Showing posts with label لوڈ شیڈنگ. Show all posts
Showing posts with label لوڈ شیڈنگ. Show all posts

Thursday, September 13, 2012

انا للہ

ٹورنٹو میں، میں کچن میں انڈہ فرائ کر رہی تھی۔ فرائ پین  سے دھواں اٹھا ہی تھا کہ ایک الارم بجنے کی آواز سارے گھر میں پھیل گئ۔ میں نے حیران ہو کر سوچا کہ یہ کس قسم کا الارم بجا اور کیوں؟ گھر کے ایک فرد کی آواز سنائ دی کہ کچن کے  باہر لاءونج میں چھت پہ سینسر موجود ہے اسکے پاس بٹن پہ ہاتھ مار دیں۔ الارم بند ہوجائے گا۔ دھویں سے بجا ہے اور بار بار بجے گا۔
کنیڈا میں جنگل اور یوں  لکڑی بہت ہے۔ گھر زیادہ تر لکڑی کے بنے ہوتے ہیں۔ اگر سیمنٹ اور اینٹ سے بنائے جائیں تو بھی اندرونی آرائش میں لکڑی استعمال ہوتی ۰ہے اس طرح شدید سردیوں میں یہ گرم رہتے ہیں۔ لکڑی جلدی آگ پکڑتی ہے اس پہ طرہ یہ کہ بجلی وافر مقدار میں دستیاب ہونے کی وجہ سے چولہے زیادہ تر بجلی کے ہوتے ہیں۔ روائیتی چولہوں سے الگ یہاں موجود جدید چولہوں پہ شیشے کی طرح کے مادے کی ایک تہہ موجود ہوتی ہے۔ یہ چولہے دیکھنے میں اور استعمال میں سادہ ہوتے ہیں  ان سے تپش بھی آسانی سے کنٹرول ہوتی ہے، آگ کے شعلے بھی نہیں ہوتے اس لئے نسبتاً محفوظ ہیں۔  لیکن سب سے بڑا خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب انہیں بند کرنا بھول جائیں۔ مسلسل جلتے رہنے کی صورت میں یہ آتشزدگی کا باعث بن سکتے ہیں اس لئے ہر گھر میں آگ کا الارم موجود ہوتا ہے۔
یہی نہیں، کثیر المنزلہ بلڈنگزمیں نہ صرف الارم موجود ہوتے ہیں بلکہ ہر تھوڑے عرصے بعد آگ لگنے کا مصنوعی ڈرامہ رچا کر مکینوں کو اپنے اپارٹمنٹس سے بھاگ کر کم وقت میں نیچے پہنچنے کی مشق بھی کرائ جاتی ہے۔ ابھی دو ہفتے پہلے میں اسکائپ پہ اپنی ایک کینیڈا میں مقیم دوست سے بات کر رہی تھی تو پھولی ہوئ سانسوں کے درمیان انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی آگ لگنے کی مشق سے واپس آرہی ہیں۔ انکا اپارٹمنٹ گیارہویں منزل پہ ہے۔ جہاں سے انہیں سیڑھیوں کے راستے بھاگنا پڑا۔

