ضیاء الحق کے دور میں جلا وطنی اختیار کرنے والی پیپلز پارٹی کی رہنما خاتون جب انیس سو اٹھّاسی میں وطن واپس آرہی تھیں تو پاکستان میں یہ نعرہ گونج رہا تھا۔
بے نظیر آئے گی انقلاب لائے گی۔ جس وقت بے نظیر نے لاہور ائیر پورٹ پہ قدم رکھا۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی جو نعرہ لگا رہی تھی۔ بے نظیر آئ ہے انقلاب لائ ہے۔ بے نظیر آئیں، دو دفعہ حکمرانی پہ فائز ہوئیں، اور اس دنیا سے چلی بھی گئیں۔ انقلاب نہ آنا تھا نہ آیا۔ نعرے لگوانے والے اپنا اپنا حصہ لے کر الگ ہوئے اور نعرہ لگانے والے پھر ایک کنارے بیٹھ گئے کہ کب انکی ضرورت دوبارہ پڑتی ہے۔
وطن عزیز میں ایک دفعہ پھر اسی قسم کے نعروں کا زور ہے۔ اس دفعہ انقلاب کے ان نعروں کے لئے عمران خان کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ اسکی وجوہات پہ بھی لوگوں کلو غور کرنا چاہئیے۔ لیکن جب دعوت دیا ہوا, انقلاب سر پہ کھڑا ہو تو ان باتوں کا ہوش کہاں رہتا ہے۔
عمران خان کے لاہور میں ہونے والے جلسے کے بعد انکے حامیوں نے اور اس نادیدہ ہاتھ کے کھلاڑیوں نے جو اقتدار کا ہما اپنے پاس رکھتا ہے انکی تحریک کو اگر وہ کوئ ہے تحریک پاکستان سے اور انکی شخصیت کو قائد اعظم اور بھٹو سے تشبیہہ دینا شروع کر دی ہے۔
ابھی بھی خیر ہے کہ اسے دنیا کی سب سے بڑی انقلابی تحریک ، تحریک اسلام سے نہیں ملایا گیا۔ 'آ رینکنگ آف دی موسٹ انفلوئینشل پرسن ان دا ہسٹری' کو ترتیب دیتے ہئے جب مائیکل ہارٹ
رسول اللہ کو پہلا نمبر دیتا ہے تو وہ انہیں نبی کی حیثیت س نہیں ایک انسان کی حیثیت سے دیکھتا۔ دنیا کے سو اہم با اثر افراد میں شامل ہمارے نبی، اپنے پیروکاروں کے لئے کوئ مثال نہ بن سکے۔ کیونکہ انکی ذہانت، ، بصیرت ، انتظامی صلاحیتیں سب ماورائ طاقت کے سامنے ماند پڑ گئیں۔ انکی ذات عقیدت کے غلاف میں ایسی لپیٹی گئ کہ اب انکا پیروکار انکے لئے کسی کی جان تو لے سکتا ہے۔ لیکن انکی تحریک کی فلاسفی کو سمجھنے کو تیار نہیں۔
اس متنازعہ موضوع کو ہم ایک طرف رکھتے ہیں۔
اور صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس وقت جن شخصیات اور تحاریک کا تذکرہ جوش و خروش سے لیا جا رہا ہے کیا وہ اتنی کامیاب رہیں۔ کہ ہم امید کریں کہ انکی طرز پہ جو تحاریک چلائ جائیں گی وہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہونگیں۔
تحریک پاکستان کا مقصد، کیا مسلمانوں کے لئے محض ایک علیحدہ ریاست بنانا تھا یا مسلمانوں کی ایک ایسی فلاحی ریاست بنانا مقصود تھا جہاں ملک کا ہر شہری اپنے بنیادی حقوق برابری کی بنیاد پہ حاصل کر سکے۔ اگر محض ریاست بنانا مقصد تھا تو یہ تحریک پاکستان کے قیام کے ساتھ ختم ہو جانی چاہئیے تھی۔ لیکن یہ بات صحیح نہ ہوگی کیونکہ تحریک کے دوران عوام سے کچھ وعدے بھی کئیے گئے تھے۔ جن پہ پاکستان بننے کے بعد ، انکی سمت میں کام کرنے سے ہی عمل ہو سکتا تھا۔
جس طرح میں عمران خان کی لاہور والی تقریر میں تاریخی اعلانات کا انتظار کرتی رہی مگر تقریر ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ سامنے نہ آسکے۔ اسی طرح قیام پاکستان کے فوراً بعد قوم نے بھی مسلم لیگی رہنماءووں بالخصوص قائد اعظم سے تاریخی اعلانات کی توقع رکھی ہو گی مگر وہ سامنے نہ آسکے۔ انہوں نے اس تاریخی موقع پہ اگر کچھ کہا تو قوم اب اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
