Showing posts with label دھرنا. Show all posts
Showing posts with label دھرنا. Show all posts

Sunday, May 22, 2011

عِمّی ڈارلنگ

 میں سگنل کے سرخ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئ اپنی لین کے کھلنے کا انتظار کر رہی تھی کہ میرے کانوں سے میگا فون پہ ابھرنے والی آواز ٹکرائ۔ آج ہمیں پاکستان کو بچانے کے لئے نکلنا ہے۔ ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت پہ حملہ ہیں۔ تقریباً دس گز لمبائ پہ پھیلے شامیانے، چار میزوں اور آٹھ کرسیوں کے ساتھ تین افراد موجود تھے۔ پیغام دینے والا، پشتون لب و لہجے میں عوام کے جذبات ابھارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور رات کے ساڑھے آٹھ بجے سگنل کے اطراف میں موجود درجنوں منی بسوں میں اور انکی چھتوں پہ سوار  چند افراد اسے خالی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ یہ سب دن بھر کی تھکن لے کر گھر جا رہے تھے اور اس خیال سے لرزاں تھے کہ گھر میں ایک مہیب اندھیرا، بچوں کا رونا دھونا، پانی کا نہ ہونا، کھانے کی فکرات یہ سب انکی آمد کی منتظر ہونگیں۔
میرے سامنےبالکل آگے ایک سوزوکی میں کسی گارمنٹ فیکٹری سے واپس آنے  والی مفلوک الحال خواتین  بھی اسی اس فکر میں غلطاں تھیں۔ تھکن انکے چہرے کا مستقل حصہ تھی۔ ان میں سے کسی نے جھانکنے کی بھی زحمت نہیں کی کہ کیا اعلان ہو رہا ہے کون پاکستان کی سالمیت پہ سودا نہیں ہونے دے گا۔ انکا مسئلہ یہ نہیں ہے۔
اس سے ایکدن پہلے بھی میں اس سگنل پہ موجود تھی۔ اس دن جیسے ہی میں نے سگنل کھلنے پہ اپنا راستہ لیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ آگے ٹریفک جام ہے۔ اس روڈ پہ عام طور پہ کم ٹریفک ہوتا ہے اس وقت۔ میں نے خطرہ محسوس کرتے ہی گاڑی کو روڈ کے بائیں جانب کیا۔ اور جو پہلی گلی نظر آئ اس میں لے لی۔ آگے جا کر پتہ چلا کہ آگے بنارس چوک پہ شدید احتجاج جاری ہے۔ بنارس چوک کے چاروں طرف پشتون آبادی ہے۔ وہ احتجاج کر رہے تھے  پاکستان کی سالمیت  یا ڈرون حملوں کے لئے نہیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف۔ چوبیس گھنٹوں سے بجلی نہیں تھی۔
لوڈ شیڈنگ، کراچی جیسے صنعتی شہر کے لئے ڈرون حملوں جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ اور یہ حملے امریکہ کی طرف سے نہیں ہماری معیشت کی بد حالی اور ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔
چونکہ بعض حلقوں کی طرف سے یہ پیشن گوئ شدو مد سے کی جا رہی ہے کہ اگلا الیکشن عمران خان بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے۔ خود عمران خان بھی اس بارے میں خاصے پُر یقین ہیں کہ وہ بھٹو کی طرح الیکشن کا منظر نامہ تبدیل کر دیں گے۔ اب یہ تو مستقبل بتائے گا۔ لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ  بھٹو کے بر عکس عوام سے زیادہ خواص میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ وجہ انکی غیر دیسی شہرت ہے۔ خواص کو دیسی نہیں غیر دیسی چیزیں زیادہ پسند آتی ہیں۔
