سسکاچُوین، کینیڈا کا ایک صوبہ ہے جو کہ پریری علاقے میں شامل ہے۔ کینیڈا کے دو اور صوبے اس علاقے میں شامل ہیں جو البرٹا اور مینی ٹوبا ہیں۔ اسکے علاوہ کسی حد تک اس میں برٹش کولمبیا بھی شامل ہے۔ پریری سے ایک جانور یاد آرہا ہے۔ اسے کہتے ہیں پریری ڈاگ۔ لیکن اس پریری علاقے کا اس کتے کے نام کے چوہے نما جانور سے کوئ تعلق نہیں۔
پریری دراصل ایک گھاس کا نام بھی ہے جو نارتھ امریکہ کے بعض علاقوں میں میں بکثرت پائ جاتی ہے یہ علاقے میدانی علاقے ہیں، زراعت کے لئے مناسب۔ لیکن یہاں معدنیات بھی پائ جاتی ہیں۔ البرٹا، کینیڈا کے امیر ترین صوبوں میں شامل ہے اس لئے کہ یہاں تیل جیسی معدنی دولت کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔
اس وقت یہ تحریر سسکاچُوین صوبے سے لکھی جارہی ہے اس لئے ہم امیروں کی نہیں غریبوں کی بات کریں گے۔ سسکاچُوین کینیڈا کا ایک غریب صوبہ ہے۔ اتنا غریب ہے کہ ٹورنٹو سے لوگ یہاں آکر رہنا پسند نہیں کرتے۔ اتنا غریب ہے کہ یہاں پہنچ کر آپکو وہ مقامی لوگ اکثرنظر آئیں گے جو کینیڈا کے قدیم باشندے ہیں یعنی ریڈ انڈیئنز۔ اتنا غریب ہے کہ کینیڈیئن امیگریشن حاصل کرنے کے بعد اگر آپ یہاں ایک سال گذار لیں تو اپنے پورے خاندان کو کینیڈا بلا سکتے ہیں۔ یہ لالچ اونٹاریو صوبہ آپکو نہیں دے گا۔ جہاں ٹورنٹو واقع ہے۔
دنیا میں ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے چاہے وہ محبت ہو، نفرت ہو، خوف ہو یا لالچ۔ یہ قیمت ادا کیجئِے یہ جذبات پیدا ہو جائیں گے یہ قیمت ادا کیجئیے یہ جذبات ختم ہو جائیں گے۔ اس طرح ہر چیز کی ایک وجہ بھی ہوتی ہے جو بعض اوقات واضح ہوتی ہے اور بعض اوقات ایسے چھپ جاتی ہے کہ محبت کرنے والے پہ، نفرت کرنے والے پہ، خوف یا لالچ رکھنے والے پہ بھی واضح نہیں ہوتی۔ لیکن سسکاچُوین صوبہ اتنا مشکل نہیں یہاں اسکی وجوہات کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس علاقے میں سال کے چھ مہینے شدید سردی رہتی ہے جس میں زیادہ تر وقت یہاں برفباری ہوتی ہے اس دوران کچھ اگایا نہیں جا سکتا۔ اس قدرتی حالت سے الگ، یہ ان علاقوں میں بھی شامل ہے جہاں ریڈ انڈیئنز سب سے زیادہ آباد ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یوروپ سے کینیڈا ہجرت کرنے والوں نے ان ریڈ انڈیئنز پہ بڑے ظلم ڈھائے اور انہیں اس بیابان علاقے کی طرف دھکیل دیا۔ یہی نہیں انہیں ایسی لتوں میں مبتلا کر دیا جس سے وہ نسل در نسل نجات نہیں پا سکے۔ ان میں سے ایک لت نشہ آور اشیاء کا استعمال ہے۔