یہ بھی قائد اعظم کی بد قسمتی یا ناکامی ہے کہ انہیں بانی ء پاکستان کا خطاب تو دیا جاتا ہے لیکن انکی شخصیت کے اکثر پہلو نہ صرف عوام سے چھپائے جاتے ہیں بلکہ انکے ارشادات تک کو حذف کا جاتا ہے۔ کیا مصطفی کمال پاشا اتا ترک کے ساتھ ترک ایسا ہی کرتے ہیں۔ قائد اعظم بحیثیت بانی ء پاکستان ، پاکستانیوں کے خیال و فکر پہ اتنا رسوخ بھی نہیں رکھتے جتنا کہ گاندھی، ہندوستانیوں پہ رکھتے ہیں۔
کیا قائد اعظم ایک ناکام سیاستداں یا ایک ناکام حاکم یا ایک ناکام رہ نماء اعلی ثابت ہوئے؟
تقسیم ہندوستان کے فوراً بعد
جواہر لال نہرو کی سربراہی میں ہندوستان میں زمینداری نظام ختم کرنے کا انقلابی فیصلہ کیا گیا۔ ہم کسی بھی ایسے فیصلے سے محروم رہے۔ کیونکہ لیگی رہنماءووں کا مقصد پاکستان کا حصول ہر قیمت پہ تھا انہوں نے مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے مذہب کو استعمال کیا، پھر مغربی پاکستان میں زمینداری نظام بہت مضبوط تھا سو انہوں نے جاگیرداروں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ان سے بھی ڈیل کی، ادھر نارتھ انڈیا کے لوگ جو سب سے زیادہ بے تاب تھے ان کے نوابوں کو بھی ایک آسرا دیا۔ بھان متی کے کنبے میں عملی اقدامات کے لئے گنجائش ہی نہیں بچی تھی۔
وہ بس شدت سےایک علیحدہ ملک چاہتے تھے مگر انکے پاس اس ملک کو چلانے کے لئے کوئ حکمت عملی پہلے سے موجود نہ تھی۔ انہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ جب پاکستان وجود میں آجائے گا تو انہیں سویت بلاک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا ہونگے یا امریکن مفادات کو دیکھنا ہوگا۔
کیا قائد اعظم ایک کامیاب رہنما رہے؟
کیا جو وعدہ انہوں نے کیا اسے پورا کر دکھایا؟
نہیں۔ سوائے یہ کہ حکومت سازی کا حق مسلمانوں کے چند گروہوں کے پاس آگیا، ہندوستانی عام مسلمان ۔ پاکستانی عام مسلمان کہلایا، وہ کسی انقلابی تبدیلی سے نا آشنا رہا۔
اب پاکستان کی دوسری کرشماتی شخصیت پہ بات کرتے ہیں جن سے عمران خان کو ملایا جا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، ایک ذہین تعلیم یافتہ انسان جو عمران خان کے بر عکس سیاست کے ایوانوں میں خاصی جدو جہد کے بعد مقام اعلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ بنیادی طور پہ سوشلسٹ نظریات سے متائثر تھے اس لئے انہوں نے ملک کے رجحان کو دیکھتے ہوئے اسلامی سوشلزم کا نعرہ بلند کیا۔
لیکن جب انہیں لگا کہ اقتدار کا ہما انکے سر پہ بیٹھنے کے بجائے کہیں اور کا رخ کر رہا ہے تو انہوں نے صبر سے کام لینے کے بجائے، ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ بلند کیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے انکا ساتھ دیا۔ یہ وہ اسٹیبلشمنٹ تھی جومغربی پاکستان کی حکمرانی چاہتی تھی۔ کیوں؟ اسکی وجوہات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ دیگر اور حقائق کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ شاید اس بات کے لئے راضی نہ تھی کہ معمولی جسامت اور شکل و صورت کے بنگالی ان پہ حکومت کریں۔
