Showing posts with label سماجیات. Show all posts
Showing posts with label سماجیات. Show all posts

Wednesday, December 28, 2011

اچھی بلاگ پوسٹس

متھ کا سائینس اور شماریات سے کوئ تعلق نہیں۔  یہ خیالات کچھ مخصوص ماحول میں تقویت پا جاتے ہیں اور پھر انہیں پھاڑ کر ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے متھ بسٹر کی اصطلاح   گھڑنی پڑی۔
متھ کیا ہے؟ اسکی تعریف میں جائے بغیر ایک مثال دیتی ہوں۔ اگر کسی جوڑے کے یہاں لگاتار بیٹیاں ہوئے جا رہی ہیں اور انہیں یہ فکر ہے کہ بغیر وارث کے ہی اپنی سلطنت چھوڑنی پڑے گی تو آخری بچی کا نام بشری رکھ دیں۔ انشاءاللہ، اسکے بعد بیٹا ہوگا۔ ویسے یہ ایک متھ ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بشری ون، بشری ٹو قسم  کے سیکوئیلز کے بعد بھی آپکا کام نہ بنے۔
بلاگنگ میں بھی اسی طرح کی بہت ساری متھس ہیں۔ بالخصوص اردو بلاگنگ میں۔ مثلاً اچھی پوسٹ وہ ہے جس پہ بہت سارے تبصرے ہوں۔ یا اچھی پوسٹ وہ ہے جسے بہت سارے لوگ ویو کرتے ہوں۔
اب ہم دیکھیں تو اس معیار پہ وہ تحاریر زیادہ آئیں گی جن میں ہمارے یہاں مذہب کے ایک خاص ورژن سے ہٹ کر لکھی جانے والی تحاریر پہ مخالفین نے مناظرہ کیا ہو۔ انسانی زندگی میں دلچسپی کے مقامات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لئے ان تمام تحاریر کو اچھی بلاگ پوسٹ کے زمرے میں کیا اس لئے رکھا جائے کہ ان پہ تبصرے زیادہ ہیں یا انکو ایک مدت میں بار بار لوگوں نے دیکھا ہے۔ اس لئے میری نظر میں یہ رائے ایک متھ ہے۔
پھر اچھی بلاگ پوسٹ کیا ہوگی؟
اچھی بلاگ پوسٹ وہ ہونی چاہئیے جسے آپ بھول جائیں مگر اس پہ ویوز آتے رہیں۔ محض سال بھر بعد وہ ایک بچکانہ بات نہ لگے۔
میں کچھ پھولوں کے بیج کینیڈا سے لیکر آئ۔ یہاں زمین کے حوالے کرنے سے پہلے میں نے انکے بارے میں سرچ کرنا ضروری سمجھا۔ ایک کے بعد ایک جب انکے نام سرچ پہ ڈالے تو درجنوں بلاگز سامنے آگئے۔ یہ بلاگز سالوں پہلے لکھے گئے تھے۔ مگر آج بھی میں نے انہیں کھولا اورانہیں مددگار پایا۔ 
