خبر محض خبر نہیں ہوتی۔ ہر خبر اپنے معاشرے کی بہترین عکاس ہوتی ہے۔ جیسے آدم خور خاندان کی خبر۔ رپورٹ کہتی ہے کہ صرف دو تین لوگ نہیں بلکہ پورا خاندان مردہ انسانوں کو کھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ عرصے سے یہ فعل انکے یہاں جاری تھا۔ خاندان کے ایک بچے نے کہا کہ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد میرا باپ میرے جسم کے نازک حصوں کو مجروح کرتا تھا۔ بڑے ہو کر اسے لگا کہ اسکی مردانہ قوت کم ہے سو اس نے مردہ انسانوں کا گوشت کھانا شروع کیا۔ بہر حال رپورٹ لکھنے والے صحافی کے خیال میں ابھی بھی یہ ایک معمہ ہے کہ وہ مردہ انسانی گوشت کیوں کھاتے تھے اور کیوں انکے ارد گرد کے لوگوں نے اتنے لمبے عرصے سے پولیس کو اسکی رپورٹ نہیں کی۔
دوسری خبر اپنے بلاگستان سے ملی یہ لڑکیوں کے کنوارے ہونے سے متعلق ہے۔ جیسا کہ مجھے توقع تھی کہ یہاں پہ یہ ، یہ لوگ موجود ہونگے اور یہ تبصرے ہونگے۔ عین وہی ہوا۔ لیکن حیرانی مجھے وہاں موجود دو تبصروں پہ ہوئ۔
ایک عبداللہ نامی مبصر، جنہوں نے ایک دلچسپ سوال رکھا کہ خواتین کے کنوارے ہونے پہ جتنی دلچسپی دکھائ جارہی ہے اتنی مردوں کے کنوارے ہونے کے ٹیسٹ کے بارے میں کیوں نہیں ہے۔ یہ مخصوص قبائلی مزاج کا طبقہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ کیونکہ بات ہے سمجھ کی یہ وہی طبقہ ہے جو مردوں کی بے راہروی پہ تو فخر فرماتا ہے اور عورت کے حیادار ہونے پہ زور ڈالتا رہتا ہے۔
تف ہے ایسی ذہنیت پہ اور اسکو پروان چڑھانے والوں پہ۔ اور اگر کوئ منصف خدا موجود ہے تو اسے ایسے لوگوں کو انکے قرار واقعی انجام کا مناسب بندو بست کر کے رکھنا چاہئیے۔
خواتین کے کنوارپن کی شادی کے وقت تصدیق ہونی چاہئیے اور مردوں کی نہیں۔ انہیں چھوٹ ہے وہ جتنے استعمال شدہ ہوں چاہے جائز یا ناجائز طریقے سے انکا کنوارہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ واہ، جناب واہ ، آپکی انہی اداءوں پہ درے لگانے کو دل کرتا ہے۔
دوسرا تبصرہ ایک ڈاکٹر صاحب کا ہے۔ حیرت ہے انہوں نے کس ادارے سے میڈیکل کی ڈگری لی ہے۔ میں پی ایم اے والوں سے گذارش کروں گی کہ وہ ایسے ڈاکٹرز کو جو مسیحا ہونے کے نام پہ دھبہ ہیں اور جو انسانیت تو دور اپنے علم سے ہی پوری طرح واقف نہیں انہیں اس طرح کی اہم ڈگریاں دینے سے گریز کرے۔
در حقیقت یہ بات کوئ بھی ڈاکٹر بتا سکتا ہے کہ خواتین کےکنوارے ہونے کے لئے جو خصوصیت بتائ جاتی ہے وہ جہالت پہ مبنی ہے اور بعض خواتین میں یہ محض معمولی بھاگ دوڑ سے ختم ہو سکتی ہے۔
میرے علم میں بھی یہ بات داکٹر شیر شاہ کے ایک مضمون کے حوالے سے آئ جو نہ صرف پاکستان کے مایہ ناز گائناکولوجسٹ ہیں بلکہ دنیا کے ان بہترین سو گائناکولوجسٹس میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی کمیونٹی کی خواتین کی صحت اور ترقی کے لئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
اگر ڈاکٹر شیر شاہ جیسے لوگوں سے دنیا واقف نہ ہوں اور صرف اس بلاگ کے لکھنے والے سے یا اس پہ تبصرہ کرنے والے مردوں سے ملے ہوں تو انکے نزدیک پاکستان صرف ایسے مردوں پہ مشتمل ہوگا جہاں حیوان رہتے ہیں۔
