مں بیکن ہاءوس اسکول سے اپنی بچی اور شوہر کیساتھ نکلی تو سوچ رہی تھی کہ تعلیم کتنا منافع بخش کاروبار ہے۔
جنریشنز اسکول، پینسٹھ ہزار ایڈمشن پیکیج اور آٹھ ہزار ماہانہ فیس، فاءونڈیشن اسکول ستر ہزار ایڈمشن پیکیج اور آٹھ ہزار ماہانہ فیس۔ بیکن ہاءوس بتیس ہزار ایڈمشن پیکیج اور ساڑھے سات ہزار ماہانہ فیس۔
میں نے ان سے کہا کہ میں اپنی بچی کو مونٹیسوری کے پہلے لیول میں جو کہ ڈھائ سے چار سال کے بچے کے لئے ہوتا ہے نہیں ڈالنا چاہتی۔ اسے پہلے ہی خاصی چیزیں آتی ہیں انہوں نے اسکا ایک ٹیسٹ اور ہمارا ایک انٹرویولیا۔ انٹرویو میں انہوں نے ہم سے ایک دلچسپ سوال پوچھا کہ جب ہماری بچی انکے اسکول سے دو سال پڑھ کر نکلے گی تو ہم اس میں کیا خصوصیات دیکھنا چاہیں گے۔ میں انہیں جواب دیا کہ ہمارے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسکی قوت مشاہدہ اچھی ہو اور وہ اپنے اردگرد کے ماحول میں دلچسپی لیتی ہو۔ اسے سوال پوچھنے کی عادت ہونی چاہئے اور چیزوں کی وجہ معلوم کرنے کا شوق۔ اپنی بات صحیح سے دوسروں تک پہنچانا آناچاہئیے اور اسکی جو قدرتی خوبیاں ہیں وہ قائم رہنی چاہئیں۔
اس سب کے بعد یہ کہہ کر انہوں نے رضامندی دے دی کہ آپکی بچی ذہین ہے اور خاصی ایکٹو بھی۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ لیول ٹوایڈجسٹ کر لے گی لیکن یہ خیال رکھئے گا کہ اس حساب سے وہ عمر کی حد کے سب سے کم والے حصے پہ ہے یعنی اپنی کلاس میں ذرا چھوٹی ہوگی۔ آپ اسے کلاس ون میں جہاں داخل کرانا چاہتی ہیں وہاں کی عمر کی حد معلوم کر لیجئیے گا۔
ہم نے چونکہ ابھی پکا فیصلہ نہیں کیا تھا کہ انکی ماہانہ فیس خاصی زیادہ تھی۔ اس لئے آگے کے طریقہ ء کار کے متعلق معلوم کر کے اٹھ آئے۔
گھر واپس آکر مییری ایک دوست ثمینہ نے فون پہ بتایا کہہمارے گھر کے بالکل نزدیک ایک صاحب نے بہت اچھا مونٹیسوری کی طرز کا کوچنگ سینٹر اتنے چھوٹے بچوں کے لئے کھولا ہوا ہے اور میں چاہوں تو اسے جا کر دیکھ سکتی ہوں۔ انکی ماہانہ فیس بھی مناسب ہے صرف ڈھائ ہزار روپے۔ تو میں نے انکا نمبر لے لیا۔
اگلے دن میں نے صبح اس اسکول میں فون کر کے پتہ سمجھا اور بچی کے ساتھ وہاں چلی گئ۔ اتفاق سے انکے ابا جان اس دن شہر سے باہر تھے۔ لیکن اس سے پہلے بھی کئ اسکولوں میں اکیلے جا چکی تھی یہ کوئ مسئلہ نہ تھا۔
وہاں انکے آفس کے باہر انتظار کرتے ہوئے میری ایک اور خاتون سے بات ہوئ جنکے بچے کا داخلہ ایک مہینہ پہلے ہوا تھا وہ تقریباً چار سال کا تھا۔ کسی اور اسکول سے انہوں نے اسے وہاں منتقل کر دیا تھا اور اب خوش تھیں کہ اسکول والے اتنی محنت کراتے ہیں اتنا ہوم ورک دیتے ہیں میرا بچہ تو ہر وقت پڑھائ میں لگا رہتا ہے۔ یہ سنکر میرا ماتھا ٹھنکا۔ یہ کوئ صحت مند علامت تو نہیں۔
اسکول بالکل اجاڑ بیابان ہو رہا تھا اور کہیں ایک چھوٹی سی تصویر بھی نہ تھی کہ پتہ چلے کہ یہ اتنے چھوٹے بچوں کا اسکول ہے۔ پانچ سو گز کے بنے ہوئے مکان میں قائم اس اسکول میں ایسی کوئ چیز نہ تھی جس سے بچے میں اسکول آنے کی دلچسپی پیدا ہوتی۔یہاں آکر تو مشعل بالکل خوش نہیں ہوگی۔ میں نے سوچا۔ یہ ایک مناسب جگہ نہیں ہے نجانے ثمینہ کی دوست نے اسکی اتنی تعریف کیوں کی۔ خیر میری باری آئ۔
