Showing posts with label جنگ. Show all posts
Showing posts with label جنگ. Show all posts

Saturday, February 11, 2012

تقدس سے باہر-۳


عرب معاشرہ اس وقت بنیادی طور پہ جن مسائل کا شکار تھا وہ معاشرتی اور معاشی دونوں تھے۔
معاشرتی مسائل دراصل معاشی حالات کی دین تھے یا جیسا کہ قبائلی نظام کا خاصہ ہوتا ہے انسان کی آزاد روی کو روکنے کے لئے وہ شخصی بت تراشتی ہے اور عام انسان کی قدر کم کرتی ہے۔ یہ قبائلی معاشرہ جیسا کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں رواج ہے مرد کی سربراہی میں چلتا تھا۔ ایسے میں اگر عورت کی کوئ حیثیت متعین ہوتی تھی تو وہ بھی مرد کی نسبت سے۔ اور مرد سے اسکا ایک تعلق مسلم سمجھا جاتا ہے وہ ہے جنسی تعلق۔
سو اس عرب معاشرے میں عورت کی حیثیت جنس کے گرد گھومتی تھی۔  اگر اسے کچھ قبائل میں عزت حاصل تھی تو اسکی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسکی طرف مرد کا جنسی التفات زیادہ ہوتا تھا۔  یوں قبائل کے درمیان اگر عورت کی وجہ سے جنگ بپا ہوجاتی تو اسی کی وجہ سے امن بھی قائم ہوجاتا۔
طبقہ ء اشرافیہ میں عورت کے لئے ضروری تھا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے۔   اسکے علاوہ جنسی تعلق کے جو طریقے رائج تھے وہ نہ صرف آجکے اسلامی معاشرے میں زنا کی ضمن میں آتے ہیں بلکہ انکا مقصد بھی عیاشی یا جنس تک سستے طریقے سے پہنچنے کے علاوہ کچھ نہیں لگتا۔
عورت اپنے مرد کی جاگیر تصور کی جاتی یہی وجہ ہے کہ جنگ میں ہارنے والے فریق کی عورتیں فاتح قوم کے حرم میں داخل کی جاتیں۔ باپ کے مرنے پہ ماں بیٹے کی ملکیت تصور ہوتی۔
یہ تو آزاد عورتوں کا حال تھا۔  عرب قبائلی نظام میں لونڈیوں اور غلاموں کا رواج بھی تھا۔ لونڈی صرف گھریلو امور میں مددگار نہ ہوتی بلکہ چونکہ اسکی حیثیت ایک فروخت شدہ انسان کی ہوتی اس لئے مالک جب چاہے اس سے جنسی تعلق قائم کر لیتا۔ پیدا ہونے والی اولاد کا مرتبہ آزاد عورت سے پیدا ہونے والی اولاد کے مقابلے میں  کم ہوتا۔ اس سب کے بعد مالک جب چاہے اسے کسی بھی نئے مالک کے حوالے کر سکتا تھا۔

معاشرے میں مرد کی اہمیت مسلم تھی اور اولاد سے مراد بالعموم مرد اولاد ہوتی تھی۔ لڑکیوں کو اولاد تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ اس لئے اگر ایک شخص کی درجن بھر بیٹیاں ہوتیں اور لڑکا نہ ہوتا تو اسے بے اولاد ہی سمجھا جاتا۔ جیسا کہ سورہ کوثر میں اللہ تعالی ، رسول اللہ کو تسلی دیتے ہیں کہ تمہارا دشمن ہی بے اولاد مرے گا۔ حالانکہ اس وقت رسول اللہ کی بیٹیاں موجود تھیں۔ لیکن بیٹے کی وفات پہ رسول اللہ کے غم کو ہلکا کرنے کے لئے یہ الفاظ کہے گئے۔ اگر ہم فوٹون کی نظر سے دیکھیں تو یہ رسول اللہ کی وہ کوشش لگتی ہے جو انہوں نے معاشرے میں خواتین کی حیثیت بلند کرنے کے لئے کی۔ یعنی انسان کا نام اور عزت اولاد کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ اسکے اپنے اعمال اسے اس قابل بناتے ہیں کہ لوگ اسے تا دیر عزت اور احترام سے یاد رکھیں۔ اس لئے قرآن کی زبانی یہ کہا گیا کہ بے شک تمہارا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ وہ دشمن جو نبی کی اس جدو 
جہد میں رکاوٹ تھے جو وہ اس معاشرے کے گرے پڑے، کمزور انسانوں کے لئے کر رہے تھے۔ 

