Sunday, August 14, 2011

جشن آزادی کے نام

چھنّو خالہ کی آنکھ میں ہی نشہ نہیں باتوں اور اداءووں میں بھی ایک نشہ ہے۔ وہ اپنی اس طاقت سے واقف ہیں۔ اور اسے جتانے کا کوئ موقع جانے نہیں دیتیں۔ اگر ایسا کوئ موقع کچھ دنوں تک نہ ملے تو موقع ایجاد کر لیتی ہیں وہ اچھی طرح سمجھتی ہیں  کہ مستقبل کی درست پیشن گوئ کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ اسے خود ڈیزائین کیا جائے۔
چھنّو خالہ کی سالگرہ آنے والی تھی۔ لیکن سالگرہ سے دو ہفتے پہلے پتہ چلا کہ انہیں تو فوری طور پہ ملک سے باہر جانا ہے۔ اس لئے انہوں نے مستقبل کی ڈیزائیننگ میں تبدیلی کی اور اعلان کیا کہ وہ اپنی سالگرہ دیار غیر میں اکیلے گذارنے کے بجائے دو ہفتے پہلے گھر والوں کے ساتھ منائیں گی۔ یہ سنتے ہی گھر کے ایک سال سے پانچ سال کے بچوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئ اور وہجذبہ پیدا ہو گیا جسکے آگے کوئ چاکلیٹ اور کوئ آئس کریم بند نہیں باندھ سکتی تھی۔
بچوں کی اس خوشی کی صحیح وجہ  معلوم کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ لیکن کچھ اندازے ہیں۔ مثلاً اس عمر کے بچوں کو ہر ہنگامے سے دلچسپی ہوتی ہے چاہے وہ سالگرہ کا ہو یا برسی کا۔ شاید بچے ااس چیز کا بہتر ادراک رکھتے ہیں کہ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق، نوحہ ء غم نہ سہی نغمہ ء شادی ہی سہی۔
اپنی سالگرہ والے دن چھنو خالہ تو صبح صبح آفس روانہ ہو گئیں جب انکی عوام ابھی سو ہی رہی تھی اس وارننگ کے ساتھ کہ شام کو گھر میں سب تیار رہیں۔ ادھر سارا دن گھر میں بچوں کی یہ ٹولی طوفان اٹھائے رہی۔ بڑے بھی انکی اس سرگرمی میں شامل ہونے پہ مجبور رہے۔ یہ ٹولی ہر تھوڑی دیر بعد ہیپی برتھ ڈے کا گانا گاتی اور چھنو خالہ کو ایک عظیم تحفہ دینے کے بارے میں بآواز بلند سوچتی رہی۔ گھر میں بہت سارے ردی کاغذ پھیل گئے جن پہ بچوں کے بقول چھنو خالہ بنائ جا رہی تھیں۔ انہیں  تصاویر میں سے کچھ بچوں نے اتفاق رائے سے منظور کر لیں۔ اس منظوری اور اس پہ اتفاق رائے کی وجوہات ، کائنات کے آغاز جیسے مسئلے کی طرح نا معلوم ہیں۔
شام کو جب چھنو خالہ نے گھر میں قدم رکھا تو بچوں نے انکا پر جوش خیر مقدم کیا۔ انکے کمرے کے باہر عوام کا ہجوم  کھڑا تھآ صرف اس لئے کہ جب چھنو خالہ تیار ہو کر اپنے کمرے سے باہر نکلیں تو وہ واءو کہہ سکے۔اگر ایشوریا رائے یہ منظر  دیکھ لیتی تو اس کا سارا غرور حسن خاک میں مل جاتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ بچے یہ چیز جانتے ہیں کہ ترجیحات کا تعین کیسے کیا جاتا ہے۔ یہ عنصر بڑے ہونے کے ساتھ اکثر بچوں میں سے کیسے غائب ہو جاتا ہے؟
خالہ کے سولہ سنگھار کر کے باہر برآمد ہونے پہ ایک بچی نے بے تاب ہو کر کہا کہ اس نے انکے لئے ایک شاندار تحفہ بنایا ہے پھر اس نے اپنے اسکول بیگ سے ایک مرا تڑا کاغذ نکال کر اسے سیدھا کیا اور بغیر کسی جھجھک کے انکے حضور پیش کر دیا۔ 