کمرے میں ایک ساٹھ سال سے اوپر کے صاحب موجود تھے جنکی خشخشی داڑھی تھی اور ایک خاتون جو شاید پچپن سال کی ہونگیں۔ اور فائلوں کا ایک ڈھیر ہر طرف نظر آرہا تھا۔ پہلے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے انکے اسکول کے بارے میں کیسے پتہ چلا پھر کہنے لگے کہ یہ اس لئے پوچھ رہے ہیں کہ ہمارا طریقہ ء کار اوروں سے مختلف ہے۔ ہمارے یہاں کوئ کھیل نہیں ، کوئ فنکشن نہیں، نہ اسکول میں اور نہ گھر میں۔ پھر انہوں نے مجھ سے میری بچی کے پیدائش کا سال پوچھا۔ میں نے انہیں کہا کہ ہے تو دو ہزار چھ لیکن سال ختم ہونے میں صرف چار دن ہی رہ گئے تھے تو اس حساب سے وہ ابھی تین سال کی ہے۔ انکے چہرے پہ ایک تشویش کی لہر دوڑی۔ انکے والد کی تعلیم کیا ہے اور وہ کیا کرتے ہیں۔ اسکا جواب دیا گیا۔ پھر گویا ہوئے آپ کیا ڈاکٹر ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں، پی ایچ ڈی ڈاکٹر۔ یہ سنتے ہی انکے ساتھ وہ ہوا جو عام طور پہ ہمارے یہاں لوگوں کو ہوتا ہے یعنی یہ خواہش پیدا ہونا کہ اب ذرا انکو کسی نکتے پہ لیجا کر وہ کٹ لگائ جائے کہ انہیں پتہ چلے کہ انکی تعلیم کی کیا اوقات ہے۔ اور یہ کہ اتنا پڑھنے کا کوئ فائدہ نہیں ہے۔ میں انکے تیور دیکھ کر اسکے لئے تیار ہو گئ۔۔حالانکہ یہ اطلاع میں نے انہیں پوچھنے پہ فراہم کی تھی اور اب تمام تعلیمی بہتر اداروں میں والدین کی تعلیم پوچھی جاتی ہے۔
کہنے لگے آپ تو اپنی بچی کو خاصی دیر سے لائ ہیں۔ میں نے کہا میں اسے گھر پہ پڑھا رہی تھی اس لئے ضرورت نہیں محسوس کی۔ انہوں نے اپنی فائلوں کو درست کرتے ہوئے ذرا طنزیہ انداز میں کہا کیا پڑھا دیا ہے آپ نے اسے۔ میں نے انکی شکل دیکھ کر انکا دماغ پڑھا اور کہا وہی جو اس سطح پہ مونٹیسوریز میں پڑھایا جاتا ہے بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی۔ جیسے انگریزی کے تمام بڑے چھوٹے حروف کی پہچان اور انکی آوازیں ، اردو حروف تہجی کی پہچان، بیس تک گنتی اور اسکی پہچان۔تمام رنگوں کی پہچان، کافی ساری شکلوں اور ساختوں کی پہچان اسکے علاوہ یہ کافی سارے پزلز کر لیتی ہے۔ اور بہت ساری اردو اور انگریزی کی نظمیں یاد ہیں۔
لکھنا آتا ہے انہیں؟۔ میں نے کہا جی نہیں، یہ ابھی میں نے شروع نہیں کرایا۔ مونٹیسوری میں یہ چیز دوسرے لیول پہ شروع کرتے ہیں۔ اس لئے میں نے زور نہیں دیا۔ لیکن اسے پینسل بالکل صحیح پکڑنا آتی ہے۔ اور خاصی سیدھی لائن بنا لیتی ہے۔ تصویروں میں بہت اچھے رنگ بھر لیتی ہے۔اگر میں اسکے ساتھ لگ جاءووں تو مجھے امید ہے کہ دو مہینے میں بالکل صحیح طریقے سے لکھنے لگے گی۔
اپنی کرسی پہ سیدھے ہوئے اور کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں تین سال کا بچہ نہ صرف ایک سے سو تک سیدھی گنتی پڑھ لیتا ہے بلکہ لکھ بھی لیتا ہے اور سیدھی ہی نہیں بلکہ سو سے لیکر ایک تک الٹی گننتی بھی پڑھ اور لکھ لیتا ہے۔ انگریزی چھوٹے بڑے حروف تمام نہ صرف پہچانتا ہے بلکہ لکھ لیتا ہے۔ اور تین حروف ملا کر ایک لفظ بنانا بھی جانتا ہے۔ اردو الف سے لیکر ی تک نہ صرف لکھ لیتا ہے، پہچانتا ہے بلکہ حروف جوڑ کر لفظ بنا کر پڑھ لیتا ہے۔