ایسی بلڈنگز میں یہ الارم فائر بریگیڈ کے محکمے سے جڑے ہوتے ہیں۔ خطرے کی پہلی علامت کے چند منٹوں کے اندر یہ جائے واقعہ پہ موجود ہوتے ہیں۔ میرے ایک عزیز نے اپنے اپارٹمنٹ میں پوری پکانے کا واقعہ بتایا، جس کا دھواں اپارٹمنٹ سے نکل کر کوریڈور میں پھیل گیا تھا۔ گھر میں موجود کسی مہمان نے نادانستگی میں اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول دیا تھا۔  چند منٹ میں فائر بریگیڈ کی دو گاڑیاں اور ایک ایمبولینس موجود تھی جبکہ پوری بلڈنگ کے لوگ باہر نکال دئیے گئے تھے۔
اصل واقعہ پتہ چلنے کے بعد انہیں ان تینوں گاڑیوں کے آنے جانے کا خرچہ دینا پڑا۔
یہ واقعات بتانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ کراچی میں ایک فیکٹری میں تین سو سے زائد لوگ، فیکٹری میں آگ سے جل کر مر جائیں۔ تین سو انسان جن سے جڑے تین سو خاندان بھی تھے۔ ابھی بھی مرنے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ دماغ کو گھما دینے والے اس سانحے کے بعد مجھ جیسے لوگ جو بیرون ملک یہ سب دیکھ کر آتے ہیں انہیں کیا یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم کس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔
 ذرا چشم تصور سے اس انسان کی بے بسی دیکھئیے جو کہ ایک ایسی کھڑکی کے سامنے تین منزل اوپر سے کود کر جان بچانے کی فکر میں ہو جسکے آگے لوہے کا ایک جنگلہ اسے زندگی سے دور کرنے کے لئے موجود ہو۔ اور دنیا میں کوئ ایسی طاقت، کوئ ایسا نظام موجود نہ ہو جو اسے کھڑکی سے نظر آنے والی،  سامنے موجود کھلی فضا میں لے جا سکے۔
سچ پوچھیں تو مجھ سے اس پہ انا للہ و انا الیہ راجعون بھی نہیں پڑھا جاتا۔ کیا میں خدا کے پاس اس طرح واپس جانا چاہتی ہوں، ایسی بے کسی ، بے بسی اور تکلیف کی موت۔
ہم اس شہر کے مکین، ایک ہی محلے سے سترہ جنازے اٹھنے کے بعد، اپنی ہر قسم کی مصروفیت میں بھی مسلسل  یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا ہم کسی ایسے واقعے کے دوبارہ پیش آنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
جواب یہ ہے کہ محفوظ رہ سکتے ہیں اگر ہم یہ جان لیں کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا اور ان وجوہات کے تدارک کے لئے کام کریں۔
یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟
اسکی مختلف ممکنہ وجوہات بتائ جارہی ہیں۔
نمبر ایک، بجلی فراہم کرنے والے جنریٹر میں خرابی کی وجہ سے آگ لگی۔  بجلی کی شدید کمی اب ہمارے لئے کوئ راز کی بات نہیں۔  عوام نے اس کا حل جنریٹرز میں ڈھونڈھا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف جنریٹرز در آمد کرنے کے ایک نئے کاروبار کو وسعت ملی اور اس سلسلے میں ایک نئ مارکیٹ وجود میں آئ وہاں حکومت بھی کسی دباءو سے آزاد ہو گئ۔ جب لوگوں نے اپنی پریشانیوں کے حل نکال ہی لئے ہیں تو حکومت کو کیا ضرورت کے وہ بجلی پیدا کرنے کے نئے منصوبے بنا کر بجلی پیدا کرنے والے ان جنریٹرز کی در آمد کرنے والے لوگوں کے پیٹ پہ لات مارے۔ انکے روزگار کو بند کرنے کے امکان پیدا کرے۔ حکومت اس سلسلے میں خاصی عوام دوست واقع ہوئ ہے۔
کراچی میں ایسی درجنوں مارکیٹس ہیں جہاں بجلی کی عدم موجودگی میں دوکانوں میں موجود جنریٹرز کام کرتے ہیں ، یہ عمارتیں ایک دم بند ہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں یہاں حد سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہو سکتا ہے۔ مثلاً گل پلازہ، صدر یا رابی سینٹر، طارق روڈ۔ ایک عام دن میں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے وقت جب یہ جنریٹرز چلنا شروع ہوتے ہیں تو ان مارکیٹس کے اندر سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
دوسری اہم وجہ یہ بتائ جاتی ہے کہ تنخواہ بانٹنے کا دن تھا اور سیکوریٹی کی وجہ سے تمام داخلی دروازے بند کر دئے گئے تھے اسکے علاوہ، سیکیوریٹی کی ہی وجہ سے کھڑکیوں پہ لوہے کے جنگلے موجود تھے۔
