ڈرائینگ روم کا بنیادی مقصد تو کسی زمانے میں گھر کے اندر ایک گوشے کی فراہمی تھا۔ جہاں
بیٹھکر آپ گھر والوں کی بیجا مداخلت سے ہٹ کر گفتگو کر سکیں۔ یہ حصہ ہمہ وقت صاف ہو۔
اس سے کسی افراتفری کا احساس بھی نہیں ہو۔ اور یہ آپکے حسن ذوق کا آئینہ دار بھی
بن جائے۔
گردش دوراں نے اسےکسی کی سماجی حیثیت کا آئینہ دار بنا دیا۔ اور ایسے ڈرائنگ روم وجود میں آگئے جہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری۔ اس لئیے کہ نظر اٹھتے ہی ایسے نظاروں میں کھو جاتی ہے جو اپنے ساتھ احساس محرومی، احساس کمتری، احساس کمزوری، احساس دوری، احساس مجبوری اور اس جیسے بہت سے دوسرے احساسوں کو لیکر پلٹتی ہے اور جاکر دماغ کے پردہ ء چشم پہ جیسا کہ انسانی حواس کا قدرتی فعل ہے کوئ احساس بصیرت پیدا کرنے کے بجائے سیدھا حس گفتگو پر حملہ کر کے اسے گنگ کر دیتی ہے۔جب گفتار کے کس نکل جائیں تو بکواس کے بل پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسے بل تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کے لئیےتیشے کا کام انجام دیتے ہیں۔اور ان سےکوہ ستوں کے پہاڑوں سے جوئے شیر نہیں بلکہ دلوں سے جوئے لہو جاری ہو جاتی ہے۔ یہ کبھی کبھی آنکھوں سے آنسءووں کی صورت رواں ہوجاتی ہے۔ اور کبھی نالہ بن کے گھر کے درو دیوار پہ بال پھیلا کر پڑ جاتی ہیں۔
اپنے گھروں میں ایک سیدھا سادہ سا گوشہ ضرور رکھیں۔ جہاں آنیوالاپاءووں پسارے یا آلتی پالتی مارے تعلقات کی دھونی جمائے بیٹھا رہے۔ اسکے اسطرح بیٹھے رہنے سے گھروں کی بنیادوں میں جڑیں نکل آتی ہیں جو اس گھر کو گرنے نہیں دیتیں۔