Showing posts with label Pakistani marriage. Show all posts
Showing posts with label Pakistani marriage. Show all posts

Monday, May 3, 2010

وہ، میں اور مئ

یہی وہ دن تھے جب اک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے
فی الحال میں اپنے بلاگ کی سالگرہ کی بات نہیں کر رہی۔ یہ مہینہ میری زندگی میں ایک اہم تبدیلی کا باعث بنا۔ وہی تبدیلی جس کے لئے اکثر لوگ اپنی ہتھیلی پھیلا کر دست شناس کے آگے کر دیتے ہیں کہ نام کا پہلا حرف بتادیں اور یہ کہ خاندان میں ہوگی یا خاندان سے باہر۔ یا یہ گاتے پھرتے ہیں کہ زندگی اپنی گذر جائے گی آرام کے ساتھ اب میرا نام بھی آئے گا تیرے نام کے ساتھ۔ یہ تو بعد میں عقدہ کھلتا ہے کہ صرف ناموں کا ساتھ رکھنا ہی بات نہیں بلکہ مقامات جد وجہد اسکے علاوہ ہیں۔
 میرے شوہر اور میری پہلی ملاقات، جیسا کہ کراچی میں طریقہ رائج الوقت ہے ایک ڈرائنگ روم میں ہوئ۔ لیکن حالات ایسے نہ تھے کہ چپ چپ کھڑے ہو ضرور کوئ بات ہے، پہلی ملاقات ہے یہ پہلی ملاقات ہے۔ اسکی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ میں سمجھی تھی کہ لڑکا ساتھ میں نہیں آیا اور یہ باقی خاندان والے ہیں۔ اس ملاقات کے آخر میں جب انکا مجھ سے تفصیلی تعارف کرایا گیا تب مجھے اندازہ ہوا کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔
خیر، شادی سے پہلے ہماری خاصی ساری ملاقاتیں گھر کے اندر ہوئیں۔ اسکا مقصد میری طرف سے قطعاً یہ نہیں تھا کہ میں انہیں مزید جان لوں، کیونکہ اس سال فروری میں، میں نے خدا کو گواہ بنا کر عالم طیش میں کہا کہ اب جو بھی پہلا پروپوزل آئیگا میں اسے بغیر چھانے پھٹکے اور سوچے سمجھے ہاں کر دونگی چاہے وہ کوئ بھی ہو۔ اب خدا سے کئے اس وعدے کی لاج بھی تو رکھنی تھی۔ میرے اس جملے کی آزمائش صرف پچیس دن بعد ہی  فہوالمطلوب ہو گئ۔ اور میں نے اس پہ ثابت قدمی دکھائ اور آج تک دکھا رہی ہوں۔
:)
اسکی وجہ نجومی یہ بتاتے ہیں کہ قائد اعظم، سوہنی اور میرا برج ایک ہے اور اسکی بنیادی خاصیت ہے مستقل مزاجی۔ اماں کا خیال ہے کہ انکی اعلی تربیت ہے، احباب کا خیال ہے کہ شکر خورے کو خدا شکر دیتا ہے، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ میری قسمت اچھی ہے  اور میں سمجھتی ہوں کہ میں خود کافی اچھی ہوں لیکن----------- اچھوں کے ساتھ۔
تو بات یہ بنی کہ
چاہئیے اچھوں کا جتنا چاہئیے
وہ اگر چاہِیں تو پھر کیا چاہئیے
قسمت کی خوبی دیکھئیے کہ در محبوب پہ مجھ سے پہلے رقیب نے دستک دی۔ اور میری رقیب صاحبہ میری قانونی آمد سے پہلے ہماری زندگی میں گھس آئیں۔ بقول ہماری بزرگ پڑوسن کے انہوں نے تو اپنی گاڑی سے نکاح کیا ہوا ہے۔  تو میری یہ رقیب ایک رینج روور ہے۔ انہیں اگر خوش کرنا ہو تو گاڑی کی شان میں ایک تعریفی جملہ کہہ دیں۔ اگر وقت اور معاشیات کا اندازہ لگائیں تو رقیب کو مجھ پہ ایک واضح برتری حاصل ہے۔ لیکن ایسے موقعوں پہ میں ایکدم اسی طرح رہتی ہوں جیسے صوفی راہ سلوک کی منازل پہ۔ حتی کہ کسی کو یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہونی چاہئیے کہ میرا تعلق ملامتی فرقے سے ہے۔