جانی و مالی سیکیوریٹی اس وقت ہمارے ملک کے سر فہرست مسائل میں سے ایک ہے۔ اسکی وجہ سے غیر ملکی تو دور ملکی سرمایہ کار کاروبار کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔ اور اسکی وجہ سیاسی اور معاشی دونوں ہیں۔ سیاسی سطح پہ لوٹ مار کرنے والے مجرمان کو نہ پکڑا جاتا ہے اور نہ انہیں سزا ہوتی ہے۔ یہ مجرمان جو ہر سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ معاشی سطح پہ ایسے ذرائع موجود نہیں جو لوگوں کو روزگار دیں نتیجتاً وہ لوٹ مار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اسکی وجہ معاشرتی بھی ہے۔ ایک ایسے نظام میں جہاں لوٹ مار ہر سطح پہ موجود ہو اور لوگ اخلاقی اصولوں کی پامالی کرے ذرا نہ گھبراتے ہوں۔ وہاں اندھیر نگری ہی جنم میں آتی ہے۔ یہ سب عوامل لوگوں میں انکے سرمائے کے لئے عدم تحفظ پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ نظام انہیں تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے اس لئے وہ اپنے تئیں اسی طرح کے حل نکالتے ہیں۔ یہ فیکٹری ہی کیا خود میرے گھر کی ہر کھڑکی پہ لوہے کا جنگلہ موجود ہے۔ 
یہاں مجھے ایک دفعہ پھر کینیڈا یاد آتا ہے جہاں گھروں کی کھڑکیوں پہ کسی بھی قسم کے جنگلے کا تصور نہیں۔ یہی نہیں بلکہ گھر کے باہر چہار دیواری کا تصور کوئ خاص نہیں۔ انہیں فکر نہیں کہ لوگ باہر سے انکا گھر اور گھر والی دیکھ لیں گے۔ اگر کوئ سڑک  دیکھے تو اندازہ تک نہ ہو کہ کون سا گھر کہاں ختم ہو رہا ہے۔ گھر کے اطراف میں جو کھلے صحن ، گیراج یا ڈرائیو وے موجود ہیں اس میں بچوں کے کھلونوں سے لے کر گاڑیاں تک سبھی چیزیں پھیلی رہتی ہیں لیکن کوئ چیزوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ لوگ  صرف وہی چیزیں اٹھا سکتے ہیں جو گھر کے باہر فٹ پاتھ پہ موجود ہوں۔
تیسری اہم وجہ اس قسم کی فیکٹریز کا فائر بریگیڈ سے کوئ ڈائریکٹ تعلق نہ ہونا ہے۔
چوتھی اہم وجہ فیکٹریز میں آگ بجھانے کے آلات کا نہ ہونا اور مزدروں کو اس بات کی تربیت نہ ہونا ہے کہ ان آلات کو بوقت ضرورت کیسے استعمال کیا جائے۔ اور نہ ہی انکی اس بات کی تربیت ہونا کہ ایمرجینسی کی صورت میں وہ کس طرح کم سے کم وقت میں فیکٹری کو خالی کر سکتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ فیکٹری مالکان مزدوروں کے تحفظ کی فکر نہیں کرتے اور اس پہ اپنا سرمایہ خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ اخباری اطلاع یہ بھی ہے کہ مشرف دور کے بعد سے سندھ میں ملز کی اس طرح کی انسپکشن نہیں ہوئیں جن میں مل کے مزدوروں کو دئے گئے ماحول پہ رپورٹ بنتی اور اسکے لئے وزیر اعلی قائم علی شاہ نے انکار کر دیا تھا۔
 اس نکتے سے اس واقعے کو دیکھئیے۔ اس فیکٹری سے زیادہ تر مصنوعات باہر کے ممالک جاتی تھیں۔ یہ خاصی بڑی فیکٹری تھی۔ آتشزدگی کے نتیجے میں یہ فیکٹری مکمل طور پہ تباہ ہو چکی ہے۔ اس میں موجود تمام مال ختم ہو چکا ہے۔ خود مل مالکان پہ چونکہ لاپرواہی کا مقدمہ دائر ہے اس لئے وہ اپنی جان بچانے کو فرار ہیں۔  اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر محنت کش کو یا مزدور کو تحفظ نہیں دیں گے تو سرمایہ اور سرمایہ کار دونوں ہی داءو پہ لگے رہیں گے۔ پھر مل مالکان، وقتی فائدے کے لئے دور کی کیوں نہیں سوچتے؟ اگر وہ یہ سوچتے کہ وزیر اعلی جائے بھاڑ میں ہم اپنی فیکٹری میں یہ انتظام رکھیں گے کہ مزدوروں کو پتہ ہو کہ آگ لگنے کی صورت میں انہیں آگ کیسے بجھانا ہے۔ ایمرجینسی میں نکلنے کے راستے کون سے ہونے چاہئیں۔ فیکٹری میں مختلف سامان کی اسٹوریج کیسی ہونی چاہئیے کہ کسی حادثے کے پیش آنے کی صورت میں کم سے کم نقصان ہو۔ تو یہ فیکٹری آج بھی چل رہی ہوتی۔
کیا اسکی وجہ یہ ہے کہ عام طور پہ لوگ کسی حادثے کے لئے نہ ذہنی طور پہ تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی اسکے لئے کوئ متوقع لائحہ ء عمل سوچ کر رکھتے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ بس ہر چیز اللہ کے کرم سے درست رہے گی۔ اس حادثے کی ایک اور وجہ کاروباری طرز فکر کی غیر موجودگی بھی نکلتی ہے۔ وہ طرز فکر جو یہ سمجھ دے کہ محض مال اور سیٹھ کا رشتہ ہی اہم نہیں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی اہمیت رکھتے ہیں جو مال اور سیٹھ کے درمیان تعلق قائم رکھتے ہیں۔ انہیں تحفظ دئیے بغیر کیسے کوئ اپنی جان اور اپنے مال کا تحفظ کر سکتا ہے۔
اس طرح،  اس واقعے کے پیش آنے کی کوئ ایک وجہ نہیں ہے۔ اس میں پورا نظام شامل ہے کیونکہ پورا نظام منفی طرز فکر پہ چل رہا ہے۔ اس لئے جب کوئ حادثہ ہوتا ہے تو اتنا ہی اندوہناک ہوتا ہے کہ ذہن اسے تسلیم کرنے میں بھی وقت لیتا ہے۔ نہیں معلوم کہ فکر کی اس نہج کو تبدیل ہونے کے لئے کتنی جانوں کی قربانی دینی ہوگی۔ بے شک ہمیں پلٹ کر اللہ ہی کی طرف جانا ہے۔ لیکن قتل کا سامان کرنے والوں کو جہنم رسید کرنے کے بعد یا خود جہنم کا ایندھن بننے کے بعد۔