زیادہ بیٹے زیادہ عزت کا باعث ہوتے کیونکہ قبائلی جنگوں میں وہ لڑنے کے کام آتے تھے۔ زیادہ لڑکے، زیادہ لڑنے والے ہاتھ زیادہ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے لوگ۔ جبکہ لڑکیاں اس صورت میں زیادہ کار آمد نہ ہوتیں سوائے اسکے جنگ کے میدان میں مردوں کے حوصلے بڑھانے کے لَئے جنگی گیت گائیں یا زخمی سپاہیوں کی دیکھ ریکھ کر لیں۔ معاشرہ اس قدر زیادہ مرد کے حق میں بڑھا ہوا تھا کہ غیرت کو بنیاد بنا کر بعض قبائل میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا۔
جنگ ان قبائل کا پسندیدہ مشغلہ تھی اور انکی اقتصادی حالات کی خرابی کا ذمہ دار بھی۔ زراعت اور گلہ بانی دو ممکنہ ذرائع آمدنی تھے۔ عرب کا یہ خطہ زراعت کے حساب سے اتنا زرخیز نہیں تھا کہ اس پہ انحصار کیا جا سکتا۔ اس لئے آمدنی کا بڑا ذریعہ تجارت تھی یا زائرین جو مکہ آیا کرتے تھے۔
جہاں تک صنعتوں کا تعلق ہے عرب اس میدان میں ساری دنیا سے پیچھے تھے۔ اگر کسی جگہ کپڑے کی بنائ یا چمڑے کی دباغت کی ابتدائ صنعتیں پائ جاتی تھیں تو یہ وہی علاقے تھے جو زیادہ جدید تہذیبوں کے قریب واقع تھیں۔ عرب کے اس خطے میں بالکل موجود نہ تھیں۔  خواتین بھی اپنے طور پہ اس معاشی جدو جہد کا حصہ تھیں وہ سوت کاتنے کا کام کرتیں اور آمدنی پیدا کرتیں۔ لیکن تین قابل احترام مہینوں کو چھوڑ کر سال کے نو مہینے جاری رہنے والی جنگ پہ بیشتر آمدنی لٹا دی جاتی اور یوں عام انسان فقر اور فاقے سے باہر نہ نکل پاتا فقر کا عالم یہ تھا کہ پہننے کو کپڑے اور کھانے کو خوراک موجود نہ تھی۔
جنگ اس قدر دلچسپ مشغلہ تھا کہ عربی ادب کا ایک بڑا حصہ اسکے لئے وقف تھا۔ اس میں جنگوں کے حالات سچ جھوٹ ملا کر لکھے جاتے اور اپنے قبائل کے بہادر جنگی لوگوں کی تعریفوں کی شان میں قصیدے کہے جاتے تاکہ قوم میں لڑنے کا جذبہ قائم رہے۔ شعراء کی اس لئے عرب معاشرے میں بڑی حیثیت تھی۔ جنگ کے یہ قصےمغازی کہلاتے تھے۔
یوں اس معاشرے کی جو بنیادی خرابیاں فوٹون کو سمجھ میں آتی ہیں وہ اقتصادی، جنگی اور جنسی افراط و تفریط ہے۔ ان کا 
شرک یا توحید سے کیا تعلق بنتا ہے؟ فوٹون اس پہ سوچتا ہے فوٹون جو اپنے بنیادی نظریات میں ایک لا دین شخص ہے۔


جاری ہے۔

نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئ ہے وہ یہ ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی، اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی الرحیق المختوم جسکے پبلشر ہیں المکتبہ السلفیہ لاہ


شبلی نعمانی کی سیرت النبی یہاں سے ڈاءونلوڈ کیجئیے۔
الرحیق المختوم یہاں سے ڈاءونلوڈ کریں۔

Friday, September 30, 2011

وہ دیکھو

کبھی کبھی موضوعات میں قرعہ اندازی کرنی پڑتی ہے۔ آج تین موضوع ذہن میں تھے۔ لیکن فال آل پارٹیز کانفرنس کے نام نکلی۔ ایک شاعر نے کہا تھا کہ اسکا چہرہ ہے کہ حافظ کی بیاض، ایسے چہرے سے کوئ فال نکالی جائے۔  سو جس کانفرنس میں ہماری پیاری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر موجود ہوں۔ اسی سے کوئ فال نکالنی چاہئیے تھی۔  سب منتظر بھی رہے۔ سنتے ہیں کہ چھ گھنٹے سے زائد کا ٹائم لگا اس فال کو نکالنے میں۔
اسکی وجہ باخبر ذرائع کے مطابق یہ تھی کہ تقریباً ساٹھ رکنی اس کانفرنس میں جب بھی کوئ فال نکالی جاتی۔ اس پہ مندوبین کا متفق ہونا مشکل ہوتا۔ اس میں ہمارے فارسی شاعرحافظ صاحب یا حنا ربانی کھر کا کوئ قصور نہیں، نہ ہی شرکاء کا۔ اصل میں خستہ حال بیاض کا پرنٹ صحیح نہ تھا۔ جیسے ہی صفحہ پلٹو،ٹوٹنے لگتا۔ ارادہ انہیں جہنم رسید کرنے کا، صفحہ دیوان کا۔ اس لئے یہ دقّت پیدا ہوئ۔
اب جو فال نکلی ہے اسکا مطلب بھی لوگ ایکدوسرے سے پوچھتے پھر رہے ہیں۔ حافظ صاحب تو آکر بتانے سے رہے۔ یہ الگ بات کہ کوئ روحانی شخصیت ان سے یہ راز اگلوا لے۔  مردوں کو بلانے کے روحانی طریقے بھی ہوتے ہیں جس میں وہ خاموشی سے اٹھ آتے ہیں ہمیشہ گڑا مردہ کھود کر نہیں نکالتے۔ شرط یہ ہوتی ہے کہ مردے کو واپس بھیجنے کا وظیفہ بھی آنا چاہئیے۔ توقع ہے کہ یا تو ہمارے امریکی مہربان یہ وظیفہ جانتے ہونگے یا پھر ہمارے سالار۔ واپس کس کا مردہ جائے گا، وہی جو آیا تھا۔ آپ سمجھے حافظ صاحب کا، نہیں انکا صرف دیوان کام کا ہے۔
حافظ صاحب کو مرے ہوئے سات سو سال ہو رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہیں اپنا دیوان اب یاد بھی ہوگا کہ نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ یہ سن کر ہی بھونچکا رہ جائیں کہ حسین چہروں کو چھوڑ کر لوگ انکے دیوان سے یہ کام لیتے ہیں۔ حافظ صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں رکتی ہوں، ہم دراصل آل پارٹیز کانفرنس پہ بات کر رہے تھے۔ یہ حافظ صاحب خدا جانے کیوں آگئے۔
قوم کو اس کانفرنس سے بڑی امیدیں تھیں۔ خود ہم بھی کچن کی چھریاں تیز کر کے بیٹھے تھے۔ جبکہ ادھر لاکھوں سیلاب زدگان کہہ رہے تھے کہ ان چھریوں کی میخیں بنوا لو جن میں ہمارے خیمے گڑ جائیں گے۔ لیکن ہم نے کہا نہیں۔ ہم اس موقع پہ فوج کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اور سارا دن اقبال اور فیض کو حفظ کرتے رہے۔ جنگ کے دنوں میں قوم کے عظیم سپوت سامنے آتے ہیں اور امن کے دنوں میں بدترین۔ اگر عظیم بننے کا ایک موقعہ ہاتھ لگ رہا ہے تو بہتی گنگا میں ہاتھ کیوں نہ ڈالیں۔
ادھر  دائیں بازو والے بھی نعرہ ء تکبیر کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ مرگ انبوہ جشنے دارد۔ سنا ہے پرنٹنگ پریس میں کفار سے جنگ کے نعرے تک پرنٹ ہو چکے تھے کہ اس دفعہ تو ہوا ہی ہوا۔ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔


لیکن کانفرنس ختم ہو گئ۔ اب سب ایکدوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ کانفرنس کی متفقہ قرارداد کا مطلب کیا ہے؟ آیا اس سے امریکہ خوفزدہ ہوگا یا نہیں۔  اپنا اپنا ہوتا  ہے۔ کیا طالبان کو منایا جارہا ہے یا امریکہ کو۔  یہ کیا بات ہوئ، کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ۔ اگر امریکہ سے جنگ نہ کی تو پھر کیا جیا۔ خوشحال پاکستانی کیسے جنگ لڑنے کی ہمت کر سکتے ہیں، فوج کو بس اتنا ہی ڈرامہ مقصود تھا، اب ڈالرز صراط مستقیم پہ چلیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔
کوئ میری رائے جاننا چاہتا ہے۔ غالب کہہ گئے ہیں کہ آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں۔ اور میر کی تقلید میں یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے سارے استعارے سمجھنا ضروری ہیں۔ اس میں باغ سے غالباً امریکہ  مراد ہے اور گل سے کون ہے۔ یہ مجھے نہیں معلوم۔ یوں تشریح کا سبق تو بند ہوا۔
  گھر کے ایک  پرانے کیسٹ پلیئر سے بچ رہ جانے والی واحد کیسٹ بر آمد ہوئ۔ لگا کر دیکھا تو بج بھی رہی تھی۔ رفیع کے گانے ہیں۔ ایک پرانا گانا بھی ہے۔ کچھ گانے جب بھی بجتے ہیں انکی آب و تاب میں کمی نہیں آتی۔ تال ایسا میل کرتا ہے کہ ہر زمانے کے لئے زندہ، ہر نسل کے لئے کار آمد۔ بعض سیاسی گانے بھی یہی تاثیر رکھتے ہیں۔ جب بجتے ہیں نئ امید اور پرانے نتائج لاتے ہیں۔ یہ گانا انکی نذر جو اعلان جنگ کے منتظر رہے۔


 

Wednesday, August 10, 2011

چوہے کا سوال

چوہوں کے ساتھ ریس میں ایک نقصان ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ فاتح ہوں تو بھی ایک چوہے ہی ہوتے ہیں۔
یہ جملہ کہنے والا لگتا ہے کہ چوہوں کے ساتھ ریس لگانے سے منع کرنا چاہتا ہے۔ سو اب چوہوں کے ساتھ ریس لگانا ضروری ٹہرا۔ سوال یہاں اس منادی کی وجہ معلوم کرنا نہیں۔ اگر ہم یہ کریں گے تو نتیجتاً ایک دفعہ پھر معتوب ٹہریں گے کہ مخلوقات میں سے کچھ کو اعلی اور کچھ کو کمتر جانتے ہیں۔  اس لئے ہم ایک براہ راست سوال رکھتے ہیں آخر چوہا اتنا حقیر کیوں جانا جاتا ہے؟
  کچھ لوگ سادہ سا جواب دیں گے اس لئے کہ اسکا دل اتنا سا ہوتا ہے ذرا سا ہش کرو اور بھاگ جاتا ہے, ہونہہ چوہے کا سا دل۔ لیکن یہ کہتے وقت لوگ اسکی پھرتی کو مد نظر نہیں رکھتے۔  داد دینے سے مت چوکیں۔ اتنی پھرتی تو بس آپکی حرکات منعکسہ میں ہی ہو سکتی ہے آپ میں نہیں۔ 
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ چوہا بھاگتا نہیں ہے بلکہ چھپ جاتا ہے اور جیسے ہی آپکی توجہ ہٹتی دیکھتا ہے فورا آموجود ہوتا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ چوہے کے اندر ایک دفاعی ذہانت پائ جاتی ہے۔ وہ گوریلا جنگ لڑنے کے فن سے واقف ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ انسان نے گوریلا جنگ کا فن چوہے سے سیکھا ہو مگر چوہوں کو ادنی مخلوق سمجھتے ہوئے اس کا کریڈٹ اسے دینے کے بجائے گوریلے کو دے دیا۔ اس سے انسانی ذہن کی چلتر بازی سامنے آتی ہے کہ اس نے اپنی ہم شکل مخلوق کو ترجیح دی۔ اس انسانی ادا پہ ہم واہ واہ کریں گے مگر اس سے چوہوں کی جو حق تلفی ہوئ ہے اس پہ ہم نالاں بھی ہیں۔