اب آپ بتائیے دو مہینے میں تو آپ اپنی بچی کو لکھنا سکھائیں گیں۔ کیا پڑھنا بھی سکھا دیں گی۔ پھر انہوں نے انتہائ طنز سے کہا۔ اچھا چلیں آپ کے کہنے پہ ہم اسے داخلہ بھی دے دیں تو ہم تو اس وقت دو ہزار آٹھ کے بچوں کو لے رہے ہیں۔ اپکی تو بچی دو ہزار چھ کی ہے اور اگر آپکی بات مان لی جائے تو دو ہزار سات میں شامل کر لیں۔ پھر بھی ڈیڑھ سال کا فرق آرہا ہے۔
میں نے دماغ میں حساب لگایا کہ تو اسکا مطلب ہے کہ اس وقت انکے پاس ڈیڑھ سے دو سال کے بچے ہونگے۔ لیکن مجھے وہاں اتنے چھوٹے بچوں کے لئے کوئ انتظام نظر نہیں آیا۔ اور میں یقین نہیں کر سکتی تھی کہ وہاں اتنے چھوٹے بچے ہونگے۔ باہر جو خاتون ملی تھیں انکا بچہ تو کم از کم چار سال کا تھا اور وہ کہہ رہی تھیں کہ انہوں نے ایک مہینہ پہلے اس اسکول میں ڈآلا ہے۔ کس قدر جھوٹ بول رہا ہے یہ شخص اور خدا جانے کس زعم میں اتنا بڑھ بڑھ کر بول رہا ہے۔
جی یہ تو آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں نے ذرا مسمسی اور تھکی ہوئ شکل بنائ۔ اب تو غلطی ہو گئ۔ میں انہیں مزید دیکھنا اور سننا چاہ رہی تھی۔ اس لئے میں نے اپنے چہرے پہ تھوڑی پریشانی ظاہر کی۔ اب کیا ہو سکتا ہے؟
کہنے لگے آپ نے اسکا پیدائشی سرٹیفیکیٹ بنوا لیا ہے۔ میں نے کہا جی پیدائشی سرٹیفیکیٹ، پاسپورٹ حتی کہ اسکی تو نادرا میں رجسٹریشن بھی ہو چکی ہے۔فرمایا، پھر تو معذرت کیساتھ کہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ ورنہ ایک صورت یہ ہوتی کہ آپ اپنی بچی کا دوسرا پیدائشی سرٹیفیکیٹ بنوا لیتیں۔ تو اب ہماری طرف سے معذرت ہے۔ میں انکے اس تمام طرز عمل پہ سکتے میں تھی۔ انکے اس گھٹیا اسکول میں داخلے کے لئے میں اپنی بچی کا جھوٹا پیدائشی سرٹیفیکیٹ بنواءوں ۔ اس شخص نے کیا بھنگ پی ہوئ ہے۔
کہنے لگے آپ نے اسکا پیدائشی سرٹیفیکیٹ بنوا لیا ہے۔ میں نے کہا جی پیدائشی سرٹیفیکیٹ، پاسپورٹ حتی کہ اسکی تو نادرا میں رجسٹریشن بھی ہو چکی ہے۔فرمایا، پھر تو معذرت کیساتھ کہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ ورنہ ایک صورت یہ ہوتی کہ آپ اپنی بچی کا دوسرا پیدائشی سرٹیفیکیٹ بنوا لیتیں۔ تو اب ہماری طرف سے معذرت ہے۔ میں انکے اس تمام طرز عمل پہ سکتے میں تھی۔ انکے اس گھٹیا اسکول میں داخلے کے لئے میں اپنی بچی کا جھوٹا پیدائشی سرٹیفیکیٹ بنواءوں ۔ اس شخص نے کیا بھنگ پی ہوئ ہے۔
میں خاموشی سےاس جیل خآنے سے نکل آئ۔ اب سننے والے کہتے ہیں کہ آپکو اسے دس سنانی چاہئیے تھیں۔ جب بچی کو وہاں داخل ہی نہیں کرانا تھا تو کیوں چھوڑا اس جاہل کو۔ لیکن اس بات کا فیصلہ کون کرے کہ جاہل کون؟ وہ ماں باپ جنہیں یہ نہیں معلوم کہ انہیں اپنے بچوں کو کیسی اور کہاں تعلیم دلانی ہے، جنہیں یہ نہیں معلوم کہ تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے۔ یا انکی جہالت سے فائدہ اٹھانے والے یہ ہٹلر صفت لوگ۔