Saturday, June 11, 2011

بے ننگ و نام

اس وقت جبکہ میں یہ لائینیں لکھ رہی ہوں۔ میرے چاروں طرف اندھیرا ہے۔  اگر آپ اکیسویں صدی کے پاکستانی ہیں تو سمجھ گئے ہونگے، یہ  اندھیرا چراغوں میں روشنی نہ ہونے کے باعث ہے۔  آٹھ گھنٹے روزانہ بجلی یہ آنکھ مچولی ہمارے ساتھ کھیلتی ہے۔ میں اپنے اردگرد رہنے والوں سے پوچھتی ہوں کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم اپنی باقی کی زندگی میں کوئ ایسا دن جی پائیں کہ سارا دن بجلی موجود رہے؟ وہ ہنس دیتے ہیں، چپ ہو جاتے ہیں۔ کسی کے پردے کی خاطر نہیں بلکہ اس لئے کہ تقدیر پہ  راضی برضا ہیں ۔
لیکن کیا کے ای ایس سی کے ان چار ہزار ملازمین کو بھی تقدیر پہ راضی ہوجانا چاہئیے۔ جنہیں کے ای ایس سی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بوجھ قرار دیتی ہے اور انہیں ملازمت سے فارغ کرنا چاہتی ہے۔ کیا واقعی کے ای ایس سی اتنی کنگال ہے کہ وہ چھوٹے گریڈ کے مزدوروں کی تنخواہ ادا نہ کر سکے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس میں کتنا سچ ہے۔
پاکستان ٹو ڈے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق  نجی ملکیت میں جانے کے بعد کے ای ایس سی کی نئ انتظامیہ نے بجلی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے بجائے ، کمپنی کی بہتری کے لئے جس نکتے پہ زور دیا وہ اشرافیہ کے طبقے کے لئے پر تعیش روزگار کا مہیا کرنا ہے۔ یوں کے ای ایس سی مزدوروں کی تنخواہ تو ادا کرنے کے قابل نہیں ۔ وہ انکی تحریک کے خلاف کروڑوں روپے خرچ کر کے اشتہارات  چلا سکتی ہے مگر وہ انہیں ملازمت پہ رکھنے سے قاصر ہے۔
یہاں ایک فہرست ہے جس میں چند چیدہ چیدہ شخصیات کے منظور نظر کس طرح اسی کنگال کے ای ایس سی سے  اپنی راتیں شب برات اور دن عید کر رہے ہیں۔
نوید حسنین ، پی ایم ایل کیو کے ایم این اے ہمایوں اختر  کے قریبی رشتے دار گروپ ہیڈ آف ریکوری کے طور پہ انتیس لاکھ لے رہے ہیں۔
نیات حسین، جو کہ پی پی کی ایم این اے شیری رحمن کے ایک رشتے دار ہیں، ٹیکنیکل گروپ ہیڈ کے طور پہ پچیس لاکھ روپے سے بہر مند ہو رہے ہیں۔
آئ ایس آئ کراچی کے سابق ہیڈ بریگیڈیئر مظہر احمد  اور ریاٹائرڈ بریگیڈیئر مسعود احمد، سیکیوریٹی چیف کے طور پہ پندرہ، پندرہ  لاکھ روپے ماہانہ لے رہے ہیں۔ انکی تقرری ایوان صدر سے براہ راست ہوئ۔
عاسر منظور، گروپ ہیڈ آف ہیومین ریسورسز کی حیثیت میں بیس لاکھ روپے ماہانہ لے رہے ہیں۔ یہ پہلے اتفاق فونڈری میں کام کرتے رہے۔ وہی اتفاق فونڈری جو شریف برادران کی ملکیت ہے۔ منظور صاحب پہ یہ الزام بھی ہے کہ وہ کے ای ایس سی انتظانیہ اور ورکرز کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ضرار ناصر خان، جنرل مینیجر، عاسر کے بہنوئ ہیں انکی خوش قسمتی کے اٹھارہ مہینوں میں دو بار ترقی کے مزے چکھے۔ جبکہ انکی تقرری غیر قانونی سمجھی جاتی ہے۔ وہ بھی پانچ لاکھ حاص کرنے میں کامیاب۔ 