یہ در حقیقت تاریخی جھوٹ ہے کہ بھٹو کی تحریک انقلابی تحریک تھی اور اسے عوامی پذیرائ حاصل تھی۔ کیونکہ جمہوری قواعد میں عوامی پذیرائ مجیب الرحمن کو حاصل تھی۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اسکا ساتھ نہ دیا۔ بنگالی الگ ہو گئے۔
بنگالیوں نے الگ ہونے کے بعد سیکولر بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی۔ آج انکی کرنسی کی قیمت ہم سے زیادہ ہے۔ اسکے باوجود کہ وہ ہر کچھ عرصے بعد سیلاب جیسی قدرتی آفت کا شکار ہوتے ہیں۔ پستہ قد، کم صورت بنگالی اپنا استحکام حاصل کرنے میں
کامیاب ہوئے۔
بھٹو کو مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی، سو بنگلہ دیش بننے کے بعد ان سب کو کسی انکوائری کے سامنے حاضر ہونے اور اس سارے واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی وجوہات معلوم کرنےکے بجائے انہیں حکومت کرنے کا حق دیا گیا۔
کیا بھٹو ایک کامیاب سیاستداں تھے؟
انہوں نے جو نعرہ دیا کیا اسے پورا کر دکھایا؟
انہوں نےاسلامی سوشلزم اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دیا۔ وہ اسے پورا نہیں کر پائے۔ پاکستان کسی بھی انقلابی تبدیلی سے نا آشنا رہا۔ مغربی پاکستان کے جذبے ٹھنڈے ہوئے اور بھٹو اپنے انجام سے دوچار ہوئے۔
پاکستان میں ایک اور تحریک چلی جس نے زبردست عوامی حمایت حاصل کی۔ اور اس نے کراچی شہر کا مزاج ہی بدل دیا۔ لوگوں نے دیوانہ وار اسکے لئے کام کیا۔ وہ ایم کیو ایم کی تحریک تھی۔ لیکن یہ تحریک بھی اسٹیبلشمنٹ کا شکار ہوئ۔ اور اس سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ اب تک پوری نہ ہو سکیں۔
اب انقلاب کا نعرہ ایک دفعہ پھر۔
عمران خان کی حالیہ تقریر میں وہی وعدے اور وہی دعوے جوقیام پاکستان سے اب تک دوہرائے گئے ہیں اسکے علاوہ کیا تھا۔
چند اہم نکات جو مجھے یاد آرہے ہیں۔
ہم پولیس کو غیر سیاسی کریں گے کیسے؟ کیا آپ پاکستانی مزاج سے تعصب کا باہر نکال دیں گے۔ جو کراچی میں لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے مزاج میں بھی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ اسّی کی دہائ میں کراچی کے لوگوں کا شدید مطالبہ تھا کہ پولیس مقامی ہونی چاہئیے۔ اور پنجاب سے پولیس بھرتی کا سلسلہ بند ہونا چاہئیے کیا ایسا ممکن ہوا۔ کیا یہ مذاق نہیں تھا کہ کراچی شہر کی پولیس میں بڑی تعداد پنجاب سے ہو۔ کرپشن کی ایک بڑی وجہ تو یہی بنتی ہے کہ پولیس مقامی نہ ہو۔
دوسرا اہم نکتہ اس تقریر کا، خواتین کی تعلیم ایمرجینسی بنیادوں پہ عام کی جائے گی۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں انکا شرعی حق دیا جائے گا۔
یہ شریعت کے مسائل اسی وقت کھڑے کئے جاتے ہیں جب نیت میں کھوٹ ہو۔ ایک تعلیمیافتہ عورت کے معاشی استحکام کا آپ بندو بست کریں گے یا پاکستانی علماء کی شریعت کے مطابق انہیں ایمرجینسی میں تعلیم دینے کے بعدگھرتک محدود کریں گے۔ کیا ملازمت پیشہ خواتین کے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے ریاستی سطح پہ ادارے قائم کریں گے۔ کیا ایک تعلیم یافتہ عورت کو فیصلہ سازی میں شامل کریں گے یا پھر جنوبی ایشیائ اسلامی شریعت کے مطابق اسے مرد کا تابعدار بنائیں گے؟ کیا ایک عورت کا اپنی پسند کے مرد سے شادی کا اختیار دیں گے یا پھر وہی ولی اور کفو والا مسئلہ چلے گا؟ سو یہ کہنا کہ شرعی حقوق دیں گے یہ کافی مشکوک بیان ہے۔
