Monday, September 20, 2010

سر سید سے پہلے

 مشعل کے داد جی کی طبیعت اچھی نہیں۔ اس لئے کچھ تحریر کرنے کا  موڈ نہ ہوا۔ خدا انہیں صحت دے اور ہمارے گھر کی رونق بحال ہو۔ 
تو میں سر سید کی کہانی جاری رکھتی ہوں۔ سر سید پہ مزید تذکرے سے پہلے ہندوستان میں چلنے والی ایک اور تحریک کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ہندوستان میں ایک عرصے تک حکمرانی تو مسلمانوں کی رہی تھی۔ مگر ہندو انکی رعیت کا ایک بڑا حصہ تھے۔ زوال آیا تو دونوں اسکا شکار ہوئے۔  اٹھارہویں صدی کے ہندوستان میں ذہنی پستی دونوں قوموں پہ طاری تھی۔ لیکن جب انگریزوں کی یلغار نے زور پکڑ لیا تو ہندءووں نے بھانپ لیا کہ کہ اب اس سیلاب کے آگے بند باندھنا مشکل ہےچنانچہ انہوں نے اپنے دفاع کے لئے پسپائ اختیار کی ایک طرف تو انہوں نے اپنے پرانے حکمرانوں یعنی مسلمانوں کی گرتی ہوئ دیواروں کو مزید دھکا دیا اور انگریزوں کا ساتھ دینے پہ آمادہ ہو گئے  اور دوسرےاپنے  سماج کو سدھارنے کے لئے نئ روشنی کو قبول کرنے پہ آمادہ ہو گئے اور ہندوستان میں ایسے اداروں کے قیام کے لئے سر گرم عمل ہوئے جن سے قدامت کے اندھیروں کو مٹایا جا سکے۔ اسکے نتیجے میں برہمو سماج تحریک نے جنم لیا اسکا مقصد ہندو مذہب میں مناسب تبدیلی سے سیاسی بہبود اور سماجی فلاح کی راہ ہموار کرنا تھا۔