ایم کیو ایم کے صوبائ وزیر، عادل صدیقی کے بھائ آصف حسین  سات لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں۔
اٹھارہ ریٹائرڈ فوجی کرنلز، کمپنی میں کام کرتے ہوئے پانچ لاکھ مہینہ تنخواہ لے رہے ہیں۔
ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والی ممبر اسمبلی ، شہر کے مشہور صنعت کار کی بیگم اور شو بز میں نام کمانے والی خاتون، خوشبخت شجاعت کے فرزند ارجمند جناب شہباز بیگ بطور ٹریننگ ڈائریکٹر، کنگال کے ای ایس سی سے پانچ لاکھ ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں۔
پی پی کے پیر مظہر الحق کے صاحبزادے بھی پانچ لاکھ روپے حاصل کرنے کی گنتی میں ہیں۔
یہ تقریباً ساڑھے سات سو لوگوں میں سے چند لوگوں کے نام ہیں جو کے ای ایس سی میں سیاسی جانبداریوں کے نتیجے میں موجود ہیں اور جنہیں لاکھوں روپے دے کر، کے ای ایس سی کے حکام سمجھتے ہیں کہ اب بیٹھ کر چین کی بنسی بجائیں
کے ای ایس سی کے وہ ملازمین جو اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ ہنر مند ہیں جنکی تنخواہیں دس سے تیس ہزار کے درمیان ہیں۔
اس رپورٹ کو پڑھ کر چند سوال ذہن میں اٹھتے ہیں ۔ مثلاً ایسا کیوں ہے کہ ملک بھر میں جتنی ایگزیکیٹو پوسٹس ہوتی ہیں جہاں کام کرنے کو ککھ نہیں ہوتا اور پیسہ ہُن کی طرح برستا ہے یہ ساری پوسٹس چند خاندانوں کے درمیان کیسے بٹتی رہتی ہیں۔
یہ کیا بات ہوئ کہ  وہ لوگ جو ہنر مند ہوں جن پہ دراصل ایک ادارہ چل رہا ہو ان کے راضی یا ناراضی ہونے کی تو پراوہ نہ ہو اور وہ جو عہدے اور روپوں سے آگے کچھ نہیں جانتے انہیں راضی رکھنے کی کوشش میں تن من دھن سب لگا دیا جائے۔
یہ کہ ادارہ اپنے اصل کام پہ تو خرچ کرنے کو تیار نہ ہو۔ یعنی کے ای ایس سی بجلی کی پیداوار بڑھانے کے بارے میں تو کچھ خرچ کرنا نہ چاہتی ہو،  لیکن چند لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ ان پہ لگادے۔
کہانی یہیں پہ بس نہیں ہوتی۔ کے ای ایس سی کے پاس ان سارے اللے تللوں کے بعد جو پیسہ بچتا ہے وہ اپنے انہی نچلے طبقے کے ملازمین کے خلاف مہم چلانے اور اشتہار بازی پہ خرچ کرنے کو بھی غیر اخلاقی نہیں سمجھتی۔ وہ ملازمین، جو اس ملازمت سے علیحدہ ہوں تو اپنے خاندان کے لئے انکے پاس کچھ نہ ہو۔
مختلف سیاسی جماعتوں  سے استفادہ حاصل کرنے والے بادشاہ اور شہزادے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے وہ اگر اپنی عیاشیوں میں سے صدقے کے برابر بھی کمی کر لیں تو نچلے طبقے کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
اس معاملے کا مزید دلچسپ پہلو اس وقت سامنے آتا ہے جب مولوی صاحب بھی فتوی جاری کرتے ہیں کہ کے ای ایس سی کی انتظامیہ کے خلاف ورکرز کی تحریک غیر اسلامی ہے۔ 
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ  یہ بے ننگ و نام ہے۔
 

