کینیڈا میں ایکدن مجھے ای میل ملی کہ رمضان کا مہینہ ہے مجھے یہاں کمیونٹی افطار میں شریک ہونے کا تجربہ کرنا چاہئیے۔ اس سلسلے میں دو نام دئیے گئے ایک اثناء اور دوسرا روائیتی مساجد میں ہونے والے افطار کے اجتماعات۔
حسب عادت ادھر ادھر سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایک خاندان ابھی تین چار دن پہلے ہی اثناء کے کمیونٹی افطار میں شرکت کر کے آرہا تھا اور انتہائ نالاں تھا۔
اثناء یہاں کینیڈا میں مسلمان کمیونٹی کا ایک ادارہ ہے جس نے اپنے اوپر کچھ ذمہ داریاں لی ہوئ ہیں جو آپ انکی ویب سائیٹ پہ دیکھ سکتے ہیں۔ انکی شاخیں مختلف جگہوں پہ قائم ہیں۔ یہ اپنے انداز میں لبرل سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اثناء کی طرف سے اسلامی کیلینڈر جاری کیا جاتا ہے۔ جس میں چاند کا حساب جدید سائینسی طریقوں پہ کیا جاتا ہے۔ اور پہلے سے اسکی تاریخ مشتہر کر دی جاتی ہے یعنی شعبان کے مہینے میں معلوم تھا کہ رمضان کس دن شروع ہونگے۔ افسوس یہاں پشاور کی قاسمی مسجد اور اسکے مولانا صاحبان موجود نہیں۔ ورنہ چاند ہمیشہ ایکدن پہلے ہوتا۔
ہاں تو، انکے نالاں ہونے کی بھی وجوہات تھیں۔ اول انہوں نے کہا کہ وہاں کھانے کے وقت انتہائ افراتفری تھی۔ پاکستانی خواتین سب کی سب اسکارف پہنے ہوئے تھیں۔ اور سب کو نماز سے زیادہ افطار اور کھانے کی چیزوں کی فکر تھی۔ آپکو معلوم ہے یہ سب لوگ یہاں برسوں سے رہ رہے ہیں لیکن کھانے پہ جس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں وہ قابل شرمندگی ہوتا ہے۔ کیا پاکستانی ہونا جینز میں چلتا ہے؟ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔
دوسرا اہم شکوہ یہ تھا کہ اثناء کو مسلمانوں کی طرف سے چندے کی مد میں ایک ایک شخص ہزاروں لاکھوں ڈالر دیتا ہے اس حساب سے انکے انتظامات انتہائ بے کار تھے۔ آخر یہ لوگ اتنے پیسوں کا کیا کرتے ہیں۔ اگر انہیں افطار کرانے کا طریقہ سیکھنا ہے تو جا کر کراچی کی سڑکوں کو افطار کے وقت دیکھیں کہ لوگ کتنی فیاضی سے اور قرینے سے سڑک کے کنارے دسترخوان سجائے ہوتے ہیں۔ انکی اس بات پہ مجھے رمضان میں سڑک کنارے عوامی افطار یاد آگئے جو اب کراچی کا ایک ثقافتی نشان بنتے جا رہے ہیں۔
اس مقام سے ایک اہم موضوع نے جنم لیا۔ وہ ہیں مساجد اور مدارس کو چندے کی مد میں حاصل ہونے والی خطیر رقومات اور انکا استعمال ہیں۔
ادھر پاکستان میں ہوش سنبھالنے سے اکثر مساجد کو تعمیر ہوتے دیکھتے آرہے ہیں وہ اب تک تعمیر ہو رہی ہیں اور اب تک چندہ چل رہا ہے۔ اکثر مساجد میں چندے کا بکس ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ یہاں کینیڈا میں بھی مساجد میں اور دیگر مذہبی اداروں میں خطیر رقم چندے کے طور پہ جمع کی جاتی ہے۔ لیکن ان تمام اداروں سے یہ حساب کتاب کون رکھتا ہے کہ وہ اس رقم کا کیا کرتے ہیں۔