 میری دلچسپی بھی اس میں تھی کہ عمران خان کراچی میں کیسا دھرنا دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگرچہ مجھے اس بات پہ بھی حیرت ہوتی ہے کہ ڈرون حملوں پہ دھرنا دینے والے رہنما خودکش حملوں پہ ایک بھی ریلی نہیں نکال پاتے۔
میرے ایک عزیز فیصل آبادی  دوست نے پوچھا کہ آخر آپ عمران خان کو کیوں ووٹ نہیں دینا چاہتیں۔ نیو جنریشن، آجکی یوتھ اسکے ساتھ ہے۔؟ نیو جنریشن، میں نے ان سے کہا۔ نیو جنریشن اگر پرانی جنریشن کی ڈکٹو کاپی ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئ ابا جی، چا چا جی موجود ہیں یا کوئ  علی  اور عِمّی موجود ہے۔ ابا جی اور چاچا جی کو جماعت اسلامی اور نواز شریف پسند تھے ، اپنے دینی رجحان کے باعث۔ بچوں کوعمران خان پسند ہے اسی قسم کے دینی رجحان کے باعث البتہ یہ کہ وہ ظاہراً ایک ماڈرن حلیہ رکھتے ہیں۔ آخر یہاں یوتھ ، زید حامد پہ بھی اسی وجہ سے فدا ہے۔
اچھا انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تو پھر کس چیز سے فرق پڑتا ہے۔؟  فرق پڑتا ہے پارٹی ایجینڈا سے۔ اور معاف کیجئیے گا کہ انکے پاس سوائے اس نعرے کہ کہ یوتھ ہمارے ساتھ ہے اور کوئ قابل ذکر نعرہ نہیں۔
وہ کرپٹ نہیں ہے'۔ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ابھی انہیں اتنا اختیار کہاں ملا ہے۔  سوائے اسکے کہ وہ اپنا ذاتی ہسپتال کامیابی سے چلاتے ہیں. اور کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنا کاروبار بہترین طریقے سے چلاتے ہیں۔  اپنی انفرادی حیثت میں کرپٹ نہیں ہیں اور معاشرے کے پریشان حال لوگوں کے لئے کوشاں ہیں مثلاً ایس آئ یو ٹی کے ڈاکٹر ادیب رضوی۔
کہنے لگے کہ ایجینڈا کیا ہوتا ہے؟ وہ امریکہ کے خلاف ہیں، اسلام کے نفاذ میں دپچسی رکھتے ہیں، کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں ۔ آکسفورڈ سے پڑھے ہوئے ہیں، دنیا دیکھی ہے۔ میں ہنستی ہوں، آکسفورڈ کی پڑھی ہوئیں تو بے نظیر بھی تھیں انکا بیٹا بھی وہیں پڑھ رہا ہے ہمارے طبقہ ء اشرافیہ کے بچے ملک سے باہر ایسے ہی اداروں میں پڑھتے ہیں۔
دنیا دیکھنے کے باوجود انکی ذہنی کیفیت ایک ٹین ایجر لڑکے جیسی ہی ہے۔ پیغمبری حاصل کرنے والی عمر میں انہیں اسلام یاد آیا وہ بھی وہ اسلام جو انکی والدہ نے انکے اندر بچپن میں ڈالا تھا۔ اور اب پچھلے کچھ عرصے سے امریکہ سے نفرت بھی کر رہے ہیں کچھ اس طرح کے اپنے ہسپتال کے لئے فنڈ وہیں سے جمع کر کے لاتے ہیں۔ امریکہ سے نفرت کا اظہار دائیں بازو کی سیاست کا اہم حصہ ہے۔ اس میں کوئ ویژن نہیں ہے۔ ملک میں اس وقت اتنے زیادہ لوگ اسلام کے نفاذ کے لئے کام کر رہے ہیں اس میں سے ایک وہ بھی سہی۔ چلیں سب ذاتی اعمال، کمزوریاں اور جھکاءو ایک طرف رکھ دیں۔ ان کا پارٹی ایجنڈا کیا ہے؟ کیا آپکو معلوم ہے؟