تحریک کا جغرافیائ مرکز بنگال اور اس سے مسلکہ علاقہ رہا۔ اس تحریک  کے بانی اونچی ذات کے معزز برہمن ہندو راجہ رام موہن رائے تھے وہ سترہ سو چوہتر میں پیدا ہوئے۔ ان میں قدامت اور جدیدیت کا امتزاج موجود تھا۔ انکا خاندان پانچ پشتوں سے صوبہ ء بنگال میں مغلوں کے ساتھ تعلقات میں رہ چکا تھا۔ وہ ہندوستانی فلسفے کے عالم، سنسکرت، فارسی اور عربی کے ماہر اور ہندءووں اور مسلمانوں کے مشترکہ کلچر کی پیداوار تھے انہوں نے بت پرستی پہ براہ راست اعتراض کیا اور ستی کی رسم کو ممنوع قرار دینے کے لئے اس تحریک کو عملی طور پہ استعمال کیا۔ ستی ہندوءووں کی وہ رسم ہے جس میں بیوی کو اپنے مرے ہوئے شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جل کر مرنا ہوتا تھا۔ سن اٹھارہ سو تہتر میں جب لارڈ ایمبسٹ نے علوم شرقیہ کے فروغ کا منصوبہ بنایا تو انہوں نے اسکی مخالفت کی  کہ یہ وہ علوم ہیں جو یہاں دو ہزار سال پہلے سے رائج ہیں اسکے بر عکس انہوں نے ایک ایسے کالج کی تشکیل پر زور دیا  جس میں یوروپ کے تعلیم یافتہ اور قابل استاد مغربی علوم مثلاً طبیعیات، کیمیا، اور اناٹومی وغیرہ کی تعلیم دیں۔ انکی اس درخواست کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئ لیکن انکے نئے خیالات کے بیج برگ و ثمر دینے لگے۔ اس تحریک کی اصلاحی کوششوں میں اسکی تعلیمی سرگرمیوں کو اہمیت دی گئ۔ قدامت پسندی کو رفع کرنے کے لئے مغربی سائینس اور انگریزی زبان کی تلقین کی گئ۔
راجہ رام موہن رائے اوائل عمری میں انگریزی اقتدار سے نفرت پہ مائل تھے. پلاسی کی جنگ میں انگریزوں کی کامیابی، انکے آبائ مقام سے ڈورئیے اور ململ کی صنعت کی تباہی، مفلس عوام کی زبوں حالی اور بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی لوٹ مار نے انہیں انگریزی حکومت سے نفرت پہ مائل کر دیا تھا۔  تاہم جب انہیں احساس ہوا کہ ہندوستان کے زوال کے اسباب اندرون ملک موجود ہیں تو انہوں نے نئے علوم کی ترویج کے لئے انگریزوں سے مفاہمت پیدا کی۔
انہوں نے اپنے خیالات کی ترویج  اور اشاعت کے لئے اور نئے تصورات کے فروغ کے لئے بنگالی زبان کا پہلا اخبار نکالا اور اس میں ہندوستانی نکتہ نظر پیش کیا۔ یہ اخبار اتنا موئثر ثابت ہوا کہ لارڈ منرو نے  اسکے خلاف اپنے شبہات کا اظہار کیا۔
اگر ساری رعایا ہماری ہم وطن ہوتی تو میں اخباروں کی انتہائ آزادی کو ترجیح دیتا۔ مگر چونکہ وہ ہمارے وطن نہیں اس لئے اس سے زیادہ خطرناک اور کوئ چیز نہِں۔
اسکے علاوہ انہوں نے ایک فارسی اخبار بھی نکالا ۔  اس طرح انہوں انگریز قوم کو مشرق کی عظمت، تہذیب، اور روحانیات سے آگاہی بخشی۔
اس تحریک نے ہندوستان کی مفلسی اور غلامی کو دور کرنے کے لئے مثبت کردار انجام دیا ۔   تحریک میں صرف وہ لوگ شامل ہو سکتے تھے جو خدائے واحد پہ یقین رکھتے ہوں اور بت پرستی سے نفرت کرتے ہوں۔ راجہ رام موہن رائے، اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ راسخ الاعتقاد ہندءووں کی شدید مخالفت کے باوجود اس تحریک نے صرف دو سال کے عرصے میں قدیم ہندو مت سے الگ ہو کر برہمو فرقے کی صورت اختیار کر لی۔ راجہ رام موہن رائے کا  انتقال اٹھارہ سو تینتیس میں ہوا۔
راسخ العقیدہ ہندو اس تحریک کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ اسکے رد عمل میں آریہ سماج تحریک پیدا ہوئ جو ہندو مذہب کے احیاء کی تحریک تھی۔ یہ شاید ایک قدرتی رد عمل تھا۔ تمام مذاہب کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ جدیدیت کے مقابلے میں قدامت پسندی کے اس رجحان نے ہندوستانی قومیت کا جذبہ پیدا کیا۔ اور یوں جتنا انگریز حکومت اپنا تسلط مضبوط کرتی گئ اتنا ہی ہندو قدیم مذہب کے احیاء میں سنجیدگی اختیار کرتے گئے اس تحریک نے تدبر کے بجائے جبر اور عقل کے بجائے جوش کو استعمال کیا۔
برہمو سماج کی تحریک اگرچہ کہ بنگال تک ہی محدود رہی لیکن اس  نے ہندءووں کو مسلمانوں سے  سبقت لے جانے کا موقع فراہم کیا۔ کیونکہ مسلمانوں میں اس وقت تک اس چیز کا احساس ہی پیدا نہ ہو سکا تھا کہ وہ کیا عظیم نقصان ہے جس سے وہ دو چار ہونے جا رہے ہیں اور اگر کسی سطح پہ یہ عالم مایوسی میں موجود بھی تھا تو انکو یہ معلوم نہ تھا کہ اس سے بچاءو اور دفاع کس طرح ممکن ہے۔

