ایک ساٹھ سالہ خاتون انتہائ غصے میں بتا رہی تھیں کہ وہ کسی مجبوری کی بناء پہ بس سے سفر کر رہی تھیں۔ بس والا اتنی تیز بس چلا رہا تھا اور مسافروں کو اتارنے کے لئے بھی بس آہستہ کرتا لیکن روک نہیں رہا تھا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اس سے کہا دیکھ بھال کر چلاءو۔ کیونکہ کچھ سال پہلے وہ چلتی بس سے گر کر اپنا ہاتھ تڑوا بیٹھی تھیں۔ اس پٹھان ڈرائیور نے انکی نصیحت پہ عمل کرنے کے بجائے ان سے کہا دوپٹہ سر سے اوڑھ کر بیٹھو۔ طیش میں انہوں نے بس ڈرائیور کو کہا کہ تو کیا میرا باپ لگتا ہے۔ تیرا قصور نہیں، تیری ماں کا قصور ہے نہ اس نے اپنی عزت کرائ ہو گی نہ تجھے اسکی تربیت دی کہ تو کسی اور عورت کی عزت کرے۔ شاید اور کچھ بھی کہا ہوگا۔ خیر اسی وقت اس سے بس رکوائ اور اتر گئیں۔
یہاں ڈرائیور کی لسانی شناخت بتانی ضروری ہو گئ کہ اگر اردو اسپیکنگ ہوتا تو غصے میں کہتا' جاءو جاءو، ایسی نوابی ہے تو بس کے بجائے ٹیکسی سے سفر کیا کرو'۔ یہ ابھی ایک ہفتے پہلے کراچی میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔
مجھے اس وقت کیوں یاد آیا؟
ابھی تفصیل سے بتاتی ہوں۔ چند دن پہلے میں ایک دفعہ پھر گوادر گئ تقریباً دس مہینے بعد۔ اس دفعہ مجھے ماحول میں ایک واضح تبدیلی محسوس ہوئ۔ اول تو ہری پگڑی والے لوگ دیکھے جو کہ موٹر سائکلوں پہ پھر رہے تھے۔ یہ تو میں پچھلی ایک پوسٹ میں بتا چکی ہوں کہ یہ جو گوادر کی دیواروں پہ مذہبی اجتماعات کی دعوتیں لکھی نظر آرہی ہیں۔ یہ کسی نئ سمت کا اشارہ کر رہی ہیں جو یقیناً مکران کے ماحول کو تبدیل کرے گا۔ اور اس دفعہ یہ تبدیلی واضح نظر آرہی تھی۔
کیونکہ پھر میرے ساتھ دو واقعات ہوئے۔
پہلا واقعہ دلچسپ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ جس جگہ ہم رہائش پذیر تھے وہ جگہ سمندر سے چند قدم کے فاصلے پہ تھی۔
ساتھ ہی ایک پہاڑ ہے۔ میں جب بھی یہاں جاتی تھی تو اس پہاڑ کے ساتھ سمندر کنارے ضرور تنہا بیٹھتی کہ ایک دم مراقبے کا مزہ آجاتا۔ یوں معلوم ہوتا کہ میں زمین پہ نہیں بلکہ کائینات کے کسی لامتناہی نکتے سے زمین کو دیکھ رہی ہوں۔ پھر یہاں سے پتھرلیے فوسلز جمع کرتی اور گھر واپس آجاتی۔ گوادر میں یہ میری سب سے اہم اور بڑی عیاشی ہوتی۔ اسکے لئے میں ساڑھے سات سو کلومیٹر کا پر مشقت سفر کر کے یہاں آتی ہوں۔ اب یہ مشغلہ میری بیٹی کو بھی پسند آتا ہے۔
اس دن میرے ساتھ میری بچی، پالتو کتا اور مقامی بچے درجن بھر موجود تھے۔ ہم جلوس کی شکل میں پہاڑ کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اگرچہ میری خواہش تو یہ تھی کہ یہ بچے ساتھ میں نہ ہوتے تاکہ تھوڑی دیر اپنے مراقبے کا مزہ لیتی۔ لیکن بہر حال بچے بہت زیادہ مشتاق تھے ساتھ چلنے کے۔ شاید اسکی ایک وجہ کتے کا ہمارے ساتھ ہونا بھی تھا۔ کتا بھی خوش تھا۔ بار بار تھوڑی دور تک دوڑ کر جاتا۔ اپنے پیشاب کی بو چھوڑتا اور پھر خوشی سے اچھلتا کودتا واپس آتا۔ پیشاب کی بو سے اسکے حصے کی زمین میں اضافہ جو ہو رہا تھا۔