اسکے بعد ہماری گفتگو ایک دوسرے کو کچھ اخلاقی پند و نصائح پہ ختم ہو جاتی ہے۔
میں دھرنے والے دن کافی منتظر رہی کہ کوئ اطلاع آئے۔ چینلز خاموش رہے اگر اطلاع آئ تو یہ کہ پاکستان کی تاریخ میں واحد دھرنا جس میں ڈیزائینر کے کپڑے پہننے والوں نے سب سے زیادہ شرکت کی۔ لیکن انکی یہ شرکت بھی مغرب کے بعد ہی ممکن ہو سکی۔
کل کراچی میں چوالیس ڈگری درجہ ء حرارت تھا۔ ہماری یہ مار ڈالنے والی مرطوب گرمی بڑی شہرت رکھتی ہے۔ اس میں ڈیزائینر کے کپڑے پہننے والے اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھنے والے  مغرب کے بعد بھی اپنے ایئر کنڈیشنڈ گھروں کو چھوڑ آنا اہمیت رکھتا ہے۔ ادھر سنی تحریک نے بھی اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ اسکے علاوہ مذہبی جماعتوں  مثلاً جماعت اسلامی  نے بھی شرکت کی۔ اور یوں اندازہ ہے کہ رات دس بجے دھرنے میں پانچ سے آٹھ ہزار لوگوں موجود تھے۔ یہ اندازہ ڈان چینل نے لگایا۔ صبح دس بجے پنڈال خالی تھا ایک دم غریب کی جیب کی طرح۔ اطلاع ہے کہ شام کو چار پانچ بجے گرمی کم ہونے پہ دھرنا دوبارہ شروع ہوگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں میں مرنے والوں کی زندگی ، دھرنا دینے والوں کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔
پونے دو کروڑ آباد رکھنے والا شہر، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ چالیس لاکھ کی پشتون آبادی رکھتا ہے۔ وہ پشتون آبادی جو ڈرون حملوں سے براہ راست متائثر ہے۔ وہ پشتون آبادی جسکے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ زیادہ مذہبی رجحان رکھتی ہے وہ پشتون آبادی جسکے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ زیادہ امریکہ مخالف ہے۔ اس میں سے اگر ایک فیصد لوگ بھی اس میں شامل ہوتے تو مجمع چالیس ہزار سے زائد کا ہوتا۔
اگر دھرنا دینے والے سنجیدہ ہوتے تو دھرنا نیٹِو جیٹی کے پل پہ نہیں نیٹو سپلائ کے راستے پہ ہوتا۔ جو اس پل سے زیادہ دور نہیں۔ 
عمی ڈارلنگ کا بیان آیا کہ آج ثابت ہو گیا کہ پاکستان کے عوام خود مختار پاکستان چاہتے ہیں۔
پاکستان کے عوام کون ہیں وہ جو منی بسوں کی چھتوں پہ سفر کرتے ہیں جنکے گھروں میں چوالیس ڈگری کی گرمی پہ دو دن سے بجلی نہیں ہے یا وہ جنکے متعلق یہ کہا جائے کہ تونے دیکھے ہیں کہاں لوڈ شیڈنگ کے رنگ، تو کبھی میرے گھر اتر شام کے بعد۔ وہ جنکے لئے دھرنا ایک ایڈوینچر ہوگا۔ یا وہ مزدور جنہوں نے دھرنے میں کرسیاں لگا کر مزدوری نہ ملنے پہ ٹھیکے دار کی پٹائ لگادی۔

 عِمّی ڈارلنگ کہتے ہیں کہ عوام خود مختار پاکستان چاہتے ہیں۔
جبکہ  عِمّی ڈارلنگ عوام اس وقت اس عورت کی طرح ہو گئے ہیں جو زندگی کی جنگ میں اپنی عزت اور عصمت بیچنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ جو خودکشی کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہو اسے ڈرون حملوں میں مرنے پہ کیا اعتراض۔