Showing posts with label ذوالفقار علی بھٹو. Show all posts
Showing posts with label ذوالفقار علی بھٹو. Show all posts

Wednesday, January 11, 2012

پیر کی بیوہ

آج کے اخبار میں بڑی دلچسپ خبریں ہیں ۔ پاکستان کے سیاسی حالات ایک دفعہ پھر ،اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے کی تصویر بن گئے ہیں۔ خیر کوئ بات نہیں، ہم ہر کچھ عرصے بعد اسی طرح نئے اور نازک موڑ پہ کھڑے ہوتے ہیں اب ہمیں ایسے موڑوں پہ کھڑے رہنے کی عادت ہوگئ ہے۔ نہ ہوں تو عجیب سی بے چینی طاری ہو جاتی ہے۔
ڈان اخبار کے پہلے صفحے پہ کورٹ کی طرف سے حکومت کو دئیے گئے نکات کا خلاصہ ہے۔  مجھے سپریم کورٹ کے چھ نکات سے کوئ خاص دلچسپی نہیں۔ سپریم کورٹ کے حالیہ اقدامات یونہی ہیں کہ گرتی ہوئ دیواروں کو ایک دھکا اور دو۔
گیلانی صاحب یا زرداری صاحب اگر عرصہ ء چار سال کے بعد نا اہل قرار پا جائیں تو کیا اور نہ پائیں تو کیا۔  جہاں اتنا برداشت کیا وہاں ایک سال  کیا معنی رکھتا ہے۔ گیلانی صاحب تو ایسے  مجاور ہیں کہ وزیر اعظم ہاءوس سے نکلیں گے تو یادوں کے مزار پہ بیٹھ  کر گل ہائے عقیدت پیش کرنے لگ جائیں گے۔ اس کام کے لئے پہلے انہیں ایوان صدر جانا پڑتا تھا۔ تب انکی  پسندیدہ قوالی میرا کوئ نہیں ہے تیرے سوا کی جگہ، بعد میں کچھ اس طرح ہوگی کہ نصیب آزما چکا، قسمت آزما رہا ہوں، کسی بے وفا کی خاطرمزدا چلا رہا ہوں۔  
اس موقع پہ جہاں انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے ایک ہلچل میں ہیں کہ انکی کٹی انگلی ضائع نہ ہو جائے اور کہیں نہ کہیں انکو بھی پذیرائ مل جائے وہاں اندرون خانہ نئے الیکشن کے فوری انعقاد کے پیش نظر نگراں حکومت میں اپنے مقام کے لئے کوشاں گِدھ پرواز کے لئے تیار ہیں۔ مجھے انکی پروازوں سے بھی دلچسپی نہیں۔ اس سے زیادہ دلچسپی تو مجھے ان گِدھوں سے ہے جو پاکستان اور انڈیا میں اس لئے مر گئے کہ انہوں نے جن جانوروں کا گوشت کھایا تھا وہ ایک ایسی  دوا استعمال کر چکے تھے جو گِدھوں کے کے لئے سم قاتل ثابت ہوئ۔ یہ گوشت انہوں نے حلال ذریعے سے حاصل کیا تھا لیکن پھر بھی راس نہ آیا اور یہ گِدھ تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اب شاید نایاب نسل میں شامل ہو جائیں۔
میں ایک انسان ہوں ، جانوروں سے بس اتنی ہی ہمدردی کر سکتی ہوں۔ ویسے بھی ہمدردی زیادہ کروں یا کم، جانوروں کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ وہ شعور کی اس سطح پہ نہیں جہاں اس قسم کے احسانات کو یاد رکھ سکیں۔
میرے لئے سب سے دلچسپ خبر پاکستانی سیاست کے ایک اہم کردار پیر پگارا کے انتقال کی ہے۔ کل نفس ذائقہ الموت۔ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انکی عمر نوے سال سے زیادہ تھی دستاویزات کے مطابق صرف تراسی یعنی  ۸۳ سال کے تھے۔ مرنے کے لئے ایک جائز عمر۔  تراسی سال کی عمر میں بیمار شخص کا مرنا کوئ ایسی سنسنی نہیں رکھتا۔ پھر مجھے کیوں اتنی دلچسپی ہو رہی ہے؟
کیا اس لئے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کے ساتھ اگلی دنیا میں کیا ہوگا؟ میں اور آپ اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔ چاہے ہم نے وہ کتاب ازبر کر لی ہو جس کا عنوان ہے مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے مجھے نہیں معلوم کہ وہ اگلی دنیا میں بھی حروں کے سردار ہونگے یا نہیں، وہاں بھٹو کے خلاف کسی چلائ جانے والی مہم کا حصہ ہونگے یا نہیں۔
۔
۔
مجھے دراصل اس لڑکی کے بارے میں جاننے کی بڑی خواہش ہے کہ جس سے پیر صاحب نے چھ سات سال پہلے شادی کی تھی۔ ایک نو عمر، اخباری اطلاعات کے مطابق سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی جس نے پیر صاحب کے دو جڑواں بچوں کو بھی جنم دیا۔
اب جبکہ پیر پگارا اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس لڑکی کا کیا ہوگا۔ اب اسکی عمر پچیس چھبیس سال ہو گی۔ اس نو عمری میں پیر پگارا کی بیوہ کا اعزاز حاصل کرنے والی لڑکی اب کیا کرے گی؟
کوئ ہے جو مجھے اسکی خبر لادے۔ 
ہائے رباں، میں تجسس سے بے حال ہوں۔


Thursday, November 17, 2011

لبیک یا کپتان