راستے میں ایک صاحب نے قریب سے گذرتے ہوئے موٹر سائیکل روکی اور کہنے لگے۔ آپ اس طرح اکیلے نہ پھریں آجکل سیکیوریٹی کا مسئلہ ہے۔ میں نے اسکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا میں صرف پہاڑ کے ساتھ جا کر سامنے والی جگہ پر جا کر واپس آجاءونگی۔ نہ بستی کی طرف جاءونگی اور نہ یہاں سے زیادہ دور۔ مجھے بھی اس بات کا احساس ہے۔ وہ خاموش ہو کر واپس پلٹ گیا۔
ابھی چند ہی گز طے کئے ہونگے کہ ایک صاحب موٹر سائیکل پہ آئے انکے پیچھے ایک گن بردار شخص بیٹھا ہوا تھا۔ میں ٹھٹھک کر رک گئ۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہیں۔ میں نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ بس وہاں تک جا رہی ہوں۔ پھرمزید سوالات کے جواب دینے سے پہلے میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔ پتہ چلا کہ وہ پولیس سے تعلق رکھتا ہے۔ کس کے ساتھ آئ ہیں، کس جگہ رہ رہی ہیں قسم کے سوالات کے بعد اس نے کہا کہ ہمیں اطلاع ملی کہ ایک انگریز عورت ادھر اکیلے پھر رہی ہے۔ مجھے ہلکی سی ہنسی آئ۔ آپ نے دیکھ لیا میں انگریز نہیں ہوں۔ ہاں وہ اس نے آپکے حلئے کو دیکھ کر کہا ہوگا۔ حلئے سے شاید اس کی مراد پیروں کے جاگرز اور سر کی ٹوپی ہوگی۔ دراصل یہ پسماندہ علاقہ ہے یہاں اس حلئے کو ہی انگریز سمجھ لیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ سیکوریٹی کا مسئلہ ہے آپ زیادہ دور تک نہ جائیں۔ میں نے اسے تسلی دی۔ میں بس سامنے ہی سے پتھرلے کر واپس آجاءونگی۔ یہاں کراچی میں پڑھنے لکھنے والے بچوں کو تحفے میں مجھے یہ پتھر دینا پسند ہیں۔
پھراس جگہ پہنچ کر ان بچوں کے ساتھ چند منٹ رک کر پتھر ڈھونڈھے اور جلدی ہی واپسی کا راستہ لیا کیونکہ میں نے دیکھا کہ وہ دونوں ایک چٹان پہ بیٹھے ہم لوگوں کی نگرانی کر رہے تھے۔ ایسے میں میرے دل دھڑکا بھی کم ہوگا اور انکی ڈیوٹی بھی ختم ہوگی۔
اگلے دن گھر کے سامنے ساحل پہ بچی کے ساتھ چلی گئ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ماضی میں یعنی تین چار سال پہلے میں ایک ڈیڑھ میل تک تنہا چہل قدمی کر چکی ہوں۔ مقامی لوگوں سے گپ شپ کی اور کبھی کوئ مسئلہ نہیں ہوا۔ اس دن جب میں اپنی بچی اور محلے کے دیگر بلوچی بچوں کے ساتھ اپنے گھر واپس آنے لگی تو ایک موٹر سائیکل قریب سے گذری جس پہ دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے موٹر سائیکل کو آہستہ کیا۔ میں کچھ ہوشیار ہوئ۔ پھر ان میں سے ایک نے نفرت بھری نظر مجھ پہ ڈال کر کہا جاءو جا کر کچھ پہنو۔
قارئین کی تسلی کے لئے میں اس وقت تیراکی کے مغربی لباس میں نہیں تھی۔ بلکہ پاکستانی سوتی شلوار قمیض پوری آستین کا پہنے ہوئے تھی اور دھوپ سے بچنے کے لئے ڈھائ گز کے سوتی دوپٹے کو سر سے لپیٹ کر منہ بھی اطراف سے ڈھکا ہوا تھا۔ سو میں نے حیرانی سے انکی طرف دیکھا اور پھر غور کیا کہ وہ کچھ کیا ہو سکتا ہے جو میں پہنوں۔ سمجھ آیا کہ برقعہ قسم کی چیز ہی اب اس کے بعد بچ جاتی ہے۔