Monday, April 26, 2010

او کون لوگ ہو تسی

اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں حاصل ہونے والی شادمانی اب عدلیہ کے دروازے پہ دستک دے رہی ہے۔ اگرچہ کہ میرا اور آپکا اس ساری ترمیم سے کیا تعلق،  اسکے نتیجے میں صدر کے اختیارات وزیر اعظم کو حاصل ہوئے، صوبہ ء سرحد کو ایک متنازعہ نام حاصل ہوا، سیاسی پارٹیز میں جماعتی الیکشن ختم کر دئیے گئے کہ ہر وقت الیکشن کی تسیح گھمانے کے بجائے کچھ اور جوڑ توڑ بھی ہونی چاہئیے اور سیاسی جماعتیں تو ویسے بھی جسکی بھینس ہیں انہی کے حوالے ہونی چائیں۔ اس طرح سے ایک خاندان ایک جماعت کو سنبھالے رہتا ہے تو زیادہ احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے اور قوم کے رہ نماءووں کو ماں کی کوکھ میں ہی مناسب نعرے سننے کو ملتے ہیں جن سے انکے اندر مسائل کے حل کے لئے ایک ماورائ قوت نمو کرتی ہے۔ یہ چیز عوام میں سے ہر کس و ناکس کو نہیں مل سکتی۔
آئین میں سے جنرل ضیا کا نام نکال دیا گیا۔ اگرچہ مجھ جیسے عوامی جہلاء کی سمجھ میں خاک نہ آیا کہ اس سے مجھے لاحق مسائل کیسے حل ہونگے، مجھے تو اس ترمیم کے نتیجے میں ہی پتہ چلا کہ انکا نام آئین کا حصہ تھا۔ چلیں آئین کے اندر کیسے کیسے سقم کتنی عرق ریزی سے نکالے گئے۔ اسکے لئے ہمارے پارلیمانی اراکین اس بات کے مستحق ہیں کہ انکی پیٹھ تھپتھپائ جائے۔
 کرائے میں اضافے کے خلاف، میری بات تو بس کا کنڈیکٹر بھی سننے کو تیار نہیں۔ وہ ضیا ء الحق کو نہیں جانتا ابھی پچیس سال کا ہے اور اسکی گھٹی میں تازہ دشمنی مشرف کے نام کی ہے۔ اسے حیرت ہے کہ مشرف کا نام آئین میں سے کیوں نہیں نکالا گیا۔
یہی نہیں، بلکہ آئین میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی جو پابندی مشرف کے وقت میں ڈالی گئ تھی وہ بھی ہٹا دی گئ۔ اسکے نتیجے میں ہم اور ہمارے بعد آنیوالی نسلیں بھی تین چار لوگوں کے درمیان بندر بانٹ دیکھتے رہیں گے۔ لیکن اس سے جمہوریت کی فلم کی کاسٹ محدود رہے گی جس سے زیادہ پیچیدگیاں نہیں پیدا ہونگیں اور یوں جمہوریت کو استحکام حاصل رہے گا۔
کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ منتخب اسمبلی کے وزیر اعظم کو معطل کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے اس سے بڑھ کر جمہوریت کی فتح کیا ہو سکتی ہے۔ یقیناً جمہوریت بہتر انتقام ہے خاص طور پہ ان سے جو اپنے ووٹوں سےمنتخب کروا کے لاتے ہیں۔
 اسی طرح کی مزید ترمیمات سے پُر مسودہ صدرصاحب کے حضور اسمبلی اور سینیٹ سے گذر کر پیش ہوا اور اس پہ انہوں نے دستخط کر کے اپنا نام امر کر لیا۔
 پھر اسکے بعد پاکستان کا ایک اور اہم مسئلہ بے نظیر کی شہادت کا معمہ حل کرنا تھا۔ گو کہ اس سے پہلے ہونے والے کسی بھی سیاسی قتل کو معلوم نہ کیا جاسکا اسکی وجہ شاید  مقول کےورثاء کو حکومتی عہدہ نہ ملنا ہو۔  لیکن اس دفعہ یہ ہماری منتخب جمہوری حکومت کا ایک اہم ٹاسک تھا، ورنہ اسکی عوامی شہرت مشکوک ہو جاتی کہ انہوں نے اپنی عوامی انتخابی مہم اسی نعرے پہ جیتی تھی۔ ایک وجہ یہ بھی بتائ گئ  کہ چونکہ صدر صاحب کو قاتلوں کے نام پہلے سے معلوم تھے تو انہوں نے اسے ایک پرچی پہ لکھ کر چھپا دیا اور اقوام متحدہ کی ٹیم سے کہا کہ بوجھو تو جانیں۔ اقوام متحدہ کی ٹیم کو شروع میں پتہ نہیں تھا کہ یہ ایک کھیل ہے۔ پس انہوں نے کچھ ایسی رپورٹ بنادی کہ اس میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کو بھی مشتبہ قرار دے دیا۔ رپورٹ تیار ہو جانے کے بعد مزید پندرہ دن تک اس رپورٹ کو روک کر رکھا گیا کہ ایسی عقل سے پیدل ٹیم کو کچھ سمجھا بجھا لیں کہ یہ ایک کھیل تھا۔ لیکن انہیں یقین نہیں آیا کہ ساٹھ ملین ڈالر یعنی تقریباً پچاس کروڑ پاکستانی روپے صرف کھیل کے کیسے ہو سکتے ہیں۔ 
اب چونکہ حکومت یہ ارادہ پہلے ہی کر چکی تھی  کہ اس سب کے بعد مشرف کو واپس پاکستان لاءو پھانسی دلاءو جیسے عوام کے خون کو گرم کر دینے والے نعرے لگانے ہیں جس سے انکی توجہ اپنے پیٹ سے مشرف کی گردن کی طرف ہو جائے گی۔ اس لئے اقوام متحدہ کی ٹیم کی ہٹ دھرمی کے باوجود اسکرپٹ میں کوئ تبدیلی نہیں کی گئ۔ رحمن ملک ابھی بھی اپنے عہدے پہ موجود ہیں البتہ حکومت نے اس فلم میں مزید دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کہا ہے کہ وہ مشرف پہ مقدمہ چلانے میں ذرا تاءمل نہیں کرے گی۔
آگے کیا ہوگا، کیا حکومت مشرف کو واپس لائے گی ؟، وفاقی وزیر داخلہ ترقی کر کے کس عہدے پہ پہنچیں گے؟ بی بی کی روح سے کیا گیا وعدہ کیا پورا ہوگا؟ باقی روحوں سے کئے گئے وعدے کون پورا کرےگا؟ زندہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی باری کب آئے گی؟ اسکے لئے ہم ایک نیا بلاگ کھولنے والے ہیں جہاں ستاروں کی روشنی میں تبادلہ ء خیال ہوگا۔
ادھر اٹھارویں ترمیم پہ عدالتی چارہ جوئ نامی متوقع موڑ آ چکا  ہے۔ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نون نے کہا ہے کہ عدلیہ کو اپنا احترام برقرار رکھنا ہے تو اس ترمیم کو چیلینج کرنےوالے مقدمات کو نہ لیاجائے۔ ادھر بے نظیر کے قاتلوں کو پھانسی لگاءو سیریل بھی روانی سے چل پڑی ہے۔ اور عوام اسٹارپلس کے ساس بھی کبھی بہو تھی قسم کے ڈرامے چھوڑ کر پنڈولم کی طرح سر ہلا کر کبھی ایک فلم کے پرومو کو اور کبھی دوسری فلم کے پرومو کو دیکھتے ہیں۔