ماخذ؛
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید، پبلشر انجمن ترقی اردو پاکستان۔

21 comments:

  1. ہممم۔۔۔
    راجہ رام موہن رائے کا موازنہ آپ کررہی ہیں سرسید سے۔
    اور آریہ سماج برابر لا رہی ہیں دارلعوم کے۔
    یہ تو بڑی خطرناک پٹاری کھول دی آپ نے۔ :)
    موسم ابر آلود دیکھائی دے رہا ہے۔ بلاگ کے نشیبی حصوں میں گھڑمس مچنے کا امکان ہے۔

    ReplyDelete
  2. بند باندھنے کی ٹیکنیک حاصل کر لی گئ ہے۔

    ReplyDelete
  3. سب سے پہلے تو مشعل کے داداجی کو اللہ پاک شفائے کاملہ و عاجلہ عطافرمائیں،آمین
    ان کو میرا سلام کہیئے گا،اور میری طرف سے بہت بہت پوچھ لیجیئے گا!
    آپ اپنے علاج پر بھی توجہ دے رہی ہیں یا نہیں؟؟؟؟؟؟

    پھر آپکا شکریہ!
    کس بات کے لیئے؟
    آپ جو جہاد کررہی ہیں اس کے لیئے،
    اللہ آپکو استقامت عطافرمائے اور لوگوں کے ذہنوں سے جہالت کے اندھیرے کو دور فرمائے،آمین یا رب العالمین

    ReplyDelete
  4. بی بی!

    اللہ تعالیٰ مشعل کے دادا جی کو صحت عطا کرے ۔

    جو لوگ مذاھب عالم کے بارے میں علم رکھتے ہیں وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہندؤ دھرم بہت الاسٹک ہے۔ اسمیں کسی بھی نئی یا پرانی بات کو شامل کرنے کی انتہائی ذیادہ گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ اور ہندؤ دھرم بذات خو بہت سے عقیدوں اور توہمات کا مجموعہ ہے۔راجہ موہن رائے نے آتمیا سبھا بھی قائم کی تھی جس میں ہندو بیواؤں کو شادی کی اجازت اور ہندوؤعورتوں کےاسطرح کے دیگر حقوق تھے ۔ اور بھارتی انہیں "سوشل ریفارمر "سمجھتے ہیں ۔ یہ امر واقعہ ہے کہ راجہ رام موہن رائے نے ہندؤ ہونے کے ناطے ہندؤ قوم کے لئیے ان سوشل ریفارمز سے ایک مثبت کام کیا ۔ ایک مثبت تحریک چلائی ۔ جس سے ہندوؤ قوم کو فائدہ ہوا ۔ اسلئیے ھندوؤ دھرم میں راجہ رام موہن رائے جیسے لوگوں کے" سوشل ریفارمرز" ہندؤوں کو مذھب کے نام پہ جاری توہمات سے آگاہی دینی ایک احسن قدم جانا جاسکتا ہے ۔

    راجہ رام موہن رائے کی مثال کو مسلمانوں اور اسلام پہ نہیں دی جاسکتی کہ اسلام تو بجائے خود ایک جدید مذھب اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اور ہر مسئلے کا حل اس کے اندر پوشیدہ ہے ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں پہ جب کبھی بھی بُرا اور مشکل وقت آیا تو انھوں نے ہمیشہ مسلمان ہونے کے ناطے اسلام سے رجوع کیا ۔ جس نے انہیں ہر صورت میں مزاحمت کا رستہ دکھایا ۔ مزاحمت خواہ ثقافتی تھی یا حربی۔ یہ مزاحمت ہر صورت میں اور ہر دور میں ہوئی۔ مشکل دور آنے پہ اسلام اپنے ماننے والوں کا سدباب بھی کرتا ہے اور احتساب بھی کرتا ہے۔ اسلئیے یہ غالبا دنیا کا واحد مذھب ہے جس کے ماننے والوں اپنی آزادی کے لئیے کسی دوسرے ازم یا وقتی طور پہ جاری کسی کرنٹ سے فکر مستعار نہیں لینی پڑتی۔