یہ بات تو شادی سے پہلے میرے علم میں لائ جاچکی تھی کہ محترم  لینکس اور غالب کی شان میں ہتک برداشت نہیں کرتے۔ آج بھی کمپیوٹر کی فیلڈ میں ہونے والے میرے تمام مصائب کا سہرا ونڈوز کے سر بندھتا ہے اور اسے برا بھلا کہے بغیر میرے کسی بھِی ٹیکنیکل مسئلے کو شرف باریابی عطا نہیں ہوتا۔ 
 اس مہینے کی اہمیت میں میرے شریک حیات کی شخصی خوبیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ جو شخص اپنے گھر کے گیٹ پہ گاڑی کے لئے ہارن بجانے کے بجائے خود گیٹ کھولنے کو ترجیح دے تاکہ محلے والے ڈسٹرب نہ ہوں۔ان سے میری شکائیتیں ایسی ہی ہوتی ہیں کہ کپڑے بستر پہ کیوں چھوڑ دئیے۔
خاصے عقلمند ہیں اور شادی کے فوراً بعد میری تربیت میں ڈرائیونگ کو مرکز نگاہ رکھا۔ اپنی جان چھڑائ اور واہ واہ بھی ہو گئ کہ بیگم کو خود انحصاری کی منزل پہ پہنچا دیا ہے۔ حالانکہ اس میں میری دور اندیشی بھی شامل تھی۔ میں نے  ان حالات سے خاصہ سبق سیکھا جب میں شاپنگ کے لئے دوکان کے اندر بیٹھی ہوتی تھی اور میاں صاحب موبائل فون پہ دوکان کے باہر ٹہل ٹہل کر گفتگو فرما رہے ہوتے تھے۔ تو شوہر صاحب کی ان اداءووں کا خوف نکالنے کے لئے دل سے کراچی کی سڑکوں کا خوف نکالا۔ اور نتیجے میں  اب میں دن ہو یا رات اپنے کسی بھی کام کے سلسلے میں انکی محتاج نہیں۔ ڈرائیونگ آنا، خواتین کے لئے ایک نعمت ہے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ کبھی اپنے شوہر صاحب سے ڈرائیونگ سیکھنے کی حماقت نہ کریں۔
روشن خیال ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میری مستقل مزاجی کا دعوی دھرا کا دھرا رہ جاتا۔ میں نے اپنی پی ایچ ڈی اپنی شادی کے بعد مکمل کی اور اس سلسلے میں مجھے انکا تعاون ہمیشہ حاصل رہا۔ ورنہ یہ تو آپکو اندازہ ہوگا کہ جبری تعاون حاصل کرنا بھی کوئ مشکل کام نہیں، بس یہ کہ دلوں میں بال پڑ جاتے ہیں۔  
اسی وجہ سے مجھے شادی سے پہلے کے دوستوں کی شادی کے بعد چھانٹی نہیں کرنی پڑی اور نہ ہی کسی کی چھٹی۔ نہ ہی پچھلے کسی واقعے کے منہ سے نکل جانے پہ سنسر لگانا پڑا۔
البتہ ایسا ہے کہ پہلے میں راستے کے چھوٹے ہونے کا مطلب یہ لیتی تھی کہ وہ فاصلے میں چھوٹا ہو۔ لیکن جب اپنے میاں موصوف کو کسی جگہ جانے کے آڑے ترچھے راست اختیار کرتے دیکھتی تو ایک دن ان سے پوچھ لیا کہ اس میں کیا اسرار ہے جواب ملا کہ اس راستے میں سگنل کم آتے ہیں اور ٹریفک اتنا نہیں ہوتا۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ایک سگنل بھی کم آتا ہو یا دو گاڑیاں بھی کم ملیں تو وہ اسی راستے کو اختیار کرتے ہیں۔
اگر ہم دونوں کو کہیں ساتھ جانا ہو تو وقت کی خاصی اہمیت ہوتی ہے۔ اور گفتگو کچھ اس طرح ہوگی۔ سوال، کتنے بجے نکلیں گے، جواب سوا نو بجے۔ سوال، یہ ساڑھے نو بجے نہیں ہو سکتا۔ اس وقت فلاں سگنل پہ رش ہوگا اس میں اتنے منٹ خرچ ہو جائیں گے۔ یا یہ کہ مجھے یہ ایک کام کرنا ہے اس میں اتنے منٹ اتنے سیکنڈز لگ جائیں گے۔ جواب، اچھا تو پھر نو بج کر سترہ منٹ کر لیں۔ سوال، مگر ساڑھے نو بجے میں کیا برائ ہے۔ جواب، نو بج کر سترہ منٹ بیس سیکنڈ، بس اسکے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ نکلتے ہم پونے دس بجے ہیں ، کیونکہ عین وقت پہ بیٹی صاحبہ کو یاد آتا ہے کہ واش روم جانا ہے۔