اچھا، حساب کتاب رکھنا تو ایک موضوع ہے دوسرا موضوع یہ ہے کہ جو لوگ ہزاروں لاکھوں ڈالر ان مدارس اور مساجد کو دیتے ہیں وہ آخر پاکستان میں دیگر شعبوں کے اوپر کیوں خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ سمجھ میں آتا ہے یہ سارا ثواب کا پروپیگینڈہ ہے۔ آج اگر کوئ مولانا صاحب حساب کتاب لگا کر بتا دیں کہ ایک شخص کو مستقل روزگار کا ذریعہ مہیا کرنا مسجد یا مدرسے کو چندہ دینے سے زیادہ ثواب رکھتا ہے تو لوگوں کا رجحان اس طرف ہو جائے گا۔ ان لوگوں سے ہٹ کر جو جانتے ہیں ثواب طاعت و زہد ، پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔
وطن عزیز میں تو ہم لوگوں کی جہالت کو روتے ہیں۔ ان ترقی یافتہ ممالک کو ہجرت کر جانے والے لوگوں کی کثیر تعداد اعلی تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ لیکن جب صدقے زکوات اور دیگر پیسوں کو خرچ کرنے کی بات آتی ہے تو معذرت کے ساتھ یہ لوگ بھی کسی ویژن یا دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
آج کے پاکستان میں ایک عام شخص کو مساجد یا دینی مدارس کی زیادہ ضرورت ہے یا ہسپتال اور اسکولوں کی، بنیادی ہنر سکھانے والے اداروں کی یا حفظان صحت سکھانے والی مہموں کی یا روائیتی روزگار کے طریقوں سے ہٹ کر نئے روزگار کے ذرائع پیدا کرنے کی۔
غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ذرا اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئیے۔ آپ چند لوگ مل کر پاکستان میں ایسے اداروں کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جہاں آپ کے پیسے زیادہ بہترین طریقے سے انسانیت کے کام آ سکتے ہیں۔ کسی نے سینکڑوں سال پہلے کہا تھا کہ پل بنا ، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا۔ آپ لکیر کے فقیر بننے کے بجائے کچھ الگ راستے بنا سکتے ہیں۔ زمانہ آگے نکل آیا ہے۔ ضروریات مختلف ہو گئ ہیں۔ ثواب کمانے میں بھی اگر جدت طرازی آجائے، تخلیق کاری ہو جائے، تو کیا مضائقہ ہے۔ آخر بیرون ملک رہنے سے آپ کو جو ایکسپوژر حاصل ہوتا ہے اسے آپ اپنے پیسے کے ساتھ جوڑ کر کیوں نہیں اس ملک کو دیتے۔
ISNA
ramazan
muslim community
canada
community iftar
Where ISNA money goes;
ReplyDeleteDevout Muslims donated hundreds of thousands of dollars to one of Canada’s largest Islamic organizations on the promise that the cash would be used to help the poor.
But only one in four dollars donated to a special pool of money at the Islamic Society of North America Canada (ISNA Canada) actually reached the needy.
Mismanagement of more than $600,000 is among the findings in a scathing audit obtained by the Star.
