کراچی میں حالات اتنے خراب ہیں۔ میں اپنے شوہر صاحب سے بات کرنا چاہ رہی تھی مگر رابطہ نہ ہو سکا۔ انہیں ای میلز بھیجیں ، جواب ندارد۔ دو دن بعد تنگ آکر دوبارہ انہیں فون کیا۔
یہاں کینیڈا کی وسعت اتنی ہے کہ ایک ملک میں کئ ٹائم زون ہیں۔ پہلے ہم ٹورنٹو میں تھے تو ٹائم زون الگ تھا۔ جب ہم سسکاچوین پہنچے تو ٹائم زون تبدیل ہو گیا۔ یہ ٹورنٹو سے دو گھنٹے پیچھے ہے۔ جب میں نے فون کیا تو اس وقت یہاں اگرچہ عین دو پہر کا وقت تھا مگر کراچی میں رات کا ایک بج رہا تھا۔
موصوف نے فون اٹھایا تو آواز سے لگ رہا تھا کہ سوتے ہوئے اٹھے ہیں۔ خیریت کے چند جملوں کے بعد میں نے فون بند کر دیا۔ میزبان پاکستانی خاتون وہیں موجود تھیں۔ کہنے لگیں بڑی جلدی بند کر دیا آپ نے۔ میں نے کہا ہاں، جب میں نے ان سے کہا کہ آپ نے تین دن سے پریشان کیا ہوا ہے۔ ادھر شہر کے حالات اتنے خراب ہیں۔ کم از کم انٹر نیٹ تو جاری حالت میں رکھیں۔ فرمانے لگے، انٹر نیٹ کی لائن خراب ہے۔ آپ نے مجھے رات کو ایک بجے نیند سے جگا کر پریشان کر دیا۔ بس میں نے انکی نیند کا خیال کرتے ہوئے خدا حافظ کر دیا۔
میری میزبان خاتون کہنے لگیں۔ یہ آپ دونوں ایکدوسرے سے کچھ زیادہ ریزروڈ نہیں رہتے۔ میں نے حیران ہو کر انکی طرف دیکھا۔ آپکو یہ شبہ کیوں ہوا؟ جواب ملا، کیونکہ آپ دونوں ایکدوسرے سے آپ کر کے بات کرتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے؟ میں نے حیرانی سے دریافت کیا۔
دیکھیں ناں، میں اپنے شوہر کو آپ کہتی ہوں اور وہ مجھے تم کہتے ہیں۔ لیکن آپ دونوں ایکدوسرے کو آپ کہتے ہیں۔ اوہ، مجھے ہنسی آئ۔ ہم نے اپنی شادی کی ابتداء میں کچھ چیزیں طے کی تھیں۔ مثلاً یہ کہ ایکدوسرے کو بہتر ین اور برابر کے طریقے پہ مخاطب کریں گے اور یہ کہ ایکدوسرے کو ایکدوسرے کے خاندان کے طعنے نہیں دیں گے اور نہ اپنے رشتے داروں کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑائیاں کریں گے۔ ہمیں جب بھی لڑنے کی خواہش ہوئ تو اپنے زور بازو پہ لڑیں گے۔ بس اس وجہ سے لڑنے کی نوبت نہیں آ سکی۔
اب انہیں لازماً ایک اور سوال کرنا چاہئیے تھا کہ پھر آپ دونوں ایکدوسرے سے کیا باتیں کرتے ہیں۔ اور اس طرح تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ لوگ ایک دوسرے سے کافی ریزروڈ ہونگے۔ کیونکہ ایک مشاہدہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے درمیان زیادہ گہرا رشتہ اور تعلق ہوتا ہے جنکے درمیان کی جانے والی غیبت کسی مشترکہ شخص کے بارے میں ہو۔ اپنے اس مشاہدے سے میں دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
اگر بات سمجھ نہیں آ رہی ہو تو آزما لیجئیے۔ کوئ شخص، جس سے آپکے تعلقات بس یونہی سے چل رہے ہوں۔ اسکے ساتھ کسی دن گپ شپ کریں اور جان بوجھ کر کسی ایسے شخص کی برائیاں شروع کر دیں جو اسے نا پسند ہو۔ بس چند دنوں میں ہی اسکے اور آپکے درمیان تکلفات کی بڑی دیواریں گر جائِں گی۔
یہ بھی ایک عام سا مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں اکثر شوہر حضرات اپنی بیویوں کو تم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جبکہ بیویاں اپنے شوہروں کو آپ کہتی ہیں یا کسی احترام کے نام سے مخاطب کرتی ہیں مثلاً شوہر اگر پی ایچ ڈی ہے یا طب سے تعلق رکھتا ہے تو ڈاکٹر صاحب، انجینیئر ہے تو انجینیئر صاحب جیلر ہے تو جیلر صاحب۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ شوہر کی طرف سے زیادہ قربت اور محبت کی وجہ سے ہے یا بیوی کی طرف سے جھجھک ہے یا روایت اور رواج یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف نئ نسل کے بیشتر شادی شدہ جوڑے ایسے بھی ہیں۔ جو ایکدوسرے کو تم سے مخاطب کرتے ہوئے بھی ملتے ہیں۔ کیا یہ انکے درمیاں زیادہ قربت کی نشانی ہے۔ ہمم شاید نہیں، کیونکہ لڑتے ہوئے بھی وہ ایکدوسرے کو تم ہی کہتے ہیں بلکہ بعض دفعہ حقارت کے لئے تو سے بھی مخاطب کرتے ہیں۔
میاں بیوی سے ہٹ کر آجکل میں دیکھتی ہوں کہ ہم عمر ٹین ایجر دوست چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں جب اپنی قربت کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو ایکدوسرے کو تُو سے مخاطب کر کے بڑا خوش ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات تو بے تکلفی میں گالیاں بھی استعمال ہوتی ہیں کہ جیسے گالیاں چاٹ مصالحہ ہیں۔ اور یوں وہ زمانے گئے جب شاعر اپنے محبوب سے شکوہ کرتا نظر اتا تھا کہ یوں ہر بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے، تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے۔ آج کا شاعر مسکراتا ہے اور بتاتا ہے کہ پہلے آپ پھر تم ہوئے پھر تُو کا عنواں ہو گئے۔
سو، کیا انداز تخاطب سے لوگوں کے درمیان تعلقات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یا یہ طرز معاشرت اور انسان کے ماحولیاتی رکھ رکھاءو کو ظاہر کرتا ہے۔ ایکدوسرے کو اچھے الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے کیا ہم ایکدوسرے کے قریب نہیں ہو سکتے؟
قومیں آپس میں جب ملتی ہیں تو زبان میں نئے انداز آتے ہیں۔ لیکن زبان کی تہذیب سے ایک قوم کی ذہنی سطح بھی سامنے آتی ہے۔ حضرت علی نے کہا تھا کہ ہر شخص اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے بولو تاکہ پہچانے جاءو۔ جس لمحے ہم بولنا شروع کرتے ہیں چاہے وہ دنیا کا کوئ اعلی ترین موضوع ہو یا گھٹیا ترین۔ ہماری زبان ہمارے پس منظر کو کھول دیتی ہے۔
لیکن اتنی سنجیدہ اور بھاری بات سے الگ یہاں اصل بات تو یہ پوچھنی تھی کہ کیا ایکدوسرے کو احترام کے الفاظ سے مخاطب کرنے سے اجنبیت پیدا ہوتی ہے، برقرار ہتی ہے یا بے تکلف الفاظ استعمال کرنے سے قربت جنم لیتی ہے دل کھل جاتے ہیں۔