Showing posts with label ذیشان ساحل، کراچی، شاعری، ضمیر نیازی۔ آپریشن ۱۹۹۲ کراچی، Karachi operation 1992. Show all posts
Showing posts with label ذیشان ساحل، کراچی، شاعری، ضمیر نیازی۔ آپریشن ۱۹۹۲ کراچی، Karachi operation 1992. Show all posts

Friday, September 4, 2009

ایک اور فرزند کراچی

اب جبکہ انیس سو بیانوے کے کراچی آپریشن کا چرچا اٹھا ہوا ہےاور اس سے متاثر ہونے والے تو اتنا نہیں جتنا اس سے نہ متاثر ہونے والے اس پر اپنے گراں خیالات کا اظہار کر رہے ہیں تو اپنی پرانی کتابوں میں سے گذرتے ہوئے میری نظر اس کتاب پر پڑی ، اسکا عنوان ہے کراچی۔ یہ ایک شاعر کا مجموعہ ء شاعری ہے جنکا نام ہے ذی شان ساحل۔ جسے شائع کیا ہے ادارہ 'آج کی کتابیں' نے۔اسکے تقسیم کار کراچی میں ویلکم بک پورٹ، مکتبہ ء دانیال، اور ٹامس اینڈ ٹامس  جبکہ لاہور میں گورا پبلشرز، دستاویز مطبوعات اور کلاسیک تھے۔ تاریخ اشاعت ہے ستمبر ۱۹۹۵۔
اسکا انتساب معروف صحافی اور ادیب جناب ضمیر نیازی کے نام ہے۔ اور انکے انتساب کے ساتھ ڈان میں چھپنے والی ایک خبر کا تراشہ ہے۔ جسکے مطابق انہوں نے پرائڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ وہ کراچی سے شائع ہونے والے  بیک وقت چھ اخبارات کے بین کے خلاف احتجاجاً یہ ایوارڈ نہیں لیں گے۔ خبر کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت جب کراچی جل رہا ہے اور اسکے شہریوں کو بندوق سے ختم کیا جا رہا ہے۔ صدر، وزیر اعظم ، انکی اسمبلی اور انکی انتظامیہ کے افسران اور ہماری افواج کے افسران اعلی ڈنر پارٹیز میں محفل موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔یہ سب عوام کے خرچے پہ کیا جا رہا ہے اور کراچی کے عوام کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ یہ لوگ انکی رہنمائ کرتے ہیں۔
یہ خبر ہے تین جولائ انیس سو پچانوے کی جو کہ ڈان میں شائع ہوئ۔
یہ ایک نظم ہے جو اس کتاب سے لی گئ ہے۔ اسکا عنوان ہے کراچی۔  اس کتاب میں بہت خوبصورت  نثری نظمیں ہیں اور ہر نظم سے میرا شہر سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
کراچی
ایک جنگل ہے
جہاں تاریکی، شور
اور خوف کے ہزاروں درخت
آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں
اتنی اونچی آواز میں کہ
کراچی کے اندر یا باہر رہنے والوں 
کسی کی چیخ بھی
سنائی دیتی نہیں
اصل میں اب کراچی
کوئ شہر نہیں
بلکہ خطرے کی حالت میں 
حلق سے نکلنے والی چیخ ہے
جو چاروں طرف گونج کر رہ گئ ہے
کسی کو اس بات کا احساس تک نہیں 
کہ یہ چیخ مدد کے لئے بلانے والے
کسی تنہا شخص کی بھی ہوسکتی ہے
مدد کے لئے نہ آنے والوں نے 
کراچی کو
ایک غیر انسانی ہجوم سمجھ لیا ہے
یا اندھوں کی ایسی بھیڑ
جس کو بھوک لگنے پر
صرف کھیر کھلائ جا سکتی ہے
آواز نکالنے پر صرف تقریر سنائ جا سکتی ہے
اور ایکدوسرے کا ہاتھ تھام کر 
یا تھامے بغیر
حرکت کرنے پر فائرنگ کی جا سکتی ہے
مگر کراچی میں اب فائرنگ محض ہوا تک محدود نہیں رہی ہے
 گولیاں اور انکی آوازیں
شہریوں کے خوابوں تک پہنچ رہی ہیں
 مگر کراچی خوابوں کا شہر نہیں
خوابوں کے لئیے صرف ایک انتظار گاہ ہے
اپنی آسانی کے لئیے
ہم اسے بندر گاہ
یا ایک عارضی تجربہ گاہ کے طور  بھی
استعمال کرتے ہیں
اس تجربہ گاہ میں ہم
انسانی جسموں پر کوئ تجربہ نہیں کرتے
جیسا کہ سب جانتے ہیں
اس مقصد کے لئے خرگوش کام آتے ہیں
یا سفید چوہے
جن کی افزائش نسل
خطرے کی حد کو چھو لینے پر
چوہے مار دوائیں
اور بلیاں
دارالحکومت سے آتی ہیں

ریفرنس؛
ضمیرنیازی