http://www.thestar.com/news/article/924865--muslim-charity-squandered-money-for-poor
Peace Village – Canada
ReplyDeletehttp://www.youtube.com/watch?v=UD9o7kfOkqU
انتظامیہ ان رقومات کا کیا کرتی ہے وہ تو ٹورانٹو سٹار کے اُس آرٹیکل سے واضح ہے جس کا لنک گمنام نے دیا ہے۔ باقی یہ جو آپ نے بیرون ملک پاکستانیوں کے "ایکسپوژر" کی بات کی ہے تو وہ بھی دو سال اس بلاگستان میں رہنے کے بعد آپ پر اب تک واضح ہوجانا چاہیے۔
ReplyDelete:)
نیز پاکستان میں جن منصوبوں میں رقوم لگانے کی بات ہے تو بھلا بتائیے کیا گارنٹی ہے کہ ان منصوبوں کا وہی حشر نہیں ہوگا جو مذہبی منصوبوں کا ہوتا ہے ؟ پھر خیرات کی رقومات پچھلے وطن بھجوانا ضروری نہیں یہاں بھی بہت سے منصوبے مثلا ریڈ کراس اور سِک کڈز وغیرہ کام کرتے ہیں.. اُن کو بھی دیا جا سکتا ہے۔
خیر انسانی رویے اتنی جلدی تبدیل نہیں ہوتے اس میں بہت وقت لگتا ہے۔ بنیادی نقاط آپ کے بہرحال ٹھیک ہیں۔
محترمہ ۔ بلاشُبہ ہمارے ہموطنوں کی بھاری اکثريت [آپ سميت] صرف دوسروں کے فرائض اور اپنے حقوق سمجھتی ہے ۔ دوسروں ميں کيڑے نکالنا اس دنيا کا آسان ترين کام ہے ۔ کبھی يہ بھی بتايئے کہ آپ نے فلاحِ انسانيت کيلئے کيڑے چُننے کے علاوہ کيا کام کيا ہے ؟
ReplyDeleteاگر آپ کا فرض صرف کيڑے چُننا نہ ہوتا تو پاکستانيوں اور مسلمانوں کو مغربِ بعيد اور مشرقِ بعيد ميں ڈھونڈنے کی بجائے پاکستان ميں ان کی پڑتال کرتيں ۔ آپ کے علم کی خاطر لکھ ديتا ہوں[گو آپ نے اس ميں بھی کيڑے ڈھونڈ لينا ہيں] کہ انہی پاکستانيوں ميں ايسے لوگ بھی ہيں جو اپنے لاکھوں روپے غرباء کی تعليم و تربيت اور مريضوں کے علاج و خوراک پر بطور صدقہ خرچ کرتے ہيں جہاں اصولی طور پر حکومتِ وقت کو خرچ کرنا چاہيئے مگر نہيں کرتی ۔
آپ تعصب بھرے خوابوں کی دنيا سے جس قدر جلد نکل آئيں آپ کيلئے اتنا ہی بہتر ہو گا
افتخار اجمل صاحب، میں تو یہاں یہ دیکھ رہی ہوں کہ آپ لوگ مشرق میں بیٹھ کر مغرب میں جو کیڑے نکالتے ہیں اور اپنی حالت نہیں دیکھتے وہ آخر کیا کرتے ہیں۔
ReplyDeleteمیں نے تو آج تک اپنے کسی حق مکی بات نہیں کی۔ میں اپنے سے کمتر لوگوں کی بات کرتی ہوں۔ جن سے شاید آپ ناواقف ہیں۔ میں انکی فلاح چاہتی ہوں جبھی تو بنیادی ، بوسیدہ نظریات میں تبدیلی چاہتی ہوں۔
یہ تمام الفاظ جو آپ نے لکھے ہیں یہ آپ بھی بعینہ پورے اترتے ہیں اپنی نوکری کے فرائض کے علاوہ آپ نے کیا کیا۔
انہی تبصروں میں دو گمنام تبصرے ہیں ان میں اسے ایک کینیڈا میں احمدیوں کی سرگرمیوں کے متعلق ہے۔ وہ بھی چندہ اکٹھا کرتے ہیں ۔ اب اگر آپ غور کریں تو دیکھیں گے دو مختلف فرقوں کے لوگ ان چندوں کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ ایک مضبوطی حاصل کر رہا ہے اور دوسرا بد نامی۔
