Monday, August 22, 2011

آتشی شہرکے خاک خیالات

سوال یہ ہے کہ کراچی کی آگ کیسے بجھ سکتی ہے۔ میرے نزدیک اسکے چند حل ہیں جو اتنے آسان ہیں جتنا حلوے کا کھانا۔ اس نازک موقع پہ حلوے کی تاریخ میں جانا صحیح نہیں ہے۔ اس لئے آگے چلتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں آپ اخبار پڑھنا چھوڑ دیں اور ٹی وی کی خبروں اور ملکی حالات پہ آنے والے شوز سے اجتناب کریں۔ جب زندگی اتنی ہی بے وقعت ہے تو وقت گذارنے کے لئے کھانے کی تراکیب والے چینلز دیکھیں۔ کسی سیانے نے کہا ہے کہ کچھ نہ کھا کر مرنے سے کچھ کھا کر مرنا بہتر ہے۔ اگر اس صورت کا سامنا کرنا ہی پڑ رہا ہے تو لخت جگر کودوسرے جہاں بھیجنے سے پہلے جگر بھوننے کا طریقہ سیکھ لیجئیے۔
بیشترآگ تو اسی سے بجھ جائے گی۔
اگر ابھی بھی نظر آرہی ہے تو  یہ نظر کا فتور ہے۔ کسی ماہر امراض چشم سے رجوع کریں۔ لیکن ماہر امراض چشم سے ملنے کے لئے جانے سے پہلے اپنی تمام اہم چیزوں کے بارے میں وصیت لکھ دیں۔ اہم دستاویزات کے متعلق گھر والوں کو بتا دیں کہ کہاں رکھی ہیں۔ قرضداروں کے نام اور قرض کی مقدار کسی مناسب جگہ لکھ کر رکھ دیں۔ تاکہ آپکے بعد اسے کوئ وصول کر سکے۔
اگر آپ ایک بلاگر ہیں تو اپنا پاس ورڈ کسی قریبی عزیز کو بتا دیں تاکہ بعد ناگہانی اطلاع کے وہ آپکے متعلق اپ ڈیٹ دے سکے۔ گھورئیے نہیں، سو بار چمن اجڑا، سو بار بہار آئ، دنیا کی سڑی رونق تیری یاد نے بڑھائ، شاعر سے معذرت۔ 
اگر آپ اردو بلاگر ہیں تو اردو سیارہ پہ دعا کے لئے ایک پوسٹ لکھنا نہ بھولئیے گا۔ فیس بک پہ ایک اسٹیٹس کافی ہے۔ ٹوئٹر پہ ٹوئیٹ کرنے سے پرہیز کریں۔ مبادا جو کام گھر سے دس میل دور ہونا ہے وہ گلی کے نکڑ پہ ہو جائے۔
گھر والوں سے کہا سنا معاف کروا لیجئِے۔ اپنے اوپر آیۃ الکرسی کا دم کر لیجئے اور سارے راستے یا حفیظ دوہراتے رہیں۔ مایوسی کفرہے امید رکھیں کہ آپ اپنا چشمہ بنوا کر پہننے کے قابل ہو جائِں گے۔ جس سے آپکو کراچی کی بجھی ہوئ آگ نظر آئے گی۔
اگر آپ مذہبی رجحان رکھتے ہیں تو رمضان کا مقدس مہینہ ہے اعتکاف میں بیٹھ جائیے۔ ابھی تک یہ اطلاع نہیں آئ کہ کسی مسجد سے اغواء کی کوئ واردات ہوئ اور مغوی کسی بوری میں بغیر سر کے پایا گیا۔ اس سے کچھ بد گمانی پالنے والے یہ نہ سمجھیں کہ میں کراچی کے دہشت گردوں کو کوئ نیا خیال دے رہی ہوں۔  آپ مانیں یا نہ مانیں، کراچی میں بحران پیدا کرنے سے پہلے نامعلوم دہشت گرد ہر آئیڈئیے کو خوب اچھی طرح چھان پھٹک چکے ہیں۔ لیکن بے گناہ مرنے پہ آمادہ  افراد اس ساری چھان پھٹک سے ناواقف ہیں اس لئے دہشت گردوں کے ذہن رسا کو پانے تک انہیں اپنے طور پہ یہ ساری مشق کرنی پڑے گی تاکہ اگر مارے جائِں تو کسی گناہ کے عیوض۔
اگر آپ اخبار پڑھنے کی علت سے جان نہیں چھڑانا چاہتے کیونکہ اس میں حکیموں ، ضرورت رشتہ اور ٹیوشن کے اشتہارات بھی آتے ہیں یا آپ ٹی وی کے ٹاک شوز سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ اس سے آپکے ہمیشہ کم رہنے والے بلڈ پریشر کو خاصہ افاقہ رہتا ہے تو کراچی کی آگ بجھانے کے لئے روزانہ صبح اٹھ کر دس سرد آہیں بھرا کریں یہ سرد آہیں اگر اجتماع کی صورت بھری جائیں تو زیادہ بارآور ثابت ہونگیں۔آہ بھرتے وقت سب لوگ ایک قطار میں اس طرح بیٹھیں کہ آمنے سامنے نہ ہوں۔ منہ کو گول کھولیں اور اپنے جسم کی ساری ہوا باہر پھینک دیں۔ دس دفعہ اس طرح کرنے کے بعد ایک نعرہ بلند کریں خس کم جہاں پاک۔ اس طریقے پہ دس منٹ تک عمل کریں۔ عمل کے بعد خاموشی سے اپنے اپنے گھر کی راہ لیں۔