    آزمائش میں پکڑے دنیا کے کسی بھی خطے کے مسلمانوں کو جو سوچ اور فکر اسلام عطا کرتا ہے اس میں مسلمانوں کے لئیے ہر بحران سے زندہ برآمد ہونے کا کلیہ محفوظ ہے ۔مسلمانوں کے ساتھ اس سے بڑھ کر کوئی اور ظلم نہیں ہو سکتا کہ ان سے یہ کلیہ چھیننے کی کوشش کی جائے۔ جبکہ انگریزوں کی خدمات کے طور پہ سوشل ریفارمر کے نام سرسید احمد خان نے مسلمانوں سے یہ کلیہ یہ سربستہ راز جو صرف مسلمان قوم کو ہی میسر ہے اس سے ہندؤستان کے مسلمانوں کو محروم کرنے کی کوشش کی۔ مسلمان قوم کو جوئے غلامی پہننے کا درس دیا اور نہائت جتن کر کے ہندؤستان میں بسنے والے مسلمانوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ انکے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ انگریز کی اطاعت بجا لانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکیں ۔ اور اپنے اس مقصد کے حصول کے لئیے سرسید احمد خان نے کیا کیا پاپڑ نہیں پیلے ۔ محض مسلمانوں کو غلامی کا درس دینے اور حریت اور آزادی کی تڑپ دبانے کے لئیے مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں بھی مشکوک کیا ۔ قرآن کریم کی تحریف اور غلط تفسیر تک لکھ ڈالی۔ اس بارے مولانا حالی کو بھی پڑھ لیں ۔جن کا آپ نے حوالہ دیا تھا ۔

    اس لئیے راجہ رام موہن رائے کی ہندؤ قوم کے لئیے کئیے گئے مثبت اقدامات کا سرسید احمد خان کے ان اقدامات سے کوئی موازنہ نہیں جو سرسید احمد خان نے انگریزوں کی ایماء پہ ھندؤستان کے مسلمانوں کو آئیندہ کئی صدیوں تک غلام اور ذلیل و رسوا رکھنے کے لئیے کئیے۔

    ReplyDelete
  5. جاوید صاحب، آپکے بنادی نظریات تو قدامت پسندی کے ہیں۔ اسلام آپکو زندگی گذارنے کے بنیادی اصول دیتا ہے مگر اسکا فیصلہ آپکو خود کرنا ہے کہ آپ اناٹومی کو علم میں شامل رکھتے ہیں یا آپکے نزدیک دین کا علم ہی بس علم ہے۔ اس بات کا فیصلہ بھی آپکو کرنا ہے کہآپ طبیعیات اور سائینس کے دیگر مضامین اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں یا آپ سمجھتے ہیں کہ دنیا کا ہر علم قرآن میں بند ہے اور اسکا پڑھ لینا ہی کافی ہے۔ اس بات کا فیصلہ بھی آپکو کرنا ہے کہ آپکو دیگر اقوام کا مقابلہ بموں اور اسلحے سے کرنا ہے اور اسے جہاد کا نام دینا ہے یا انکا مقابلہ اپنی عقل اور تدبر سے کرنا ہے اور ہر اس علم کو حاصل کرنا ہے جس میں وہ مہارت رکھتے ہیں۔ اسی طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے اسلام نے جس طرز معاشرت میں جنم لیا تھا اسکے بارے میں بھی آپکو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ طرز معاشرت اسلام ہے یا قرآنی احکامات۔ یہی قدامت پسندی اور جدیدیت کا فرق ہے قرآن کے اپنے اکفاظ میں یہ کتاب ہر زمانے کے لئے ہے۔ اور یہ کہتے ہوئے قرآن اس زمانے کو جامد کرنے کے بارے میں نہیں کہتا بلکہ اسکا دعوی یہ ہوتا ہے کہ یہ ہر زمانے کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ لیکن افسوس ہمارے قدامت پسند ساتھی اسکی ایک انتہائ غلط تصویر پیش کرتے ہیں دور کیوں جائیں محض لباس کے اوپر کچھ دن پہلے چلنے والی بحث کو دوبارہ پڑھ لیں۔
    سر سید پہ تحریر جاری ہے میں اسے تبصرے میں ضائع نہیں کرنا چاہتی انتظار کریں۔
    عثمان، اگر ایک عہد کے مسائل ملتے جلتے ہیں تو انکی وجوہات بھی ملتی جلتی ہوتی ہیں اور غور و فکر کرنے والے ذہنوں میں انکے حل بھی ملتے جلتے آ سکتے ہیں۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ برہموازم کی تحریک بنگال میں پھیلی اور سرسید کا اثر شمالی ہندوستان اور پنجاب میں آیا۔
    ہمارے راسخ العقیدہ طبقے کا رد عمل بھی آریہ سماج سے الگ نہیں تھا اور نہ ہے۔ اسکے لئے آریہ سماج کا رد عمل پڑھنے کی ضرورت ہے جو تقریباً ویسا ہی ہے جیسا کہ ہماری راسخ العقیدہ جماعتوں کا تھا یا ہے۔ وہی جبر اور جوش جو کسی بھی تدبر اور عقل سے خالی ہے۔