لیکن ابھی کہانی میں صحیح سے ٹوئسٹ نہیں آیا۔

اب ان دو عظیم مسائل کے ممکنہ حل اور باکس آفس پہ کامیابی کے بعد کیا بچا ہے، جسے حل کیا جائے۔ سیاسی لیڈران جپھیاں ڈالے ابھی اس بات پہ سوچ بچار کر ہی رہے تھے  کہ کسی منچلے نے کہہ دیا کہ بجلی کی کمی ہو چلی ہے، چلیں منہ کا ذائقہ بدلنے کو اسے بھی دیکھ لیں۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ بھری کریال میں غلیلہ لگے، کیونکہ عوام کے پاس اب غلیل کے علاوہ کیا ہے۔ 
سرکار نے وہیں بیٹھے  بیٹھے اپنے نائ سے جاسوسی کروائ اور پھر فوری طور پہ یہ فیصلے کر ڈالے کہ مارکیٹ روزانہ آٹھ بجے بند ہوگی، گھڑیاں آگے کردو، ہفتے کی دو چھٹیاں کر دو۔ اب کسی  نے اپنے اخروٹ کو توڑتے ہوئے کہا کہ عوام کہہ رہے ہیں کہ نئے بجلی گھر بنائے جائیں ورنہ ہم جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں پرفارم کر کے دکھائیں گے۔ اطلاع ہے کہ انہوں نے اس اخروٹ کی گری کھاتے ہوئے عبرت کے لئے ایک اور اخروٹ دیوار پہ دے مارا، انکے خانساماں نے فوراً معاملات کو سنبھالا کہ ایک تو نئے بجلی گھر نامی ڈش کو پکنے میں وقت لگے گا کہ اسے اتنی محنت اور وقت چاہئیے جتنا کہ حلیم یا پائے کو پکنے میں چاہئیے ہوتا ہے اور  پھر یہ نہیں معلوم کہ مناسب کمیشن کس کے حصے میں چلا جائے۔  دوسرا کرائے کے بجلی گھر  نامی ڈش کے غذائ فوائد زیادہ ہیں اور یہ سرکار کی صحت اور جیب دونوں پہ اچھا اثر ڈالتی ہے کہ اسکے نتیجے میں کمیشن کی چٹپٹی چٹنی زیادہ ملتی ہے اور فوراً ملے گی۔

اس کہانی میں عوام بھی موجود ہیں،  ایک منظر میں عوام جلاءو گھیراءو کر رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ

بجلی کے بڑے چوروں کو پکڑیں۔ لیکن لگتا ہے کہ عوام  نہیں جانتے کہ  سیاں بنے کوتوال تو ڈر کاہے کا محاورہ کیوں وجود میں آیا ہے۔ ویسے بھی جب عوام خود بہتی گنگا کو اپنے ووٹوں سے چوروں کی جیب میں ڈال رہے ہیں تو کون کافر اس میں ہاتھ دھونے سے انکار کرے گا۔
یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر عوام ایسا کیوں خیال کرتے ہیں، وہ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں خواص نہ رہیں سب عوام بن جائیں۔  ایک تو ذرا اپنی طرف دیکھیں جیسے کرتوت ویسے سپوت۔ اور کہیں صرف عوام سے بھی کوئ ملک چلا ہے۔ او کون لوگ ہو تسی۔