کیا ایسا معاشرہ ممکن ہے جہاں انسان چوہے کے حق میں آواز بلند کر سکے اس کے ساتھ جو نا انصافی ہوئ ہے اسے سامنے لا سکیں۔ شاید نہیں، کیونکہ خود چوہوں کو اس سے کوئ دلچسپی نہیں۔ انسان اگر انکے لئے لڑ لڑ کر مر جائے تو بھی چوہے اسے در خور اعتناء نہیں سمجھیں گے۔ آیا یہ انکا طرز تغافل ہے یا ادائے بے نیازی۔ یہ جاننے کے لئے دو قسم کے شاعر چاہئیے ہونگے ایک انقلابی اور دوسرے رومانی۔
کیا چوہوں کو شاعری سے دلچسپی ہوتی ہے۔ یہ مجھے نہیں معلوم لیکن چوہوں کو موسیقی سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت وہ کہانی ہے جس میں جادوگر اپنی بانسری بجاتا چلا جاتا ہے اور چوہے اسکے پیچھے ناچتے، کودتے، اچھلتے اتنے مست جاتے ہیں کہ انہیں اپنا انجام تک نظر نہیں آتا۔ موسیقی کے لئے چوہوں کی ان خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 
یہاں پہ کچھ ذہن یہ کہنا چاہیں گے کہ وہ بانسری دراصل جادگر کی بانسری تھی۔ تو کیا ہوا، ہوا کرے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ چوہوں نے اس پہ ایک شاندار رقص درویشاں کا مظاہرہ کیا۔ جو جادوگر خود نہیں کر سکتا تھا۔ جس سے متائثر ہو کر ایک شہر کے لوگوں نے اپنے بچے بھی اسی جادوگر کے حوالے کر دئیے۔ جادو گر نے کبھی ایک لفظ شکرئیے کا بھی نہیں پھُوٹا، انسان ایسا ہی بلا کا احسان فراموش ہوتا ہے اور پھر دوسروں پہ نام دھرتا ہے۔
سو چوہے پپو سالے سے بہتر ہیں وہ ڈانس کر سکتے ہیں۔ پھر بھی انسان انہیں حقیر کیوں سمجھتا ہے۔ شاید اس لئے کہ چوہے خوبصورت نہیں ہوتے۔  کسی انسان نے اس بد صورت بات سے بچنے کے لئے ایک خوبصورت بات کہی کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے۔
کیا چوہوں کو اس بات کی فکر ہے کہ وہ خوبصورت نہیں ہیں۔ بادی النظر میں لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہیں۔ چوہوں کو کبھی بھی فیئر اینڈ لولی قسم کی کریموں کو استعمال کرتے نہیں دیکھا وہ تو اسے سونگھتے تک نہیں۔ اپنا ایک شریک حیات ڈھونڈھنے کے لئے ہزاروں کو نہیں دیکھتے پھرتے۔ پھر دیکھیں کہ چوہے ایک ایک جھول میں آٹھ آٹھ بچے دیتے ہیں چند مہینوں میں وہ اپنے بچوں کے پر دادا بن جاتے ہیں اور اگر وہ حکمرانی کی طرف توجہ دیں تو چند سال میں انسان کونکال باہر کریں۔  یہ ان کا فقیری انداز ہے جس کی بناء پہ انسان اپنی بھونڈی حکمرانی کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ وہ خوبصورت نہیں۔
چوہے احسان فراموش ہوتے ہیں اور جس چھلنی میں کھاتے ہیں اسی میں سوراخ کرتے ہیں۔ یہ ان پہ ایک سنگین الزام ہے۔ در اصل چوہے کترنے کے معاملے میں ذرا جزباتی واقع ہوئے ہیں۔ کترنے کے عمل کو وہ چیلینج سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ ہر چھلنی انہیں یہ کہتی نظر آتی ہے کہ ہزار دانت سے نکلا ہوں اپنی سختی سے، جسے ہو زعم آئے کتر لے مجھے۔ 
انکی نفسیات کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ جنگل کے بادشاہ شیر کو بھی اسکا جال کتر کر آزاد کروالیتے ہیں مگر اس پہ احسان نہیں دھرتے۔ کبھی آپ نے سنا کہ چوہوں نے شیر کے اوپر بموں سے حملہ کیا ہو کہ ابے سالے تجھے آزاد کرایا تھا اور آج ہم پہ دھاڑ رہا ہے۔ چوہے سالے کی حقیقت سے واقف ہیں۔