پردہ ءبکارت یا اس سے منسلکہ تمام متھس، قبائلی اقوام کی خصوصیت ہیں۔ صرف یوروپ کے قبائل ہی نہیں ، عرب کے بیشتر قبائل اور پاکستان کے بھی قبائلی علاقوں میں عورت کو اس امتحان سے گذرنا پڑتا ہے۔
البتہ جیسا کہ قبائلی اقوام کی شان ہوتی ہے مردوں کو نیکی کے کسی ایسے امتحان سے نہیں گذرنا ہوتا۔ وہ خدا کے پاس ایڈوانس میں نیکیاں جمع کرا کے آئے ہوتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ تم کنوارے ہوں تو جواب ملے گا کہ ہماری مرضی ہم بتائیں یا نہ بتائیں۔ سوال پوچھنے والا البتہ روشن خیال کی گالی سے نوازا جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ان تمام قبائلی علاقوں کے مرد تو ہر طرح کی عیاشی کر سکتے ہیں مگر انکی عورتیں قابل ترحم زندگی گزارتی ہیں۔ وہ اپنے پوشیدہ امراض کے متعلق کسی عورت تک کو بتانے سے گھبراتی ہیں۔ کیا یہ بات قابل ترحم نہیں کہ ایک عورت اپنے پردء بکارت کا آپریشن کرانے بیٹھی ہو تاکہ اسکی قدر و قیمت برقرار رہے چاہے اسکے حصے میں آنے والا مرد دنیا کا اوباش ترین مرد ہو۔
اگر زانی مرد کسی عورت کے حصے میں آتا ہے تو قرآن کی یہ آیت دہرا دی جاتی ہے کہ زانیوں کے لئے زانی۔ حالانکہ زندگی کا ہلکا سا تجربہ رکھنے والے لوگ بی جانتے ہیں کیسی کیسی پردے دار متقی عورتوں کے شوہر کس قدر آوارہ نکلے۔ اور کیسے کیسے متقی مرد عورت کے معاملے میں آزمائے گئے۔ کیا واقعی یہ لوگ تفیہم قرآن سے واقف ہیں؟
میں اس بلاگ کو پڑھ کر اسکے تبصروں کو جان کر اب تک حیران ہوں کیا جہالت کی کوئ انتہا ہو سکتی ہے۔ کوئ نہیں ہو سکتی۔ نیکی کی انتہا ہو سکتی ہے مگر بدی کی نہیں۔
حضرت عمر کے پاس ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کہ میری بیٹی کنواری نہیں ہے اسکی شادی ہونے جارہی ہے کیا میں اسکے ہونے والے شوہر کے علم میں یہ بات لے آءوں۔ آپ نے فرمایا جس بات کا پردی اللہ نے رکھا اسے تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔ حتی کہ رسول اللہ نے اپنے آخری خطبے میں کہا کہ بچہ جسکے بستر پہ پیدا ہو گا اس کا کہلائے گا۔
صاحب بلاگ کی اس تحریر اور اسکے اعلی تبصروں کی وجہ سے اگر کسی عورت کی زندگی تباہ ہوتی ہے تو یقیناً اسکا گناہ ان سب لوگوں کے سر ہوگا۔ خدا ہمیں انفرادی دین کی اس برتری کے جذبے سے محروم رکھے جو معاشرے کو بدی کا گڑھ بنادیں۔ اللہ ہمیں لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔
یہ وہ دعا ہے جو اکثر اشفاق احمد مرحوم مانگا کرتے تھے اور عجیب بات یہ ہے کہ اسکے سنگین تبصرہ نگاروں میں بابا اشفاق احمد کے چاہنے والے بڑی تعداد میں ہیں۔ ہائے نام نہاد عاشق، عاشق تو دور صرف انسان ہی بن جائیں تو بہت۔
اور ہاں، اب ہمیں اس بات پہ تو قطعاً حیران نہیں ہونا چاہئیے کہ اس آدم خور گھرانے کی خبر ایک لمبے عرصے تک کیوں نہیں ہو سکی۔
اور ہاں، اب ہمیں اس بات پہ تو قطعاً حیران نہیں ہونا چاہئیے کہ اس آدم خور گھرانے کی خبر ایک لمبے عرصے تک کیوں نہیں ہو سکی۔