ضیاء الحق کے دور میں جلا وطنی اختیار کرنے والی پیپلز پارٹی کی رہنما خاتون جب انیس سو اٹھّاسی میں وطن واپس آرہی تھیں تو پاکستان میں یہ نعرہ گونج رہا تھا۔ بے نظیر آئے گی انقلاب لائے گی۔ جس وقت بے نظیر نے لاہور ائیر پورٹ پہ قدم رکھا۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی جو نعرہ لگا رہی تھی۔ بے نظیر آئ ہے انقلاب لائ ہے۔ بے نظیر آئیں، دو دفعہ حکمرانی پہ فائز ہوئیں، اور اس دنیا سے چلی بھی گئیں۔ انقلاب نہ آنا تھا نہ آیا۔ نعرے لگوانے والے اپنا اپنا حصہ لے کر الگ ہوئے اور نعرہ لگانے والے پھر ایک کنارے بیٹھ گئے کہ کب انکی ضرورت دوبارہ پڑتی ہے۔
وطن عزیز میں ایک دفعہ پھر اسی قسم کے نعروں کا زور ہے۔ اس دفعہ انقلاب کے ان نعروں کے لئے عمران خان کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ اسکی وجوہات پہ بھی لوگوں کلو غور کرنا چاہئیے۔ لیکن جب دعوت دیا ہوا, انقلاب سر پہ کھڑا ہو تو ان باتوں کا ہوش کہاں رہتا ہے۔
عمران خان کے لاہور میں ہونے والے جلسے کے بعد انکے حامیوں نے اور اس نادیدہ ہاتھ کے کھلاڑیوں نے جو اقتدار کا ہما اپنے پاس رکھتا ہے انکی تحریک کو اگر وہ کوئ ہے  تحریک پاکستان سے اور انکی شخصیت کو قائد اعظم اور بھٹو سے تشبیہہ دینا شروع کر دی ہے۔
ابھی بھی خیر ہے کہ اسے دنیا کی سب سے بڑی انقلابی تحریک ، تحریک اسلام سے نہیں ملایا گیا۔ 'آ رینکنگ آف دی موسٹ انفلوئینشل پرسن ان دا ہسٹری' کو ترتیب دیتے ہئے جب مائیکل ہارٹ رسول اللہ کو پہلا نمبر دیتا ہے تو وہ انہیں نبی کی حیثیت س نہیں ایک انسان کی حیثیت سے دیکھتا۔ دنیا کے سو اہم با اثر افراد میں شامل ہمارے نبی، اپنے پیروکاروں کے لئے کوئ مثال نہ بن سکے۔ کیونکہ انکی ذہانت، ، بصیرت ، انتظامی صلاحیتیں سب ماورائ طاقت کے سامنے ماند پڑ گئیں۔ انکی ذات عقیدت کے غلاف میں ایسی لپیٹی گئ کہ اب انکا پیروکار انکے لئے کسی کی جان تو لے سکتا ہے۔ لیکن انکی تحریک کی فلاسفی کو سمجھنے کو تیار نہیں۔
اس متنازعہ موضوع کو ہم ایک طرف رکھتے ہیں۔
اور صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس وقت جن شخصیات اور تحاریک کا تذکرہ جوش و خروش سے لیا جا رہا ہے کیا وہ اتنی کامیاب رہیں۔ کہ ہم امید کریں کہ انکی طرز پہ جو تحاریک چلائ جائیں گی وہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہونگیں۔
تحریک پاکستان کا مقصد، کیا مسلمانوں کے لئے محض ایک علیحدہ ریاست بنانا تھا یا مسلمانوں کی ایک ایسی فلاحی ریاست بنانا مقصود تھا جہاں ملک کا ہر شہری اپنے بنیادی حقوق برابری کی بنیاد پہ حاصل کر سکے۔ اگر محض ریاست بنانا مقصد تھا تو یہ تحریک پاکستان کے قیام کے ساتھ ختم ہو جانی چاہئیے تھی۔ لیکن یہ بات صحیح نہ ہوگی کیونکہ تحریک کے دوران عوام سے کچھ وعدے بھی کئیے گئے تھے۔ جن پہ پاکستان بننے کے بعد ، انکی سمت میں کام کرنے سے ہی عمل ہو سکتا تھا۔
جس طرح میں عمران خان کی لاہور والی تقریر میں تاریخی اعلانات کا انتظار کرتی رہی مگر تقریر ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ سامنے نہ آسکے۔ اسی طرح قیام پاکستان کے فوراً بعد قوم نے بھی مسلم لیگی رہنماءووں بالخصوص قائد اعظم سے تاریخی اعلانات کی توقع رکھی ہو گی مگر وہ سامنے نہ آسکے۔ انہوں نے اس تاریخی موقع پہ اگر کچھ کہا تو قوم اب اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
یہ بھی قائد اعظم کی بد قسمتی یا ناکامی ہے کہ انہیں بانی ء پاکستان کا خطاب تو دیا جاتا ہے لیکن انکی شخصیت کے اکثر پہلو نہ صرف عوام سے چھپائے جاتے ہیں بلکہ انکے ارشادات تک کو حذف کا جاتا ہے۔   کیا مصطفی کمال پاشا اتا ترک کے ساتھ ترک ایسا ہی کرتے ہیں۔ قائد اعظم بحیثیت بانی ء پاکستان ، پاکستانیوں کے خیال و فکر پہ اتنا رسوخ بھی نہیں رکھتے جتنا کہ گاندھی، ہندوستانیوں پہ رکھتے ہیں۔  
کیا قائد اعظم ایک ناکام سیاستداں یا ایک ناکام حاکم یا ایک ناکام رہ نماء  اعلی ثابت ہوئے؟
تقسیم ہندوستان کے فوراً بعد جواہر لال نہرو کی سربراہی میں ہندوستان میں زمینداری نظام ختم کرنے کا انقلابی فیصلہ کیا گیا۔  ہم کسی بھی ایسے فیصلے سے محروم رہے۔ کیونکہ لیگی رہنماءووں کا مقصد پاکستان کا حصول ہر قیمت پہ  تھا انہوں نے مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے مذہب کو استعمال کیا، پھر مغربی پاکستان میں زمینداری نظام بہت مضبوط تھا سو انہوں نے جاگیرداروں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ان سے بھی ڈیل کی، ادھر نارتھ انڈیا کے لوگ جو سب سے زیادہ بے تاب تھے ان کے نوابوں کو بھی ایک آسرا دیا۔ بھان متی کے کنبے میں عملی اقدامات کے لئے گنجائش ہی نہیں بچی تھی۔
