Showing posts with label تاریخ فلاسفۃ الاسلام. Show all posts
Showing posts with label تاریخ فلاسفۃ الاسلام. Show all posts

Friday, March 12, 2010

جابر بن حیان، الکندی اور نالاں چچا جان

اس کے باوجود دورِ حاضر ميں تھوڑی سی موجود تاریخ کا ہی مطالعہ کيا جائے تو يہ حقيقت عياں ہو جاتی ہے کہ اعلٰی سطح کا پہلا مسلمان فلسفی يعقوب ابن اسحاق الکندی [800ء تا 873ء] نہيں تھے بلکہ ابو موسٰی جابر ابن حيّان تھے جو وسط آٹھويں صدی عيسوی ميں پيدا ہوئے اور 803ء ميں وفات پائی ۔ ان کا فلسفہ جديد علمِ کيمياء کی بنياد بنا ۔ دوسرے نامور فلسفی ابو عبداللہ محمد ابن موسٰی الخوازمی [780ء تا 850ء] ہيں جنہوں نے لوگرتھم اور ايلوگرتھم ۔ الجبراء اور عربی کے ہندسوں کا استعمال کرتے ہوئے اعشاریہ نظام کے نئے علم دريافت کئے ۔ مزيد يہ کہ صفر کو قيمت عطا کی ۔ يہی وہ فلسفہ اور عِلم ہے جو عصرِ حاضر کی کمپيوٹر اور ڈيجيٹل ٹيکنالوجی کی بنياد بنا ۔ اگر يہ علوم نہ ہوتے تو آج نہ کمپيوٹر ہوتا اور نہ ڈيجيٹل ٹيکنالوجی
يعقوب ابن اسحاق الکندی کا نام تيسرے نمبر پر آتا ہے
یہ ہے اس تحریر کا کچھ حصہ  جو غالباً میری اس تحریر کو غلط ثابت کرنے کے لئیے لکھی گئ ہے۔ جس میں، میں نے کندی کو دنیائے اسلام کا پہلا فلسفی لکھا۔ جذبات کے زور مِں جابر بن حیان کو کندی سے بڑھکر ثابت کرنے میں تین باتوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اول یہ کہ کسی بھی شخص کے پہلے پیدا ہوجانے کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ وہی اب ہر چیز میں پہلا کہلائے گا۔  دوسرے یہ کہ دنیا میں دھند میں لپٹی ہوئ جابر بن حیان کی شہرت  بنیادی طور پہ ایک فلاسفر کے نہیں بلکہ کیمیاداں کی حیثیت سے ہے۔ انہیں کیمیاء کی دنیا میں کئے گئے انکی عظیم خدمات کی وجہ سے بابائے کیمیا کہا گیا کیونکہ انہوں نے کیمیا میں تجرباتی سائینس کی بنیاد رکھی۔  یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ کیمیا کا شمار فطری  یا نیچرل سائینس میں ہوتا ہے ۔ تو تیسری بات یہ بنی کہ فلسفہ خالص بنیادوں میں سائینس نہیں ہوتا اور نہ علم ریاضی کہ ریاضی کی مہارت رکھنے والے شخص کو ایک بلند فلسفی تصور کر لیا جائے۔ فلسفے کا بنیادی تعلق انسان اور کائنات کے مابین رشتے کو انسان کی ماہیت، ذہن اور اسکی استعداد، انسانی اقدار اور انکی وجوہات اور زبان کی ماہیت سے معلوم کرنا ہے۔