اگر آپ دس ایسے عام  افراد جمع کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو مختلف قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دئیے بغیر پانچ منٹ تک خاموش رہ سکتے ہوں تو امید ہے اسے کامیابی سے کر پائیں گے۔ ورنہ اس سے پہلے ہی آپکے گھر میں دھے پٹاس شروع ہو جائے گی۔ یہ آگ چاہے بجھے یا نہ بجھے، کچھ اور آتش اگلتے ڈریگون سامنے آجائیں گے۔ آپ اپنی زندگی میں ہی جہنم کے نظارے دیکھ لیں گے۔ اس سے ایمان تو مستحکم ہوتا ہے مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت ہمارا ممتح نظر کراچی کی آگ ہے جہنم کی نہیں تو اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیں عمل کے دوران خاموش رہنا بے حد ضروری ہے۔
اسکے علاوہ لسی کا جگ بنا کر ہمیشہ اپنے پاس رکھیں۔ ٹاک شوز کے درمیان اسکے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے رہیں۔ ایسے لسوڑے حالات پہ تبادلہ خیال سنتے ہوئے لسی ہی سکون دے سکتی ہے۔
اگر آپ کراچی میں رہتے ہوئے اپنی زندگی کے بارے میں فکرمند ہیں تو یہ جان تو اک دن جانی ہے، اس جاں کے زیاں کا افسوس ہی کیا۔ حق بحقدار رسید۔
اگر آپ کراچی آنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گذر کر جاتی ہے۔ کہہ کر اپنے اہل خانہ سے امام ضامن بندھوائیں۔ انسان کو ان حالات میں آنے والے خطرات کا مقابلہ کھلی آنکھوں اور  بند زبان سے کرنا چاہئیے۔ مسلسل زیر لب دعا کریں کہ آپکی باری آنے تک 'نامعلوم' قاتل کے بازو درد کرنے لگیں۔
یہ ' نا معلوم ' قاتل بھی فالتو وقت میں مسکراتے ہونگے کہ زمانے بھر میں رسوا ہوں مگر اے وائے نادانی لوگ کتنی معصومیت سے ہمیں نا معلوم کہہ دیتے ہیں۔ ہم سے اچھے تو اردو شعراء کے قاتل ہیں جنکے نام صرف انہیں نہیں ایک زمانے کو معلوم ہیں۔ اس موقع پہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر کراچی کے محکمہ ء پولیس کی دسترس میں شعراء کے قاتل آجائیں تو وہ بھی نامعلوم ہو جائیں گے۔ یہاں معلوم کرنے والی بات صرف ایک ہے اور وہ یہ کراچی پولیس کی لگامیں کسی کے پاس ہیں یا یہ بے لگام ہے۔
یہ تو کچھ اس خاکسار کے ذہن میں آنے والے خاک خیالات تھے۔ اگر آپ انہیں مذاق سمجھتے ہیں تو  یہ اندازہ لگانے میں کوئ تکلف نہیں کہ آپ ہمالیہ کے پہاڑوں سے کراچی پہ ایک نظر ڈال رہے ہیں۔ ذرا دھیان سے عالی جناب، شہر کراچی سطح سمندر سے صرف چوبیس فٹ بلند ہے۔ اور ہمالیہ سے ہزاروں فٹ نیچا ۔
اتنی بلندی سے جب آپ اس شہر کو دیکھتے ہیں تو سوائے حبیب بینک پلازہ  اور کنارے پہ ہلچل مچاتے سمندر کے اور کچھ نظر میں آتا نہیں۔ سڑک پہ چلتے انسان بیٹری سے چلتے کھلونے نظر آتے ہیں اور انکے گھر ماچس کی ڈبیاں۔
خوامخواہ دل چاہتا ہے کہ کھلونے توڑ کر دیکھیں کہ اسکے اندر کیا چیز اسے چلاتی ہے اور ماچس کی ڈبیاں ہلا کر معلوم کریں کہ اس میں تیلیاں ہیں یا خالی ہیں۔ یہاں تیلیوں سے میری وہی مراد ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ ایک شاعر نے اس خظرے سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آگ سے کھیلنا اچھا نہیں فراز،جل جائوگے تو پھر کس سے فریاد کروگے۔ یہاں فراز سے مراد ہر زید بکر ہے۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا آپ سب کو آیۃ الکرسی یاد ہے؟ اور اسکا ترجمہ؟ چلیں اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ بڑا وقت ہے یاد کر لیجیئے۔ کیونکہ اگلے الیکشنز تک کراچی کی آگ جواں ہے اور پیہم ہے۔     