وہ بس شدت سےایک علیحدہ ملک چاہتے تھے مگر انکے پاس اس ملک کو چلانے کے لئے کوئ حکمت عملی پہلے سے موجود نہ تھی۔ انہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ جب پاکستان وجود میں آجائے گا تو انہیں سویت بلاک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا ہونگے یا امریکن مفادات کو دیکھنا ہوگا۔
کیا قائد اعظم ایک کامیاب رہنما رہے؟
کیا جو وعدہ انہوں نے کیا اسے پورا کر دکھایا؟ 
نہیں۔ سوائے یہ کہ حکومت سازی کا حق مسلمانوں کے چند گروہوں کے پاس آگیا، ہندوستانی عام مسلمان ۔ پاکستانی عام مسلمان کہلایا، وہ کسی انقلابی تبدیلی سے نا آشنا رہا۔
اب پاکستان کی دوسری کرشماتی شخصیت پہ بات کرتے ہیں جن سے عمران خان کو ملایا جا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، ایک ذہین تعلیم یافتہ انسان جو عمران خان کے بر عکس سیاست کے ایوانوں میں خاصی جدو جہد کے بعد مقام اعلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ بنیادی طور پہ سوشلسٹ نظریات سے متائثر تھے اس لئے انہوں نے ملک کے رجحان کو دیکھتے ہوئے اسلامی سوشلزم کا نعرہ بلند کیا۔
لیکن جب انہیں لگا کہ اقتدار کا ہما انکے سر پہ بیٹھنے کے بجائے کہیں اور کا رخ کر رہا ہے تو انہوں نے صبر سے کام لینے کے بجائے، ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ بلند کیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے انکا ساتھ دیا۔ یہ وہ اسٹیبلشمنٹ تھی جومغربی پاکستان کی حکمرانی چاہتی تھی۔ کیوں؟ اسکی وجوہات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ دیگر اور حقائق کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ شاید اس بات کے لئے راضی نہ تھی کہ  معمولی جسامت اور شکل و صورت کے بنگالی ان پہ حکومت کریں۔
یہ در حقیقت تاریخی جھوٹ ہے کہ بھٹو کی تحریک انقلابی تحریک تھی اور اسے عوامی پذیرائ حاصل تھی۔ کیونکہ جمہوری قواعد میں عوامی پذیرائ مجیب الرحمن کو حاصل تھی۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اسکا ساتھ نہ دیا۔ بنگالی الگ ہو گئے۔
بنگالیوں نے الگ ہونے کے بعد سیکولر بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی۔ آج انکی کرنسی کی قیمت ہم سے زیادہ ہے۔ اسکے باوجود کہ وہ ہر کچھ عرصے بعد سیلاب جیسی قدرتی آفت کا شکار ہوتے ہیں۔ پستہ قد، کم صورت بنگالی اپنا استحکام حاصل کرنے میں
کامیاب ہوئے۔
بھٹو کو مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی، سو بنگلہ دیش بننے کے بعد ان سب کو کسی انکوائری کے سامنے حاضر ہونے اور اس سارے واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی وجوہات معلوم کرنےکے بجائے انہیں حکومت کرنے کا حق دیا گیا۔
کیا بھٹو ایک کامیاب سیاستداں تھے؟ 
انہوں نے جو نعرہ دیا کیا اسے پورا کر دکھایا؟ 
انہوں نےاسلامی سوشلزم اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دیا۔ وہ اسے پورا نہیں کر پائے۔ پاکستان کسی بھی انقلابی تبدیلی سے نا آشنا رہا۔ مغربی پاکستان کے جذبے ٹھنڈے ہوئے اور بھٹو اپنے انجام سے دوچار ہوئے۔
پاکستان میں ایک اور تحریک چلی جس نے زبردست عوامی حمایت حاصل کی۔ اور اس نے کراچی شہر کا مزاج ہی بدل دیا۔ لوگوں نے دیوانہ وار اسکے لئے کام کیا۔ وہ ایم کیو ایم کی تحریک تھی۔ لیکن یہ تحریک بھی اسٹیبلشمنٹ کا شکار ہوئ۔ اور اس سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ اب تک پوری نہ ہو سکیں۔
اب انقلاب کا نعرہ ایک دفعہ پھر۔ 
عمران خان کی حالیہ تقریر میں  وہی وعدے اور وہی دعوے جوقیام پاکستان سے اب تک دوہرائے گئے ہیں اسکے علاوہ کیا تھا۔
چند اہم نکات جو مجھے یاد آرہے ہیں۔
ہم پولیس کو غیر سیاسی کریں گے کیسے؟ کیا آپ پاکستانی مزاج سے تعصب کا باہر نکال دیں گے۔  جو کراچی میں لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے مزاج میں بھی ہے۔ 
