے تھے کہ کون سی چیز کھاءوگے؟ جو کچھ وہ بتاتا وہی چیز چمچے میں لے کر اپنے ہاتھ سے اسکی رکابی میں ڈال دیتے۔ تمام بچے  بہت ادب اور صفائ سے انکے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ سب کو خیال رہتا تھا کہ کوئ چیز گرنے نہ پائے۔ ہاتھ کھانے میں زیادہ نہ بھرے اور نوالہ چبانے کی آواز منہ سے نہ نکلے۔ رات کا کھانا وہ دیوان خانے میں کھاتے تھے ہم سب لڑکے انکے ساتھ بیٹھتے تھے۔ ہم کو بڑی مشکل پڑتی تھی۔ نہایت سفید چاندنی کا فرش بچھا ہوا ہوتا تھا کسی کے پاءوں کا دھبہ سفید چاندنی پر لگ جاتا تھا تو اسکو بھگا دیتے تھے کہ کتے کے پاءوں کیوں رکھتا ہے۔ روشنائ وغیرہ کا دھبا کسی کے کپڑے پر ہوتا تھا تو اس سے بھی نا خوش ہوتے تھے۔
سر سید میں اظہار بیان کا ایک قدرتی جوہر تھا۔ جو بعد میں انکی شخصیت کا وصف بن کر سامنے آیا۔ اسکا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے۔
سر سید ایک دن اپنے نانا حضور کو سبق سنا رہے تھے کہ اس مصرعے پہ پہنچے۔ طمع را سہ حرف است، ہر سہہ تہی۔
سر سید نے ترجمہ کیا طمع کے تین حرف تینوں خالی۔ وہ خفا ہوئے بولے۔ 'بے پیر، سبق یاد نہیں کرتا۔'۔ سر سید کہتے ہیں مجھے اتنا رنج ہوا کہ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔  بعد میں خیال آیا کہ است کا ترجمہ نہیں کیا۔ ورنہ فقرہ یوں ہوتا۔ طمع کے تین حرف ہیں تینوں خالی۔ لیکن دیکھا جائے تو سر سید کا بے ساختہ ترجمہ زیادہ رواں، فصیح اور اردو محاورے کے قریب ہے۔

2 comments:

  1. کتنے خوش قسمت تھے وہ لوگ ایسے ماحول میں پیدا ہوئے جب تعلیم اتنی مقدس ہوا کرتی تھی اب تو صرف پروفیشن بن گئی ہے

    میں جب بھی اس زمانے کی ہستیوں کی روداد پڑھتا ہوں ایک عجیب رومانوی جذبہ بیدار ہونے لگتا ہے

    ویسے بی بی شکریہ

    ReplyDelete
  2. انانیمس، آپ نے صحیح کہا۔
    ان زمانوں کا پڑھ کر میرے بھی کچھ ایسے ہی محسوسات ہوتے ہیں۔ ناسٹالجک سا ہو جاتا ہے دل۔
    اس وقت کی وضع داری اور رکھ رکھاو کا پڑھ کرعجیب اداسی سی ہوتی ہے۔۔۔ آج کی مارا ماری اور نفسا نفسی کا ماحول دیکھ کر لگتا ہے ہم کچھ کھو بیٹھے ہیں جو اب کبھی دوبارہ نہیں مل سکے گا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