Showing posts with label سرسید. Show all posts
Showing posts with label سرسید. Show all posts

Monday, September 20, 2010

سر سید سے پہلے

 مشعل کے داد جی کی طبیعت اچھی نہیں۔ اس لئے کچھ تحریر کرنے کا  موڈ نہ ہوا۔ خدا انہیں صحت دے اور ہمارے گھر کی رونق بحال ہو۔ 
تو میں سر سید کی کہانی جاری رکھتی ہوں۔ سر سید پہ مزید تذکرے سے پہلے ہندوستان میں چلنے والی ایک اور تحریک کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ہندوستان میں ایک عرصے تک حکمرانی تو مسلمانوں کی رہی تھی۔ مگر ہندو انکی رعیت کا ایک بڑا حصہ تھے۔ زوال آیا تو دونوں اسکا شکار ہوئے۔  اٹھارہویں صدی کے ہندوستان میں ذہنی پستی دونوں قوموں پہ طاری تھی۔ لیکن جب انگریزوں کی یلغار نے زور پکڑ لیا تو ہندءووں نے بھانپ لیا کہ کہ اب اس سیلاب کے آگے بند باندھنا مشکل ہےچنانچہ انہوں نے اپنے دفاع کے لئے پسپائ اختیار کی ایک طرف تو انہوں نے اپنے پرانے حکمرانوں یعنی مسلمانوں کی گرتی ہوئ دیواروں کو مزید دھکا دیا اور انگریزوں کا ساتھ دینے پہ آمادہ ہو گئے  اور دوسرےاپنے  سماج کو سدھارنے کے لئے نئ روشنی کو قبول کرنے پہ آمادہ ہو گئے اور ہندوستان میں ایسے اداروں کے قیام کے لئے سر گرم عمل ہوئے جن سے قدامت کے اندھیروں کو مٹایا جا سکے۔ اسکے نتیجے میں برہمو سماج تحریک نے جنم لیا اسکا مقصد ہندو مذہب میں مناسب تبدیلی سے سیاسی بہبود اور سماجی فلاح کی راہ ہموار کرنا تھا۔

