سر سید کی تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا۔ بسم اللہ قرآن حکیم سے ہوئ۔ اپنی والدہ اور ایک استانی سے جو انکے خاندان کے بچوں کو پرھاتی تھیں پڑھنا لکھنا سیکھا پھر فارسی اور عربی کی ابتدائ کتابیں پڑھیں۔ گلستان اور بوستان کے مطالعے میں بھی انکی والدہ انکی مدد کرتی رہیں۔ مکتب کی تعلیم میں مولوی حمید الدین انکے اتالیق تھے۔ تعلیمی استعداد پیدا ہونے پہ اپنے ننہیالی تلخصص ریاضی کی طرف آئے۔ پھر آلات رصد کے علوم کی تحصیل کا شوق ہوا۔ پھر اپنے خاندانی حکیم غلام حیدر کے زیر اثر طب میں دلچسپی لینے لگے۔ طب کی ابتدائ کتابیں ان سے پڑھیں اور کچھ عرصے انکی شاگردی میں طبابت کا تجربہ حاصل کیا۔ یہ دلچسپی بھی زیادہ عرصے نہ رہی۔ طبیعت کے رجحان اور افتاد طبع کے مطابق مختلف کتابیں انکے زیر مطالعہ رہیں مگر علم کے کسی خاص شعبے میں کوئ قابل لحاظ قابلیت پیدا کرنے کا خیال نہیں آیا۔ البتہ دہلی کی علمی و ادبی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقعہ انہیں اکثر ملتا رہتا تھا۔ اہل علم و ادب سے انکی ملاقات رہتی۔ اس وقت کے مشہور شعراء و ادباء میں مرزا غالب، مفتی صدر الدین خان آزردہ۔ اور امام بخش صہبائ کے ہاں انکا آنا جانا تھا۔
سن ۱۸۴۶میں انکے عزیز بڑے بھائ سید محمد خان چند روز بیماری میں مبتلا رہ کر وفات پا گئے۔ اس صدمے نے انکے دماغ پہ گہرا اثر ڈالا۔ دنیا کی رنگینیوں سے دل اچاٹ ہو گیا۔انکی کایا ہی پلٹ گئ۔ داڑھی بڑھا لی۔ زہد و تقوی میں مستعد ہو گئے۔ علم کی پیاس ازسر نو عود کر آئ دینی کتب کا کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ لڑکپن میں جو رسائل سرسری پڑھے تھے انہیں دوبارہ غور خوض سے پڑھا۔ مولوی واعظ علی جو دلی کے مشہور واعظ تھے ان سے علم فقہ پر کتابیں پڑھیں۔ مولوی فیض الحسن سے مقامات حریری اور سبعہ معلقہ کے چند قصیدے سبقاً پڑھے۔ شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے اور شاہ رفیع الدین کے خلف الصدق سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ پھر انہی سے علوم القراں کی تحصیل کی اور سند لی۔
اس دوران صہبائ، آزردہ اور غالب کے یہاں بھی باقاعدگی سے حاضر ہوتے رہے۔ اور ان سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ غالب کے خاندان سے انکے ننہیال کے خاندانی روابط تھے۔ وہ انہیں اپنا چچا کہتے تھے اور غالب ان سے بیٹوں جیسا سلوک کرتے اور شفقت فرماتے۔
تو صاحب، یہ ان لوگوں کے قصوں میں سے ایک کا قصہ ہے جو اپنی جہالت پہ فخر کر کے اسے بیان نہیں کرتے تھے بلکہ اسے کم کرنے کی جدو جہد میں لگے رہتے تھے۔ یہ کہانی ابھی جاری ہے۔