بعض لوگوں کے خیال میں وہ کاہل بھی ہیں اور اپنی حالت تبدیل کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ بعض کا موءقف ہے کہ انہیں جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے انہیں چند نام نہاد سہولتیں دے کر مزید کاہل بنادیا گیا ہے اور ان میں سے کچھ کرنے کی امنگ کو ختم کر دیا گیا۔ بہر حال اطراف میں نظر آنے والے یہ مقامی باشندے دیگر لوگوں کے مقابلے میں پسماندہ سے لگتے ہیں۔
ریڈ انڈیئنز کو انیس سو اسّی کے اوئل میں سرکاری طور پہ فرسٹ نیشنز کا نام دیا گیا۔ فرسٹ نیشنز میں دیگر اقلیتیں بھی شامل ہیں۔ یہ اصطلاح زیادہ مقبول نہ ہو سکی۔ اسکے بجائے لوگوں نے اپنے قبائل کے نام کو اپنی شناخت بنانے پہ ترجیح دی۔
یہ ریڈ انڈیئنز یہاں اس وقت آکر آباد ہوئے جب کولمبس نے امریکہ دریافت کیا اور وہاں کے مقامی باشندوں کو انڈیئنز کہا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ وہ انڈیا پہنچ گیا ہے۔ ان اقوام کے ظلم سے بچنے کے لئے مقامی باشندے کینیڈا کی طرف ہجرت کر گئے۔
یوروپی اقوام نے جب کینیڈا کا رخ کیا تو ابتداً مقامی باشندوں نے ان کا خاصہ ساتھ دیا۔ لیکن ہوا یہ کہ ان یوروپی اقوام نے اٹھارہویں صدی کے دوران یہاں پائے جانے والی ایک قسم کی بھینس جسے بائ سن کہتے ہیں اسکا بے دریغ شکار کیا۔
بائ سن پہ ان مقامی انڈیئنز کا کافی انحصار تھآ۔ وہ نہ صرف اس سے خوراک حاصل کرتے تھے بلکہ اسکی کھال انکے لئے لباس کا ذریعہ تھی۔
اندھا دھند شکار کے نتیجے میں یہ جانور اپنے خاتمے کے قریب پہنچ گیا، اس کا سب سے اندوہناک اثر انڈیئنز پہ ہوا اور انہیں شدید ترین قحط سے گذرنا پڑا جسکے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور ہزاروں نے نقل مکانی کی۔ اپنی زمینیں چھوڑیں جس پہ وہ کاشت کاری کرتے تھے اس پہ دیگر اقوام نے قبضہ کر لیا۔
یوروپی اقوام جو کہ اس وقت اپنی حکومت بنا چکے تھے اپنے عدالتی طریقے رائج کر چکے تھے انکا اپنا پولیس کا انتظام تھا۔ یہ سارے انتظامات مقامی انتظامات سے بالکل الگ تھے۔ اس طرح مقامی انتظامات تباہی سے دوچار ہوئے دوسری طرف انہوں نےان انڈیئنز سے کئ معاہدے کئے۔ لیکن اس سے انکی حالت میں کوئ تبدیلی نہیں آ سکی۔ ان معاہدوں سے تنگ آ کربعض قبائل نے ان معاہدوں پہ دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اس ساری صورت حال کے بعد انڈیئنز میں احتجاج پیدا ہوا۔ کئ تحریکیں چلیں، انڈیئنز کو دبانے کے لئے ہر طرح کا نسخہ آزمایا گیا جس میں قتل و غارت گری بھی شامل ہے۔
پھر انہیں ضم کرنے کی کوشش یہ کی گئ کہ یوروپی اقوام کا متعارف کرائ ہوئ ثقافت کو اپنانے کے لئے ان پہ زور ڈالا گیا۔ جسے اب وہ کینڈیئن ثقافت کہتے تھے۔ یوروپی النسل لوگ جو کہ اکثریت میں تھے اس طریقے کو صحیح سمجھتے تھے۔ کیونکہ اپنے آپکو وہ ہر لحاظ سے مقامی انڈیئنز سے برتر خیال کرتے تھے۔