دس سال سے یہاں آرہی ہوں اور اتنے لمبے عرصے کے تجربے کے بعد میں اس علاقے کو کافی بہتر سمجھتی تھی۔ مقامی لوگ مچھیرے ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ وہ خود کیسے بھی رہیں دوسروں کے کام میں مداخلت نہیں کرتے۔ حتی کہ عین اس وقت جب کراچی میں کسی ہوٹل میں بیٹھ کر سر عام شراب نہیں پی جا سکتی تھی یہاں ایسی کوئ منادی نہ تھی۔ اس وقت میں ساحل پہ تنہا بیٹھ کر گھنٹوں سمندر کی آتی جاتی لہریں دیکھا کرتی تھی۔ کراچی کی مٹی سے جنم لینے کے باعث سمندر کی محبت میرے اندر ہمیشہ مءوجزن رہی ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب یہاں کوئ مدرسہ نہ تھا۔ پھر کوسٹل ہائ وے کی تعمیر کے ساتھ ہی زمین کے ایک بڑے رقبے پہ ایک بڑا مدرسہ وجود میں آگیا۔ اور اب جیسے جیسے یہاں مذہبی ماحول کو شہہ مل رہی ہے ویسے ویسے یہ شدت پسندی ماحول کا حصہ بن رہی ہے۔ معاشرے کے کمزور طبقات ہمیشہ شدت پسندی کا پہلا نشانہ ہوتے ہیں۔ تاکہ دوسرے لوگ ان سے سبق سیکھیں۔ خواتین اس لئے سب سے پہلا نشانہ بنتی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گوادر میں یہ مذہبی شدت پسندی کون متعارف کرا رہا ہے؟ کیا بلوچستان کے مسائل کا حل مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینے میں ڈھونڈھاجا رہا ہے؟
حیرت ہوتی ہے کہ گوادر میں ایک اچھا ہسپتال موجود نہیں ہے۔ اسکی وجہ سے عورتوں کو کس قدر مصائب کا سامنا ہے اسکا اندازہ اس عورت سے لگائیں جس نے بتایا کہ ابھی چند مہینے پہلے اسکی بچی پیدائیش کے دوران مر گئ۔ کوئ ماہر ڈاکٹر نہ تھا کہ وہ زندہ پیدا ہو پاتی۔ کسی ماہر ڈاکٹر کے موجود نہ ہونے سے وہ لیبر میں اتنا زیادہ عرصہ رہی کہ اسے فسچولا ہو گیا۔ شوہر بھائ کے پاس چھوڑ گیا وہاں سے وہ کراچی کے جناح ہسپتال پہنچی جہاں ایک مہینہ علاج میں ناکامی کے بعد اسے کراچی کے مضافات میں واقع، کوہی گوٹھ کے فسچولا ہسپتال بھیجا گیا وہاں وہ تین مہینے رہی اسکے تین آپریشن ہوئے اور ابھی بھی بالکل تندرست نہیں ڈاکٹر نے اسے تین مہینے بعد پھر بلایا ہے۔
حیرانی ہوتی ہے ناں کے جس شہر میں عورتیں محفوظ طریقے سے بچہ نہ پیدا کر سکیں وہاں عورتوں کو پردے کی تبلیغ کرنے والے پیدا کئے جائیں۔ ایک بڑا مدرسہ بنانے والے تو موجود ہوں لیکن ہسپتال کا کوئ انتظام نہ ہو۔ یہی نہیں یہاں کوئ ڈھنگ کا اسکول موجود نہیں ہے۔ لیکن کوسٹل ہائ وے پہ جاتے ہوئے سنسان پہاڑوں پر خوبصورت ٹائلز کی بنی ہوئ بڑی مساجد نظر آئیں گی جو کہ پچھلے دو سالوں میں عرب بھائیوں کی فیاضی سے تعمیر ہوئ ہیں۔ اتنے سنسان علاقوں میں ان مساجد کا کیا کام؟
ایک صاحب کا کہنا ہے کہ عرب اسکول کی تعمیر کے لئے پیسے خرچ نہیں کرتے وہ مسجدیں اور مدرسے بناتے ہیں بہت زیادہ فیاضی اگر کبھی دکھائ تو شاید ہسپتال بنا دیں لیکن اسکول، نو وے۔
عرب ہمارے ملک میں اسکے علاوہ کس چیز پہ پیسہ خرچ کرتے ہیں؟
اس کا اندازہ اس خبر سے ہوگا کہ ایک عرب شیخ ایک بلوچ کو پیسے دے رہے ہیں کہ وہ سو بچوں کو پیدا کرنے کا ریکارڈ قائم کر کے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام ڈال لے۔ اس سلسلے میں وہ بلوچ تیئیس شادیاں کر چکا ہے اسکے ترانوے بچے پیدا ہو چکے ہیں۔ ہر تھوڑے دنوں بعد ایک بیوی کو طلاق دے کر ایک اور شادی کر لیتا ہے۔ طلاق یافتہ بیوی کو وہ عرب پیسہ دیتا ہے کہ وہ اپنی باقی زندگی عسرت میں نہ گذارے۔