    ReplyDelete
  6. پیاری عنیقہ آپا اللہ آپ کے سسر جی کو صحت و تندرستی سے نوازے۔
    آپ سے عرض یہ ہے کہ
    اپنی ملت پر قیاس اقوام ہنود سے نہ کر
    خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

    ReplyDelete
  7. پیارے بھیا کاشف نصیر، چاہے وہ جنگی منطقیں ہوں یا سیاسی چالیں۔ آپکو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ تمام دنیا کے انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ایکدوسرے کے تجربے سے سیکھتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے کوئ ہندو نہیں رہتا اور نہ عیسائ اور نہ مسلمان، نہ شیعہ اور نہ سنی۔ تب ہم کہتے ہیں کہ نیلسن منڈیلا نے جیل میں تیس سال گذار کر آزادی کی جنگ لڑی، خمینی نے تیرہ سال جلا وطن رہ کر انقلاب کی راہ ہموار کی۔ فلاں ملک میں اس طرح زچگی کے دوران ہونے والی اموات پہ قابو پایا گیا۔ فلاں ملک میں یہ یہ طریقے استعمال کر کے بچوں میں آیوڈین اور آئرن کی کمی کو پورا کیا گیا۔
    اس وقت آپ جس دنای میں رہ رہے ہیں وہ انسانوں نے اس کرہ ء ارض پہ ہزاروں سال کی گذار کر جو کچھ حاصل کیا اسے ایکدوسرے لے ساتھ شیئر کر کے بنایا ہے۔ انتہائ افسوس ہے کہ جو ملت اپنی ترکیب میں خاص ہے وہ صرف یہ شعر یاد کر کے ہی خاص رہتی ہے۔ بارے کچھ ایسا کرو جو بہت یاد رہو۔

    ReplyDelete
  8. کھانسی!!۔
    ہماری کھانسی پر بھی بند باند دیا۔
    بہت اچھی تحریر ھے۔

    ReplyDelete
  9. اے کاش کے تمام عظیم و قدیم لکھاری حضرات (شاعر و ادیب وغیرہ وغیرہ) اپنے حقیقی جذبات اور احساسات کے اظہار کیلئے سمائیلیز استعمال کر لیتے ۔