لیکن یہ بات آپ جیسے غیر متعصب شخص سمجھنے سے قاصر ہیں۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے گناہ دھونے کے لئے یہاں کی مدارس یا مساجد کو چندہ ہی نہیں بھیجتے بلکہ چونکہ وہاں سخت قوانین کی وجہ سے وہ اپنے دل بھڑاس نہیں نکال سکتے تو اپنے خیالات کو پاکستان میں بھر دیتے ہیں جن سے یہاں شدت پسند مذہبی جذبات کو شہہ ملتی ہے۔ وہ پاکستان کو ڈسٹ بن کے طور پہ استعمال کتے ہیں۔ یوں خود تو پہلی دنیا کی سہولتیں حاصل کرتے ہیں، اپنے صدقوں کا احسان بھی اس قوم پہ رکھتے ہیں اور مذہبی لعن طعن بھی ہمارے اوپر کرتے ہیں۔
کیا یہ سب باتیں میں تعصب میں کہہ رہی ہوں یا آپ اپنے تعصب میں کچھ دیکھنے اور سمجھنے کو تیار نہیں۔
ذرا تو غور کریں پاکستان میں شدت پسندی اس وقت سے بڑھنی شروع ہوئ جب سے مغربی ممالک نے تھوک کے حساب سے پاکستانیوں کو اپنی شہریت دی۔
خیر، اپنی باتوں پہ غور کرتے رہنے سے آپکو فرصت ملے تو دوسرتے کی بات پہ غور کریں۔ اسی کو نرگسیت کہتے ہیں۔
آپ نے "ISNA" کو اردو میں "اثناء" لکھا ہے۔ کیا یہ آفیشل ٹرانسلٹریشن ہے؟
ReplyDelete(آف ٹاپک تبصرے کے لیے پیشگی معذرت۔ :) )
سعادت صاحب، جی نہیں یہ آفیشل ٹرانسلیشن نہیں ہے۔ چونکہ اردو میں لکھ رہ تھی اس لئے ایک ایسا لفظ اٹھآ لیا جو جان پہچان رکھتا ہے۔
ReplyDeleteاگر کسی کو اس کا آفیشل ترجمہ معلوم ہے تو مطلع کرے ، مجھے ملا نہیں۔
ویسے یہ بھی تحریر سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ مجھے خود بھی تجسس ہے کہ اسے اردو میں کیسے لکھا جاتا ہے۔
:)
آپ نے لکھا ہے " میں نے تو آج تک اپنے کسی حق مکی بات نہیں کی۔ میں اپنے سے کمتر لوگوں کی بات کرتی ہوں۔ جن سے شاید آپ ناواقف ہیں۔ میں انکی فلاح چاہتی ہوں جبھی تو بنیادی ، بوسیدہ نظریات میں تبدیلی چاہتی ہوں"
ReplyDeleteانسان وہ ہے جو کسی کو اپنے سے کمتر نہ سمجھے ۔ چنانچہ آپ خود لکھ کر پھنس گئی ہيں ۔ اللہ کی دی ہوئی توفيق کا نتيجہ ہے کہ ميں يا ميرے بيوی بچے کسی کو اپنے سے کمتر نہيں سمجھتے اور نہ ميرے والدين سمجھتے تھے ۔ ہاں ۔ دوسروں کی خدمت اور ان سے بہتری ميں تعاون انسان کو اپنا فرض سمجھنا چاہيئے
آپ جن کمتر لوگوں کی بات کر رہی ہيں اُن کيلئے دوسروں کی تنقيد يا ہِجو کرنے يا دين اور ديندار پر طنز کرنے کے سوا اور کيا کرتی ہيں ؟ کتنے فلاحی مرکز آپ چلا رہی ہيں يا ان ميں آپ تعاون کر رہی ہيں ؟ ہميں تفاصيل بتا ديجئے تاکہ ہم بھی اس کارِ خير ميں حصہ لے سکيں
آپ ہميں بتا رہی ہيں کہ ہم مشرق ميں بيٹھ کر مغرب ميں کيڑے نکالتے ہيں ۔ آپ دو چار دن کی سير مغرب کی کر آتی ہے اور تمام مسلمانوں اور ہموطنو کے بخيئے ادھيڑنے شروع کر دتی ہيں ۔ کبھی آپ نے اپنے کردار پر غور کيا ہے ؟ آپ جو انٹ شنٹ لکھتی رہتی ہيں کبھی آپ نے سوچا کہ اس ميں سوائے بُغز و طنز کے کچھ نہيں ہوتا ۔ کيا آپ جانتی ہيں کہ آپ کسی ديرپا محرومی کے نتيجہ ميں شديد احساسِ کمتری کا شکار ہو چکی ہيں جسے آپ احساسِ برتری سمجھتی ہيں ؟