ضم کرنے کی ان کوششوں میں ایک انتہائ درجے کی خراب شکل اس وقت پیدا ہوئ۔ جب ان پر یوروپی نظام رکھنے والےاسکولوں میں تعلیم دینے کے لئے قوت کا استعمال ہوا۔اسکے لئے ایسے اسکول قائم کئے گئَ جہاں ان بچوں کو والدین سے الگ رکھا جاتا تھا۔ مبصرین کے نزدیک یہ ان بچوں میں انڈیئن روح کو ختم کرنے کی کوشش تھی۔
پابندی عائد کی گئ کہ وہ اپنی زبان نہیں بولیں گے بولنے پہ انہیں سزا ملے گی۔ چونکہ یہ اسکول زیادہ تر مختلف چرچز کے زیر انتظام تھے اس لئے ان پہ یہ پابندی بھی لگائ گئ کہ وہ اپنے بنیادی عقیدے پہ عمل نہیں کریں گے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اسے ثقافتی اور نسلی قتل کہا جائے گا۔
اسکولوں میں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے طالب علم بڑی تعداد میں جنسی زیادتی کا شکار ہوئے، صفائ کی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ٹی بی جیسا مہلک مرض پھیلا۔ بیسویں صدی کے آغآز میں کینیڈا کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے جذبے نے جنم لیا۔ بالآخر انیس سو ساٹھ میں ان اسکولوں کو بند کر دیا گیا۔ سرکاری طور پہ معافی مانگی گئ۔ اور نئے معاہدے ہوئے۔
انیس ساٹھ میں انڈیئنز کو ووٹ دینے کا حق ملا۔ انیس سو انہتر میں انکی امتیازی حیثت کو ختم کر کے انہیں دیگر کینڈیئنز کے ساتھ ضم کرنے کا ایکٹ سامنے آیا۔
اسکے بعد مقامی انڈیئنز کے مختلف قبائل سے مختلف معاہدوں کی لمبی فہرست ہے ۔ مثلاً آج اکیسویں صدی کے کینیڈا میں کیوبک صوبے کی حکومت نے کری قبائل سے معاہدہ کیا اور صوبے میں ہائڈرو الیکٹرک ذرائع کو استعمال کرنے پہ کیوبک حکومت کری قبیلے کی حکومت کو تین اعشاریہ چار بلین ڈالر ادا کرے گی۔
اس بات پہ مجھے بلوچستان کے قبائلی سردار یاد آتے ہیں جو حکومت پاکستان سے بلوچستان سے نکلنے والی گیس کی قیمت وصول کرتے ہیں اور اپنے صوبے کی فلاح کے لئے نہیں بلکہ اپنے بچوں اپنی نسل کی فلاح کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اگر اس رقم کے لین دین میں اونچ نیچ ہو تو وہ اسے بلوچستان کے عوام سے ظلم قرار دیتے ہیں۔
آجکے کینیڈا میں بھی ان مقامی انڈیئنز یا آجکی زبان میں فرسٹ نیشنز کے مسائل دیگر تمام کینیڈیئنز سے کہیں زیادہ ہیں اور سنگین ہیں۔ یہ شاید ایک لمبے عرصے تک دبائے جانے کا اثر ہے۔ تعلیمی شرح کم اور غربت زیادہ ہےان میں بے روزگاری شرح زیادہ ہے۔ جرائم کی شرح زیادہ ہے، وہ نشہ آور اشیاء کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔ مجھے کوئ بتا رہا تھآ کہ برفباری دنوں میں برف میں ملنے والی لاشیں زیادہ تر مقامی انڈیئنز کی ہوتی ہیں جو نشے کی گرمی میں برف میں زیادہ دور تک نکل آتے ہیں اور واپس پہنچنے سے پہلے راستے میں ٹھنڈ کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔
حالت حمل میں الکوحل کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے پسماندہ بچوں کی تعداد ان میں کہیں زیادہ ہے۔ اسکے ساتھ خودکشی کا رجحان زیادہ ہے جبکہ جنسی زیادتی کی شرح بھی زیادہ ہے۔
انکا عرصہ ء حیات بھی دیگر کینیڈیئنز کے مقابلے میں کم ہے۔ مردوں میں یہ تقریباً آٹھ سال کم ہے جبکہ خواتین میں ساڑھے پانچ سال کم ہے۔
ان مقامی انڈیئنز کے گینگز اب ایک اور سنگین مسئلہ بنتے جا رہے ہیں۔ جو جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ غربت کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ یہ گینگز زیادہ تر ونی پگ اور مینیٹوبا میں پائے جاتے ہیں۔
اس تمام صورت کی وجہ یہ خیال کی جاتی ہے کہ لا محدود قسم کے اختیارات قبائلی سردار کے پاس ہونے کی وجہ سے وسائل صحیح طور پہ استعمال نہیں ہو پاتے۔ کیا خیال ہے یہی صورت ہمارے ملک کی نہیں جہاں نظریات کچھ بھی ہوں، عملی طور پہ قبائلی سرداری نظام نافذ ہے ؟
میں نے سسکاچُوین میں کیا کیا؟ یہ جاننے کے لئے اگلی تحریروں کے منتظر رہئیے۔ خدا حافظ پاکستان۔
Saskatchewn
Alberta
Manitoba
Quebec
Tribal system
ارے یہ تو سرپرائز ہوگیا۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ آپ واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہونگی لیکن آپ تو دشت و بیابان پار کرتے سسکاچُوین پہنچ گئیں۔
ReplyDeleteپریری کو معاشرتی علوم کی کتاب میں منطقہ معتدلہ کے گھاس کے میدانوں کا خطہ لکھا جاتا تھا۔ اسی سے ملتے جلتے خطے کو وسطی ایشیا میں سٹیپ اور جنوبی امریکہ میں پمپاس کہتے ہیں۔ جغرافیہ سے لے کر منفرد کلچر تک .. اپنے طرز کی ایک انوکھی خوبصورتی ہے۔
امید ہے کہ آپ نے فرسٹ نیشنز کے ہمراہ بائسن اور پریری ڈاگ کا شکار بھی کیا ہوگا۔ اگلی اقساط میں دیکھتے ہیں۔
کے لئے مقامی باشندے کینیڈا کی طرف ہجرت کر گئے؟
ReplyDeleteان علاقوں ور پورے براعظم امریکہ میں جنوب سے لیکر شمالتک مقامی باشندے موجود تھے اور ہیں۔ کہیں کم کہیں زیادہ اور کہیں ناپید ہوچکے ہیں۔ جبکہ سنٹر اور جنوبی امریکہ میں ابھی بھی انکی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ اور انکو پناہ کہیں بھی نہیں ملی۔ جن قبائل کا آپ نے ذکر کیا ہے یہ کہیں اور سے ہجرت کر کے کنیڈا کے ان صوبوں میں آباد نہیں ہوئے بلکہ یہ ہمیشہ سے ہی وہاں مقیم تھے، یعنی مغربی اقوام اور گوروں کے وہاں پہنچنے سے سے صدیوں قبل سے۔
السلام اعلیکم
