Showing posts with label گبریل گارسیا مارکیز. Show all posts
Showing posts with label گبریل گارسیا مارکیز. Show all posts

Thursday, June 17, 2010

وبائے مرگ اور محبت

انگریزی بلاگز پہ کہیں زیادہ خون گرما دینے والی تحاریر آتی ہیں، لوگ اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور میں اپنے دندان ساز ڈاکٹر کے بلاگ پہ دیکھتی ہوں کہ ایک پوسٹ پہ تین سو سے بھی زائد تبصرے ہوئے ہیں۔ مگر رشک آتا ہے انگریزی زبان کے صحت افزاء اثر پہ کہ کسی کو فشار خون لا حق نہیں ہوتا۔  مگر ہمارے اردو بلاگرز کا نظام ہاضمہ بس مخصوص چیزوں کو ہی ہضم کر پاتا ہے اور یوں عالم یہ ہوتا ہے کہ نمکدان قریب ہو تو اس سے بھی فشار خون بلند ہو جاتا ہے۔  یہاں تو اگر غالب کی وہ غزل جو نمک کے قافئیے پہ ہے اسی کو ڈالدیں تو کچھ لوگوں کےدنیا سدھار جانے کا پروگرام  فی الفور بن جائے گا اور الزام 'کسی اردو بلاگر' کے سر آئے گا۔
ویسے اگر بلاگرانہ ہم آہنگی صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ اپنے اپنے کینے دل میں پال کے رکھیں اور مصنوعی مسکراہٹوں ، رسمی خیر سگالی کے جملوں کا وقتآ فوقتآ تبادلہ ہوتا رہے۔ لوگ باگ اپنے بچوں کی خوبصورت تصاویر لگاتے رہیں، کچھ اشتہا انگیز کھانوں کی تصاویر آتی رہیں، کچھ سینیئر بلاگرز کا چاہے وہ کچھ بھی لکھیں ،احترام کیا جاتا رہے، کچھ جونیئر بلاگرز، عمر میں جونیئر کا لاڈ اٹھایا جاتا رہے، کچھ لوگوں کی باتوں پہ جزاک اللہ اور کچھ کی باتوں پہ سبحان اللہ ہوتا رہے، کچھ لوگ ایکدوسرے کو زبردست تحاریر پہ مبارکباد دیتے رہیں وہ جو انکے نظریات سے ملتی ہیں، کچھ اپنے تئیں منٹو اور عصمت چغتائ بننے والے، بالغوں کو نا بالغ بناتے رہیں اور خوش رہیں۔ تو بہتر ہے کہ انسان کچھ ڈائجسٹ پڑھکر دل بہلائے مثلآ خواتین ڈائجسٹ اور اس پہ وقتاً فوقتاً سسپنس یا جاسوسی ڈائجسٹ کا چھینٹا مارتا رہے اور ان سب کو پڑھنے سے پہلے برکت کے لئے روحانی ڈائجسٹ پڑھا کرے۔
اس میں یہ تمام ملغوبہ اس توازن سے ہوتا ہے کہ جن گھروں میں پڑھا جاتا ہے وہاں کسی کو بلاگنگ جیسی فضولیات میں وقت ضائع کرنے کا خیال نہیں آتا علاوہ ازیں گھروں کے اندر ہم آہنگی کی ایک آِئڈیئل فضا جنم لیتی ہے جس سے  ڈائیجسٹ والوں کے روزگار پھلنے پھولنے کے مواقع بڑھتے رہتے ہیں۔ اسکے لئے کمپیوٹر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور انسان ان پہ پیسے صرف نہ کرنا چاہیں تو محض پڑوسیوں سے اچھے تعلقات پہ ہی کام چل جاتا، اس صورت میں نمک مانگنے کے بجائے یہ کہنا ہوگا کہ خالہ جی بلکہ آنٹی جی، آپ نے اپنا ڈائجسٹ ختم کر لیا تو ہمیں دے دیں۔ مجھے اس میں سے نہاری کی  ترکیب آزمانی ہے۔
نہاری ہم آہنگی پیدا کرنے کا ایک آزمودہ نسخہ ہے۔ اب یہاں ایک ایک سیدھا سادہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ نہاری سے کیسے بلاگرانہ ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے۔ میں تمام اردو بلاگرز کو اس سلسلے میں ٹیگ کرتی ہوں کہ نہاری، اسکی مختلف تراکیب، طریقہ ء استعمال، کھانے کے آداب، لوگوں کو اسکی دعوت پہ بلانے کے آداب، گھر میں ایک اس طرح کی دعوت منعقد کرنے کے سو طرائق اور نہاری پیش کرنے کے سلیقہ مند طریقوں کو بیان کریں۔
خبردار کسی نے گوشت کی بڑھتی ہوئ قیمتوں، لوگوں کے کھانا نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کرنے کے واقعات کا تذکرہ، مختلف لسانی اکائیوں کے اس بارے میں وہم اور خیالات، کھونٹوں کی گئیوں، کولہو کے بیل اور گلی کے گدھوں کا تذکرہ کیا۔ اس سے ہم آہنگی جیسے عظیم مقصد کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جو صرف اسی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے کہ ہم کوہ قاف کی کہانیاں دوہراتے رہیں۔
میں زیادہ گھمبیر مسئلے کی طرف آتی ہوں کہ اس سے ہم آہنگی بھی برقرار رہے اور سب لوگ اس میں شامل رہیں۔ مسئلہ ہے، آج کیا پکائیں، حالانکہ پچھلے دو دن سے میں ایک احساس جرم میں مبتلا ہوں کہ یہ کیسے ہوتا ہے کہ ایک خاندان کے پانچ لوگ مفلسی کی وجہ سے خدا کے بنائے ہوئے قانون کو توڑتے ہیں اور اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ آج کیا پکائیں۔ مگر ان تمام باتوں پہ گفتگو ہمیشہ ایسے نکات کی طرف مڑے گی جہاں سے ہم آہنگی کے نازک بت کو ضرر پہنچ سکتا ہے۔ میں اسی مجرمانہ احساس کے ساتھ نہاری کی ترکیب کو ذہن میں دوہراتی ہوں۔
اسکے لئے چاہئیے ہوگا ایک کلو گوشت بونگ کا، کچھ مصالحے اور آپکے کچن کو ایسی جگہ ہونا چاہئیے جہاں سے بھننے والے گوشت اور حلووں کی خوشبو ان لوگوں تک نہ پہنچے جو زہر کی گولیاں ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں۔
ویسے برسبیل تذکرہ کسی نے گارسیا کی  کتاب وبائے مرگ میں محبت پڑھی ہے۔