اس بلوچ کو یہ یاد نہیں کہ اسکا کون سا بچہ کس بیوی سے ہے اسکے لئے اسے اپنی ڈائری دیکھنی پڑتی ہے۔ اور نہ اسے یہ معلوم ہوگا کہ اسکا کوئ بچہ پڑھتا لکھتا بھی ہے یا نہیں۔ یہ شخص پہلے فوج میں رہ چکا ہے اور ٹانگ سے معذور ہونے کے بعد وہاں سے نکل آیا۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ کو اس سے کراہیئت آئے اور کچھ ہنس دیں ۔ لیکن ایک دفعہ پھر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ مسلمان مرد ، اپنی عورتوں کو کیا سمجھتے ہیں؟
خیر ہم موضوع کی طرف واپس پلٹتے ہیں۔ کراچی میں آجکل جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چار ستمبر کو یوم حجاب منانے کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ شہر میں ہر جگہ خواتین کو حجاب کی تلقین کے بینرز ملیں گے۔ یہی نہیں روزنامہ جنگ کے اس دفعہ کے اتوار میگزین میں بھی، میں نے دیکھا کہ یوم حجاب کے حوالے سے چار مضامین موجود ہیں۔ گوادر میں میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ آپ پڑھ چکے۔ ملک ہی نہیں باقی دنیا میں بھی مسلمان مردوں کی شدت پسندی کو ہوا دینے والی یہ مذہبی جماعتیں ہیں اور کوئ نہیں۔ شاید اسی لئے بنگلہ دیش میں سیاسی جماعتوں پہ پابندی لگا دی گئ ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ کوئ مذہبی نام استعمال نہیں کریں گی۔
اس بات کو خآطر میں لائے بغیر کہ ہمارے ملک میں عورتوں کی حالت کتنی دگرگوں ہیں۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس طرح کے یوم مجھے تو مردوں کو مزید شدت پسندی کی ترغیب دیتے ہوئے ہی لگتے ہیں۔ جس وقت وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ حجاب عورت کی عزت کا ضامن ہے اس وت وہ مردوں کو بین السطور یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ اگر کوئ عورت بے حجاب ہے تو اسکی عزت پہ حملہ کوئ بری بات نہیں۔ اسکے ساتھ یہی ہوگا، کیونکہ مذہب اسکے بارے میں یہ پیشن گوئ کر چکا ہو۔ چاہے مذہب نے اس بات کو نکتہ بھی نہ بنایا ہو۔
بالکل ایسے ہی وہ انفوگرافکس جس میں مردوں سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو کس لباس میں دیکھنا پسند کریں گے۔ اور انتخاب میں شدید برقعے سے لیکر جینز ٹی شرٹ میں ملبوس خواتین دکھا دی جاتی ہیں۔ ایسے جیسے بازار میں آپ مختلف برانڈز کے کیچپ دیکھ رہے ہوں۔ پھر انہیں غیرت کے طعنے دے کر کہا جاتا ہے کہ دراصل تمہاری بیوی کو کس قدر حجاب میں ہونا چاہئیے۔ چاہے وہ اسکی اہلیت نہ رکھتے ہوں کہ اپنے خاندان کے معاشی مسائل حل کر سکیں لیکن ان میں یہ اہلیت ضرور پیدا کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لباس پہ غضب کی نظر رکھیں۔