9 comments:

  1. ہائیں ... یہ تو ایسا لگتا ہے کہ فرسٹ نیشن قبائل نے آپ کو کچھ ٹوٹکے بتائے ہیں۔

    ReplyDelete
  2. السلام اعلیکم
    ناز صاحبہ میں کراچی کے متعلق اس قدر مخولیہ تحریر پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ معاف کیجئے گا "مخولیہ" کا آئیڈیا میں نے آفتاب اقبال سے لیا ہے اور پتا نہیں اس کے معنی کی وسعت کہاں تک ہے۔ جہاں تک مجھے آپ کی تحاریر پڑھ کر احساس ہوا ہے وہ یہ ہے آپ ایم کیو ایمن ہیں۔ آپ نے ہی اسے مخولیہ انداز میں لیا ہے تو آپ کی پارٹی بھی شاید اسے اسی انداز میں لیتی ہوگی۔
    محترمہ میں بھی کراچی سے تعلق رکھتا ہوں کچھ حقیقتں مجھے بھی معلوم ہیں لیکن کراچی کے زخموں پر میں ایسی تحریر لکھ کر نمک نہیں چھڑک سکتا تھا یہ صرف آپ کا ہی جگرا ہے۔

    ReplyDelete
  3. عثمان صاحب قبائل نے نہیں بلکہ موصوفہ نے ہماری پوسٹ کی چھیڑ میں یہ پوسٹ لکھی ہے۔ ان کی نظر میں ان کے علاوہ باقی سب لوگ بیوقوف ہیں، تنگ نظر نہیں اور کراچی کے دشمن ہیں۔ چلیں کوئی بات نہیں ہم سارا معاملہ قارئین پر چھوڑتے ہیں وہی فیصلہ کریں گے۔