  فلسفے کی دنیا میں، یونانی فلسفے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مسلمانوں نے یونانی فلسفے سے استفادہ حاصل کیا۔ فلسفہ لفظ بھی یونانی زبان سے ہی نکلا ہے۔  ارسطو کو اس میدان میں استاد تسلیم کیا جاتا ہے اور کتاب تاریخ فلاسفۃ الاسلام میں کندی کو  نہ صرف مسلمانوں میں پہلا فلسفی کہا گیا ہے بلکہ وہ پہلے مسلمان  عرب فلسفی ہیں جنہوں نے ارسطو کی تصنیفات پہ شرحیں لکھیں اور وہ پہلے عرب فلسفی ہیں جو اسکی تصنیفات کے شارح ہیں۔ لیکن ہمارے محترم بلاگر نے اس تمام چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بیک جنبش انگلی اس بات کو غلط کہہ دیا کیونکہ انکی خواہش صرف مجھ ناچیز کوغلط کہنے کی ہوتی  ہے اور اپنی اس تسکین میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو حوالے میں اپنی تحریروں کیساتھ دیتی ہوں انکی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ اب یہ کتاب تاریخ فلاسفۃ الاسلام بس یونہی سی کتاب نہیں جسکا ترجمہ کرنیکی صعوبت ایک پی ایچ ڈی استاد نے اٹھائ۔ لیکن بہر حال زمانہ ء ہذا کے پی ایچ ڈیز کس گنتی میں ہیں۔  محترم بلاگر صرف قرون وسطی کے مسلمان سائینسدانوں کو ہی اس سند کا حقدار سمجھتے ہیں جو اس زمانے کا رواج نہ تھا۔ یا ان لوگوں کو جو نظریاتی طور پہ ان جیسے ہیں جیسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ایک عظیم پی ایچ ڈی خاتون۔ اگر عافیہ نے یہ کہا ہوتا کہ کندی پہلا عرب فلسفی ہے تو پھر کوئ پریشانی نہ ہوتی، انکا کہا سر آنکھوں پہ۔ لیکن افسوس، وہ اس وقت تاریخ کے زیادہ اہم کام میں مصروف ہیں۔ اور اس طرح کے بے کار کے کام میرے جیسے نا ہنجار لوگ کر کےتاریخ کو ، خاص طور پہ مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ وقت کسی عظیم انسان کا انتظار نہیں کرتا، کہ وہ فارغ ہو توایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی وہی کرے۔
 خیر، اس کتاب  میں سلیمان ابن حسان کا بیان ہے کہ مسلمانوں میں کندی کے سوائے کوئ فلسفی نہ تھآ۔ اس سے مصنف نے یہ مراد لی کہ وہ مسلمان فلسفیوں میں پہلے تھے۔ یاد رہے کہ اس کتاب کے عرب مصنف ہمارے ان بلاگر ساتھی سے زیادہ استعداد اور مہارت رکھتے ہیں اس میدان میں اس لئیے انہوں نے اس پہ کتاب کو لکھنے کی جراءت کی اورانکی اس جراءت کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اسکا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔
اسی کتاب کے مطابق، ارسطو کا شارح ہونے کی حیثیت سے کندی کو شرف تقدم حاصل ہے۔ کندی کی تالیفات مختلف علوم مثلاً فلسفہ، علم، سیاسیات، اخلاق، ارثما طیقی، علم کرویات، موسیقی، فلکیات، جغرافیہ، ہندسہ، نظام الکون، نجوم، طب، نفسیات العادیات پہ مشتمل ہے۔ مزید حوالہ جات حاضر ہیں جن میں کندی کی پہلے عرب فلسفی کی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔ اور انہیں بابائے عرب فلاسفی بھی کہا گیا ہے۔