آپ کی عقل پر اتنے زيادہ اور دبيز پردے چڑھے ہيں کہ آپ کو ٹھوس زمينی حقائق بھی نظر نہيں آتے ۔ آپ مجھ سے مخاطب ہو کر يہ سب کچھ لکھ رہی ہين ۔ کيا آپ جانتی ہين کہ ميری زندگی کيسے اور کن ممالک ميں گذری ؟ اور ميرے عزيز و اقارب کن ممالک ميں رہتے ہيں اور کيا کرتے ہيں ؟
آپ کی جذباتی کيفيت کا يہ حال ہے کہ آپ کے متعدد تبصرے جس موضوع پر ہوتے ہيں وہ اس تحرير ميں موجود نہيں ہوتا جس پر آپ تبصرہ کر رہی ہوتی ہيں
اس بڑھ کر آپ کيا اپنا حق سمجھيں گی کہ جو آپ کی اُوٹ پٹانگ سے متفق نہ ہو آپ اُسے جاہل يا انہاء پسند قرار دے ديتی ہيں
آپ نے مجھ سے پوچھا ہے "اپنی نوکری کے فرائض کے علاوہ آپ نے کیا کیا"
اس سوال نے واضح کر ديا ہے کہ آپ ماضی ميں ميری جن تحارير پر تبصرے کرتی رہی ہيں اُنہيں يا تو آپ نے سرے سے پڑھا ہی نہيں يا پھر آپ کی باريک عقل ميں موٹی موٹی باتيں نہيں گھُس سکتيں ۔ 2005ء کے زلزلہ کے بعد اور پچھلے سال کے سيلاب کے بعد کچھ قارئين کے اسرار پر ميں نے ہلکی سی جھلک دکھائی تھی ۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہين وہ اپنی عاقبت کيلئے کرتے ہيں اور خاموش رہ کر زيادہ ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہيں ليکن آپ کا براہِ راست سوال پا کر تھوڑی سی جھلک آپ کو دکھا رہا ہوں ۔ ہم اللہ کے فضل سے 4 بھائی اور 4 بہنيں ہيں ۔ 2 بھائيوں اور ايک بہن کے بچے ابھی کماتے نہيں ہيں يا حال ہی ميں ملازمت شروع کی ہے ۔ ہم پچھلے 25 سال کے دوران کئی يتيم بچيوں کی شادی کا خرچ اُٹھا چکے ہيں ۔ درجنوں بيواؤں کی مدد ماہانہ بنياد پرکرتے آ رہے ہيں ۔ سو دو سو روپے سے نہيں ۔ ہر بيوہ کو کھانے پينے اور بچوں کی تعليم کا پورا خرچ ديا جاتا ہے ۔ ان ميں سے کئی کی بچيوں کی شاديوں کا خرچ بھی اُٹھايا ۔ ان کا تعلق 3 صوبوں پنجاب ۔ سندھ اور خيبر پختونخوا سے ہے ۔ ايک بيوہ کراچی کی رہنے والی ہيں جن کی مدد 20 سال سے کرتے آ رہے ہيں اور ان کی 2 بيٹيوں کی کراچی ہی ميں شادی کا خرچ 2010ء ميں ادا کیا ۔ 18 سال سے ايک ميڈيکل کلنک راولپنڈی شہر ميں مساکين بالخصوص عورتوں کيلئے چلا رہے ہيں ۔ علاج اور دوائياں بلامعاوضہ ہيں ۔ اس ميں 2 ليڈی ڈاکٹر ہم نے ملازم رکھی ہيں جو 2 شِفٹوں ميں مريض ديکھتی ہيں ۔ ميرا سب سے چھوٹا بھائی جو راولپنڈی ميڈيکل کالج ميں پروفيسر آف سرجری ہے وہ ہفتہ ميں ايک دن وہاں بيٹھتا ہے اور مستحق مريضوں کے آپريشن ہسپتال ميں داخل کر کے بلامعاوضہ کرتا ہے ۔ ايک عمارت راولپنڈی شہر ميں اور ايک سيٹيلائيٹ ٹاؤن مين لڑکيوں کی تعليم و تربيت کيلئے وقف کی ہوئی ہيں جن ميں ايک کے بجلی پانی وغيرہ کے بِل ايک فلاحی ادارہ ديتا ہے اور ايک کا سب خرچ ہم لوگ ہی پورا کرتے ہيں ۔ کچھ يتيم اور نادار بچوں کی تعليم کا خرچ بھی ديتے ہيں ۔ ان ميں سکول کالج اور پروفيشنل کالج کے طلباء شامل ہيں ۔ يہ ايک مختصرخاکہ ہے ۔ يقين نہيں ہے کہ آپ باور کر ليں گی بلکہ ہو سکتا ہے آپ کو اس ميں بھی کيڑے نظر آ جائيں ۔ ويسے مجھے تو کيڑے لکھنے سے قبل ہی نظر آ گئے تھے کيونکہ ميرے خيال ميں ظاہر کر کے ميں نے اپنے ثواب ميں کمی کر دی ہے
اِن شاء اللہ آئندہ آپ کے بلاگ پر تبصرہ سے احتراز کروں گا اُس وقت تک جب تک آپ کا بُغز اور تعضب آپ کو چھوڑ نہيں ديتا
آپ باتيں ضرورت سے زيادہ کرتی ہين اور کام نہ ہونے کے برابر
ميری دعا ہے کہ اللہ آپ کو جاہليت کے غار سے نکال کر حقيقی روشني سے روشناس کرائے اور چل پھر کر وطنِ عزيز کے زمينی حقائق کا مطالعہ بعغير تعصب کرنے کی توفيق عطا فرمائے
آمین
Deleteافتخار اجمل صاحب، آپ جب بھی میرے بلاگ پہ تبصرہ کرتے ہیں وہ عموماً اسی نوعیت کا ہوتا ہے چاہے تحریر کسی بھی چیز کے متعلق ہے۔
ReplyDeleteاگر مجھے اپنے گھر کے نل سے حاصل پانی ابال کر پینے کی سہولت حاصل ہے اور ایک دوسرے شخص کو وہی پینے کا پانی حاصل کرنے کے لئے میلوں کا سفر کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی جو پانی حاصلم ہوتا ہے وہ صحیح نہیں ہوتا اور نہ وہ اسے بابل سکتا ہے تو یہ چیز اسے مجھ سے کمتر بنا رہی ہے اس میں میری کوئ خوبی نہیں بلکہ نظام کی خامی ہے۔ لیکن آپ جیسے لوگ محض اعتراض برائے اعتراض کرنے کے لئے اصل بات کو سمجھتے ہوئے بھی اسے سامنے لانے سے گریز کرتے ہیں یہ بد دیانتی اور جھوٹ ہے۔ اب آپکے الفاظ دوہراتی ہوں، میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ رب العزت نے ایک دفعہ پھر یہ سعادت دی کہ آپ کی بد نیتی کو واضح کروں اور یہ بتاءووں کہ آپ جیسے مسلمانوں سے کیوں بے زاری ہوتی ہے۔
قبلہ آپ اپنی شندگی میں کی جانے والی ہر نیکی کو ماشاءاللہ اتنی تفصیل سے اور اتنی خودپسندی کے ساتھ ایک دفعہ نہیں بار بار بیان کر چکے ہیں کہ معلوم نہیں کہ اسکا کوئ اجر اب خدا کے پاس باقی بھی ہے یا نہیں کیونکہ حدیث تو یہ ہے کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے کو خبر نہ ہو۔
یہ بات بھی آپ کئ دفعہ جتا چکے ہیں کہ آپ غیر ممالک میں کتنا ہی عرصہ گذار چکے ہیں۔ آپ نے کولہو کے بیل کو دیکھا ہے وہ آنکھ پہ پٹی باندھ کر ایک ہی کولہو پہ زندگی گذار دیتا یے کچھ دیکھ نہیں پاتا۔
اکثر لوگ اسی طرح سفر کرتے ہیں۔
میری شخصی خامیوں کے تذکروں نے آپکو کچھ بھی سوچنے اور سمجھنے سے محرونم کر رکھا ہے۔
