میری بچی نے جیسے ہی سامنے پڑا ہوا کھلونا اٹھایا اسکی ہم عمر میزبان بچی نے لپک کر اسکے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی۔ یہ دیکھ کرمشعل نے اس پہ اپنی گرفت اور سخت کر دی۔ 'مجھے یہ اچھا لگ رہا ہے میں اس سے کھیلونگی'۔ اس نے احتجاج کیا۔ میزبان بچی نے کہا نہیں یہ میرا ہے۔ میں اس سے کھیلتی ہوں ۔ ماں نے کہا وہ تمہارے گھر مہمان آئ ہے تھوڑی دیر میں چلی جائے گی۔ تم اسکے ساتھ کھیل لو لیکن بچی نے یہ تسلیم نہیں کر کے دیا۔ میں نے مشعل کو سمجھایا کہ یہ تمہارا نہیں ہے اسکا ہے۔ واپس رکھ دو۔ لیکن اسے یہ بات نہیں سمجھ آ رہی تھی کہ سامنے اتنے سارے کھلونے موجود ہیں تو وہ کیسے ان میں سے کسی کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔
یہ سب کچھ ترقی یافتہ، پہلی دنیا کے اس حصے میں ہو رہا تھا جہاں ٹی وی پروگرامز میں یہ نصیحت بچوں کو ہی نہیں والدین کو بھی بار بار کی جاتی ہے کہ شیئر کرو، شیئر کرنے کی عادت ڈالیں۔ چاہے وہ بارنی شو ہو یا ڈورا دی ایکسپلورر۔
صرف یہی ایک گھر نہیں، بلکہ ہم وہاں رہتے ہوئے جس گھر میں بھی گئے وہاں بچوں کا کم و بیش یہی رویہ تھا۔ گھروں میں ہر طرح کے کھلونوں کا ایک ڈھیر لگا ہوا لیکن میزبان بچے کو یہ فکر کہ آنے والا مہمان بچہ کہیں اسکے کھلونوں سے کھیلنے نہ لگے۔ اکثر بچے اس کے لئے مار پیٹ پہ آمادہ۔ وہ کھیلنے سے زیادہ اس باتکے لئے فکر مند تھے کہ نیا آنے والا بچہ کہیں انکی چیزوں پہ قابض نہ ہو جائے۔ چیزیں انکے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔
اسکے چند مہینے بعد ہم پاکستان میں گوادر جیسی پسماندہ جگہ پہ موجود تھے۔ نیم دیہاتی سا علاقہ جہاں بچے سارا سارا دن گلیوں میں گھومتے رہتے ہیں ایک دوسرے کے گھروں میں ٹہلتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں معلوم چلتا کہ یہ حقیقتاً کس بچے کا گھر ہے۔ انکی دنیا میں بہت محدود تعداد میں کھلونے ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پہ میں نے یہاں یہ گردان نہیں سنی کہ یہ میرا ہے۔
در حقیقت کسی بچے کو اسکی فکر ہی نہیں تھی کہ کیا میرا ہے۔ وہ صرف کھیلنا چاہتے ہیں آزادی سے، گھر میں، گلیوں میں، سمندر کنارے، مٹی سے، پانی سے، دوسرے بچوں سے۔
مگر دونوں جگہ کے بڑے اپنے بچوں سے اتنے مختلف کیوں ہیں؟