    ReplyDelete
  10. علامہ کاشف نصیر اور ان کے بزرگوار کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ مومن اور مسلمان کا فرق ڈھونڈ کر اپنے گناہ معاف کروا لیتے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اسی خوش فہمی کا شکار ہیں!!!!!!
    جبکہ مومن انبیاء صدیقین اور صالحین ہیں اور مسلمان وہ جو شرک سے پاک ہو اللہ سے محبت رکھے اسکے ڈر کے ساتھ،
    اس سے نیچے درجے کے جو لوگ ہیں وہ صرف یہ سوچ کر خوش ہوسکتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں کیونکہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے حالانکہ اس میں انکا کوئی کمال نہیں

    ReplyDelete
  11. آپ نے جن مدلل دلائل کے ساتھ جاوید صاحب اور کاشف صاحب کے تبصرے کے جواب دئیے ہیں اُس سے لگتا یہ ہی کہ سچ مچ آپنے بند باندھنے کی ٹیکنک حاصل کر لی ہے -بہت مزا آیا -اب دوسری طرف سے بھی اسی طرح کے مدلل دلائل آئیں تو مزا دوبالا ہوجائے گا چونکہ یہ لسانی یا سیاسی بحث کے بجائے علمی بحث ہوگی - جس سے مجھ جیسے لوگوں کے علم میں اضافہ ہوگا - بہت شکریہ

    ReplyDelete
  12. کسی خبیث ہیکر نے فرحان کا بلاگ ہیک کرلیا ہے اور یہ کون ہوسکتا ہے ماجد چوہدری یا اسکا کوئی چیلا کیونکہ حال ہی میں اس کی اس بلاگ پر عزت افزائی ہوئی تھی اور اسے اس کی اوقات بتائی گئی تھی!!!!!!!

    ReplyDelete
  13. عبداللہ تم تو مفتی ہوگئے بلکہ مجدد

    ReplyDelete
  14. ہم نے ہزار بار کہا ہے کہ سر سید کی ادبی، صحافتی اور فکری خدمات کے ہم بہت معترف ہیں لیکن انکو مسلمان مجتہد کے طور پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انکی تاویلات قرآن و سنت اور مسلمانوں کے چودا سو سالہ اجتماعی تعامل کے خلاف ہے۔
    پیاری عنیقہ آپا آپ نے کوشش کی ہے کہ ہندو مذہب کے اندر ہونے والے اصلاحی تحاریک کو اسلام کے خالص مذہبی معاملات میں استدلال کے طور پر پیش کیا ہے۔ آپ کا یہ استدلال بلکل ناقص ہے۔ دنیاوی معاملات میں تو دیگر اقوام کی طرف دیکھا جاتا ہے، لیکن شریعت، تجدد اور اجتہاد میں کفار سے استدلال کرنا علمی کج فہمی ہے۔ کیا آپکو سچے پکے اسلام اور من ڈھرک ہندوازم میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا ؟؟؟

    ReplyDelete
  15. عنیقہ کافی دن سے آپکے بلاگ پر خاموشی ہے،
    امید ہے کہ سب خیریت ہوگی انشاءاللہ،مشعل کے دادا جی سمیت آپکے تمام اہل خانہ بخیر و عافیت ہوں گے!
    میں نے آپکو ایک میل بھی کی تھی خیریت معلوم کرنے کے لیئے پتہ نہیں آپکو ملی یا نہیں؟؟؟؟؟؟
    جیسے ہی فرصت ملے خیریت سے آگاہ کیجیئے گا،شکریہ

    ReplyDelete
  16. عبداللہ، پرسش احوال کا شکریہ۔ مشعل کے دادا جی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ہم سب ابھی اسے تسلیم کرنے کے مراحل میں ہیں۔