ReplyDeleteبہت سی معلومات میرے لیے نئی تھیں مجھے نہیں معلوم تھا کہ ریڈ انڈینز امریکہ کے علاوہ بھی کہیں رہتے ہیں
سنا ہے کہ کینیڈا ایک سڑک کے زریعے امریکہ سے منسلک ہے
میرا بھائی البرٹا کا مقامی باشندہ ہے جو سرکاری ٹیلیویژن کیلئے کام کرتا ہے ـ ای میل اور چیٹ میں اکثر ریڈ اینڈیئنز کا تذکرہ کرتا ہے جو کہ وہاں کے مقامی ہیں ـ اسی مہینے مجھے کینیڈا میں ہونا تھا ایک مہینہ چھٹی پر، چونکہ اس بار عید امی اور ابا کے ساتھ ہونا طئے ہے، سو کینیڈا کا سفر کچھ مہینوں کیلئے پھر آگے رہ گیا ـ اور ہاں، مجھے کینیڈا دیکھنے سے زیادہ اپنے بھائی سے ملنے کی تمنا ہے جسکی وجہ سے آج میں سب کچھ ہوں، جس نے مجھے جینا سکھایا اور کینیڈا آنے کا دعوت نامہ بھی بھیجا ـ
ReplyDeleteسسکاچُوین صوبے سے آگاہی کا شکریہ۔ حملہ آور یورپی اقوام کی مقامی لوگوں کے ساتھ مظالم کی یہی تاریخ ریاستہاے متحدہ امریکہ اور آسٹریلیا میں بھی تقریبا بعینہ دہرای جا چکی ہے۔ امریکہ میں مقامی قبائل کو 'سوورن نیشن' کا درجہ دے کر بعد میں انہیں کیسینو کلچر میں مبتلا کیا گیا لیکن انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جینوسایڈ یا 'نسل کشی' کی شکار اپاچی، نواہو، سوکس اور دیگر اقوام آج دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک میں تیسری دنیا کے مسائل کا نمونہ ہیں۔ آسٹریلیا کے ایبوریجنلز کے بچے اغوا کرنے کا عمل سو سال سے زائد جاری رہا جو 1970 میں ختم کیا گیا۔ ان نسلوں کو اسٹولن جینیریشنز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاو گے
ReplyDeleteعثمان، شکار نہیں کیا۔ شکار کا صرف شوق ظاہر کیا۔ کینیڈا میں جانور کے شکار کا لائیسنس ملنا بھی آسان کام نہیں۔ میزبان نے معذرت کر لی۔
ReplyDeleteہم سات سمندر پار کر کے، ہزاروں میل طے کر کے اور پندرہ گھنٹے کا سفر کر کے جب کینیڈا پہنچ سکتے ہیں تو سسکاچوین کی کیا حیثیت ہے۔ سندھ کے جنگل اور بلوچستان کے دشت کے سفر کا تجربہ ہے ہمیں۔ سسکاچوین اب اتنا بھی پسماندہ نہیں۔
گمنام صاحب، اس تحریر میں کچھ معلومات وکیپیڈیا سے بھی لی گئ ہیں۔ مجھے یہ سمجھ آیا کہ ایک نسل تو وہ ہے جو برف کے زمانے سے یہاں رہ رہی ہے۔ وہ اسکیمو نسل کے لوگ ہیں۔ ایک نسل وہ ہے جو امریکہ میں جب ریڈ انڈیئنز پہ مظالم ڈضائے جا رہے تھے تو یہاں بھاگ کر آئ تھی۔
دونوں میں یہاں کیسے فرق کیا جاتا ہے دیکھنا پڑے گا۔
مظلوب صاحب، ریڈ اینڈیئنز، امریکہ کے علاوہ کافی جگہ آباد ہیں۔ جیسا کہ گمنام اور عدنان مسعود صاحب کے تبصروں سے بھی آپکو اندازہ ہوا ہوگا۔ کہتے ہیں سفر وسیلہ ء ظفر ہوتا ہے۔ وسیلہ ء ظفر ہو یا نہ ہو۔ معلومات بڑی بڑھتی ہیں۔