دنیا کی کسی مذہبی کتاب میں شاید ہی چوہوں کے بارے میں کوئ تذکرہ موجود ہو۔ دنیا کا کوئ مذہب چوہوں کے بارے میں فکر مند نہیں اسی لئے چوہے بھی اپنے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں انہیں مل جائے تو ریشم کے کپڑوں میں اور بیکریوں کے من و سلوی میں بھی رہ لیتے ہیں نہیں تو غلاظت کے گٹر بھی کوئ بری جگہ نہیں۔ دما دم مست قلندر۔
لیکن انسانی زبانی اور سینہ بہ سینہ چلی آنے والی تاریخ میں چوہوں کے متعلق کچھ واقعات موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر میں انکی توہین کی گئ ہے۔ یہ بڑی زیادتی ہے کہ کسی کے دانتوں کا بدلہ اسکی عزت سے لیا جائے۔ چوہوں نے اس توہین کا بدلہ لیا  اور ہیضے کے جراثیمی ہتھیار کے ساتھ انسانوں پہ حملہ آور ہوئے۔ پوری پوری آبادیوں کو نگل لیا۔ اور انسان کچھ نہ کر سکا۔ بقاء کی جنگ میں چوہا انسان پہ بھاری رہا مگر پھر بھی چوہا کہلایا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس کا نام ہی چوہا ہے۔
تاریخ کے اس مرحلے پہ انسان نے چوہوں سے کثیر الہلاکتی ہتھیاروں کا تصور لیا لیکن چوہوں کی نفسیاتی برتری دیکھئیے کہ انسان یہ ہتھیار انسان کے خلاف تو استعمال کر سکا مگر کبھی چوہوں کے خلاف نہیں کر سکا، انہیں مارنے کے لئے اسے وہی روٹی کا لالچ دینا پڑتا ہے۔ روٹی چوہوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور اگر روٹی نہ ہو تو وہ کیک بھی شوق سے کھالیتے ہیں لیکن کبھی کیک دینے والے ہاتھوں کو چاٹتے نہیں ہمیشہ کترتے ہیں۔
بعض خواتین چوہوں سے بڑا ڈرتی ہیں۔ چوہے بھی ایسی خواتین سے بہت ڈرتے ہیں۔ سو جب وہ ڈر کر ایک نعرہ ء خوف ہائے اللہ لگا کر ریس لگاتی ہیں  تو چوہے استغفراللہ کہہ کر ریس لگا دیتے ہیں۔ یہ ریس عام طور پہ مخالف سمتوں میں ہوتی ہے اس لئے اسکا صحیح فیصلہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کبھی کبھی چوہے اس آسمانی مصیبت سے اتنا گھبرا جاتے ہیں کہ بجائے مخالف سمت بھاگنے کے خاتون پہ ہی چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ اس اقدام قتل میں اگر وہ بچ بھی جائیں تو گھر کی کچھ چیزیں دو چوہوں کے درمیان کچومر بن جاتی ہیں۔ محلے والے الگ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب ، بیگم صاحبہ کی کُٹ لگا رہے ہیں۔ یوں میاں صاحب کو ہتک عزت اور مختلف این جی اوز سے بچنے کے لئے میدان میں کودنا پڑتا ہے۔ کچھ شوہر حضرات اس موقع کو محلے والوں پہ اپنی دھاک جمانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور شام کے وقت ہجوم دوستاں میں بیگم کی حد سے پرے پرے  چپکے چپکے کہتے ہیں باتوں کے بھوت چوہوں سے مانتے ہیں۔ 
خیر، ایک خاتون نے چار چوہے مارے اور خاندان بھر نے انکی پیٹھ ٹھونکی۔ جب چوہے سمجھتے ہیں کہ وہ  کسی انسان کا قلع قمع کرچکے تو وہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے کرتے ہیں؟  سوچیں، لیکن یہ سوچنے سے پہلے آپکو روحانی طور پہ چوہا بننا پڑے گا اسکے بغیر آپ سمجھ نہیں سکتے کہ چوہا آخر کیا کرے گا۔ کیا کہا، لعنت ہو چوہے کے بارے میں ہم کیوں سوچیں۔ چوہے نے بھی یہی کہا تھا  کہ میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں۔ ششش،  ہشیار باش، چوہا آپکے سیدھے ہاتھ پر موجود ہے اور چوہے نہ صرف ڈھیٹ ہوتے ہیں بلکہ بڑے متجسس بھی۔