مجھے یاد ہے کہ  اسّی کی دہائ میں کراچی کے لوگوں کا شدید مطالبہ تھا کہ پولیس مقامی ہونی چاہئیے۔ اور پنجاب سے پولیس بھرتی کا سلسلہ بند ہونا چاہئیے کیا ایسا ممکن ہوا۔ کیا یہ مذاق نہیں تھا کہ کراچی شہر کی پولیس میں بڑی تعداد پنجاب سے ہو۔ کرپشن کی ایک بڑی وجہ تو یہی بنتی ہے کہ پولیس مقامی نہ ہو۔
دوسرا اہم نکتہ اس تقریر کا، خواتین کی تعلیم ایمرجینسی بنیادوں پہ عام کی جائے گی۔  اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں انکا شرعی حق دیا جائے گا۔
یہ شریعت کے مسائل اسی وقت کھڑے کئے جاتے ہیں جب نیت میں کھوٹ ہو۔ ایک تعلیمیافتہ عورت کے معاشی استحکام کا آپ بندو بست کریں گے یا پاکستانی علماء کی شریعت کے مطابق انہیں ایمرجینسی میں تعلیم دینے کے بعدگھرتک محدود کریں گے۔ کیا ملازمت پیشہ خواتین کے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے ریاستی سطح پہ ادارے قائم کریں گے۔ کیا ایک تعلیم یافتہ عورت کو فیصلہ سازی میں شامل کریں گے یا پھر جنوبی ایشیائ اسلامی شریعت کے مطابق اسے مرد کا تابعدار بنائیں گے؟ کیا ایک عورت کا اپنی پسند کے مرد سے شادی کا اختیار دیں گے یا پھر وہی ولی اور کفو والا مسئلہ چلے گا؟  سو یہ کہنا کہ شرعی حقوق دیں گے یہ کافی مشکوک  بیان ہے۔
سب سے اہم بیان جس پہ انہوں نے زور دیا اور جو انکے مطابق غریب دیہات کے مسائل کی جڑ ہے وہ پٹواری نظام ہے اسے وہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن اصل مسئلہ جسکی طرف سے وہ تجاہل عارفانہ برت رہے ہیں وہ وہی زمینداری نظام ہے جسکے خلاف قاءد اعظم نے بھی بر وقت فیصلہ کرنے سے گریز کیا۔ جب تک کوئ شخص اس نظام کے خلاف نہیں کھڑا ہوگا اسکے انقلاب کا ہر نعرہ جھوٹا ہوگا۔ اس نظام کی جڑیں ہلائے بغیر غریب کی فلاح کی بات کرنا یونہی ہے جیسے کینسر کے مریض کو درد کم کرنے والی دواءووں پہ رکھنا۔ درد کم کرنے کی یہ دوائیں شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لئے کام کر سکتی ہیں لیکن پاکستان کے لئے نہیں۔
یہ نہیں معلوم کہ ہمارے ملک میں جواہر لال نہرو کون بنے گا۔
دوسری طرف ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اسی اسٹیبلشمنٹ کا ڈالا ہوا دانہ ہیں جو وہ عوام کو سراب کے پیچھے دوڑانے کے لئے ڈالا کرتی ہے۔ ورنہ عمران خان کے جلسے میں نہ انکے لئے شاہی کرسی ہوتی اور نہ مجمعے کے لئے کرسیاں۔ تبدیلی کے سیلاب کی باتیں سنہری کرسیوں پہ بیٹھ کر نہیں کی جاتیں اور نہ اشرافیہ کے لاڈلوں کے ساتھ۔ اور نہ ہی کوئ ایسی جماعت تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے جس میں  ملکی انٹیلیجنس کے نمائندے شامل ہو رہے ہوں۔ کیونکہ اب تک ہم نے یہ نہیں سنا کہ عمران خان کوئ ایسی روحانی طاقت رکھتے ہیں کہ جو انکی جماعت میں شامل ہو جائے اسکی قلبی حالت چشم زدن میں بدل جاتی ہے۔ ابھی تک کسی نے یا شیخ یا عمران کا نعرہ مار کر دھمال نہیں ڈالا۔ کیونکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ یا شیخ کون ہے۔
 اسٹیبلشمنٹ ایسا کیوں کرتی ہے کہ جب عوام حد سے زیادہ تبدیلی کی خواہش کرنے لگتے ہیں وہ انکے سامنے اپنی پسند کے ایک شخص کو کھڑا کر دیتی ہے؟
جواب بالکل سادہ ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ رند کے رند رہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے۔ انکے مفادات کو ٹھیس بھی نہ پہنچے اور لوگ بھی کچھ عرصے کے لئے مطمئن ہو جائیں کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ۔ بس اسی نکتے پہ کامیابی سے پچھلے باسٹھ سال سے پاکستان کو چلایا گیا ہے۔
تاریخ کہتی ہے کہ انقلاب کسی کے مفادات کی نگرانی نہیں کرتا۔جو مفادات کی حفاظت کرے وہ چالاکی تو ہو سکتی ہے انقلاب نہیں۔ انقلاب جب آتا ہے تو کمزور طاقتور بن جاتا ہے ، غریب، کو مالداروں کے مال تک رسائ ہوتی ہے۔ انقلاب جب آتا ہے تو ساری دنیا کو عجم یعنی گونگا کہنے والے عرب اسی دنیا کا علم ہر ذریعے سے جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اپنے آپکو کم سمجھتے ہیں جبھی تو اکٹھا کرتے ہیں۔ 