اس کتاب  تاریخ فلاسفۃ الاسلام میں جن اہم مسلمان فلسفیوں کا تذکرہ کیا گا ہے وہ مصنف کے نزدیک وہ نہیں جو ہمارے محترم بلاگر سمجھتے ہیں۔ اس میں ان عرب عالم کی ان علماء سے ذاتی بغض یا انکی کم علمی شامل ہوگی۔ جسے میں نے مستند جان کر اخذ کیا۔ یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی کہ میں نے اپنے محترم بلاگر سے اس تحریر کو اپنے بلاگ پہ ڈالنے سے پہلے انکی مستند  رائے نہ لی۔
اگر میں نے یہ لکھا کہ امام غزالی کے بعد زوال کا دور شروع ہوا تو یہ میری ذاتی رائے نہیں ہے۔ اس پہ مجھ سے پہلے اس میدان کے ماہرین نے یہ رائے دی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ امام غزالی تھے جنہوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کر کے تقلید پسندی کو رواج دیا۔ کوئ بھی تحریک یا نظریہ اچانک ہی زوال پذیر نہیں ہو جاتا ایسے ہی جیسے عروج اچانک حاصل نہیں ہوجاتا۔ امام غزالی نے اسلامی فکر پہ سے یونانی فلسفے کی چھاپ کو ختم کرنے کی کوشش کی اور فلسفے کو ناپسندیدہ بنا دیا۔ انکے مقلدین نے اس طرز کو جاری رکھا۔ ہر نظرئے کے اثرات کچھ عرصے بعد ہی سامنے آتے ہیں۔ ابن رشد نے انکی اس انتہا پسندی کی رد میں لکھا۔ لیکن بہر حال مختلف وجوہ کی بناء پہ ابن رشد کی کتابیں اس طرف نہیں بلکہ مغرب میں پہنچیں۔ امام غزالی کا اثر چلتا رہا اس دوران سائینس یعنی تجرباتی سائینس پہ لوگوں نے اپنے تئیں کام کیا لیکن یہ  اس رو کا اثر تھا جو ایک دفعہ شروع ہوئ تو حالات ناسازگار ہونے پہ بھی اپنے ثمرات دیتی رہی۔ ابن رشد کے تقریباً سو سال بعد ابن خلدون نے تاریخ کے سفر سے فلسفے کی طرف قدم رکھا اور فلسفہ ء تاریخ وجود میں آیا۔ یہ اس زمانے کے لحاظ سے ایک نئ سوچ تھی اس لئیے ابن خلدون کو زوال کے زمانے کا فلسفی کہا گیا۔ اور میرے محترم بلاگر ساتھی  یہ بھول گئے کہ یہ  بھی میری ذاتی رائے نہیں تھی بلکہ یہ نہ صرف تاریخ فلاسفۃ السلام کے عرب مصنف کا خیال ہے بلکہ ڈاکٹر انور سدید صاحب بھی اسی خیال کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے فاضل ساتھی کو تو پی ایچ ڈیز پسند نہیں تو اب ڈاکٹر انور سدید کا کیا کریں۔
 یہ کہنا کہ مسلمان سائینسدانوں نے یہ کیا اور وہ کیا۔ میں نے اپنی ان تحریروں میں یہی کہنے کی کوشش کی ہے کہ علم کسی کی جاگیر نہیں ہوتا اسی کا ہوتا ہے جو اسے حاصل کرتا ہے۔ مسلمانوں نے کسی وحی یا کرامت کے ذریعے یہ علم حاصل نہیں کیا تھا بلکہ اس وقت تمام اقوام عالم کے پاس جو بھی علم تھا پہلے اسے حاصل کیا اور پھر اس پہ کام شروع کیا۔ جیسےریاضی کا صفر ہندوءوں سے لیا گیا تھا۔
کاغذ، چینیوں نے تیار کیا تھآ، عرب پہنچا تو عربوں نے اسے بنانے کا طریقہ آسان کیا اور کوالٹی بہتر کی، گن پاءوڈر، چینیوں کی ایجاد ہے جسے مزید ترقی اور پھیلاءو عربوں کی وجہ سے ہوا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو چین، اپنے علمی ذخیرے کی بنیاد پہ دنیا کی سب سے قدیم تہذیبوں میں ہوگا۔
 فاضل مصنف نے ایک جگہ لکھا کہ بہادری اپنی غلطی تسلیم کرنے میں ہے کیا مجھے توقع رکھنی چاہئیے کہ وہ اس بہادری کا مظاہرہ کریں گے۔
 یہ تمام معلومات ان لوگوں کے لئیے ہیں جنکے ذہن مِں اس سلسلے میں شبہات پیدا کئیے گئے۔ باقی یہ کہ جو حوالے میں اپنی تحریروں کیساتھ دیتی ہوں اگر پڑھنے والے ان پہ سے ایک نظر گذر جائیں تو حقائق زیادہ واضح ہو جائیں گے۔ کیونکہ بلاگ جیسی محدود جگہ پہ بہت زیادہ تفصیل سے بات ممکن نہیں۔