    ReplyDelete
  17. کاشف نصیر صاحب، ایک علم کہلاتا ہے دینیات کا جس میں مختلف ادیان کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ ایک چیز لوگوں کی نفسیات ہوتی ہے جو تمام انسانوں کی مشترک ہوتی ہے اور ایک چیز دنیا کے مادی وسائل ہیں جو تمام انسانوں کی مشترکہ وراثت ہے۔
    ہر مذہب کے اندر اسلام، عیسائیت، یہودیت حتی کہ ہندو ازم جو کہ ایک آسمانی مذہب نہیں کہلاتا۔ ہمیشہ دو طرح کے گروہ موجود رہے ہیں۔ ایک شدت پسند اور دوسرے عام انسان۔ ہر دین کے اندر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی رہی ہے جسے کسی بھی معمولی تبدیلی سے اپنا مذہب خطرے میں نظر آتا ہے۔ ہر مذہب انسان کو محبت کا پیغام دینے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں قریب لانا چاہتا ہے۔ لیکن ہر مذہب کچھ ایسے لوگوں کے قبضے میں چلا جاتا ہے جو اسے جنگ و جدل کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔
    جن چیزوں کو آپ شریعت اور دیگر اصطلاحوں کا نام دے کر سختی سے انکے نفاذ کے لئے سر گرم ہوتے ہیں وہی چیزیں کسی اور نام سے دیگر مذاہب میں بھی موجود ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ تمام عالم آپکے مقرر کردہ اسکیل پہ مسلمان ہو جائیں۔ انتہا پسند عیسائ اور ہندو اسے اپنے مذہب کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے۔ داڑھی، برقعہ، مسجد، نماز، قرآن کیا یہ فرق ہے ہمارے درمیان۔ یا یہ اس سے کوئ ماوراء چیز ہے۔

    ReplyDelete
  18. اناللہ و انا اللہ راجیعون
    اس افسوس ناک خبر پر میں اس بحث کو ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انکے درجات کو بلند فرمائے اور یہ کہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے (آمین)
    اور یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میرے نزدیک داڑھی، برقعہ، مسجد اور نماز کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں بلکہ میرے نزدیک تو اصل اہمیت احکام خداواندی اور فرمان نبوی صلی اللہ و علیہ وسلم کو حاصل ہے اور میں اسکے آگے اپنے حق سے دسبردار ہوجانے اور سرتسلیم خم کردینے کو ہی دین اور اسلام سمجھتا ہوں۔

    ReplyDelete
  19. اناللہ وانا الیہ راجعون
    ہم سب اسی کے لیئے ہیں اور ہم سبکو اسی کے پاس واپس جانا ہے،
    اللہ ان کی مغفرت اور بخشش فرمائیں انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائیں آمین،
    اس دن نہ جانے کیوں بار بار انکا اور آپکا خیال آرہا تھا سو آپکو میل کردی،
    میں تو ان سے بس آپکی لگائی ہوئی تصاویر اور آپکی ان کے حوالے سے چند باتوں سے ہی آگاہ تھا مگر پتہ نہیں کیوں بالکل اجنبی نہیں لگتے تھے شائد انکی زندہ دل طبیعت اپنے والد جیسی محسوس ہونے کی وجہ سے!!!!
    امر بھائی سے اور اپنی ساس صاحبہ سے بھی میری طرف سے تعزیت کر لیجیئے گا۔

    ReplyDelete
  20. yahan google se arya lafz se phooncha hoon,,aur bhi phoonchenge unke swagat ke liye Link chhodna chahta hoon:

    हक प्रकाश बजवाब सत्‍यार्थ प्रकाश

    تبر اسلام
    arya samaji kitab 116 sawalon "nakhle islam" ka jawab, Arya samaj ka fitna khatam
    karne wali kitab,

    online reading
    http://www.scribd.com/doc/41845917/Tabrra-e-Islam-Sanaullah-Amratsari

    ترک اسلام کا جواب ترک اسلام
    arya samaji book "tark e islam" ka jawab "turk e islam"

    online reading
    http://www.scribd.com/doc/41806300/Turk-e-Islam-Sanaullah-Amratsari

    urdu book: ویداور سوامی دیانند
    غازی محمود دھرم پال
    online reading

    http://www.scribd.com/Ved-Aur-Swami-Dayananda-Mehmood-Dharmpal-ghazi/d/41514707

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