انقلاب کے لئے، کیا عمران خان، جواہر لال نہرو بننے کو تیار ہیں اور پاکستان میں زمینی اصلاحات کریں گے۔ پٹواری نظام کے بجائے کیا وہ کسان کی حق ملکیت کو تسلیم کروائیں گے۔ کیا وہ کمزوروں کے داتا بنیں گے، دیوتا بنیں گے  یا کمزوروں کو طاقتور بنائیں گے تاکہ انکی رسائ اپنے حصے کے مال میں تو ہو۔ اگر نہیں تو ایک دفعہ پھر چہرے بدل کر نظام کو بدلنے کی کوششیں عوام کو مبارک ہوں۔ ہم آپکو لبّیک کہتے ہیں یا کپتان۔ لبّیک یا کپتان۔

Saturday, October 22, 2011

کتے کی موت

ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے,  کیسے؟ یہ نہیں معلوم۔ 
تاریخ بنانے والے کی موت بھی تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح اکثر متنازع شخصیات کی موت بھی وجہ ء تنازعہ کو جنم دیتی ہے۔ اس لئے کہ مرنے والے کے پیچھے بھی لوگوں کے گروہ بن جاتے ہیں ایک اگر اسکی موت کو کتے کی موت قرار  دیتا ہے تو دوسرا اسے رحمۃ اللہ علیہ بنانے میں کوئ کسر نہیں چھوڑ رکھتا۔
اس وقت اس بات کی تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہیں کہ کتے کی موت میں ایسی کیا بات ہے کہ دشمن اگر رسوا کن انداز میں مرے تو اسے کتے کی موت قرار دیا جائے۔ کیونکہ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ کتا بھی ایسے ہی جان دیتا ہے جیسے بلی، گھوڑا یا ہاتھی  حتی کہ انسان۔
کتے کو اتنا حقیر کیوں سمجھا جاتا ہے؟ کیا کتا اس بات سے واقف ہے کہ  انسان کی نظر میں وہ اتنا حقیر ہے اگر وہ ہے تو سبق سکھانے کے لئے روزانہ انسان کو کاٹنے کی مہم پہ کیوں نہیں نکلتا؟ کیا یہ کوئ ایک کتا ہے یا سب کتے ہیں؟ کیا کتوں میں تعلیمی شرح انسانوں سے بھی گئ گذری ہے؟ کیا کتوں میں بھی امیر اور غریب کے طبقات موجود ہیں اور وہ انکی نفسیات پہ اثر ڈالتے ہیں؟ کیا انسان پہ کتوں کی امارت اور غربت سے فرق پڑتا ہے؟  نہ نہ یہ بات اس وقت نہیں کسی یوم کتا پہ کریں گے۔ 
پاکستان کی تاریخ میں دو پاکستانی شخصیات کو ایسی ہی اموات کا سامنا کرنا پڑا۔ 
ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا ہوئ۔  حامی آخری وقت منتظر رہے کہ بیرونی طاقتیں اسے رکوا دیں گی لیکن ایک دن منہ اندھیرے جلاد نے تختہ ء دار  کھینچا اور پاکستان کی ایک متنازع شخصیت کو اسکے انجام تک پہنچا دیا۔
ایول جینیئس، میرے ایک عزیز بزرگ کا کہنا تھا، بے حد ذہین آدمی مگر نیت خراب۔ وہ بے حد زیرک انسان تھے لیکن ذہانت کو منفی سطح پہ زیادہ استعمال کیا۔ انہوں نے پاکستانی سیاست میں عوامیت کو داخل کیا۔ لیکن ان پہ پاکستان توڑنے کے الزام لگے انہیں مغرور اور خود پسند شخص کہا گیا۔
مذہبی جماعتوں کے نزدیک وہ فاسق تھے ایک ایسا شخص جو مجمعے میں کھڑا ہو کر کہہ دے کہ میں شراب پیتا ہوں لوگوں کا خون نہیں تو فاسق ہی ہوا ناں۔ لیکن یہ کریڈٹ بھی انکے حصے میں گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ وہی قادیانی جسکے ایک فرد کو قائد اعظم نے اپنی مملکت کا وزیر خارجہ بنایا بغیر یہ سوچے کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو پاکستان کے لئے ایٹمی ہتھیار بنانے پہ راضی کرنے والے وزیر اعظم کو کہا گیا کہ انہوں نے یہ سب کچھ اپنے اوپر سے پاکستان کو دو لخت کرنے کے داغ کو دھونے کے لئے کیا۔ پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا۔ بھٹو کا نام  اس سلسلے میں پیچھے چلا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا نام آگے آگیا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی جماعتوں کے دباءو میں آگئے تھے۔ یا یہ کہ وہ اپنے اقتدار کا استحکام ہر قیمت پہ چاہتے تھے۔ یوں اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگانے والا رہنما مذہبی جماعتوں سے املا لینے لگا۔ انہوں نے ہی مذہبی جماعتوں کے دباءو پہ پاکستان میں جمعے کی چھٹی متعارف کرائ۔ جو کہ ملکی اقتصا دیات پہ بھاری ثابت ہوئ۔ لیکن مذہبی جماعتوں کو خوش رکھنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ بالآخر تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر نظام مصطفی کے نفاذ کی تحریک چلائ اور فوج نے اس بہانے اقتدار سنبھالا۔
بھٹو کی پھانسی کے دن جہاں ایک طبقے نے خس کم جہاں پاک کا نعرہ بلند کیا وہاں ایسے بھی لوگ تھے جو اس خبر کی تاب نہ لا سکے اور خود کشی کر لی۔ ایک کے نزدیک وہ کتے کی موت مارا گیا دوسرے کے نزدیک شہید کی موت۔