نوٹ؛
یہ انٹ شنٹ تحریر ایک چوہے نےای میل کی ہے۔ معمولی ردو بدل کے ساتھ ہم اسے اپنے بلاگ پہ ڈال رہے ہیں یہ دیکھنے کے لئے ہم میں سے کتنے لوگ  چوہوں کی پرواہ کرتے ہیں۔


Reflexive actions
Weapons of mass destruction
Biological weapons
Mouse and rats

Monday, January 17, 2011

میں کیوں بلاگ لکھتی ہوں

ہوا یوں کہ میں نے ایک سفر نامہ لکھا۔  لکھنے کے بعد میں جنگ اخبار کے میگزین سیکشن کے مدیر کو بھیجا کہ کیا وہ اسے اپنے اخبار کے میگزین میں چھاپ سکتے ہیں۔  انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسے چھاپ دیں گے آپکے پاس جو تصویری مواد ہے وہ بھی بھیج دیں۔ میں نے انہیں وہ بھی بیج دیا۔ انہوں نے وہ چھاپنا شروع کر دیا۔ انکے میگزین کے ایک فل صفحے پہ وہ سفر نامہ نو اقساط میں شائع ہوا۔
لیکن یہ دیکھ کر مجھے شدید صدمہ ہوا کہ انہوں نے  چھ سات قسطوں تک تو ایک لفظ کی بھی ایڈیٹنگ نہیں کی لیکن جس صفحے سے مشرف کا نام آیا اس سے انہوں نے انتہائ بھونڈی ایڈیٹنگ کی اور مجھے مطلع تک نہ کیا۔ مجحے سمجھ نہیں آیا کہ اس لائن کو اڑانے کی کیا ضرورت تھی کہ وہاں مشرف کے نام کی افتتاحی تختی لگی ہوئ تھی۔ لیکن یہ شاید جنگ گروپ کی پالیسی کا حصہ تھا۔ اسی طرح انسانی اسمگلنگ میں شامل ایک شخص کا قصہ جس سے میری ملاقات ہوئ غائب کر دیا۔ چند اور دلچسپ باتیں کٹ گئیں۔
 مجھے یہ بات قطعاً پسند نہیں آئ، ان کے/کی ایڈیٹر کی ایڈیٹنگ کا معیار یہ تھا کہ یہ سفر ہم دو لوگوں نے ایک رینج روورگاڑی سے کیا تھا مگر آخری قسط میں انہوں نے ہم دونوں کو جہاز سے واپس بھجوا دیا اور گاڑی کا قصہ ہی گول ہو گیا کہ گاڑی کہاں گئ۔ جبکہ اس گاڑی کی وجہ سے ہمیں سفر میں بہت ایڈوینچر سے گذرنا پڑا اور اس پوری تحریر میں اس کا بڑا بیان تھا۔
حیرت ہے ایک شخص آپکو، چھپنے سے پہلے  پورا پلندہ ایک ساتھ دے دیتا ہے آپ اسے دو مہینے سے اوپر اپنے میگزین میں ایک بڑی جگہ دیتے ہیں اور آپ اسے یہ تک نہیں بتاتے کہ آپ اس میں کیا ترمیمات کرنا چاہتے ہیں۔ اس بد ترین ایڈیٹنگ سے پڑھنے والے قارئین کے ذہن میں اگر کسی خامی کا خیال آیا تو یقیناً وہ اس نے  مصنف کے کھاتے میں ڈالی ہوگی۔ حالانکہ یہ ان ایڈیٹر کی اہلیت کا اظہار تھا۔  اس وقت میں نے تہییہ کیا کہ آئیندہ اپنی تحاریر یوں ضائع نہیں کرنی۔  کوئ بھی عقل سے خالی شخص کسی کی بھی تحاریر کی ایڈیٹنگ کرنے بیٹھ جائے اس لئے کہ اس ادارے نے اسے ملازمت دی ہوئ ہے یا اس ادارے کی یہ پالیسی ہے۔ میرے پاس اگر موقع ہے تو ایسے لوگوں پہ کیوں انحصار کروں۔
کچھ دنوں بعد مجھ سے کسی نے کہا کہ آپ بلاگنگ کیوں نہیں کرتیں۔ اس سے پہلے میں نے کبھی اس طرف سوچا ہی نہ تھا۔ جناب یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا اردو میں بلاگنگ ہوتی ہے سرچ ورڈذ ڈالے تو بلاگستان تک پہنچے۔ مگر یہاں پہنچ کر شدید مایوسی ہوئ۔  یوں لگا کہ اردو بلاگنگ دائیں بازو والوں کے قبضے میں ہے۔ اور لبرل تو دور یہاں تو موڈریٹ ویوز کا قحط ہے۔
سوچا یہاں تو بڑا زلزلہ پیدا کرنے کی گنجائیش ہے اور لکھنا شروع کر دیا۔

نوٹ؛
یہ تحریر پوسٹ کرنے کے بعد جب اردو سیارہ پہ گئ تو اندازہ ہوا کہ وہاں مشہوری کے لئے ایک نیا مقالہ موجود ہے۔  کیونکہ میں یہ کہانی کسی تبصرے میں انکے حوالے کر چکی ہوں۔ اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بلاگستان میں کس شخصیت کے اوپر سب سے زیادہ مقالے حتی کہ تھیسس تک لکھا گیا ہے۔ اور بلاگ ٹریفک بڑھانے کے گُروں میں ایک گُر یہ بھی ہے کہ اس قسم کا مقالہ لکھ ڈالیں۔
:)
قارئین؛ چونکہ یہ  دونوں  مضامین باہمی مشاورت اور رونمائ حاصل ہوئے بغیر لکھے جا چکے ہیں اس لئے اب آپ ان دو تحاریر کا مزہ ایک ساتھ لیں۔ 