میری تحاریر میں انٹ شنٹ باتیں ہوتی ہیں اور آپکی تحاریر میں اعلی افکار۔ درست فرما رہے ہونگے۔ مگر یہ اعلی افکار آپکے اندر اعلی خصائل کیوں نہیں پیدا کر پاتے۔ آپ ہی نہیں بلکہ آپکے جتنے مداحین ہیںبن وہ اس سے محروم ہیں۔ آپ اگر صرف انکو ہی درست کر پاتے تو بڑی بات تھی معاشرے کے لئے سود مند کام تو دور کی بات ہے۔
اگرچہ کہ گیا وقت ہاتھ آتان نہیں مگر پھتر بھی آپ چاہیں تو آج سے صرف اس ایک پروجیکٹ پہ کام شروع کر دیں۔ آپ اگر ایسے تبصرے نہیں کریں گے تو اچھی بات ہوگی۔ کم از کم دیگر قارئین کچھ اور کام کی باتوں پہ فوکس کر پائیں گے۔
اللہ بھلا کرے
ReplyDeleteجی ہاں افتخار اجمل صاحب، اللہ بھلا کرے ہم سب کا، آپ کا بھی اور آپکے مقلدین کا بھی۔ اب صرف اللہ کے بھلا کرنے کے ہی ضرورت رہتی ہے۔
ReplyDeleteجو آپ نے ان بابا جی کے بارے میں لکھا ہے وہ تو حق ہے ہی،اس کے علاوہ ان بابا جی کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کو شہروں صوبوں اور زبانوں میں تقسیم کرتے کرتے اصلی اور نقلی مہاجر میں تقسیم کرنے پر اتر آئے،
ReplyDeleteبقول با باجی جو 1952 سے پہلے آئے وہ اصلی مہاجر(کیونکہ وہ خود ان میں شامل ہیں) اورجو 1952 کے بعد آئے وہ نقلی مہاجر،مطلب پرست اور لوٹا ماری و قبضہ کرنے والے ٹہرے،
مگر ان کی اپنی بیگم کے حوالے سے ایک پوسٹ میں فرماتے ہیں،
وہ 4 اگست کو مصر کے شہر قاہرہ میں پیدا ہوئی ۔ اُس کے والد صاحب کے آباؤ اجداد جس علاقہ میں رہتے تھے وہ 6 سال قبل پاکستان بن چکا تھا ۔ اُن کے دل میں پاکستان کی محبت نے زور کيا اور وہ سب کچھ چھوڑ کر 1953ء ميں پاکستان آ گئے
جس پرمیں نے لکھا کہ یوں کہیئے کہ آپکی بیگم اور آپکی سسرال والے بھی جعلی مہاجر ہیں!
اورکیا یہ پاکستان کی محبت صرف ان ہی کےدل میں زور کرسکتی تھی،باقی بعد میں آنے والوں کے نہیں؟؟؟
آپکے رشتہ داروں کے علاوہ باقی جو بعد میں آئے ان کی محبت کو جناب محبت نہیں خود غرضی اور مطلب پرستی کہہ کہہ کر انہیں سنگسار کرتے رہتے ہیں!!!
چونکہ سچ تھا اس لیئے ہمیشہ کی طرح انہیں ہضم نہیں ہوا اور وہ جواب دینے کے بجائے میرا تبصرہ ہی ہضم کر گئے!!!
:-P :-D
پھر یہ تبصرہ میں نے ان کے شاگردان میں سے ایک جسے انٹ شنٹ لکھنے کی بہت پرانی اور لا علاج بیماری ہے کی انٹ شنٹ پوسٹ پر یہ کہتے ہوئے لکھا کہ ہر بندہ اپنی اوقات کے مطابق ہی بات کرتا ہے،
اور ہمیں تم سے کسی اچھی بات کی کبھی کوئی توقع نہیں رہی!!!
:)
اور یہ بزرگوار جن کی محبت میں گمنام عرف عبدالرحمان دیوانا ہوا جارہاہے،
ان کی اصل یہ ہے!!!
اس پر تپ کرمیرا تبصرہ یہ لکھتے ہوئے ڈلیٹ کردیا،کہ یہ گند ہے اوریہ اس کی پوسٹ کے مطابق نہیں،
یہ بات تو خیر اس نے حق کہی ہے کہ جس پائے کا گند وہ اور اس کے ہم ذہن کرتے ہیں اس گند کا مقابلہ تو میں واقعی کر بھی نہیں سکتا ہوں!!!!
:)
Abdullah
کراچی میں تو پتہ ہی نہیں چلتا
ReplyDeleteچندہ کونسا ہے اور بھتہ کونسا