حوالہ جات؛
جابر بن حیان


Tuesday, February 9, 2010

نئے افکار کا حصول اور انکی ترویج-۳

اخوان الصفاء نے اپنے فرقے میں شامل لوگوں کو اس بات کا پابند کیا کہ انکی خاص مجالس ہوں۔ اوقات معینہ پہ ہونے والی ان مجالس میں کوئ اجنبی شرکت نہ کرے۔ اس میں وہ اپنے علوم پہ بحث کریں اور انکے اسرار پہ گفتگو ہو۔انکی بحث کے موضوعات علم نفس، حس محسوس، عقل معقول کے علاوہ کتب الہٰیہ، تنزیلات نبویہ کے اسرار اور مسائل شریعت کے معنی نیز ریاضی، عدد ہندسہ، نجوم، تالیف ہوا کرتے تھے۔
اپنے پیروکاروں کے لئیے انکا کہنا تھا کہ کسی علم سے نفرت نہ کریں، کسی کتاب کا مطالعہ ترک نہ کریں اور نہ کسی مذہب سے تعصب برتیں۔ کیونکہ اخوان الصفاء کا مذہب تمام مذاہب پہ حاوی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اس فریبی دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں جو علماء کا جامہ پہن کر اہل دین کا دھوکا دیتے ہیں وہ نہ فلسفے سے واقف ہوتے ہیں اور نہ شریعت کی انکو تحقیق ہوتی ہے۔ آگے ان لوگوں کی مزید خصوصیات بیان کرتے ہوئے جو کہ اس مضمون کو طویل کر دیں گی وہ کہتے ہیں ان لوگوں سے احتراز کیا جائے۔ انکا کہنا تھا کہ فرسودہ بوڑھوں کی اصلاح میں کوشاں نہ ہوں۔ یہ لوگ بچوں جیسے فاسد  اور ردی خیالات رکھتے ہیں اور تمہیں پریشان کریں گے۔ اور اپنی حالت کی اصلاح بھی نہ کریں گے۔  نصیحت سلیم الطبع نوجونوں کے لئے ہے۔ اللہ نے ہر نبی کو نوجوانی میں نبوت عطا فرمائ اور اپنے ہر بندے کو اس وقت حکمت دی جب وہ عالم شباب میں تھا۔
اخوان الصفاء نے اپنے پیروکاروں کے عمر کے حساب سےچار درجے متعین کئیے۔
اہل صنعت؛ انکی عمر پندرہ سال کے قریب، یہ پہلے مرتبے کے لوگ ہیں  جنکی خصوصیات، نفس کی صفائ، حسن قبول، اور سرعت تصور ہے۔ انہیں 'ابرار'کہا جاتا تھا۔
اہل سیاست؛ انکی خصوصیات بھائیوں کی مراعات، سخاوت نفس، شفقت، رحم ہیں۔ یہ خصوصیات تیس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہیں۔ اس مرتبے کے لوگوں کو 'اخیار اور فضلاء' کہا جاتا تھا۔