Thursday, January 6, 2011

جمہور یا جانور

دوپہر کا وقت تھا۔ میں بازار میں تھی۔ ایک پتھارے والے کے پاس ایک من پسند لیس دیکھ کر رک گئ۔ بھاءو تاءو کرنے کے بعد جب میں نے اپنا پرس کھولا تو اس میں ہزار کا نوٹ تھا۔  لیس پچھتر روپے کی بن رہی تھی جبکہ اسکے پاس ہزار کا کھلا نہیں تھا۔ چھان پھٹکنے پہ ایک پچاس روپے کا نوٹ برآمد ہوا۔ میں نے وہ دوکاندار کو دیا کہ زر ضمانت کے طور پہ رکھے میں واپسی میں باقی پیسے دیکر لیس لے لونگی۔
واپسی میں دیکھا تو اسکا پتھارا ایک چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ پڑوس کے دوکاندار سے پوچھا کہنے لگا نماز پڑھنے گیا ہے ابھی دس منٹ میں آجائے گا۔ تب اچانک میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے ارد گرد نظر ڈالی۔ تمام دوکاندار اپنے اپنے گاہکوں کے ساتھ مصروف تھے۔ جن کے پاس نہیں تھے وہ چیزیں قرینے سے رکھ رہے تھے۔ یہ دوکانیں کپروں کی بھی تھیں، زیورات کی بھی اور پھل اور سبزی والوں کی بھی۔ اس عوامی ہجوم میں ہر ثقافتی گرو سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے۔ مہاجر، پٹھآن، پنجابی، افغانی۔
اور پھر اسی تسلسل میں مجھے رات ٹی وی پہ آنے والا ایک پروگرام یاد آگیا۔ جس  کے میزبان حامد میر، اور مہمانوں میں ہارون رشید اور انصار عباسی شامل تھے۔ اور ہمارے دونوں مدبر صحافیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اٹھانوے فی صد افراد شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں اور جو لوگ جمہور کی رائے کا احترام نہیں کرتے انہیں ایسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا یعنی اگر وہ گورنر ہے تب بھی اسکا اپنے محافظ کے ہاتھوں مارا جانا قابل صدمہ نہیں۔
اس وقت میں نے اپنے اس بازار کے تمام لوگوں کو دیکھا جو بازار کے بیچوں بیچ واقع مسجد میں نماز ادا کرنے کے بجائے اپنے اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ نماز دین کا سب سے اہم رکن اسکی ادائیگی سے جان چرانے والے ملک میں شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ شاید لوگ صحیح کہتے ہیں اٹھانوے فی صد شماریات کے نتائج موقعے پہ ہی بنائے جاتے ہیں۔ جیسی ضروت ویسے نتائج۔
جمہور کون ہے؟ تھری پیس سوٹ میںملبوس نک سک سے ایک دم درست، زندگی کی تمام سہولتوں کو استعمال کرنے والے، ہر ممکنہ وسیلے کے نزدیک،  بغیر ریش اور باریش افراد جو میڈیا کی لائم لائٹ میں رہنے کے چسکے سے آشنا ہیں یا روزانہ کی بنیاد پہ کپڑا بیچنے والا، سبزی بیچنے والا ، کینو بیچنے والا۔
امریکہ میں ایک سروے کے مطابق ، کم از کم بیس فی صد امریکی افراد اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ صدر باراک حسین اوبامہ مسلمان ہیں۔ جبکہ ہم پاکستانی جانتے ہیں کہ اوبامہ ہر اتوار کو چرچ اپنی ہفتے وارعیسائ عبادت کے لئے جاتے ہیں۔ اور در حقیقت وہ مسلمان نہیں بلکہ عیسائ ہیں البتہ انکے والد مسلمان تھے۔
میں نے ایک امریکی شہریت کے حامل پاکستانی سے پوچھآ، لیکن اتنے زیادہ امریکی اتنا غلط کیوں سوچتے ہیں جبکہ وہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ  امریکیوں کی بڑی تعداد سنجیدہ چیزیں نہیں پڑھتی بلکہ ریئلیٹی ٹی وی جیسے پروگرامز کی اسیر ہے۔ ایک امریکی گھر میں ہر وقت ٹی وی چلتا ہے۔  جو لوگ اس سے کوئ خبر حاص کرنا چاہتے ہیں وہ بھی نہیں حاصل کر پاتے کیونکہ میڈیا کی ترجیح لوگوں کو درست  خبریں دینا نہیں، انہیں ٹُن رکھنا ہے۔ ہمم، اسی لئے تو امریکی حیران ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں۔ اور جب ہم میڈیا پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک اور چیز کا داراک ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اردو میڈیا اور انگریزی میڈیا بالکل دو الگ قوموں کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ جنگ اخبار تھا جس میں، میں نے سب سے پہلے ایک کالم نگار کے کالم میں یہ بات پڑھی کہ اب جبکہ دنیا جان گئ ہے کہ پاکستان میں آنے والا زلزلہ اور سیلاب امریکہ کے ہارپ کی وجہ سے آئے ہیں۔ امریکہ کو پاکستان سے معافی مانگنی چاہئیے۔
میں انگریزی اخبار بھی پڑھتی ہوں۔ جب  جنگ جیسے موءقر اردو اخبار میں اس چیز کا باعث ہارپ کو قرار دیا جا رہا تھا۔ اس وقت انگریزی اخبار ڈان میں ملک کے مایہ ناز دو سائینس کے عالموں ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ڈاکٹر ہود بھائ کے درمیان اس بات پہ زوردار بحث چل رہی تھی کہ ہارپ ایک ہوّے کے سوا کچھ نہیں۔