    ReplyDelete
  4. میرا پاکستان صاحب، یہ پہلی لائن ضرور آپکی پوست سے لی ہے۔ مگر اس سے آپ نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ درست نہیں۔ میں نے آپکو نہیں چھیرا۔ آپکی اس پوسٹ پہ میں اپنا تبصرہ سی وقت لکھ آئ تھی۔ اس تحریر کا آپکی پوسٹ سے تعلق نہیں۔ باقی رہے قارئین، تو ہم جانتے ہیں کہ کون کتنے اور کون سے پانیوں میں ہے۔
    مطلوب صاحب،ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے کراچی میں یہی کچھ دیکھا۔ یہاں وہ دن بھی گذرے ہیں جب اپنے جلے ہوئے گھروں سے نکل کر ہم لوگ اپنے تعلیمی اداروں کا جاتے رہے۔ صبح گھر سے نکلتے تھے اور واپس آتے تو پتہ چلتا تھا کہ ایک مخصوص علاقے میں اتنجی دیر میں کرفیو لگ چکا ہے اور اب ہم اپنے گھر واپس نہیں جا سکتے۔ کراچی کو مذاق بنا دینے والے کو افسوس نہیں ہوتا تو ہم کہاں تک افسوس کئے جائیں۔ ہمارے دل سخت ہو چکے ہیں انہی لوگوں کی طرح جو اس شہر کے لئے ہر کچھ عرصے بعد تازہ ستم ایجاد کرتے ہیں۔۔
    آپ کی یادداشت میں تازہ تازہ چیزیں جمع ہو رہی ہیں اس لئے آپکو یہ مخول برا لگ رہا ہے۔
    جس طرح آپ نے اندازہ لگایا ہے اسی ٹیکنیک کو استعمال کرتے ہوئے کیا مجھے یہ اندازہ لگانے کی اجازت ہے کہ آپ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اتنے جانبدار تبصرے عموماً وہیں کے لوگوں کی طرف سے آتے ہیں۔

    ReplyDelete
  5. عثمان، یہ تو ہم نے جان لیا کہ پاکستان میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کا فرسٹ نیشنز سے کوئ تعلق ضرور ہے۔ پھر انکے ٹوٹکے ازمانے میں کیا حرج ہے مبادا وہی کام کر جائیں۔
    کیا آپ اس نکتے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ سب سے زیادہ پریشانی انہیں ہوتی ہے جو حالات حاضرہ کی فکر میں رہتے ہیں۔

    ReplyDelete
  6. اوپر کی ساری پوسٹس میں سے لکھنے والوں کے نام پڑھے بغیر تمام تحاریر پڑھی جائیں تو صاف لگتا ہےکہ پہلا مضموں کسی ملک دشمن عنصر نے لکھا ھے جسے اپنے منصوبے کی کامیابی پر نھایت خوشی ہو
    تیسر ی پوسٹس کسی دردمند دل رکھنے والے قاری کی لگتی ہے اور پانچوی پوسٹ میں اپنی ڈھٹائی پہ شرمندہ ہونے کے بجائے اس کا دفاع کیا جارہا ہے۔

    ہائے افسوس میں بھی کراچی سے ہوں

    ReplyDelete
  7. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  8. This post has been removed by the author.

    او خیر ۔
    خلفشار بڑھ تو نہیں رہا۔
    :)

    ReplyDelete
  9. کاشف نظامی ساحب، خلفشار ؟ آپ نے دو تبصرے ایک ساتھ کر دئیے تھے۔ یہاں پوسٹ کرنے کے بعد خیال آیا کہ یہ اس تبصرے کا جواب نہیں۔ بس اتنی سی بات ہے۔ اسے مصروفیت کہتے ہیں خلفشار نہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