Showing posts with label صہبائ. Show all posts
Showing posts with label صہبائ. Show all posts

Saturday, September 4, 2010

سر سید احمد خان-تعلیم۔ ۲


سر سید کی تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا۔ بسم اللہ قرآن حکیم سے ہوئ۔ اپنی والدہ اور ایک استانی سے جو انکے خاندان کے بچوں کو پرھاتی تھیں پڑھنا لکھنا سیکھا پھر فارسی اور عربی کی ابتدائ کتابیں پڑھیں۔ گلستان اور بوستان کے مطالعے میں بھی انکی والدہ انکی مدد کرتی رہیں۔ مکتب کی تعلیم میں مولوی حمید الدین انکے اتالیق تھے۔ تعلیمی استعداد پیدا ہونے پہ اپنے ننہیالی تلخصص ریاضی کی طرف آئے۔ پھر آلات رصد کے علوم کی تحصیل کا شوق ہوا۔ پھر اپنے خاندانی حکیم غلام حیدر کے زیر اثر طب میں دلچسپی لینے لگے۔ طب کی ابتدائ کتابیں ان سے پڑھیں اور کچھ عرصے انکی شاگردی میں طبابت کا تجربہ حاصل کیا۔ یہ دلچسپی بھی زیادہ عرصے نہ رہی۔ طبیعت کے رجحان اور افتاد طبع کے مطابق مختلف کتابیں انکے زیر مطالعہ رہیں مگر علم کے کسی خاص شعبے میں کوئ قابل لحاظ قابلیت پیدا کرنے کا خیال نہیں آیا۔ البتہ دہلی کی علمی و ادبی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقعہ انہیں اکثر ملتا رہتا تھا۔ اہل علم و ادب سے انکی ملاقات رہتی۔ اس وقت کے مشہور شعراء و ادباء میں مرزا غالب، مفتی صدر الدین خان آزردہ۔ اور امام بخش صہبائ کے ہاں انکا آنا جانا تھا۔
سن  ۱۸۴۶میں انکے عزیز بڑے بھائ سید محمد خان چند روز بیماری میں مبتلا رہ کر وفات پا گئے۔ اس صدمے نے انکے دماغ پہ گہرا اثر ڈالا۔ دنیا کی رنگینیوں سے دل اچاٹ ہو گیا۔انکی کایا ہی پلٹ گئ۔ داڑھی بڑھا لی۔ زہد و تقوی میں مستعد ہو گئے۔ علم کی پیاس ازسر نو عود کر آئ دینی کتب کا کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ لڑکپن میں جو رسائل سرسری پڑھے تھے انہیں دوبارہ غور خوض سے پڑھا۔ مولوی واعظ علی جو دلی کے مشہور واعظ تھے ان سے علم فقہ پر کتابیں پڑھیں۔ مولوی فیض  الحسن سے مقامات حریری اور سبعہ معلقہ کے چند قصیدے سبقاً پڑھے۔ شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے اور شاہ رفیع الدین کے خلف الصدق سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ پھر انہی سے علوم القراں کی تحصیل کی اور سند لی۔
اس دوران صہبائ، آزردہ اور غالب کے یہاں بھی باقاعدگی سے حاضر ہوتے رہے۔ اور ان سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ غالب کے خاندان سے انکے ننہیال کے خاندانی روابط تھے۔ وہ انہیں اپنا چچا کہتے تھے اور غالب ان سے بیٹوں جیسا سلوک کرتے اور شفقت فرماتے۔
تو صاحب، یہ ان لوگوں کے قصوں میں سے ایک کا قصہ ہے جو اپنی جہالت پہ فخر کر کے اسے بیان نہیں کرتے تھے بلکہ اسے کم کرنے کی جدو جہد میں لگے رہتے تھے۔ یہ کہانی ابھی جاری ہے۔

سر سید احمد خان-تعلیم۔ ۱

گذشتہ سے پیوستہ

سر سید کا نام انکے والد کے پیر و مرشد ، شاہ غلام علی نے احمد خان رکھا تھا۔ وہ پیدائیش کے وقت بڑے تندرست اور صحت مند تھے۔ جب انکے نانا نے انہیں پہلی دفعہ دیکھا تو کہا ' یہ تو ہمارے گھر میں جاٹ پیدا ہوا ہے'۔
وہ اپنے بچپن میں شوخ، شرارتی اور مستعد تھے۔ ایک دفعہ اپنے ہمجولی کو مکا دے مارا اس نے ہاتھ پہ روکا تو اسکی انگلی اتر گئ۔ بچپن میں وہ پڑھائ لکھائ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے، نہ انہوں نے تعلیم کے دوران کسی غیر معمولی ذہانت یا طباعی کا مظاہرہ کیا۔لیکن وہ اپنا سبق باقاعدگی سے یاد کرتے تھے۔ گھر میں پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا۔ انکی والدہ اور نانا انکی تدریس اور تعلیم کا خیال رکھتے تھے۔اپنے نانا کے ساتھ کھانے کا تذکرہ سر سید اس طرح کرتے ہیں۔
میرے نانا صبح کا کھانا اندر زنانہ میں کھاتے تھے۔ بچوں کے آگے خالی رکابیاں ہوتی تھیں۔ نانا صاحب ہر ایک بچے سے پوچھتے تھے کہ کون سی چیز کھاءوگے؟ جو کچھ وہ بتاتا وہی چیز چمچے میں لے کر اپنے ہاتھ سے اسکی رکابی میں ڈال دیتے۔ تمام بچے  بہت ادب اور صفائ سے انکے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ سب کو خیال رہتا تھا کہ کوئ چیز گرنے نہ پائے۔ ہاتھ کھانے میں زیادہ نہ بھرے اور نوالہ چبانے کی آواز منہ سے نہ نکلے۔ رات کا کھانا وہ دیوان خانے میں کھاتے تھے ہم سب لڑکے انکے ساتھ بیٹھتے تھے۔ ہم کو بڑی مشکل پڑتی تھی۔ نہایت سفید چاندنی کا فرش بچھا ہوا ہوتا تھا کسی کے پاءوں کا دھبہ سفید چاندنی پر لگ جاتا تھا تو اسکو بھگا دیتے تھے کہ کتے کے پاءوں کیوں رکھتا ہے۔ روشنائ وغیرہ کا دھبا کسی کے کپڑے پر ہوتا تھا تو اس سے بھی نا خوش ہوتے تھے۔
سر سید میں اظہار بیان کا ایک قدرتی جوہر تھا۔ جو بعد میں انکی شخصیت کا وصف بن کر سامنے آیا۔ اسکا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے۔
سر سید ایک دن اپنے نانا حضور کو سبق سنا رہے تھے کہ اس مصرعے پہ پہنچے۔ طمع را سہ حرف است، ہر سہہ تہی۔
سر سید نے ترجمہ کیا طمع کے تین حرف تینوں خالی۔ وہ خفا ہوئے بولے۔ 'بے پیر، سبق یاد نہیں کرتا۔'۔ سر سید کہتے ہیں مجھے اتنا رنج ہوا کہ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔  بعد میں خیال آیا کہ است کا ترجمہ نہیں کیا۔ ورنہ فقرہ یوں ہوتا۔ طمع کے تین حرف ہیں تینوں خالی۔ لیکن دیکھا جائے تو سر سید کا بے ساختہ ترجمہ زیادہ رواں، فصیح اور اردو محاورے کے قریب ہے۔