حیرت تو ہوتی ہے کہ ان دو عالموں نے کسی اردو اخبار کو اس پہ بحث کرنے کے لئے اپنا میدان نہیں چنا۔
یہی نہیں، اگر ہم اتوار کے دن کا جنگ  اور ڈان میگزین اٹھائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اردو اخبارات کس قدر کم معیار کے مضامین لکھتے ہیں اور انکی ہمیشہ ایک خاص سمت ہوتی ہے۔ 
یہی اردو اخبار، اس شدت پسندی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جو پاکستان کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ آخر یہ صحافی کیا کریں ۔ ان کی کیا پیشہ ورانہ تربیت ہے یہ کتنی ریسرچ کرتے ہیں ان میں سے کتنوں نے اپنے آپکو بیرونی دنیا کے علم سے جوڑا ہوا ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو بیرونی مواد کو ترجمہ کر کے اردو میں لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ کرایسس انگریزی صحافیوں کے ساتھ بھی ہے لیکن انہیں انگریزی مواد کو کٹ اینڈ پیسٹ کرنے کی آسانی حاصل ہے۔
ادھر انگریزی اخبار کا فوکس ہمارے ایلیٹس یعنی طبقہ ء اشرافیہ ہے۔ اگر ڈان میں ان دو سائینسدانوں کے درمیان بحث ہوئ تو اس سے ہمارا اردو داں طبقہ انجان ہے۔ انگریزی زبان جاننے کا ایک فائدہ ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں اس وقت جتنا علم کا دھماکا آیا ہوا ہے وہ سب انگریزی میں دستیاب ہے۔ وہ چاہے ادب ہو یا سیاست یا سائینس۔
اردو داں طبقے کی اکثریت تو بم دھماکے کی ہی اصطلاح سے واقف ہے اور ان  تک وہی پہنچ پاتا ہے جو اردو میڈیا انہیں فراہم کر سکتا ہے۔ اردو میڈیا کو عوامی تبدیلی یا ترقی سے دلچسپی نہیں۔ انہیں سینسیشن چاہئیے۔ چاہے وہ مذہب کے نام پہ ملے۔
کتنے ٹی وی اینکر ایسے ہیں جو جدید معلومات یا ریسرچ سے فائدہ اٹھاتے ہوں۔ شاید کوئ نہیں۔ جب ادھر ادھر کی چیزیں ہی اٹھانی ہوں تو آسانی سے جو ملے گا وہی حاضر ہوگا۔ اور اردو میں آسانی سے مذہب سے متعلق کتابیں ہی دستیاب ہیں چاہے وہ درست نکتہ ء نظر سے لکھی گئ ہوں یا غیر درست۔
ایلییٹس یا طبقہ ء اشرافیہ نہیں چاہتے کہ عام آدمی ان جیسا معیارزندگی رکھے یا ان جیسی معلومات ہی رکھ لے۔ وہ اس بات پہ ہنس سکتے ہیں کہ پاکستانی کتنے بے وقوف ہیں کہ زلزلے کو ہارپ کا لایا ہوا سمجھتے ہیں لیکن وہ اس قوم کو اردو میں ہارپ کے متعلق بتانے کی جدو جہد میں نہیں پڑیں گے۔
قوم اردو سمجھتی ہے اسے اردو میں جو مواد اور ذہن مل رہا ہے وہ اسی کے مطابق سوچتی ہے۔ اردو میں زیادہ تر مذہبی لٹریچر دستیاب ہے۔ کوئ ایک معیاری سائینس کی کتاب نہیں۔ پاکستان میں گذشتہ دس سالوں میں اردو ادب میں کوئ معیاری ناول یا ادیب سامنے نہیں آیا۔ ہمارے آج کے نوجوان کو بھی اشفاق احمد کو ہی پڑھنا پڑ رہا ہے۔ فیس بک پہ دھڑا دھڑ اشفاق احمد کے اقتباسات دستیاب ہیں۔
آجکے عہد میں کون اردو ادب لکھے گا۔ شاید کوئ نہیں۔ کیونکہ معاشرہ جب اظہار کے خوف سے گذر رہا ہو اور لوگ ایک دوسرے کو زبان درازی سے رکنے کی تلقین کر رہے ہوں تو اس صورت میں کس میں جراءت ہوگی کہ حقیقت لکھے فکشن کی صورت میںُُ۔ انگریزی داں طبقے کی عوامیت اتنی کم ہے کہ وہ پاکستان سے متعلق پُر اثر ادب شاید ہی لکھ پائے۔ اشرافیہ، بس نوم چومسکی، ڈکنس اور دستوووسکی اور دیگر فلسفہ ء حیات کو پڑھ کر اپنے ڈرائینگ رومز کی ڈسکشنز کو مزےدار بناتے ہیں۔
تو جب ایک شخص دوسرے کو قتل کرتا ہے۔ اور ملک میں جس طبقے کو یعنی عدلیہ کو عدل اور انصاف پھیلانے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے وہ اس قاتل پہ پھول نچھاور کرتے ہیں تو ہمیں کیوں حیرت ہوتی ہے۔
جب ملک میں طبقاتی تعلیمی نظام چلے گا تو نتیجہ وہی ہوگا جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔اردو میڈیا کہتا ہے کہ جب جمہور کی بات کے خلاف کام ہوگا تو کسی کا قتل ہونا کوئ ایسی بری بات نہیں۔ کیونکہ جمہور ہم ہیں اس لئے ہم جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے۔ انگریزی میڈیا اپنے ڈرائینگ روم میں دنگ بیٹھا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
ادھر میں  پتھارے والے کے مسجد سے واپس آنے کے انتظار میں بازار میں ادھر اُدھر گھوم کر جن  کو دیکھ رہی ہوں، یہ کون ہیں جمہور یا جانور؟