شعیب صاحب، میں خود کینیڈا میں دعوت پر ہون۔ میرے میزبانوں کا شکریہ کہ انہوں نے معاشی اور معاشرتی تعاون کا بہترین مظاہرہ کیا۔ خدا اگر ہمارے درمیان اس تعاون کو قومی سطح پہ بھی پیدا کر دیتا تو کیا بات تھی۔
عدنان مسعود صاحب،آسٹریلیا میں تو وزیر اعظم اپنے آدی واسیوں سے اس سلسلے میں معافی مانگ چکے ہیں۔ فی الحال تو ہم اپنے حالات سے دہلے ہوئے ہیں۔ واپسی کے دن قریب ہیں سوچتے ہیں ویزہ تو چھ مہینہ کا ہے۔ پھر ان رشتوں کی طاقت زیادہ نہیں سوچنے دیتی جو اس وقت پاکستان میں موجود ہیں۔ اس موجودہ لمحے میں، مجھے یہاں کوئ خوف نہین اگر کوئ تناءو ہے تو وہ اپنے وطن میں رہنے والوں کا ہے۔
مظلوب صاحب، یہ میں بتانا بھول گئ کہ امریکہ کینیڈا سے کم از کم تین سڑکوں کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ ایک نیاگرا فالز کے قریب ہے دوسری مونٹریا اور تیسری وینکوور جاتی ہے۔ اسکے علاوہ امریکہ سے کشتیوں اور ٹرین کے ذریعے بھی کینیڈا پہنچا جا سکتا ہے۔ آنے جانے کے لئے دونوں ملکوں کے شہریوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ReplyDeleteیہ مونٹریال ہے اسے درست کر لیں۔
ReplyDeleteحیرت انگیز !
ReplyDeleteمزہب کو رگڑا نہیں دیا اس دفعو آپ نے ؟
کاشف نظامی صاحب، دکھ ہوا ہوگا آپکو کہ آپکی معلومات کے اظہار کا نہ صرف موقع نہیں ملا بلکہ ایک دفعہ پھر کافر قرار دینے کا سرٹیفیکیٹ جاری ہونے سے رہ گیا۔
ReplyDeleteیہ کمال تو میں اکثر دکھآتی ہوں۔ مگر آپ جیسے لوگ اکثر اس کمال کی کمی کو پورا کر دیتے ہیں اسی طرح کے تبصروں سے۔ لامحالہ مجھے کچھ عرصے بعد انہیں ایک موقع دینا پڑتا ہے۔ آرام سے رہئیے آپکی باری بھی آئے گی۔ انصاف بھی تو کوئ چیز ہوتی ہے۔
دکھ تو آپ کو ہو گا یہ جان کر کہ مجے مذہب کی ایسی کو ئی خاص معلومات ہے ہی نہیں جسکا میں بے مذہبوں پر اظہار کروں اورجہاں تک تعلق ہے سرٹیفیکٹ کا تو سچ بات تو یہ ھے کہ آپ کو کسی سرٹیفیکٹ کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ سرٹیفیکٹ تو سرٹیفیکٹ ہولڈر کو اپنی ایبلٹی کے اظہار کے لئے دیا جاتا ہے اور آپ کی ایبلٹیز تو فورا ہی عیاں (اسے عریاں نہ پڑھا جائے)ہو جاتی ہیں
ReplyDeleteرہی بات کمالات کی تو وہ تو ہر اردو بلاگر آپ کے کمالات اور جلوءوں کاقائل ہے
ویسے بی بی جی آرام سے تو آپ رہئے گا کیوںکہ آرام تو خود آپ کو نہ آئے گا جب تک آپ اپنے منتشر ذہن کا خلفشار باہر نہ نکالیں گی۔
کاشف نطامی صاحب، آپکے صاف ستھرے ذہن کے پاکیزہ خیالات تبصروں کے شو کیس میں خاصے پر کشش لگ رہے ہیں۔
ReplyDeleteاب ایسا کیا کہ دیا میں نے جو دل نازک پہ گراں گزرا ۔ :)
ReplyDeleteکاشف نظامی صاحب، آپکو اب تک اندازہ نہیں ہوا کہ یہاں دل نازک نہیں پایا جاتا
ReplyDelete:)