سب سے اہم بیان جس پہ انہوں نے زور دیا اور جو انکے مطابق غریب دیہات کے مسائل کی جڑ ہے وہ پٹواری نظام ہے اسے وہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن اصل مسئلہ جسکی طرف سے وہ تجاہل عارفانہ برت رہے ہیں وہ
وہی زمینداری نظام ہے جسکے خلاف قاءد اعظم نے بھی بر وقت فیصلہ کرنے سے گریز کیا۔ جب تک کوئ شخص اس نظام کے خلاف نہیں کھڑا ہوگا اسکے انقلاب کا ہر نعرہ جھوٹا ہوگا۔ اس نظام کی جڑیں ہلائے بغیر غریب کی فلاح کی بات کرنا یونہی ہے جیسے کینسر کے مریض کو درد کم کرنے والی دواءووں پہ رکھنا۔ درد کم کرنے کی یہ دوائیں شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لئے کام کر سکتی ہیں لیکن پاکستان کے لئے نہیں۔
یہ نہیں معلوم کہ ہمارے ملک میں جواہر لال نہرو کون بنے گا۔
دوسری طرف ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اسی اسٹیبلشمنٹ کا ڈالا ہوا دانہ ہیں جو وہ عوام کو سراب کے پیچھے دوڑانے کے لئے ڈالا کرتی ہے۔ ورنہ عمران خان کے جلسے میں نہ انکے لئے شاہی کرسی ہوتی اور نہ مجمعے کے لئے کرسیاں۔ تبدیلی کے سیلاب کی باتیں سنہری کرسیوں پہ بیٹھ کر نہیں کی جاتیں اور نہ اشرافیہ کے لاڈلوں کے ساتھ۔ اور نہ ہی کوئ ایسی جماعت تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے جس میں ملکی انٹیلیجنس کے نمائندے شامل ہو رہے ہوں۔ کیونکہ اب تک ہم نے یہ نہیں سنا کہ عمران خان کوئ ایسی روحانی طاقت رکھتے ہیں کہ جو انکی جماعت میں شامل ہو جائے اسکی قلبی حالت چشم زدن میں بدل جاتی ہے۔ ابھی تک کسی نے یا شیخ یا عمران کا نعرہ مار کر دھمال نہیں ڈالا۔ کیونکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ یا شیخ کون ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ایسا کیوں کرتی ہے کہ جب عوام حد سے زیادہ تبدیلی کی خواہش کرنے لگتے ہیں وہ انکے سامنے اپنی پسند کے ایک شخص کو کھڑا کر دیتی ہے؟
جواب بالکل سادہ ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ رند کے رند رہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے۔ انکے مفادات کو ٹھیس بھی نہ پہنچے اور لوگ بھی کچھ عرصے کے لئے مطمئن ہو جائیں کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ۔ بس اسی نکتے پہ کامیابی سے پچھلے باسٹھ سال سے پاکستان کو چلایا گیا ہے۔
تاریخ کہتی ہے کہ انقلاب کسی کے مفادات کی نگرانی نہیں کرتا۔جو مفادات کی حفاظت کرے وہ چالاکی تو ہو سکتی ہے انقلاب نہیں۔ انقلاب جب آتا ہے تو کمزور طاقتور بن جاتا ہے ، غریب، کو مالداروں کے مال تک رسائ ہوتی ہے۔ انقلاب جب آتا ہے تو ساری دنیا کو عجم یعنی گونگا کہنے والے عرب اسی دنیا کا علم ہر ذریعے سے جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اپنے آپکو کم سمجھتے ہیں جبھی تو اکٹھا کرتے ہیں۔
انقلاب کے لئے، کیا عمران خان، جواہر لال نہرو بننے کو تیار ہیں اور پاکستان میں زمینی اصلاحات کریں گے۔ پٹواری نظام کے بجائے کیا وہ کسان کی حق ملکیت کو تسلیم کروائیں گے۔ کیا وہ کمزوروں کے داتا بنیں گے، دیوتا بنیں گے یا کمزوروں کو طاقتور بنائیں گے تاکہ انکی رسائ اپنے حصے کے مال میں تو ہو۔ اگر نہیں تو ایک دفعہ پھر چہرے بدل کر نظام کو بدلنے کی کوششیں عوام کو مبارک ہوں۔ ہم آپکو لبّیک کہتے ہیں یا کپتان۔ لبّیک یا کپتان۔