قاتل کی یہی سزا ہونی چاہئیے تھی، قاتل کیسے شہید ہو سکتا ہے؟ لوگوں نے سوال اٹھائے۔ لیکن انکے مزار پہ لوگوں کی ایک تعداد اپنی دعاءووں کی قبولیت کی منتظر رہتی ہے۔ لوگ تو بکھرے ہوئے پھولوں سے بھی کرامتیں جوڑتے ہیں۔ اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
پاکستانی تاریخ کی سب سے مضبوط شخصیت جنرل ضیاءالحق ثابت ہوئے۔ اپنے سب سے بڑے ممکنہ دشمن کو پھانسی پہ پہنچا کر مذہبی جماعتوں کو نفاذ شریعت کی لالی پاپ دئے رکھی ادھر فوج کو امریکہ کا حلیف بنا کر روس کے خلاف جنگ میں افغانیوں کے ساتھ شامل ہوئے۔ جی اُسی امریکہ کا جسکے منہ کالا ہونے کی آج دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ پھر وہی اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
بھٹو اور ضیاءالحق ایک یادگار تصویر

پاکستانی معاشرے میں ہیروئین، کلاشنکوف اور لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آئے جو اپنے ساتھ اپنی ثقافت لے کر آئے، وہ آئے اور چھا گئے۔ ضیاءالحق نے پاکستانی طاقت کے کھیل میں بڑا جم کر کھیلا۔ اگر طیارہ نہ پھٹتا یا پھاڑا نہ جاتا تو شاید آج وہ کرنل  قذافی کی ٹکر پہ ہوتے۔
ہر عروج کو زوال دیکھنا ہوتا ہے۔ بالآخر وہ دن بھی آیا جب پاکستانی عوام نے ٹی  وی پہ غلام اسحق خاں کی زبانی یہ اعلان سنا کہ ہمارے ملک پہ گیارہ سال سے قابض ہمارے محبوب صدر ہوا میں طیارہ پھٹنے سے جاں بحق ہو گئے۔  جائے حادثہ سے ایک جبڑا ملا جسکی شناخت محبوب صدر کے جبڑے کے طور پہ کی گئ۔ اور اس جبڑے کی آخری رسومات عمل میں لائیں گئیں۔
مجھے یاد ہے کہ محلے میں کچھ لوگ ٹی وی پہ جاری تدفین کی لائیو ٹرانسمیشن پہ آنسوءووں سے رو رہے تھے۔ تقریب کی کمنٹری کرنے والے صاحب اظہر لودھی بار بار رقّت کا شکار ہو رہے ہیں۔
ٹی وی پہ جاری ٹرانسمیشن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جائے تدفین پہ آئے ہوئے تھے۔ کچھ کے نزدیک میلے میں شرکت کرنے آئے تھے کیونکہ اس دن پاکستان میں چھٹی تھی، کچھ کے نزدیک عقیدت اور صدمے میں آئے تھے۔
  عین اسی وقت کچھ لوگ خوش تھے ایک مکار ڈریکولا صفت شخص سے جان چھوٹی۔ وہ شخص جس نےذاتی اقتدار کے لئے پاکستان کو مذہب کی انتہا پسندی میں جھونک دیا ایک آسیبی دور جسکے ختم ہونے پہ خیر کی کچھ امید تھی۔ وہ جس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہب کو بری طرح استعمال کیا۔ جس نے پاکستان کو جہاد کا مرکز بنا دیا اور اپنی نوجوان نسل کو ہیروئین اور اسلحے کا نشہ دیا یا پھر جنگی جنون۔
اس نے پاکستان کو روشن مستقبل دینے کے بجائے ایک دہشت گرد ملک بنانے کی بنیاد رکھی۔ اس نے پاکستانی معاشرے کو ایک منجمد اور بند معاشرے میں تبدیل کیا۔ اس نے پاکستانی فوج کو ڈالرز کا چسکا دیا او معاشرے میں کرپشن کو بڑھاوا۔ جنرل ضیاء الحق پہ ملکی تباہی کے سنگین الزامات ہیں۔
سو ایک طبقے کے نزدیک وہ کتے کی موت مارے گئے۔ خدا نے انکا دنیا میں ہی انجام دکھلا دیا۔ بہادر شاہ ظفر کو تو دو گز زمین وطن میں نہ ملی۔ ضیاءالحق کے لئے زمین موجود تھی مگر جسم نہ مل رہا تھا نامعلوم کس کے جبڑے پہ اکتفا کرنا پڑا۔ انکی قبر اگرچہ کہ شاہ فیصل مسجد کے ساتھ موجود ہے مگر اس پہ کوئ شاذ ہی جاتا ہے۔ مر گئے مردود نہ فاتحہ نہ درود۔ لیکن اپنے حامیوں کے لئے انکی موت ایک شہید کی موت تھی۔ ایک فوجی جو دوران ملازمت جان دے وہ ایک شہید کی موت مرا۔ ہم کیا کہیں، اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
زندگی نے ہمیں ایک دفعہ پھر واقعات کا چشم دید گواہ بنایا۔  اتنا کہ ہم نے دیکھا، کس طرح رات کے اندھیرے میں امریکن طیارے پاکستان کی حدود میں اتنی احتیاط سے داخل ہوئے جسکے لئے کہتے ہیں کسی کوکانوں کان خبر نہ ہونا۔  اور ایک ایسے شخص کو موت کی نیند سلا گئے بلکہ اسکی لاش بھی ساتھ لے گئے، جو ایک عرصے سے روپوش تھا مگر دنیا ہلائے ہوئے تھا۔

ایک غیر پاکستانی جس پہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد فدا تھی۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کا پسندیدہ مجاہد جس مکان میں کئ سال سے اپنے لمبے چوڑے خاندان سمیت چھپا ہوا تھا اسی میں مارا گیا۔ مخالفین خوش کہ کتے کی موت مارا گیا۔ وہاں بیٹھا دوسروں کے بچے مروا رہا تھا اور اپنے تین بیویوں سے پیدا کر رہا تھا۔  حامیوں نے اسے شہید کی موت قرار دیا۔ مجاہد اگر کفّار کے ہاتھوں مارا جائے تو شہید ہے۔ کئ سوالات پیدا ہوئے۔ بڑی گرما گرمی رہی۔ سب سے اہم بات یہی رہی کہ کیا فرزند زمین نے اسامہ کو شہادت کے رتبے تک پہنچانے میں اپنا خاموش کردار ادا کیا؟ کیونکہ انکے ہاتھوں مرتا تو شہادت مشکوک ٹہرتی۔ ایک دفعہ پھر، اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