میں انہیں اچھے بلاگز سمجھتی ہوں۔ ایک دفعہ ان بلاگز پہ جانے کے بعد میں نے انہیں یاد رکھا کہ تاکہ مزید مدد کے لئے دوبارہ انہیں دیکھ سکوں۔ ان میں سے کچھ معلومات بہترین ثابت ہوئ اور اس طرح میرا ان پہ اعتماد قائم ہوا۔
اسی طرح بلاگ لکھنے کے لئے موضوعات کا انتخاب۔ اس سلسلے میں بیرون ملک ویب سائیٹس سے آپ جتنی چاہیں مدد لیں لیکن اگر آپ اپنے معاشرے میں صحیح سے جذب نہیں ہوئے تو بلاگ کا موضوع ہمیشہ ایک مسئلہ رہے گا۔ باہر دیکھنے سے پہلے اپنے آپ کو یعنی اپنے ماحول کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔
آپ باہر سے وہ خیال لا کر یہاں نہیں بو سکتے ہیں جس کے لئے یہاں کا موسم سازگار نہیں۔ مثلاًبیوی کو خوش رکھنے کے دس مغربی طریقے یہاں نہیں چل سکتے جو مغرب میں زیر استعمال ہیں۔ یہاں کا شوہر اس بارے میں فکر مند نہیں ہوتا کہ کپڑے دھوتے وقت ہلکے اور گہرے رنگ کے کپڑے الگ الگ دھونا چاہئیں۔ اور بیگم صاحبہ ، میاں صاحب کا یہ سگھڑاپہ دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھیں گی۔  یہ اسکا درد سر نہیں۔ اسے اپنے کپڑے صحیح جگہ اور مقام پہ چاہئیے ہوتے ہیں۔ اس لئے صابن کے اشتہاروں میں وہ بیویاں خوش ہوتی ہیں جنکے شوہر انکے دھلے ہوئے کپڑوں کی تعریف کرتے ہیں۔
اچھی تحریر کے لئے لوگوں سے ملیں جلیں، عوامی جگہوں پہ جائیں، ٹی وی کو وقت دیں مگر اسی طرح جیسے کسی کتاب کو پڑھتے وقت آپ اندازہ لگاتے ہیں کہ اسکا ہر حرف پڑھنا ہے یا بس سرسری سا۔ اخبار پڑھیں اور کتابیں ضرور۔
اپنے آپ سے ملاقات کیجئیے اور جانئیے کہ خود آپکی دلچسپی کس رخ میں ہے۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔ آپ اپنی دلچسپی کے میدان میں جادوئ صلاحیتیں رکھتے ہیں۔اور الگ سمت میں چل کر ہوا کو بھی اسی سمت میں چلنے پہ مجبور کر سکتے ہیں۔
چلیں پھر ہم کچھ بلاگنگ متھس کی فہرست بناتے ہیں۔
اچھی بلاگ پوسٹ، زیادہ تبصرے
اچھی بلاگ پوسٹ، زیادہ ویوز
اچھی بلاگ پوسٹ، جس سے زیادہ مبصرین متفق ہوں
اچھی بلاگ پوسٹ، جس میں کسی کی دل شکنی نہ ہو
اچھی بلاگ پوسٹ،  جو معاشرے کے رجحانات کے مطابق ہو
اور اگر کچھ آپکے ذہن میں ہو تو جمع کیجئیے۔