تحریک کا جغرافیائ مرکز بنگال اور اس سے مسلکہ علاقہ رہا۔ اس تحریک  کے بانی اونچی ذات کے معزز برہمن ہندو راجہ رام موہن رائے تھے وہ سترہ سو چوہتر میں پیدا ہوئے۔ ان میں قدامت اور جدیدیت کا امتزاج موجود تھا۔ انکا خاندان پانچ پشتوں سے صوبہ ء بنگال میں مغلوں کے ساتھ تعلقات میں رہ چکا تھا۔ وہ ہندوستانی فلسفے کے عالم، سنسکرت، فارسی اور عربی کے ماہر اور ہندءووں اور مسلمانوں کے مشترکہ کلچر کی پیداوار تھے انہوں نے بت پرستی پہ براہ راست اعتراض کیا اور ستی کی رسم کو ممنوع قرار دینے کے لئے اس تحریک کو عملی طور پہ استعمال کیا۔ ستی ہندوءووں کی وہ رسم ہے جس میں بیوی کو اپنے مرے ہوئے شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جل کر مرنا ہوتا تھا۔ سن اٹھارہ سو تہتر میں جب لارڈ ایمبسٹ نے علوم شرقیہ کے فروغ کا منصوبہ بنایا تو انہوں نے اسکی مخالفت کی  کہ یہ وہ علوم ہیں جو یہاں دو ہزار سال پہلے سے رائج ہیں اسکے بر عکس انہوں نے ایک ایسے کالج کی تشکیل پر زور دیا  جس میں یوروپ کے تعلیم یافتہ اور قابل استاد مغربی علوم مثلاً طبیعیات، کیمیا، اور اناٹومی وغیرہ کی تعلیم دیں۔ انکی اس درخواست کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئ لیکن انکے نئے خیالات کے بیج برگ و ثمر دینے لگے۔ اس تحریک کی اصلاحی کوششوں میں اسکی تعلیمی سرگرمیوں کو اہمیت دی گئ۔ قدامت پسندی کو رفع کرنے کے لئے مغربی سائینس اور انگریزی زبان کی تلقین کی گئ۔
راجہ رام موہن رائے اوائل عمری میں انگریزی اقتدار سے نفرت پہ مائل تھے. پلاسی کی جنگ میں انگریزوں کی کامیابی، انکے آبائ مقام سے ڈورئیے اور ململ کی صنعت کی تباہی، مفلس عوام کی زبوں حالی اور بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی لوٹ مار نے انہیں انگریزی حکومت سے نفرت پہ مائل کر دیا تھا۔  تاہم جب انہیں احساس ہوا کہ ہندوستان کے زوال کے اسباب اندرون ملک موجود ہیں تو انہوں نے نئے علوم کی ترویج کے لئے انگریزوں سے مفاہمت پیدا کی۔
انہوں نے اپنے خیالات کی ترویج  اور اشاعت کے لئے اور نئے تصورات کے فروغ کے لئے بنگالی زبان کا پہلا اخبار نکالا اور اس میں ہندوستانی نکتہ نظر پیش کیا۔ یہ اخبار اتنا موئثر ثابت ہوا کہ لارڈ منرو نے  اسکے خلاف اپنے شبہات کا اظہار کیا۔
اگر ساری رعایا ہماری ہم وطن ہوتی تو میں اخباروں کی انتہائ آزادی کو ترجیح دیتا۔ مگر چونکہ وہ ہمارے وطن نہیں اس لئے اس سے زیادہ خطرناک اور کوئ چیز نہِں۔
اسکے علاوہ انہوں نے ایک فارسی اخبار بھی نکالا ۔  اس طرح انہوں انگریز قوم کو مشرق کی عظمت، تہذیب، اور روحانیات سے آگاہی بخشی۔
اس تحریک نے ہندوستان کی مفلسی اور غلامی کو دور کرنے کے لئے مثبت کردار انجام دیا ۔   تحریک میں صرف وہ لوگ شامل ہو سکتے تھے جو خدائے واحد پہ یقین رکھتے ہوں اور بت پرستی سے نفرت کرتے ہوں۔ راجہ رام موہن رائے، اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ راسخ الاعتقاد ہندءووں کی شدید مخالفت کے باوجود اس تحریک نے صرف دو سال کے عرصے میں قدیم ہندو مت سے الگ ہو کر برہمو فرقے کی صورت اختیار کر لی۔ راجہ رام موہن رائے کا  انتقال اٹھارہ سو تینتیس میں ہوا۔
راسخ العقیدہ ہندو اس تحریک کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ اسکے رد عمل میں آریہ سماج تحریک پیدا ہوئ جو ہندو مذہب کے احیاء کی تحریک تھی۔ یہ شاید ایک قدرتی رد عمل تھا۔ تمام مذاہب کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ جدیدیت کے مقابلے میں قدامت پسندی کے اس رجحان نے ہندوستانی قومیت کا جذبہ پیدا کیا۔ اور یوں جتنا انگریز حکومت اپنا تسلط مضبوط کرتی گئ اتنا ہی ہندو قدیم مذہب کے احیاء میں سنجیدگی اختیار کرتے گئے اس تحریک نے تدبر کے بجائے جبر اور عقل کے بجائے جوش کو استعمال کیا۔
برہمو سماج کی تحریک اگرچہ کہ بنگال تک ہی محدود رہی لیکن اس  نے ہندءووں کو مسلمانوں سے  سبقت لے جانے کا موقع فراہم کیا۔ کیونکہ مسلمانوں میں اس وقت تک اس چیز کا احساس ہی پیدا نہ ہو سکا تھا کہ وہ کیا عظیم نقصان ہے جس سے وہ دو چار ہونے جا رہے ہیں اور اگر کسی سطح پہ یہ عالم مایوسی میں موجود بھی تھا تو انکو یہ معلوم نہ تھا کہ اس سے بچاءو اور دفاع کس طرح ممکن ہے۔

ماخذ؛
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید، پبلشر انجمن ترقی اردو پاکستان۔