ہمارے درمیان جھڑپوں کا باعث منٹوں اور سیکنڈز کے پیچیدہ حساب کتاب کے علاوہ جارج بش کی فارن پالیسی پہ ہم دونوں کا اختلاف، انکی شرٹس جو کہ باریک سوراخ ہونے کے بعد زیادہ قیمتی ہوجاتی ہیں ان میں میرا انگلی ڈال کر مزید بڑا کرنے کی ناکام کوشش کرنا، اور اسی طرح کے مزید نکات ہیں۔
تجربے سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ شوہر صاحب کے جن کپڑوں سے آپ عاجز ہیں، انکے ڈسٹر بنا لیں یا خاموشی سے انکی چھٹی کر دیں۔ بہشتی زیور کی خواتین کی طرح اجازت لینے کے چکر میں مت پڑ جائیے گا ورنہ جواب ملے گا صرف شرٹس کے پیچھے کیوں پڑی رہتی ہیں اور بھی چیزیں ہیں جن سے زندگی میں تبدیلی آ سکتی ہے خاصی نمایاں۔ اور ہاں یہاں میں اپنی پیاری بہنوں سے گذارش کرونگی کہ خدا کے لئے شادی سے پہلے بہشتی زیور مت پڑھئیے گا۔
اگرمیں موڈ میں ہوں تو کوئ بھی قصہ سناءووں ، بڑی توجہ سے سنتے ہیں اور اسکے ختم ہونے کے بعد اپنے کمپیوٹر پہ سے ایک منٹ کے بعد نظر اٹھا کر انتہائ ذمہ داری سےفرمائیں گے ہاں توکیا کہہ رہی تھیں آپ؟  ہماری اماءووں کے زمانے میں اخبار اور ٹی وی شہروں کو مصروف رکتے تھے اور آج کے شوہر حضرات کمپیوٹرمیں گم رہتے ہیں۔   چونکہ میں ایک تابعدار بیوی نہیں ہوں۔ اگر جواباً میں اسی روئیے کا مظاہرہ کروں تو کہہ دیا جاتا ہے کہ کس دنیا میں رہتیں ہیں آپ۔ اب میں اپنی بات بالکل نہیں دہرا رہا۔ اپنے اوپر میرے حملوں کے جوابات انتہائ حاضر دماغی سے دیتے ہیں اور اگر ذرا بھی شکست کاشبہ ہو تو زیر لب مسکراہٹ سے کام چلائیں گے مگرکچھ بول کر نہیں دیں گے۔
جیسا کہ کچھ دانشواران نے لکھا ہے کہ ایک اچھے شوہر کو شادی کی سالگرہ اور بیوی کی سالگرہ کا دن نہیں بھولنا چاہئیے تو اس طرح وہ ایک بے حد اچھے شوہر ثابت ہوتے ہیں۔
باقی یہ کہ پہننے والے کو پتہ ہوتا  ہے کہ جوتا کہاں سے کاٹ رہا ہے ۔
اب یہاں سے ان خواتین کی دل پشوری کا حصہ شروع ہوتا ہے جو یہ پرچار کرتی ہیں کہ اچھی عورتیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے مرد سے چار قدم پیچھے چلتی ہوں۔ یہاں میرا قصور نہیں ہے۔ میں بھی انہی اچھی عورتوں میں شامل ہونا چاہتی ہوں مگر یہ ہیں کہ شامل نہیں ہونے دیتے، ہمیشہ اپنے ساتھ لے لیتے ہیں اور آگے ہو جاءووں تو بڑا خوش ہوتے ہیں۔ کچھ خواتین اس بات پہ آہ بھرتی ہیں کہ ہماری اماں تو اپنے شوہر کا نام نہیں لیتیں۔ لیکن تف ہے ان آجکل کی عورتوں پہ، معاشرے سے اخلاقیات اور ادب احترام کا دیوالیہ ہی نکال دیا۔ میری بیٹی کی آمد تک مجھے انکو کسی طرح تو بلانا ہی تھا کہ ہم زنان خانے مردان خانے میں نہیں بلکہ ایک ہی گھر میں، ایک ہی کمرے میں رہتے تھے اس لئے آسانی اختیار کرتے ہوئے میں نے انہیں انکے نام سے بلانا شروع کر دیا۔ بیٹی صاحبہ کی آمد تک نام لینے کی ایسی بری عادت پڑ گئ تھی کہ جیسی منہ لگی کافر کی لت لگ جائے۔ یوں ارے سنئے مشعل کے ابا کی جگہ انکا نام آگیا۔ سو  میں بھی ان خواتین میں شامل ہوں جو معاشرتی اقدار اور روایات اور ادب و احترام کے خاتمے کو شہہ دینے والے ہیں۔
اب میں اس پوسٹ کے ساتھ اپنے تمام شادی شدہ بلاگر ساتھیوں کو ٹیگ کرتی ہوں کہ وہ ایک پوسٹ اپنی یا اپنے شریک حیات کے نام کریں۔

بشکریہ محمد ریاض شاہد، انکی ایک پوسٹ میں اس طرف توجہ دلائ گئ۔