Monday, January 17, 2011

میں کیوں بلاگ لکھتی ہوں

ہوا یوں کہ میں نے ایک سفر نامہ لکھا۔  لکھنے کے بعد میں جنگ اخبار کے میگزین سیکشن کے مدیر کو بھیجا کہ کیا وہ اسے اپنے اخبار کے میگزین میں چھاپ سکتے ہیں۔  انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسے چھاپ دیں گے آپکے پاس جو تصویری مواد ہے وہ بھی بھیج دیں۔ میں نے انہیں وہ بھی بیج دیا۔ انہوں نے وہ چھاپنا شروع کر دیا۔ انکے میگزین کے ایک فل صفحے پہ وہ سفر نامہ نو اقساط میں شائع ہوا۔
لیکن یہ دیکھ کر مجھے شدید صدمہ ہوا کہ انہوں نے  چھ سات قسطوں تک تو ایک لفظ کی بھی ایڈیٹنگ نہیں کی لیکن جس صفحے سے مشرف کا نام آیا اس سے انہوں نے انتہائ بھونڈی ایڈیٹنگ کی اور مجھے مطلع تک نہ کیا۔ مجحے سمجھ نہیں آیا کہ اس لائن کو اڑانے کی کیا ضرورت تھی کہ وہاں مشرف کے نام کی افتتاحی تختی لگی ہوئ تھی۔ لیکن یہ شاید جنگ گروپ کی پالیسی کا حصہ تھا۔ اسی طرح انسانی اسمگلنگ میں شامل ایک شخص کا قصہ جس سے میری ملاقات ہوئ غائب کر دیا۔ چند اور دلچسپ باتیں کٹ گئیں۔
 مجھے یہ بات قطعاً پسند نہیں آئ، ان کے/کی ایڈیٹر کی ایڈیٹنگ کا معیار یہ تھا کہ یہ سفر ہم دو لوگوں نے ایک رینج روورگاڑی سے کیا تھا مگر آخری قسط میں انہوں نے ہم دونوں کو جہاز سے واپس بھجوا دیا اور گاڑی کا قصہ ہی گول ہو گیا کہ گاڑی کہاں گئ۔ جبکہ اس گاڑی کی وجہ سے ہمیں سفر میں بہت ایڈوینچر سے گذرنا پڑا اور اس پوری تحریر میں اس کا بڑا بیان تھا۔
حیرت ہے ایک شخص آپکو، چھپنے سے پہلے  پورا پلندہ ایک ساتھ دے دیتا ہے آپ اسے دو مہینے سے اوپر اپنے میگزین میں ایک بڑی جگہ دیتے ہیں اور آپ اسے یہ تک نہیں بتاتے کہ آپ اس میں کیا ترمیمات کرنا چاہتے ہیں۔ اس بد ترین ایڈیٹنگ سے پڑھنے والے قارئین کے ذہن میں اگر کسی خامی کا خیال آیا تو یقیناً وہ اس نے  مصنف کے کھاتے میں ڈالی ہوگی۔ حالانکہ یہ ان ایڈیٹر کی اہلیت کا اظہار تھا۔  اس وقت میں نے تہییہ کیا کہ آئیندہ اپنی تحاریر یوں ضائع نہیں کرنی۔  کوئ بھی عقل سے خالی شخص کسی کی بھی تحاریر کی ایڈیٹنگ کرنے بیٹھ جائے اس لئے کہ اس ادارے نے اسے ملازمت دی ہوئ ہے یا اس ادارے کی یہ پالیسی ہے۔ میرے پاس اگر موقع ہے تو ایسے لوگوں پہ کیوں انحصار کروں۔
کچھ دنوں بعد مجھ سے کسی نے کہا کہ آپ بلاگنگ کیوں نہیں کرتیں۔ اس سے پہلے میں نے کبھی اس طرف سوچا ہی نہ تھا۔ جناب یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا اردو میں بلاگنگ ہوتی ہے سرچ ورڈذ ڈالے تو بلاگستان تک پہنچے۔ مگر یہاں پہنچ کر شدید مایوسی ہوئ۔  یوں لگا کہ اردو بلاگنگ دائیں بازو والوں کے قبضے میں ہے۔ اور لبرل تو دور یہاں تو موڈریٹ ویوز کا قحط ہے۔
سوچا یہاں تو بڑا زلزلہ پیدا کرنے کی گنجائیش ہے اور لکھنا شروع کر دیا۔

نوٹ؛
یہ تحریر پوسٹ کرنے کے بعد جب اردو سیارہ پہ گئ تو اندازہ ہوا کہ وہاں مشہوری کے لئے ایک نیا مقالہ موجود ہے۔  کیونکہ میں یہ کہانی کسی تبصرے میں انکے حوالے کر چکی ہوں۔ اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بلاگستان میں کس شخصیت کے اوپر سب سے زیادہ مقالے حتی کہ تھیسس تک لکھا گیا ہے۔ اور بلاگ ٹریفک بڑھانے کے گُروں میں ایک گُر یہ بھی ہے کہ اس قسم کا مقالہ لکھ ڈالیں۔
:)
قارئین؛ چونکہ یہ  دونوں  مضامین باہمی مشاورت اور رونمائ حاصل ہوئے بغیر لکھے جا چکے ہیں اس لئے اب آپ ان دو تحاریر کا مزہ ایک ساتھ لیں۔