بادشاہ؛ یہ تیسرا مرتبہ تھا جو چالیس سال کی عمر میں حاصل ہوتا تھا اسکا تعلق امر و نہی امداد، دفع عناد اور دشمن سے مقابلے کے وقت اسکی مخالفت کو نرمی، لطف اور مدارت کے ذریعہ دفن کرنے پہ ہے۔ انہیں 'فضلائے اکرام' بھی کہا جاتا تھا۔
نبی اور فلسفی؛ یہ تسلیم اور تائید الہی کو قبول کرنا اور حق تعالی کا اعلانیہ مشاہدہ کرنا ہے۔ چونکہ معراج کا واقعہ لگ بھگ اسی عمر میں ہوا تھا تو یہ پچاس برس کی عمر والوں کو تفویض کیا گیا۔ اسکے ذریعے انسان عالم ملکوت کی جانب پرواز کرتا ہے اور قیامت کے حالات جیسے نشر، حشر، حساب، میزان، صراط، دوزخ اور خدائے تعالی کے قرب کا مشاہدہ کرتا ہے۔ انکو ملائکہ بھی کہا جاتا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ فیثا غورث نے اپنے رسالہ ذہبیہ کے آخر میں اسی طرف اشارہ کیا کہ۔'اگر تو میری ہداہت پہ عمل کرے تو جسد سے علیحدہ ہونے کے بعد ہوا میں باقی رہیگا۔ نہ تو پھر اس دنیا میں لوٹے گا نہ تجھ پہ موت کا حملہ ہو گا'۔
تو جناب میں اخوان الصفاء کے فلسفے کی تفصیل میں جائے بغیر ان کی یہ دلچسپ کہانی یہاں ختم کرتی ہوں۔ لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسان کی عقلی قوتوں کو کھنگالنے کا کام آ ج سے ہزاروں برس پہلے بھی کیا گیا اور خود مسلمانوں  میں سے بھی کئ گروہ اس طرف تمام تر سختیوں اور پابندیوں کے باوجود متوجہ ہوئے۔ اب ہمیں سرسید کی خدمات کا جائزہ لینے سے پہلے یوروپ کے دور تاریک اور وہاں پیدا ہونے والے رد عمل پہ ضرور نظر ڈالنی چاہئیے کہ یہ ہمارے ایک مبصر کی صائب رائے ہے۔ لیکن اس سے پہلے میں سوچتی ہوں کہ اپنے کچھ قارئین کی دل پشوری کا سامان کروں کہ وہ تھک گئے ہونگے۔ ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہیں۔ دنیا آواتار دیکھ رہی ہے اور آپ اخیار کا تذکرہ کر رہی ہیں۔