لیبیا کے صدر کرنل قذافی کوایک عرصے تک پاکستان میں سرکاری سطح پہ ہی نہیں عوامی سطح پہ بھی خاصی مقبولیت  حاصل رہی۔
یاسر عرفات، بھٹو اور کرنل قذافی
کہتے ہیں انیس سو چوہتّر میں بھٹو صاحب نے سرزمین پاکستان پر ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقعے پر، انکی اس بات سے خوش ہو کر کہ پاکستان کو بھی ایٹمی طاقت بننا چاہئیے انکے نام پہ لاہور اسٹیڈیئم کا نام قذافی اسٹیڈیئم رکھ دیا تھا۔ جو آج تک یونہی چلا آرہا ہے۔  حالانکہ قذافی سوشلسٹ قوتوں سے انسیت رکھتے تھے لیکن انکے امریکہ مخالف جذبات کو ہم سب بڑی اچھی نظر سے دیکھتے تھے۔ ہم پاکستانی بس ایسے ہی ہوتے ہیں،  جس پہ ایک دفعہ صدقے واری ہو جائیں، پھر وہی بھاگ جائے تو بھاگ جائے ہم پیچھے نہیں ہٹتے۔ جس سے زیادہ محبت ہو اسے شہید کروانے میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ ہماری طرف سے محبت کا آخری ایوارڈ ہے۔
خیر جناب، ٹرکوں کے پیچھے قذافی صاحب کی تصاویر ہم نے بھی دیکھی ہیں۔ دو ہزار نو میں افریقیوں کی طرف سے 'شاہوں کے شاہ' کا لقب ملنے میں ہم نے زیادہ دلچسپی نہیں لی۔  اسکی وجہ قذافی کا اپنی حفاظت کے لئے خواتین دستوں کو رکھنا تھا۔  خواتین محافظ دستے توبہ توبہ، سٹھیا ہی گئے ہیں۔ حالانکہ اس وقت تک وہ ساٹھ سال کے بھی نہ ہوئے تھے۔ مگر انکی اس حرکت کی وجہ سے ایک پھٹکار لوگوں کو انکے چہرے پہ نظر آتی تھی۔
یہ بھی بڑی عجیب بات سنی کہ قذافی نے لیبیا میں اسلامی قوانین نافذ کر رکھے تھے۔ مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، شادی شدہ جوڑوں کا شادی کرنے تک کنوارہ ہونا ضروری تھا، ملک کے ایک بہت محدود علاقے سے ہٹ کر باقی ماندہ ملک میں خواتین کا گھر سے نکلنا ممنوع تھا۔ خواتین کا بغیر گھر کے مردوں کے گھر سے نکلنا ممنوع تھا۔ یہ سب روائیتی پاکستانی نکتہ ء نگاہ سے کافی پسندیدہ چیزیں ہیں لیکن خواتین محافظین کا اپنی حفاظت کے لئے رکھنا کافی عجیب نفسیات کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ چاہے روائیتی پاکستانی ہوں یا غیر روائیتی پاکستانی۔ ان خواتین محافظین نے انکی یہاں مقبولیت کو متائثر کیا۔
مغرب نے انکے خلاف پروپیگینڈے میں، میں اسے پروپیگینڈہ ہی کہونگی۔ کیونکہ میں بھی اس پاکستانی نسل سے تعلق رکھتی ہوں جو جنگی ترانے یاد کرتے ہوئے عمر کے اس حصے میں پہنچا ہے اور صرف جنگ سے وابستہ افراد کو ہی ہیرو سمجھتے ہیں اور اگر وہ مسلمان ہوں تو پھر انکی ماورائ حیثیت پہ صدق دل سے ایمان لاتے ہیں۔
ہاں تو ان پہ الزام ہے کہ انہوں نے کیمیائ ہتھیار رکھے ہوئے تھے۔ اگرچہ عراق پہ حملے کے بعد مغرب کی نظر میں انکا دماغ کافی سیدھا ہوا لیکن بہرحال ملک پہ بیالیس سال تک حکومت رکھنا اچھی بات نہیں سمجھی گئ۔ شاید بنیادی حسد کی وجہ یہی تھی کہ تمام مغربی ممالک ایک ہو گئے۔ اب اگر انہوں نے اپنے قوانین ایسے بنا لئے ہیں کہ کوئ شخص چند سال سے زیادہ نہ ٹک سکے تو اس میں قذافی جیسے آمروں کا کیا قصور۔ آج امریکہ میں ہونے والے احتجاجی مطاہروں کے بعد ہم سوچتے ہیں کہ ایک کی جمہوریت اور دوسرے کی آمریت میں آخر فرق ہی کیا ہے ؟

وال اسٹریٹ پہ قبضہ کرو، امریکیوں کا احتجاج

ان پہ الزام رہا کہ اگرچہ تیل کی آمدنی سے انہوں نے لیبیا کے عوام کی معاشی حیثیت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی لیکن سب سے زیادہ دلچسپی انہوں نے اپنی اور اپنے خاندان کی مالی حالت کو مستحکم اور سدا قائم رکھنے کے لئے کی۔
قذافی کی سوانح حیات اپنے اندر بڑی دلچسپی رکھتی ہے۔ لیبیا کے علاقے سرت میں ایک چھوٹے سے قبیلے جو کہ گدڑیوں کا پس منظر رکھتا ہے اس میں جنم لینے والے اس شخص نے انیس اکسٹھ میں فوجی اکیڈمی جوائین کی  یہاں سے گریجوایٹ کیا۔ اور حیران کن طور پہ انیس سو انہتّر میں صرف آٹھ سال بعد عین عالم نوجوانی  یعنی انتیس سال کی عمر میں لیبیا کی حکومت کا تختہ الٹ کر حکومت پہ قابض ہو گئے ، پھر اسکے بعد بیالیس سال تک اس ملک کے سیاہ اور سفید کے مالک بنے رہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے ملک میں ایسا کوئ منصوبہ نہ تھا جس میں قذافی یا انکے خاندان کو مالی منفعت نہ پہنچتی ہو۔