حوالہ؛
بجلی کی چوری

Saturday, April 24, 2010

کون لوگ ہو تسی

آسٹریلیا پہلی دنیا سے تعلق رکھنے والا ملک ، پاکستان کے مقابلے میں تقریباً سات گنا زیادہ رقبہ رکھتا ہے۔ پاکستان کی آبادی اس وقت تقریباً سترہ کروڑ ہے اور آسٹریلیا کی آبادی تقریباً بائیس ملین یعنی دو کروڑ ہے۔ آسٹریلیا کی فی کس سالانہ آمدنی تقریباً انتالیس ہزار  ڈالر بنتی ہے۔ اور پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی ایک ہزار ڈالر سالانہ بنتی ہے۔ 
اب آپ سوچیں گے کہ اس وقت مجھے آسٹریلیا کیوں مل گیا ہے پاکستان سے مقابلے کے لئے۔ اسکی دو وجوہات ہیں ایک تو میں ابھی کچھ ہی مہینے پہلے وہاں ایک قلیل مدتی قیام کے لئے موجود تھی۔ اس سے  کچھ سال پہلے بھی میں وہاں ذرا زیادہ عرصے کے لئےرہ چکی ہوں اور اسکی دوسری بڑی وجہ لوڈ شیڈنگ سے نبٹنے کے لئے نئے حکومتی منصوبے کا اعلان ہے۔
ان دونوں میں ایک بات مشترک ہے۔ آسٹریلیا میں تمام صنعتی ادارے شام کو پانچ بجے بند ہو جاتے ہیں جس میں بازار بھی شامل ہیں۔ اور تمام کھانے پینے کی جگہیں شام کو سات بجے بند ہوجاتی ہیں۔ سوائے کچھ مخصوص جگہوں کے جن میں کھانے پینے کی کچھ جگہیں اور کچھ اور مثتنشیات شامل ہیں جو کہ رات کو دس بجے تک کھلی رہتی ہیں۔ شام کو سات بجے تمام سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ بازاروں کے اس طرح سر شام بند ہونے سے وہ لوگ جو آفسز میں کام کرتے ہیں انہیں مسئلہ ہو سکتا ہے اسکے لئے ہفتے میں ایکدن ایسا ہےجسے شاپنگ نائٹ کہتے ہیں اس دن بازارزیادہ سے زیادہ نو  بجے رات تک کھلے رہتے ہیں۔ تمام مارکیٹس صبح سات بجے کھل جاتی ہیں۔ اور یہ بالکل ممکن ہے کہ آپ اپنے بچے کو اسکول چھوڑتے ہوئے واپسی میں خریداری کرتے  ہوئے آجائیں۔
کم و بیش یہی حال میں نے تھائ لینڈ میں دیکھا۔ تمام بازار سات بجے بند۔ شام ساڑھے چھ بجے سے شاپنگ مالز میں اعلان رخصت کی سیٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں۔ حتی کہ پہلے دن میرے ساتھیوں کے اس چیزکو سنجیدگی سے نہ لینے کی وجہ سے ہمیں تقریباً رات کو بھوکا رہنا پڑا،محض ڈبل روٹی سے کس کا بھلا ہوتا اور اتنی رات کو سوائے کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے جو ہماری جگہ سے خاصہ دور تھا کہیں سے حلال کھانا  تو دور حرام بھی ملنے کا کوئ امکان نہ تھا۔ تمام مارکٹ صبح آٹھ بجے کھل جاتی ہیں۔
اب پاکستان آئیے، کراچی میں مارکیٹ دن کے ایک بجے کھلنا شروع ہوتی ہے جو رات کو گیارہ بارہ بجے تک بند ہوتی ہے۔ گویا عملی طور پہ دن آدھے دن کے بعد شروع ہوتا ہے کہ کاروباری طبقہ اس وقت سو کر اٹھتا ہے۔ پھر رات کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ رات تو اپنی ہوتی ہے۔
اب سے چند مہینے پہلے، جب تک شادی کے اوقات کی پابندی مقرر نہ ہوئ تھی۔ عالم یہ تھا کہ خواتین دس بجے رات کو درزی کے پاس کھڑی کپڑوں کا انتظار کرتی تھیں کہ یہ کپڑے پہن کر تیار ہو کر انہیں بارہ بجے کسی شادی میں پہنچنا ہوتا تھا اور اس شادی کا کھانا رات کو دو بجے کھایا جاتا تھا۔اور اس شادی کی تقریب کا اختتام صبح چار بجے ہوتا تھا۔
ترقی یافتہ ممالک تو اپنی بجلی بچانے کے اتنے سخت قوانین بنا کر ان پہ عمل کر ہے ہیں۔ لیکن ہم جیسے غریب ممالک میں کیا ہوتا ہے۔  پاکستانی حکومت کے اس اعلان کے بعد کے کاروبار رات کو آٹھ بجے بند کر دیا جائے تاجروں نے اسکی عدم تعمیل کا اعلان کیا ہے۔ ایک طرف ہم بجلی کی کمی کا رونا رو رہے ہیں ہمارے کارخانوں میں، ہسپتالوں میں، اسکولوں میں بجلی نہیں ہے۔ اور دوسری طرف ہم بطور حکمران یا بطور عوام اپنی کاہلی، نکمے پن اور عیاشی سے بھی نجات نہیں پانا چاہتے ہیں۔ کون لوگ ہو تسی؟