اس پہ ایک گول دائرہ بنا ہوا تھا۔ اس میں دو نکتے اور ایک قوس موجود تھی اور اسکے اوپر چار لکیریں  نیچے ایک مستطیل اور اس مستظیل سے ملی ہوئیں دو مزید لکیریں تھیں۔ ویسے تو آپ ان ہدایات پہ خود بھی مصوری شروع کر سکتے ہیں۔ حسینوں سے ملاقات کے لئے کسی زمانے میں مصوری آزمودہ سمجھی جاتی رہی ہے۔ یہ اس زمانے کا کمال ہے کہ ہر ایرا غیرا بلا کوئ ہنر پیدا کئے کسی حسین سے ملنا چاہتا ہے۔ بہر حال، چھنو خالہ کا اس سے زیادہ خوبصورت پورٹریٹ کبھی کسی نے نہ بنایا تھا۔ کچھ سادہ بچے بڑے ہو کر بھی انسان بننے کا عمل اتنا ہی آسان سمجھتے ہیں۔
فرط خوشی سے چھنو خالہ کی باچھیں کھلی ہوئ تھیں۔  سالگرہ کے لئے مہمان آنا شروع ہو گئے تھے کہ چھنو خالہ کو خیال آیا کہ وہ سالگرہ کی سجاوٹ کے لئے ایک بڑا سا غبارہ لائیں تھیں جس  پہ خوبصورت رنگ ، نقش و نگارکے ساتھ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ غبارہ لا کر تقریب کے کمرے کے ایک کونے میں وزن کے ساتھ ٹکا دیا۔
غبارے کو دیکھتے ہی کمرے کی فضا تبدیل ہو گئ۔  بچوں میں ایک بھنبھناہٹ دوڑ گئ۔ یہ غبارہ کس کا ہے۔ دفعتاً ، ایک بچے نے اسکی ڈوری کو پکڑا اور جرائت رندانہ کا مظاہرہ کیا۔ یہ میرا ہے، دوسرے نے کہا یہ میرا تیسرے بچے نے اسے رستم کی بے خوفی سے اٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ جو بچے بھاگ سکتے تھے وہ اس بچے کے پیچھے بھاگے باقیوں نے رونا دھونا شروع کر دیا۔ وہ غبارہ مجھے چاہئیے۔
گھر والوں میں سے کچھ نے غبارہ دیکھتے ہی اس آنے والےلمحے کے متعلق جان لیا تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ خود چھنو خالہ پہ اس وقت کائینات کے کئ عظیم راز چشم زدن میں وا ہوئے۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت۔ ان بچوں میں اس غیر ارتقائ تبدیلی کو  پہلے اشاروں سے قابو کرنے کی کوشش کی گئ، پھر پیار سے کہ اپنا مارتا ہے تو بھی دھوپ مارتا ہے، پھر کچھ بچوں کو موقع سے اٹھا کر ٹائم آءوٹ کر دیا گیا آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ طبیعت الگ بےزار کہ ساری تقریب میں کبھی ایک کبھی دوسرے بچے کو چپ کراتے رہے۔  چھنو خالہ نے خود اس لمحے کو کوسا جب انہوں نے وہ غبارہ خریدا تھا۔ آخیر میں اس غبارے کو ایک الماری میں بند کر دیا گیا۔
مختلف کمروں سے والدین کی پھٹکاروں اور بچوں کے احتجاج کی آوازیں آرہی ہیں۔ غبارہ ایک الماری میں بند ہے۔ میں  بچا ہوا کیک اڑا رہی ہوں۔ اور سوچ رہی ہوں، سارا دن مل جل کر  گانا گانے والے اور زورو شور سے  سالگرہ منانے والے  بچوں کو کس بات نے مصیبت میں ڈال دیا۔

independence day
freedom celebrations
freedom movement
intelligent planning
designing future   

2 comments:

  1. اب اتنی اوکھی تحریر کون ڈی کوڈ کرتا پھرے۔
    بہرحال چھنو خالہ تک میرا مشورہ پہنچا دیجئے کہ وہ غبارہ ٹھاہ کردیں ، سب ٹھیک ہوجائے گا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