 جاری ہے۔

حوالہ جات؛
کتاب 'تاریخ فلاسفۃ الاسلام'، مصنف محمد لطفی جمعہ۔

Sunday, February 7, 2010

نئے افکار انکا حصول اور انکی ترویج-۲

فلسفہ ، اگر انسانی مشاہدات کو عقل کی کسوٹی پہ پرکھنے کا نام ہے تو سائینس ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور اس میں تجربے کو بھی شامل کر دیتی ہے ۔ 
دور عباسی میں فلسفے کو بڑی اہمیت حاصل ہوئ خلیفہ مامون ا لرشید نے فلسفے کی کتابوں کا ترجمہ عربی میں کرایا۔ اطباء نے اس میں بالخصوص دلچسپی لی۔ اس زمانے میں فلسفیوں کو الحاد کا الزام دیا جاتا تھا اور  فلسفہ اس قدر    کفر کے مماثل تھا کہ ابن تیمیہ نے اسکے متعلق لکھا کہ' میں نہیں سمجھتا کہ خدائے تعالی مامون سے غافل رہیگا۔ بلکہ اس نے امت پہ جو مصیبت نازل کی ہے اسکا ضرور اس سے بدلہ لیگا'۔
ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اہل فلسفہ اپنے خیالات کوچھپانے لگے اور یوں کئ خفیہ تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان میں سے ایک اخوان الصفاء ہے۔ جن لوگوں کو جاسوسی کہانیوں سے دلچسپی ہے انہیں یہ ساری حقیقت بھی خاصی دلچسپ لگے گی کہ انکے اجلاس پوشیدہ ہوا کرتے تھےجن میں فلسفے کی مختلف اقسام پہ گفگتگو ہوتی تھی۔ اس میں یونان، فارس اور ہند کے فلسفوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد انہیں اسلام کی روح میں ڈھالا گیا تھا۔
انکا خیال تھا کہ شریعت اسلامیہ جہالت اور گمراہی سے آلودہ ہو گئ ہے۔ اور اسکی صفائ صرف فلسفے سے ہی ممکن ہے۔ اور جس وقت فلسفہ ء یونان اور شریعت محمدیہ میں امتزاج پیدا ہو جائیگا تو اس وقت کمال حاصل ہوجائے گا۔
  ان تمام خیالات کا مجموعہ باون رسائل کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جنکا نام ' رسائل اخوان الصفاء' رکھا گیا۔ البتہ ان فلسفیوں کے نام پوشیدہ رکھے گئے۔
 یہ رسائل اپنے مولفین کی کامل غوروفکر اور انہماک کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور ان میں اتنے جدید خیالات بھی پائے جاتے ہیں جنکی اس زمانے میں بڑی شہرت ہے جیسے نشو ونما اور ارتقاء کے نظرئیے۔
 یہ رسائل معتزلہ اور انکی تقلید کرنیوالوں نے بھی استعمال کئیے، بعد ازاں یہ  قرطبہ لیجائے گئے۔
یہ رسائل بمقام لینبرگ ۱۸۸۳ میں طبع ہوئے اور بمبئ میں ۱۸۸۶ اور مصر میں ۱۸۴۹ اور لندن میں ۱۸۶۱ میں طبع ہوئے۔ انکا ہندوستانی زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا۔
ان رسائل کی چار بنیادی قسمیں ہیں۔
اول: چودہ رسالے ریاضی کے متعلق
دوئم: سترہ رسالے طبعی جسمانییت سے متعلق
سوم: دس رسالے عقلی نفسیات سے متعلق
چہارم:  گیارہ رسالے احکام الہی سے متعلق
  میں انکی تفصیلات میں جانے سے گریز کرتی ہوں لیکن یہ بتاتی چلوں کہ ان باون رسالوں میں انتہائ تفصیل سے دنیا کے تقریباً ہر موضوع پہ گفتگو کی گئ ہے۔
انہوں نے اپنے علوم کے ماخذ چار قسم کی کتابوں کو قرار دیا۔ ایک تو وہ کتب جو ریاضی اور طبیعیات میں حکماء اور فلاسفہ کی تصنیف کردہ ہیں۔ دوسری وہ جو انبیاء علیہ السلام پہ نازل ہوئیں۔تیسری طبیعیات کی وہ کتابیں جن میں کائنات میں موجود چیزوں کی اشکال اور انکی مختلف قسموں پہ بحث کی جاتی ہے اس مین فلک سے لیکر نباتات، حیوانات اور انسان بھی شامل ہے۔ اور چوتھی وہ کتب الہی جنکو صرف پاکیزہ سرشت ملائکہ ہی چھو سکتے ہیں اور جو بزرگ نیکوکار فرشتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اور ان میں انسان کی تقدیر و تدبیر و تحریک  سے لیکر اسکے اعمال تک بحث میں آتے ہیں۔
یہاں تک آتے آتے میں حیران ہوتی ہوں کہ آج سے تقریباً گیارہ سو سال پہلے کسی گروہ نے اتنے نظم وضبط کے ساتھ اتنے نا مصائب حالات میں کیسے کیسےعقلی کارنامے انجام دئیے۔
اخوان الصفاء پہ گفتگو جاری ہے۔
حوالہ؛
کتاب، 'تاریخ فلاسفۃ السلام ' مصنف  محمد لطفی جمعہ۔