انکے شاہانہ طرز زندگی پہ بڑی تنقید کی جاتی ہے۔ یہ تنقید کرتے ہوئے لوگ بھول جاتے ہیں کہ وہ شاہوں کے شاہ تھے  انہیں اپنے لئے یہ خطاب پسند تھا۔ بہرحال، انہوں نے اپنے عوام کو کچھ تو دیا۔  ہماری طرح اپنے آپکو سجدے کروا کر کیڑے مکوڑوں کی طرح تو نہیں چھوڑ دیا تھا۔ لیکن بہر حال ملک کے مشرقی حصے کی معاشی حالت انتہائ دگرگوں بتائ جاتی ہے اور اس وجہ سے عوامی سطح پہ انکے خلاف مہم چلانے کی گنجائیش موجود تھی۔ ہم ابھی اس عوامی شعور سے محروم ہیں جو ملک پہ اپنا حق سمجھتا ہو۔ عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ ملک دراصل زرداروں اور شریفوں کا ہے اور انکا شکریہ کہ وہ انکا نام یاد رکھتے ہیں۔
قذافی اپنے آپکو خبروں میں رکھنے کا ہنر جانتے تھے یا یہ کہ ایک طبقے کے مطابق انہیں اپنے آپکو خبروں میں رکھنے کا جنون تھا۔ اپنی ذات کے لئے، وہ ایک جنونی تھے۔
سوڈان میں جب مسلم حکمراں ، حکومت میں آئے تو قذافی نے سوڈان کو پیش کش کی وہ لیبیا میں ضم ہو جائے۔ سوڈان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور اپنے ملک کے عیسائیوں سے امن کا معاہدہ کر لیا۔ یہ بات انہیں بہت ناگوار گذری۔ اسکے بعد انہوں نے دیگر ملکوں کے ساتھ یہ کوشش کی کہ ایک عظیم اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی جائے۔ کہنے والے اسے بھی انکے اس دماغی فتور سے جوڑتے ہیں کہ ان میں ایک بڑے رقبے پہ حکمرانی کا جذبہ تھا اور اسی لئے وہ اسکے لئے اتنے کوشاں تھے۔
اب یہ بات بھی بڑی عجیب لگتی ہے کہ کہاں وہ اسلامی مملکت کے قیام کا خواب دیکھتے ہوں اور کہاں وہ نظریاتی طور پہ سوشلسٹ ہوں اور علاقے کی سوشلسٹ قوتوں سے انکے اچھے مراسم رہے ہوں۔
آٹھ مہینے پہلے جب لیبیا میں جمہوریت لانے کے بہانے انکے خلاف باغیوں کو کمک دی گئ تو کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ امریکہ اس بہانے لیبیا کا تیل حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ دنیا کی سلامتی کو کرنل قذافی کی دیوانگی سے لاحق خطرات سے نجات دلانا چاہتا ہے۔  لیکن بعد کے حالات نے دکھایا کہ اقتدار کا جنون قذافی میں اتنا بڑھ گیا تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں پہ حملہ کر ڈالا۔ پھر یوں ہوا کہ دیوانہ مارا گیا۔
آج جب ٹی و ی پہ ویڈیوز اور خبریں آرہی ہیں تو لیبیا کے عوام قذافی کی موت پہ خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں۔ جس باغی کے کپڑوں پہ انکے خون کے نشان ہیں وہ کہتا ہے کہ میں اسے زندگی بھر نہیں دھوءونگا اور اسے سنبھال کر رکھونگا۔ عوام پہ جب جنون طاری ہوتا ہے تو تخت اور تختے میں زیادہ فرق نہیں رہتا۔
بہرحال، میں بحیثیت پاکستانی کچھ الجھن میں ہوں۔ آیا امریکہ کے خلاف کھڑے ہونے والے مسلم جنگجو کی موت پہ افسوس کرنا چاہئیے۔ افسوس کرنا چاہئیے کہ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد ریاست ایک دفعہ پھر اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوئ۔ ایک دفعہ پھر ایک مسلم اکثریتی ملک کا مسلم حکمراں ہار گیا۔ یا بحیثیت ایک انسان یہ سوچ کر خوش ہوجاءوں کہ ایک خود پسند بادشاہ اپنی طبیعت کے جبر کا شکار اپنے انجام کو پہنچا۔ اب اسکے عوام اپنی زندگیوں کو اس دھارے میں لانے میں کامیاب ہونگے جو وہ چاہتے تھے۔ جسکے لئے انہوں نے تن من دھن کی بازی لگادی۔ میری یہ الجھن کیسے رفع ہوگی؟ کیا کہوں کیا یہ کہ مجنوں قذافی کتے کی موت مارا گیا۔  یا پھر یہ کہ قذافی کو مرتبہ ء شہادت دوں۔ کیا اللہ کی باتیں اللہ ہی جانتا ہے۔
آخر مخلوق کو خدا یہ حق کیوں نہیں دیتا کہ وہ بھی اسے جان لیں؟ کیا خدا کے یہاں جمہوریت نہیں ، آمریت ہے؟ پھر آمر سے جھگڑا کیوں؟ پھر اس بات کا رولا کیوں کہ انسان خدا بننا چاہتا ہے۔ آخر انسان کے سامنے ایک پسندیدہ مکمل ماڈل خدا ہی کا تو ہے۔
اُف اتنے سوالات، سوال کرنے سے انسان ہونا ثابت ہوتا ہے کبھی خدا سوال نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