جماعت اسلامی سمیت، ہر مذہب کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی جماعت سے ایک ہی سوال ہے کہ وہ کبھی خواتین کے حالات میں بہتری کے لئے بھی کچھ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا مردوں کو خواتین کے نام پہ ہی غیرت دلاتے رہیں گے۔ معاشرے کو خواتین کے لئے مزید غیر محفوظ بنانے کے فول پروف انتظامات کرتے رہیں گے۔ یہ ملک جو پہلے ہی مسائلستان بنا ہوا ہے کیا اسکے مسائل میں وہ مثبت طریقے سے کوئ کمی لا سکتے ہیں۔ کیونکہ فلسفہ ء جہاد سے لے کر مرد و خواتین کی جہالت تک ہر ایک میں وہ برابر کے حصے دار ہیں۔
اس بات کو خآطر میں لائے بغیر کہ ہمارے ملک میں عورتوں کی حالت کتنی دگرگوں ہیں۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس طرح کے یوم مجھے تو مردوں کو مزید شدت پسندی کی ترغیب دیتے ہوئے ہی لگتے ہیں۔ جس وقت وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ حجاب عورت کی عزت کا ضامن ہے اس وت وہ مردوں کو بین السطور یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ اگر کوئ عورت بے حجاب ہے تو اسکی عزت پہ حملہ کوئ بری بات نہیں۔ اسکے ساتھ یہی ہوگا، کیونکہ مذہب اسکے بارے میں یہ پیشن گوئ کر چکا ہو۔ چاہے مذہب نے اس بات کو نکتہ بھی نہ بنایا ہو۔
بالکل ایسے ہی وہ انفوگرافکس جس میں مردوں سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو کس لباس میں دیکھنا پسند کریں گے۔ اور انتخاب میں شدید برقعے سے لیکر جینز ٹی شرٹ میں ملبوس خواتین دکھا دی جاتی ہیں۔ ایسے جیسے بازار میں آپ مختلف برانڈز کے کیچپ دیکھ رہے ہوں۔ پھر انہیں غیرت کے طعنے دے کر کہا جاتا ہے کہ دراصل تمہاری بیوی کو کس قدر حجاب میں ہونا چاہئیے۔ چاہے وہ اسکی اہلیت نہ رکھتے ہوں کہ اپنے خاندان کے معاشی مسائل حل کر سکیں لیکن ان میں یہ اہلیت ضرور پیدا کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لباس پہ غضب کی نظر رکھیں۔
جماعت اسلامی سمیت، ہر مذہب کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی جماعت سے ایک ہی سوال ہے کہ وہ کبھی خواتین کے حالات میں بہتری کے لئے بھی کچھ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا مردوں کو خواتین کے نام پہ ہی غیرت دلاتے رہیں گے۔ معاشرے کو خواتین کے لئے مزید غیر محفوظ بنانے کے فول پروف انتظامات کرتے رہیں گے۔ یہ ملک جو پہلے ہی مسائلستان بنا ہوا ہے کیا اسکے مسائل میں وہ مثبت طریقے سے کوئ کمی لا سکتے ہیں۔ کیونکہ فلسفہ ء جہاد سے لے کر مرد و خواتین کی جہالت تک ہر ایک میں وہ برابر کے حصے دار ہیں۔
آخری اہم سوال لوگوں کو خدا کے قہر اور عذاب سے ڈرانے والے کیا خود خدا کے عذاب اور قہر سے ڈرتے ہیں؟
کیونکہ انکی پھیلائ ہوئ شدت پسندی کی وجہ سے جتنی انسانی جانیں جاتی ہیں اسکے ذمہ دار وہ ہوتے ہیں۔ جب کسی عورت پہ تیزاب پھینکا جاتا ہے، جب کوئ عورت کاروکاری کا شکار ہوتی ہے، جب کسی عورت کو اس لئے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ انکے متعارف کرائے گئے فلسفہ ء حجاب پہ یقین نہیں رکھتی۔ ہر ہر صورت میں وہ عذاب کے مستحق ہوتے ہیں اور ہونگے۔ خدا کے عذاب سے بچنے کے لئے وہ خود کیا کریں گے؟ کیونکہ جو تم کروگے وہ ہم کریں گے۔